(حادثے کے بعد (ناول

(نام : حادثے کے بعد (ناول
مصنف: حماد ظہیر
صفحات: 154… قیمت :100 روپے
زیراہتمام: اعظم طارق کوہستانی (مدیر ماہنامہ ساتھی)
ناشر: ادارہ مطبوعات طلبہ کراچی،ایف۔ 105، سلیم ایونیو، بلاک 13 بی، گلشن اقبال، کراچی
ٹیلی فون: 02134982343
یہ ناول ماہنامہ’’ ساتھی‘‘ میں قسط وار شائع ہوا ہے۔ اس کے مصنف حماد ظہیر ایک عمدہ لکھاری ہیں، جن کی تازہ تحریر کا قارئین کو بے چینی سے انتظار رہتا ہے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ اس ناول کا مرکزی خیال ناول تحریر کرنے سے کئی برس پہلے لکھا گیا تھا۔ پھر قسط وار بطور ایک کہانی کے، اس کو لکھنا شروع کیا۔ اس طرح کہانی آگے بڑھتی رہی اور کچھ انفرادی پن بھی پیدا ہوگیا۔ ناول کی تکمیل پر ’’ساتھی‘‘ نے اسے ایک جگہ مرتب کرکے اُن قارئین کے لیے ایک بہت اچھا کام کردکھایا ہے جو بعض قسطیں نہ پڑھ سکے تھے اور پرانے شماروں کی تلاش میں تھے۔ اب وہ یکسوئی سے ایک جگہ پورا ناول پڑھ سکیں گے اور لطف اندوز ہوسکیں گے۔ ادارہ ساتھی کا یہ اقدام بہت قابلِ تحسین ہے کہ وہ اب تک قسط وار چھپنے والے کئی ناولوں کو یک جا کرکے کتابی شکل میں شائع کررہا ہے۔
اعظم طارق کوہستانی مدیر ساتھی، اپنے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ حماد ظہیر کا شمار ساتھی کے اُن قلمکاروں میں ہوتا ہے جن کی تحریر کا قارئین کو انتظار رہتا ہے۔ اس ناول کی خاص بات ایک منفرد آئیڈیا کو کہانی کی شکل میں ڈھال کر تجسس اور ایکشن پیدا کرنا ہے۔ اس طرح ناول کی خواندگی میں قابلِ قدر اضافہ کیا گیا ہے۔ تحیر، مزاح اور کہانی میں خود کو اس حد تک محو کرلینا کہ کہانی کے کردار جیتے جاگتے لگیں اور کہانی کے اگلے موڑ کے بارے میں قدم قدم پر تجسس اور چونکا دینے والے واقعات کا پیش آنا اس ناول کا خاصا ہے۔
یہ کہانی دو جڑواں بھائیوں فراز اور شہزاد کے گرد گھومتی ہے جن کے والدین ان دونوں بچوں کے بچپن میں ہی ایک حادثے میں انتقال کرگئے تھے۔ دونوں بچوں کے چچا اور چچا کے دوست کمال صاحب نے ان کی پرورش کی۔ اس ناول میں ان دونوں بھائیوں کی مہم جُو طبیعت نئی نئی کارروائیوں اور اقدامات پر اکساتی ہے اور وہ نت نئے اور مشکل حالات کا شکار ہوتے ہیں اور اپنی عقل و فراست سے مشکلات سے نکل بھی آتے ہیں۔ کہانی کا تانا بانا کراچی اور لاہور میں چچا اور کمال صاحب کے گھر اور ان کے بچوں، اور جرائم میں ملوث سازشی عناصر اور پرنسپل صاحب اور سر ایاز کے گرد بُنا گیا ہے۔ کہانی کے پلاٹ میں کئی موڑ آتے ہیں اور قاری یہ سمجھتا ہے کہ اب اس کہانی کا انجام ہونے والا ہے، لیکن کہانی موڑ کاٹ کر آگے بڑھ جاتی ہے۔ اس ناول کو پوری توجہ سے پڑھنے کی ضرورت ہے اور جزوی تفصیلات اور مکالمے کہانی کو سمجھنے میں بہت معاون ہیں۔ اس ناول میں حیرت اور تجسس کے خاصے عناصر پائے جاتے ہیں اور کہانی آگے بڑھتی رہتی ہے۔ ایک جڑواں بھائی (فراز) کے لاہور جانے کے بعد ریل کے حادثے میں ہلاک ہونے کی خبر، اور شہزاد (فراز) کا سوانگ بھرنا اور بعد میں سر ایاز اور ان کے دوست پولیس افسر کی مدد سے سازشوں کو ناکام بنانے کا قصہ پڑھنے کے لائق ہے۔ آخر میں چچا اور چچی کے بارے میں یہ انکشاف کہ انہوں نے فراز اور شہزاد کے والدین کی گاڑی کے حادثے کے بعد ان دونوں بچوں سمیت صندوق میں رکھی نقدی بھی ہتھیالی تھی اور ان بچوں کی گم شدگی کی اخباری اطلاع کے باوجود وارثوں سے اس خدشے کی وجہ سے رابطہ نہیں کیا کہ وہ اُن سے بڑی رقم کا مطالبہ کریں گے جو ہلاک ہونے والے میاں بیوی یعنی بچوں کے والدین کے پاس تھی۔
ادارہ مطبوعات طلبہ نے ہی اس ناول کو شائع کیا ہے۔ کتاب کا سائز نسبتاً بڑا ہوتا تو صفحات کی تعداد کم ہوجاتی اور فونٹ کا سائز کچھ بڑھ جاتا تو پڑھنے میں سہولت ہوجاتی۔ حروف چینی معیاری نہیں ہے۔ کتاب کا گیٹ اپ مزید بہتر بنایا جاسکتا تھا۔ کتاب میں باقاعدہ ابواب عنوانات کے ساتھ شامل کردیے جاتے تو قارئین کو سہولت ہوجاتی۔ مجموعی طور پر یہ بچوں کے ادب میں ایک قابلِ قدر اضافہ ہے جسے اعظم طارق کوہستانی نے عمدہ اہتمام کے ساتھ شائع کیا ہے۔