نقیب اللہ محسود کا ماورائے عدالت قتل

کراچی میں پولیس کے ہاتھوں قتل ہونے والے فاٹا کے نوجوان نقیب اللہ محسود کے لواحقین کو انصاف دلانے کے لیے فروری 2018ء میں دارالحکومت اسلام آباد میں کئی دنوں پر مشتمل منظم دھرنا دیا گیا۔ اس دھرنے سے ملک کی سبھی جماعتوں کے رہنمائوں نے خطاب کیا۔ دھرنے کا انعقاد قبائلی علاقے کے ایک نوجوان منظور پشتین نے کیا تھا۔ منظور پشتین گزشتہ سال عیدالفطر کے بعد حراست میں لیے گئے تھے، کیونکہ انھوں نے فاٹا میں ماورائے عدالت گرفتاریوں، قتل، گھروں اور آبادیوں میں فورسز کے چھاپوں کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ نیز یہ بھی مطالبہ کیا کہ فاٹا میں بچھائی گئی بارودی سرنگیں ہٹائی جائیں اور وہاں کے مرد و زن کو سیکورٹی کے نام پر تنگ نہ کیا جائے۔ بالخصوص خواتین کو گاڑیوں، بسوں اور ویگنوں سے اتارکر گھنٹوں چیک پوسٹوں پر روکے رکھا جاتا ہے۔ چنانچہ منظور پشتین نے نقیب اللہ کے قتل کے مرکزی کردار ایس ایس پی ملیر رائو انوار کی گرفتاری کے لیے پُرجوش تحریک چلائی۔ اسلام آباد دھرنے میں شرکاء نے ریاست مخالف نعرے بھی لگائے۔ یہ نعرے منظور پشتین کی ’’پشتون تحفظ تحریک‘‘ کے بلوچستان میں ہونے والے جلسوں میں بھی سنے گئے۔
اس تنظیم نے9مارچ کو فاٹا سے متصل بلوچستان کے ضلع ژوب میں پہلا جلسہ کیا، جس کے بعد 10 مارچ کو قلعہ سیف اللہ اور خانوزئی میں جلسہ ہوا۔ آخری جلسہ کوئٹہ کے صادق شہید فٹبال گرائونڈ میں 11مارچ کو ہوا۔ یہ تمام جلسے لوگوں کی حاضری کے لحاظ سے اچھے خاصے تھے، تاہم کوئٹہ کا جلسہ بہت بڑا تھا۔ دراصل ان جلسوں میں عوامی نیشنل پارٹی اور پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کے کارکن ہی شریک ہوئے۔ اس ضمن میں اہم کردار پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی نے ادا کیا، جس کے پلیٹ فارم سے غیر اعلانیہ طور پر پشتون تحفظ تحریک کے عوامی جلسوں کا اہتمام ہوا اور تشہیر کا سارا بندوبست بھی پشتون خوامیپ نے کرایا۔ خواتین کی شمولیت بھی ہر جلسے میں تھی۔ سبھی جلسوں میں آزادی کے حق میں اور خفیہ اداروں کے خلاف نعرے لگائے گئے، تاہم یہ نعرے اسٹیج سے نہیں لگوائے گئے۔ البتہ منظور پشتین نے جو پشتون تحفظ تحریک کے سربراہ ہیں، کھل کر اداروں پر تنقید کی۔ اسی طرح کی تنقید پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے رہنمائوں نے بھی ان جلسوں میں کی۔ ہم نے محسوس کیا کہ اس نوجوان کی تحریک سے فورسز اور خفیہ ادارے بوکھلاہٹ کا شکار ہیں، کیونکہ ان کی جانب سے پشتون تحفظ تحریک کے خلاف غیر معروف تنظیموں اور افراد سے بیانات جاری کرائے گئے۔برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو کے کالم نگار وسعت اللہ خان نے ڈان ٹی وی پر اپنے ٹاک شو میں کہا کہ ژوب میں ایف سی نے پشتون کلچر ڈے کا عین جلسے کے دن انعقاد کرایا اور اُس میدان میں جہاں جلسہ ہونا تھا، دوستانہ فٹبال میچ کا اعلان کیا، لیکن وہاں کی فٹبال ٹیموں نے کھیلنے سے انکار کردیا۔ ضلع قلعہ سیف اللہ میں تھری جی کنکشن منقطع کردیئے گئے تاکہ جلسے کی سوشل میڈیا پر لائیو کوریج نہ ہوسکے۔ آخرکار ان اضلاع میں عوام کو اکسانے کے الزام میں منظور پشتین، پشتون خوا میپ کے ارکان اسمبلی عبدالرحیم زیارتوال، نواب ایاز جوگیزئی، حامد خان اچکزئی، عبیداللہ بابت، اور عوامی نیشنل پارٹی کے نظام الدین کاکڑ، ہدایت اللہ اور دوسرے افراد پر ژوب، قلعہ سیف اللہ اور کوئٹہ کے تھانوں میں تعزیراتِ پاکستان کی دفعات 153,153A،109اور188کے تحت مقدمات درج کیے گئے، جس کے خلاف پشتون خوا میپ کے بیانات بھی تواتر کے ساتھ اخبارات میں چھپے، اور اس اقدام کو اظہارِ رائے کی آزادی پر قدغن قرار دیا گیا۔
