اخبارات میں ہر روز نئی نئی ترکیبیں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ ’پیشہ ورانہ‘ کے بجائے ’’پیشہ وارانہ‘‘ اور ’’ایک ذرائع کے مطابق‘‘ تو اتنے عام ہوگئے ہیں کہ صبر ہی کرنا پڑتا ہے۔ تاہم دودھ کی قیمتوں کے حوالے سے جسارت میں ایک نیا لفظ پڑھنے میں آیا ’’خوردہ فروش‘‘۔ ’خوردبرد‘ کو تو ’’خردبرد‘‘ پڑھتے ہی رہے ہیں، اب یہ دلچسپ ترکیب سامنے آئی ہے۔ رپورٹر صاحب کسی سے خوردہ کا مطلب ہی پوچھ لیتے، سب ایڈیٹر یا پروف ریڈر نے بھی جانے دیا۔ یہ لفظ ’’خورد‘‘ سے ہے یعنی طعام، کھانا وغیرہ۔ اسی سے خوردبرد ہے یعنی غبن۔ لفظی معنیٰ کھانا اور ڈبونا۔ خوردنی: کھانے کی چیز جیسے خوردنی تیل، خوردنی تمباکو وغیرہ۔ پس خوردہ، یعنی بچا ہوا کھانا۔ خوردہ فروش کا مطلب ہوا: کھانا بیچنے والا۔ جب کہ یہ دودھ بیچنے والے اُن لوگوں سے متعلق تھا جو تھوک کے بجائے چھوٹے پیمانے پر دودھ فروخت کرتے ہیں، یعنی خردہ فروش (RETAILER)۔ خُرد (’خ‘ پر پیش) چھوٹے کو کہتے ہیں جیسے ’’سگ باش، برادر خُرد مباش‘‘۔ کتا بن جا چھوٹا بھائی نہ بن۔ خُرد فارسی کا لفظ ہے۔ کم عمر، کم قدر، کم جثہ۔ خرد سال یعنی کم عمر۔ اسی املا کے ساتھ خِرد (بکسر اول وفتح دوم) ہے جس کا مطلب ہے: عقل، دانائی۔ خِرد مند: دانش مند، دانا وغیرہ۔ اور خردَہ کا مطلب ہے: ریزگاری۔ خردہ بین کا مطلب ہے عیب تلاش کرنا جو ہم کررہے ہیں۔ تو آیئے اپنے عیب تلاش کریں۔ جسارت میں ہر پیر کو ’’نصف الدنیا‘‘ کے عنوان سے خواتین کے لیے ایک صفحہ شائع ہوتا ہے۔ اس کو مرتب کرنے والی خاتون کو علم نہیں کہ ’قمیص‘ عربی کا لفظ ہے، یہ ’’قمیض‘‘ نہیں ہے۔ کبھی سورہ یوسف پڑھ کر دیکھ لی ہوتی۔ اسی صفحے پر ایک جملہ ہے ’’ضمیر نے بھی ان کو ملامت کیا ہو‘‘۔ اس جملے میں ملامت مذکر ہے جبکہ یہ مونث ہے۔ ایک مضمون میں معما کو معمہ لکھا گیا ہے۔ ذمے دار خاتون کبھی کبھی جسارت ہی پڑھ لیا کریں جس میں معمہ نہیں معما چھپتا ہے، اس کی غلطیاں اپنی جگہ۔ سنڈے میگزین میں بچوں کے لیے ایک مختصر سا حصہ مختص ہے۔ بچوں کے لیے جو کچھ چھپے اس کو بہت احتیاط سے ایڈٹ کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ بچے جو پڑھیں گے اسے اپنے دماغ میں بٹھالیں گے۔ لیکن اس طرف بھی توجہ کم ہے۔ تازہ شمارے (18 تا 24 مارچ) میں ’’بچپن کی یادیں‘‘ کے عنوان سے 8 سالہ لڑکے کی دلچسپ کہانی ہے۔ اس میں آموں کا تذکرہ ہے لیکن کہانی لکھنے والی کو آموں کے صحیح نام آتے ہیں نہ شاید بچوں کی دنیا کی نگران کو۔ مثلاً انور رٹول کو ’’انور رٹور‘‘ لکھ کر بٹور کا قافیہ ملایا گیا ہے۔ اسی طرح دسہری آم کو ’’دسیری‘‘ بنادیا گیا۔ دسیری تو دس سیر کے باٹ کو کہتے ہیں جو ’دہ سیری‘ کا مخفف ہے۔ اب کیا بچے آموں کا یہی نام اور املا یاد نہ کرلیں گے؟ یوں تو دیگر صفحات پر پوری توجہ نہیں دی جارہی لیکن بچوں کے صفحے کے لیے وقت نکالنا ضروری ہے۔ علاء الدین کے حوالے سے ایک بار پھر توجہ دلادیںکہ اس میں ’و‘ نہیں آتا، یعنی ’’علائو الدین‘‘ لکھنا غلط ہے۔ ادارہ نورحق میں یادگار شعری نشست کی روداد میں تو صحیح نام علاء الدین خانزادہ ہمدم چھپا ہے لیکن منتخب اشعار کی فہرست میں یہ علائو الدین ہوگیا۔ ویسے ان کے مجموعہ کلام پر بھی علائو الدین ہی شائع ہوا ہے۔ یاد رہنا چاہیے کہ و ’اور‘ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ جہانِ ادب میں ذکیہ غزل کا انٹرویو شائع ہوا ہے جس میں ان سے ’’فی البدیہ‘‘ منسوب کیا گیا ہے۔ ہمارے خیال میں ذکیہ غزل جیسی ادبی شخصیت ’’فی البدیہہ‘‘ کو فی البدیہ نہیں کہہ سکتیں۔ یہ انٹرویو لینے والے کا ’’تصرف‘‘ ہے۔ لکھنے پڑھنے والے اگر اپنے قریب ایک لغت بھی رکھ لیں تو ان شاء اللہ فائدہ ہوگا۔ ’’بدیہ‘‘ کوئی لفظ نہیں، جبکہ فی البدیہہ کا مطلب ہے: فوراً، بے سوچے سمجھے کہنا، برجستہ۔ بدیہہ گوئی: بے غور و فکر کے کہنا، برمحل کہنا۔ ’بدیہی‘ صفت ہے یعنی ظاہر، روشن، یقینی، منطق کی اصطلاح میں ایسی بات جو محتاجِ ثبوت نہ ہو۔
زبان میں نئے نئے الفاظ شامل ہونا اس زبان کی وسعت کا ثبوت ہے، لیکن ان الفاظ کا کوئی سر پیر تو ہونا چاہیے۔ اب اخبارات میں ’’ہراسگی‘‘ اور ’’انسدادِ ہراسیت‘‘ پڑھنے میں آرہا ہے جس نے ہراساں کردیا۔ یہ ہراسیت کیا ہوتی ہے؟ ہراساں کا مطلب ہے: خوفزدہ، ڈرا ہوا، ناامید، مایوس۔ یہ فارسی لفظ ہراس سے (’ہ‘ پر زبر) بنا ہے۔ لکھنؤ میں مذکر، دہلی میں مونث۔ لیکن ہراس عموماً مذکر استعمال ہوتا ہے۔ میر انیس کا شعر ہے:
رخ پر ہراس کچھ دم جنگ و جدل نہ تھا
تلوار چل رہی تھی پہ ابرو پہ بل نہ تھا
اور داغ دہلوی کا شعر ہے:
بنا دیا غمِ فرقت نے سنگ دل ایسا
کہ موت سے نہیں آتی کبھی ہراس مجھے
لیکن ہراس سے ہراسگی اور ہراسیت کوئی لفظ نہیں ہے۔ انسدادِ ہراسگی کی جگہ ’انسدادِ ہراس‘ سے کام چل سکتا تھا۔
