پی ایس ایل مقابلے

پاکستانی قوم آج کل کرکٹ کے بخار میں مبتلا ہے، جسے پاکستان سپر لیگ یا پی ایس ایل کا نام دیا گیا ہے۔ پی ایس ایل کا یہ تیسرا سال ہے۔ پہلے سال اس کے تمام مقابلے متحدہ عرب امارات میں کرائے گئے، جب کہ دوسرے برس ابتدائی تمام مقابلے دبئی اور شارجہ میں کروانے کے بعد فائنل قذافی اسٹیڈیم لاہور میں کھلایا گیا جس میں پاکستانی شائقین نے بھرپور دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ شائقین کی یہی دلچسپی ہے جس نے تیسرے سال منتظمین کو آخری تین مقابلے پاکستان میں کروانے پر آمادہ کیا۔ پہلے دو مقابلے 20 اور 21 مارچ کو قذافی اسٹیڈیم لاہور ہی میں ہوئے اور مبصرینِ کرکٹ کے مطابق ان مقابلوں میں اہلِ پاکستان نے زبردست جوش و خروش اور دلچسپی دکھا کر پی ایس ایل کے تیسرے سال کے مقابلوں میں جان ڈال دی ہے، ورنہ اس سے قبل اس لیگ کے جو مقابلے شارجہ اور دبئی میں ہوئے وہ شائقین کی توجہ کھینچنے اور انہیں اسٹیڈیم تک لانے میں کچھ زیادہ کامیاب نہیں ہوسکے۔ اس عدم دلچسپی اور شائقین کے شارجہ اور دبئی کے مقابلے اسٹیڈیم میں آکر نہ دیکھنے کے اسباب پر بحث اس وقت متعلقہ حلقوں میں جاری ہے۔ نمایاں وجوہ میں ان دنوں کرکٹ کی زیادتی، پُرکشش کھلاڑیوں کی پی ایس ایل میں عدم شرکت، غیر مؤثر تشہیری مہم اور پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے مناسب حکمت عملی اور ضروری اقدامات کی کمی اور فقدان وغیرہ کا ذکر کیا جا رہا ہے، ان وجوہ کا سراغ اور تجزیہ بہت اہم اور ضروری ہے تاکہ آئندہ برسوں میں اگر ہمیں پاکستان سپر لیگ کے اس سلسلے کو جاری رکھنا ہے، تو اس سال کے تجربات سے سبق حاصل کرتے ہوئے آئندہ بہتر انتظامات اور اقدامات پر توجہ دی جا سکے۔ تاہم اس وقت یہ ہمارا موضوع نہیں، یہ جن کا کام ہے وہ جانیں، اور وہ یقینا اس میں کسی کوتاہی کا ارتکاب نہیں کریں گے۔
ہمیں اس وقت لاہور میں سجائے گئے پی ایس ایل پلے آف ایلی منیٹر میلے کا ذکر کرنا ہے۔ یعنی جو ان مقابلوں میں ہارا وہ مقابلے سے خارج ہوگیا۔ پاکستان میں سپر لیگ کے ان مقابلوں کے کامیاب انعقاد سے ہمارا ازلی دشمن ہمسایہ کس قدر پریشان ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ان مقابلوں کے پُرامن اور بخیر و خوبی انعقاد کو سبوتاژ کرنے کے لیے ہر طرح کی دہشت گردی اور تخریب کاری کو روا رکھے ہوئے ہے۔ گزشتہ بدھ، 14 مارچ کو رائے ونڈ میں تبلیغی مرکز کے قریب پولیس چوکی پر خودکش حملہ اسی سلسلے کی کڑی بتایا گیا، جس کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ قذافی اسٹیڈیم لاہور میں 20 اور 21 مارچ کو سجائے گئے اس کرکٹ میلے کے انعقاد کو مشکوک بنادیا جائے، دھماکے کے باعث خوف و ہراس اور بے یقینی کی فضا کو جنم دیا جائے تاکہ عوام بھی خوفزدہ ہوں، انتظامیہ بھی پریشان ہو، اور کھلاڑی خصوصاً غیر ملکی کھلاڑی ڈر کر پاکستان آکر کھیلنے سے انکار کردیں۔ دشمن کو اس حد تک جزوی کامیابی تو ضرور حاصل ہوئی کہ چند اہم غیر ملکی کھلاڑیوں نے پاکستان آنے سے معذرت کرلی، تاہم اس کے باوجود قابلِ لحاظ تعداد میں غیر ملکی کھلاڑی لاہور آئے اور انہوں نے مقابلوں میں شریک ہوکر اس تاثر کی بھرپور انداز میں نفی کی کہ پاکستان میں کھیلنے کے لیے پُرامن فضا موجود نہیں۔ گزشتہ برس کرکٹ کے تین اہم بین الاقوامی مقابلوں اور اب پی ایس ایل کے پلے آف مرحلے کے کامیاب انعقاد سے اس ضمن میں ہمارا تاثر خاصا بہتر ہوا ہے، اور اس بہتر تاثر کا نتیجہ ہے کہ ویسٹ انڈیز کی ٹیم نے مختصر دورے پر پاکستان آنے کا اعلان کردیا ہے۔
یہ تو ایک پہلو تھا جس کا ذکر ہم نے سطورِ بالا میں کیا، مگر اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ اس پی ایس ایل میلے کے باعث شہریوں کو شدید مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ بہت سے علاقوں میں عوام کی آمد و رفت تقریباً ناممکن بنا دی گئی۔ حکام نے ٹریفک کے متبادل منصوبے کا اعلان کیا تھا مگر یہ بری طرح ناکام ہوا۔ ناقص حکمت عملی کے باعث ان دنوں میں شہر کے کئی حصوں میں گھنٹوں ٹریفک جام کی کیفیت رہی۔ سیکورٹی کے نام پر ہر طرح کی گاڑیوں کی آمدو رفت روکے رکھی گئی۔ حتیٰ کہ ایمبولینس گاڑیوں میں جاں بلب مریضوں کو بھی راستہ نہیں دیا گیا۔ شہری منٹوںکی مسافت گھنٹوں میں طے کرنے پر مجبور رہے۔ سینکڑوں ہزاروں لوگ اپنی منزل پر پہنچ ہی نہیں پائے۔ ذلت و خواری اور ذہنی اذیت سے کے جن مراحل سے لوگوں کو گزرنا پڑا اس کے باعث ہم جیسے لوگوں کے جذبات تو یہی تھے کہ بخشو بی بلی ہم لنڈورے ہی بھلے، ہم باز آئے ایسی صحبت سے… بہتر ہے ایسے مقابلوں سے باز ہی رہا جائے جو زندگی اجیرن کردیں۔ ہم پہ یہ احسان جو نہ کرتے تو احسان ہوتا…!!!
حقیقت مگر یہ بھی ہے کہ زندہ دلانِ لاہور نے تمام تر پریشانیوں، مشکلات اور تکلیفوں کے باوجود اس کرکٹ میلے کا بھرپور زندہ دلی سے خیرمقدم کیا۔ عالمی سطح پر پاکستان کے بارے میں تاثر کو بہتر بنانے اور ملک میں کھیلوں کی بحالی کی خاطر انہوں نے تمام مسائل کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا… کیفیت گویا یہ تھی کہ ؎

اتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بھی بے مزہ نہ ہوا

پاکستانی قوم کے اس جذبے کی داد نہ دینا ناانصافی ہوگی کہ ملک کی بہتری اور ساکھ کی خاطر انہوں نے ہر طرح کی تکالیف خوشی خوشی برداشت کرلیں اور راستے کی بے پناہ رکاوٹوں کے باوجود بھاری تعداد میں کشاں کشاں اسٹیڈیم تک پہنچنے اور کھلاڑیوں کو خوب خوب داد دی اور ان کی زبردست حوصلہ افزائی کی۔ 20 مارچ کو پہلا میچ پشاور زلمی اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے مابین کھیلا گیا جو نہایت اعصاب شکن مراحل سے گزرتا رہا اور آخری گیند تک سنسنی خیز صورت حال جاری رہی… انور علی نے طوفانی بیٹنگ کی اور خاصے چھکے لگائے، مگر آخری گیند پر پشاور زلمی صرف ایک رن سے یہ مقابلہ جیت گیا اور کوئٹہ سپر لیگ مقابلوں سے باہر ہوگیا، جس پر کوئٹہ کے حامی شائقین آنسو بہائے بغیر نہ رہ سکے۔ 21 مارچ کو پشاور اور کراچی کی ٹیموں میں مقابلہ تھا۔ شائقین نے اس میں بھی رات گئے تک اپنی بھرپور دلچسپی کا اظہار کیا۔ کرکٹ کو اتفاقات کا کھیل کہا جاتا ہے، اس کے باوجود کارکردگی کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس مقابلے میں بھی یہی ہوا۔ قسمت اور کارکردگی دونوں نے اپنا رنگ دکھایا اور آخر حق بہ حقدارم رسید…!!!
اب اتوار 25 مارچ کو کراچی میں فائنل کا معرکہ ہے… گزشتہ برس کے لاہور میں پی ایس ایل کے فائنل، ورلڈ الیون اور سری لنکا کی ٹیموں کے دوروں کے نتیجے میں جو رنگ جما اُس کے بعد فطری طور پر دوسرے شہروں خصوصاً ملک کے سب سے بڑے شہر کے باسیوں کا بھی تقاضا تھا کہ وہاں بھی کرکٹ کے بین الاقوامی مقابلوں کا اہتمام ہونا چاہیے۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ کراچی کو طویل عرصے کے بعد اندرونی امن نصیب ہوا تھا، چنانچہ منتظمین نے اہلِ کراچی کے اس نہایت جائز مطالبے کو پذیرائی بخشی اور پی ایس ایل کے تیسرے سال کے مقابلوں کا فائنل کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں کرانے کا اعلان کردیا۔ اب اہلِ کراچی کا امتحان ہے کہ وہ پی ایس ایل کے فائنل اور پھر اس کے بعد ویسٹ انڈیز کے ساتھ ہونے والی سیریزکے تین مقابلوں میں کس قدر دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اپنے یہاں بین الاقوامی کرکٹ کو کس طرح سے پذیرائی بخشتے ہیں۔ بہرحال 25 مارچ کی آمد آمد ہے… دیکھیے امسال پی ایس ایل کا تاج کس کے سر پر سجتا ہے…!!!

نقیب اللہ قتل کیس: راؤ انوار گرفتار

کراچی میں پولیس کے ہاتھوں نوجوان شہری نقیب اللہ محسود کے فرضی مقابلے میں قتل کے مقدمے کے مرکزی ملزم اور سابق ایس ایس پی ملیر اچانک سپریم کورٹ میں پیش ہو گئے ہیں اور عدالت کے حکم پر انھیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اسلام آباد میں نقیب اللہ قتل کے مقدمے کے بارے میں ازخود نوٹس کی بدھ کو سماعت شروع کی تو راؤ انوار کو ایک سفید رنگ کی گاڑی میں عدالت لایا گیا۔ اس موقع پر راؤ انوار کا کہنا تھا کہ وہ عدالتی حکم پر خود کو پیش کر رہے ہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’راؤ صاحب آپ کون سا احسان کر رہے ہیں۔ جب عدالت نے وقت دیا تھا تب تو آپ پیش نہیں ہوئے۔‘چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت کو حیرانگی ہے کہ آپ نے کتنی دلیری سے ہمیں دو خط لکھے اور اتنا عرصہ روپوش رہے اور کسی ادارے کو آپ کے بارے میں علم نہیں ہو سکا۔
راؤ انوار کا کہنا تھا کہ انھیں سندھ پولیس کی تحقیقاتی کمیٹی پر تحفظات ہیں جس پرچیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ وہ کن لوگوں کو اس کمیٹی میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ اس پر راؤ انوار نے کہا کہ اس کمیٹی میں انٹیلیجنس بیورو اور آئی ایس آئی کے اہلکار بھی شامل ہونے چاہییں۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہم جانتے ہیں کہ آپ ان اداروں کے اہلکار کیوں شامل کروانا چاہتے ہیں۔‘
عدالت نے اس معاملے میں نئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل کا حکم دیا ہے جس کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی سندھ آفتاب پٹھان ہوں گے تاہم اس ٹیم میں خفیہ اداروں کا کوئی اہلکار شامل نہیں ہے۔
عدالت نے اس نئی جے آئی ٹی سے کہا ہے کہ وہ مقدمے کے دوران دیے گئے عدالتی ریمارکس سے متاثر ہوئے بغیر آزادانہ تحقیقات کرے اور تحقیقات کی تکمیل تک سندھ پولیس راؤ انوار کی حفاظت کو یقینی بنائے۔عدالت نے ان کے منجمد اکاؤنٹ بحال کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا نام ای سی ایل میں شامل کر لیا جائے۔