بلوچستان اسمبلی کے 15 اور17مارچ کے اجلاسوں میں بھی پشتون خوا میپ کے ارکانِ اسمبلی نے اس موضوع کو اٹھایا، اور17 مارچ کے اجلاس میں تحریک التوا پیش کی۔ درحقیقت منظور پشتین کے مطالبات آئین اور قانون سے متصادم ہرگز نہیں ہیں، یقینا رائو انوار اور دوسرے پولیس اہلکاروں کی گرفتاری اور قانون کے مطابق ٹرائل ہونا چاہیے کیوں کہ ایک بے گناہ شہری اس کے ہاتھوں قتل ہوا ہے۔ یقینا فاٹا میں آئی ڈی پیز کی دوبارہ اپنے علاقوں میں آمد اور بحالی اب ہونی چاہیے۔ بارودی سرنگوں سے وہاں کے رہنے والے متاثر ہورہے ہیں۔ وہ اپنے مال مویشی چَرانے سے محروم ہیں۔ سب سے بڑھ کر آپریشن کے دوران میں عوام کی عزتِ نفس کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
ماورائے آئین و قانون گرفتاریوں کا معاملہ بلوچستان میں بھی بڑا سنگین رہا ہے، چنانچہ کسی ایسے اقدام سے جس سے قانون پامال ہو، حتی الوسع گریز کرنا چاہیے۔ منظور پشتین اپنی تحریک ضرور چلائیں، کوئی حکومت اور کوئی ادارہ تنقید اوراحتساب سے بالاتر نہیں ہے، مگر ضروری ہے کہ صورت حال کا ادراک بھی کیا جائے کہ کہیں انھیں کسی دوسرے مقصد اور اغراض کے لیے تو استعمال نہیں کیا جارہا! یہ جلسوں اور دھرنوں میں آزادی کے نعرے ریاست مخالف رجحان پر عوام کو اکسانے کا عمل ہے۔ اس طرح کے نعروں کی اجازت نہیں دی جاسکتی، اور یقینی طور پر قانونی چارہ جوئی کا حق ان کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے۔ افغانستان میں بھارت طاقتور حیثیت سے موجود ہے۔ یہ نعرے بھارت کے حق میں تو ہوسکتے ہیں لیکن پشتون عوام کو اس کے نتیجے میں مزید مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ افغان صدر اشرف غنی نے بھی اس لانگ مارچ کے بارے میں تہنیتی ٹوئٹ کیا جس میں انھوں نے اس تحریک کو دہشت گردی کے خلاف آواز قرار دیا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ منظور پشتین خود کو کسی سازش کا حصہ بننے سے بچائیں، اور پشتون خوا میپ بھی ان اوچھی حرکتوں سے اپنے کارکنوں کو باز رکھے۔ دنیا کو معلوم ہے کہ پشتون تحفظ تحریک کے بلوچستان میں ہونے والے جلسوں میں پشتون خوا میپ کی قیادت اور کارکن شریک ہوئے، بلکہ عملاًیہ جلسے تھے ہی پشتون خوا میپ کے۔ حکومت اور اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ ایسا ماحول پیدا نہ ہونے دے جس کے نتیجے میں اشتعال پیدا ہو۔ حکمت اور بصیرت سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ اور قومی مفاد میں بیانات یا پریس کانفرنسیں باوقار شخصیات اور عوامی سیاسی جماعتوں اور نمائندوں سے کرائی جائے، نہ کہ ایروں غیروں اور ڈمی لوگوں سے۔ اور اگر حکومتیں بھی مصنوعی طریقوں سے چلانے کی کوششں ہوتی رہی تو اس عمل سے نظام کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی۔