ایک فلم نے ایک جاپانی لڑکی کو بہت کم عمر میں ایک سائنس دان بنادیا، آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی لیکن یہ سچ ہے۔ اس لڑکی کا نام امبر یینگ ہے۔ یینگ اسکول کی کتابیں پڑھ پڑھ کر اکتا گئی تھیں۔ وہ کچھ نیا کرنا چاہتی تھی، کچھ ایسا جو دنیا کو فائدہ دے، جو اوروں سے الگ ہو۔ ایک دن وہ اپنے گھر میں ہالی وڈ فلم ’گریوٹی‘ دیکھ رہی تھی۔ اس فلم میں دکھایا گیا ہے کہ کیسے ایک بین الاقوامی خلائی اسٹیشن حادثے کے نتیجے میں تباہ ہوجاتا ہے۔ فلم کو دیکھنے کے بعد، امبر یینگ کے دماغ میں ایک سوال آیا کہ ہم مصنوعی سیارے، ریسرچ انجن، راکٹ اور خلائی جہاز خلا میں بھیجتے ہیں، جو اسی طرح حادثوں کا شکار ہوسکتے ہیں، اور اس کے نتیجے میں وہ تمام ملبہ کہاں جاتا ہے؟ لہٰذا اس خیال کے آنے کے بعد امبر یینگ نے فیصلہ کیا کہ وہ کوئی ایسا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کرے گی جس کی مدد سے خلا میں موجود ملبہ آئندہ خلا میں جانے والے انسانوں کے لیے خطرے کا باعث نہ بنے۔ امبر یینگ کا کہنا ہے کہ ’’مجھے انتہائی کم عمر میں بہت زبردست نتائج ملے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ اپنی زندگی میں مجھے اس دنیا کو بہتر جگہ بنانے کا حوصلہ ملے گا‘‘۔ اس نے کہا کہ خلا میں تباہ ہونے والے سیٹلائٹس کا بہت سا ملبہ موجود ہے جو کہ زمین کے گرد گھوم رہا ہے۔ ایسے میں اگر ایک نئے سیٹلائٹ کی ٹکر اس ملبے سے ہوجائے تو نہ صرف کروڑوں اربوں کا نقصان ہوگا بلکہ تحقیقاتی منصوبے بھی نامکمل رہ جائیں گے۔ یینگ کی تحقیق کے مطابق اس وقت زمین کے گرد ایسے ہی مصنوعی سیاروں کے تقریباً پانچ لاکھ ٹکڑے گھوم رہے ہیں۔ یینگ یہ جاننے کی کوشش کررہی ہے کہ کون سا ٹکڑا کتنا پرانا ہے۔یینگ کا ماننا ہے کہ تعلیم صرف ریاضی یا سائنسی مطالعہ کا نام نہیں، بلکہ تخلیقی کام زندگی کے لیے بھی اہم ہے۔ اُس کے خیال میں موسیقی اور آرٹ کے ذریعے زندگی میں نئے رنگ بھرے جا سکتے ہیں۔
شوگر کے مریضوں کو دانتوں کی بیماریاں نظرانداز نہیں کرنی چاہئیں، ماہرین صحت
ماہرین صحت نے کہا ہے کہ شوگر کے مریضوں کو دانتوں کی بیماریاں نظرانداز نہیں کرنی چاہئیں، کیونکہ دانتوں کی بیماریوں کا تعلق انسانی جسم کے تمام اعضا سے ہوتا ہے۔ پاکستان میں پان، گٹکا، مین پوری، چھالیہ، نسوار، شیشہ اور تمباکونوشی کے استعمال سے منہ کا کینسر سرفہرست ہے، جب کہ شوگر کے مریضوں کے لیے مضر صحت اشیا کا استعمال انتہائی نقصان دہ ہے جس کا خمیازہ مریضوں کو بھگتنا پڑتا ہے، اس لیے دانتوں کی صفائی لازمی رکھنی چاہیے۔ اواری ہوٹل میں منہ کی سوچ اور صحت کی سوچ کے حوالے سے منعقدہ آگاہی سیمینار سے ماہرینِ صحت نے خطاب میں کہا کہ دانتوں کی بیماریوں کا تعلق انسانی جسم کے تمام اعضا سے ہوتا ہے، دانتوں کے امراض پر لاپروائی برتنے سے دیگر بیماریوں کے ساتھ ان کی پیچیدگیاں جنم لیتی ہیں جو ہولناک صورت اختیار کرجاتی ہیں۔ انھوں نے کہاکہ ذیابیطس کے مریضوں کو بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے، ان کو پابندی کے ساتھ اپنی شوگر اور دانتوں کا معائنہ بھی باقاعدگی سے کرانا چاہیے، دانتوں کو صحت مند رکھنے کے لیے باقاعدگی سے دو بار ٹوٹھ برش اور نیم گرم پانی میں نمک ملاکر غرارے بھی کرنے چاہئیں۔ دانتوں میں معمولی سے انفیکشن، مسوڑھوں میں ورم، دانتوں میںکیڑا لگنے اور درد ہونے کی صورت میں فوری معالج سے رجوع کرنا چاہیے، ذیابیطس کے مریضوں میں دانتوں کے امراض لاحق ہونا اچھی علامت نہیں ہوتی، شوگرکے مریضوں میں عدم توجہی کی وجہ سے دانت شدید متاثر ہوجاتے ہیں، ان میں دانتوں کا ہلنا، مسوڑھوںکی ہڈیوں کا نرم پڑ جانا، کھانا چباتے وقت مسوڑھوں میں تکلیف ہونا اور منہ سے بو آنا علامات ہیں۔ شوگر کے مریضوں کے دانت خراب ہونے سے ان کی شوگر کا کنٹرول بھی متاثر ہوجاتا ہے۔ لہٰذا شوگر کے مریض اپنے دانتوں اور مسوڑھوں کا خیال رکھیں، اور دانتوں میں معمولی سا انفیکشن محسوس ہونے پر ڈینٹل سرجن سے رجوع کریں۔
بچوں کو بتایا جائے کہ چھالیہ کھانے سے منہ میں زخم ہوجاتے ہیں جو بعدازاں منہ کے کینسر کا باعث بنتے ہیں۔ منہ یا زبان اور مسوڑھوں میں زخم یا چھالیہ محسوس ہونے کی صورت میں مستند معالجین سے رجوع کرنا چاہیے۔ ان ماہرین کا کہنا تھا کہ کراچی میں ایسی کوئی علاج گاہ نہیں جہاں منہ کے کینسر کا مکمل علاج کیا جاسکے۔ماہرینِ صحت نے کہاکہ پاکستان میں اینٹی ٹوبیکوکے قانون کے باوجود پبلک مقامات پرکھلے عام تمباکونوشی کی جارہی ہے، سگریٹ، شیشہ اور دیگر تمباکوونسوار سے منہ کا کینسر ہولناک صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔ بیرونی ممالک میں ان مضر صحت اشیا کے استعمال پر بھاری ٹیکس عائد کردیے گئے جس کی وجہ سے سگریٹ نوشی سمیت مضر صحت اشیا کے استعمال میں نمایاں کمی واقع ہوئی، لہٰذا پاکستان میں بھی ان اشیا پر بھاری ٹیکس عائد کیاجائے۔ پاکستان میں گٹکے، مین پوری، چھالیہ سمیت مضر صحت اشیا کے استعمال سے نوجوانوں میں منہ کا کینسر تیزی سے پھیل رہا ہے۔
کمزور مصافحہ کرنے والوں کو دل کے امراض لاحق ہوسکتے ہیں، تحقیق
برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مضبوطی اور گرم جوشی سے ہاتھ ملانے والے افراد میں دل کی بیماریاں لاحق ہونے کے خطرات کم ہوتے ہیں، اس کے برعکس کمزور گرفت کے ساتھ، ڈھیلے ڈھالے انداز میں مصافحہ کرنے والے افراد عنقریب ہی امراضِ قلب کا شکار ہوسکتے ہیں۔ کوئن میری یونیورسٹی آف لندن میں طبی تحقیق کے مصنف اسٹیفن پیٹرسن کا کہنا ہے کہ ہاتھوں کی مضبوط گرفت صحت مند دل کی ساخت اور افعال سے منسلک ہوتی ہے۔ مصافحے کے دوران ہاتھ کی مضبوط گرفت (ہینڈ گرپ) دل کی بیماریوں کے شکار افراد کی شناخت کرنے اہم اور آسان طریقہ ہے۔ یہ طریقہ اختیار کرکے امراض قلب میں مبتلا افراد بھی ہارٹ اٹیک جیسے جان لیوا حملوں سے اپنی زندگیوں کی حفاظت کرسکتے ہیں۔