ماہنامہ قومی زبان اپنی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے اردو کی خدمت کررہا ہے۔ مارچ 2018ء کے شمارے میں بھی کئی موقر مضامین شامل ہیں۔ اس شمارے میں اردو کے استاد اور محقق جناب رئوف پاریکھ نے اپنے مضمون ’’پاکستانی اردو ادب 2017ء میں: ایک مختصر جائزہ‘‘ میں ’ایما‘ کو مونث لکھا ہے۔ ان کے جملے کا ایک ٹکڑا ہے’’جن کی ایما پر‘‘۔ (صفحہ 71)
اتنے بڑے استاد سے جو لغات کی تدوین بھی کررہے ہیں، ایسی غلطی نہیں ہوسکتی۔ گمان ہے کہ یہ کمپوزر کا سہو ہے جو پہلے کبھی سہوِکاتب کہلاتا تھا، اور بعض لوگ سہوِ کتابت بھی کہہ دیا کرتے تھے، حالانکہ کتابت سے سہو نہیں ہوتا۔ تصدیق کے لیے کئی لغات میں دیکھا، سب میں مذکر ہے۔ اِیما (ای ما) عربی کا لفظ اور مذکر ہے۔ قلق کا شعر ہے:
کچھ بھی ایما جو آپ کا پائیں
سیکڑوں روز نسبتیں آئیں
ذوق کا شعر ہے:
واں ہلے ابرو یہاں گردن پہ پھیری ہم نے تیغ
بات کا ایما بھی پانا کوئی ہم سے سیکھ جائے
مطلب ہے حکم، اشارہ وغیرہ۔
مارچ ہی کے شمارے میں ڈاکٹر اسد ادیب کا ایک دلچسپ مضمون ’’عورتوں کے اسلامی مہینے‘‘ شائع ہوا لیکن اس میں کئی جگہ تیرہ (13) کو ’’تیرھا‘‘ لکھا ہے۔13 کا یہ املا وہ کہاں سے لائے ہیں؟ اس طرح تو 11 کو گیارھا، 12 کو بارھا وغیرہ لکھنا چاہیے۔ امید ہے کہ وہ اگلے شمارے میں اپنے اس املاکی سند بھی پیش کریں گے۔ کہیں پڑھا تھا کہ 11 سے 18 تک کے ہندسوں کو حروف میں لکھا جائے تو سب کے آخر میں ہائے ہوز (ہ) آئے گی۔ بات پرانی ہوگئی، ممکن ہے اب املا بدل گیا ہو۔ اسی مضمون میں ڈاکٹر اسد ادیب محمود غزنوی اور ہندوستان کے راجا کے درمیان مشہور معرکوں کا ذکر کرتے ہیں۔ ایک جگہ وہ راجا پال اور دوسری جگہ راج پال لکھتے ہیں۔ یہ دونوں ہی نام غلط لکھے گئے ہیں۔ محمود غزنوی نے دو بار جس راجا کو شکست دی تھی اس کا نام جے پال تھا جس نے چتا میں جل کر خودکشی کرلی تھی۔ اس کے بعد اس کا بیٹا انند پال راجا بنا اور اس نے بھی محمود غزنوی سے شکست کھائی۔ راجا پال یا راج پال نام کا کوئی حکمران نہیں تھا۔ مدیروں کو توجہ دینی چاہیے۔
ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی مسلسل شعری مغالطے دور کررہے ہیں اور ہم بھی مغالطے دور کررہے ہیں۔ تاہم میرؔ سے منسوب یہ شعر ’’وہ آئے بزم میں اتنا تو میر نے دیکھا‘‘ بے شک یہ میر کا نہیں ہے اور معین قریشی سمیت کئی اصحاب نے اسے پنڈت مہاراج بہادر برق کا قرار دیا ہے ۔ لیکن تذکرہ شعراء رامپور میں یہ شعر فکرؔ رامپوری سے منسوب ہے یعنی ’’وہ آئے بزم میں اتنا تو فکرؔ نے دیکھا‘‘۔ ایک تیسرا نام بھی آتا ہے جو اس وقت یاد نہیں آرہا۔ کہیں ایسا تو نہیں مصرع طرح پر کئی افراد نے طبع آزمائی کی ہو؟