ایک غیر مطبوعہ خط

قائداعظم محمد علی جناح کی وفات (11 ستمبر 1948ء) کے کچھ ہی دنوں بعد 4اکتوبر 1948ء کو سید مودودی کو گرفتار کرکے چھے ماہ کے لیے نظربند کردیاگیا، بعد ازاں اسی نظربندی میں توسیع ہوتی رہی۔ زیرِنظر خط اس زمانۂ اسیری میں 6 اکتوبر 1949ء کا تحریر کردہ ہے۔ مکتوب الیہا ان کی اہلیہ سیدہ محمودہ بیگم ہیں، مگر یہ ان تک کبھی پہنچ نہ سکا، بلکہ سنسر کی چھلنی ہی میں اَٹک کر رہ گیا۔ نصف صدی سے زائد عرصے تک یہ خط سرکاری فائلوں میں مدفون رہا، اور حال ہی میں ایک کرم فرما کی وساطت سے دستیاب ہوا ہے۔ اس اثناء میں مکتوب الیہا سیدہ محمودہ بیگم 4 اپریل 2003ء کو رحلت کرگئیں۔ گویا یہ خط اُنھیں کبھی نہیں مل سکا۔
سید مودودی کا یہ مکتوب کئی اعتبار سے اہمیت رکھتا ہے:
اوّل: اس میں انھوں نے دوٹوک انداز میں کہا ہے کہ قراردادِ مقاصد کی منظوری کے بعد پاکستان اصولی طور پر ایک اسلامی ریاست بن گیا ہے اور ’’اب اس ریاست کی وفاداری و خیر خواہی ہمارے ایمان کا تقاضا ہوگئی ہے‘‘۔
دوم: یہ معلوم رہے کہ سید مودودی حصولِ مقصد کے لیے غیرقانونی اور غیر جمہوری طور طریقوں کے کبھی قائل نہیں رہے، یہاں بھی وہ واضح طور پر کہتے ہیں کہ ’’اس ریاست کو مسلمان بنانے کے لیے ہم جو کچھ بھی کوشش کریں گے، پُرامن جمہوری طریقوں سے ہی کریں گے، اور کوئی ایسا طریقِ کار ہرگز اختیار نہیں کریں گے جس سے پاکستان کے وجود کو کوئی نقصان پہنچ جائے‘‘۔
سوم: اس خط سے سید مودودی کی پُروقار اور صاحبِ عزیمت شخصیت کی ایک جھلک نظر آتی ہے… خط کے آخری حصے کو دیکھیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ سید موصوف بڑے حکیمانہ اور دانش مندانہ اسلوب اور ایک عزم راسخ کے ساتھ ہمیشہ اُسی راستے پر گامزن رہے جس کے بارے میں سید موصوف کے فکری پیش رو علامہ اقبال نے کہا تھا:
یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
اب آپ خط ملاحظہ کیجیے!
’’نیو سینٹرل جیل، ملتان
بیگم صاحبہ وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ
ایک مدتِ دراز کے بعد آپ کا خط ملا۔ مگر اس کی کچھ شکایت نہیں۔ میں خود بھی زیرِ نگرانی خط کتابت سے بیزار ہوں۔ گھر کا حال بچوں کے خطوں سے معلوم ہوتا رہتا ہے۔ بس یہی کافی ہے۔
آپ کا یہ خیال صحیح ہے کہ دستور ساز اسمبلی میں قراردادِ مقاصد پاس ہوجانے کے بعد اصولی حیثیت سے ہماری یہ ریاست ایک اسلامی ریاست ہوگئی ہے، اور آپ کا یہ کہنا بھی صحیح ہے کہ میں بھی یہی چاہتا تھا، لیکن آپ کے اس سوال کا جواب میرے پاس نہیں ہے کہ پھر حکومت نے مجھے اور میرے ساتھیوں کو کیوں نظربند کر رکھا ہے۔ میں اس کی وجوہ سے پہلے بھی لاعلم تھا اور ابھی بھی لاعلم ہوں۔
قراردادِ مقاصد کے بعد تو خیر معاملہ ہی دوسرا ہوگیا ہے کہ اب اس ریاست کی وفاداری و خیرخواہی ہمارے ایمان کا تقاضا ہوگئی ہے، لیکن میں نے تو اُس سے پہلے بھی یہ بات اچھی طرح واضح کردی تھی کہ اس ریاست کو مسلمان بنانے کے لیے ہم جو کچھ بھی کوشش کریں گے، پُرامن جمہوری طریقوں سے ہی کریں گے اور کوئی ایسا طریقِ کار ہرگز اختیار نہیں کریں گے جس سے پاکستان کے وجود کو کوئی نقصان پہنچ جائے۔ آخر کون مسلمان یہ سوچ سکتا ہے کہ ہندوستان میں ہم پر جو تباہی آچکی ہے، وہی اب پاکستان میں بھی ہم پر اور ہمارے بال بچوں پر نازل ہوجائے۔
واقعہ یہ ہے کہ ہم نہ تو اپنی گرفتاری ہی کے راز کو جانتے تھے اور نہ اس معمے ہی کو کچھ سمجھ سکے ہیں کہ قراردادِ مقاصد کے بعد ہماری نظربندی میں پہلی توسیع کیوں ہوئی تھی اور اب یہ دوسری توسیع کیوں ہوئی ہے۔ ممکن ہے حکومت ہمارے متعلق کچھ ایسی باتیں جانتی ہو جو ہم خود اپنے متعلق نہیں جانتے۔ میں نے براہِ راست مغربی پنجاب کی حکومت کو بھی اس بارے میں ایک چٹھی لکھی ہے۔
یہ معلوم کرکے افسوس ہوا کہ آپ کی صحت برابر گرتی جارہی ہے۔ میں آپ کی تکلیف کم کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں کرسکتا، سوائے اس کے کہ رضا بقضا اور توکل علی اللہ کی نصیحت کروں۔ یہ چیز جس قدر زیادہ آدمی میں موجود ہوگی، اتنا ہی زیادہ ہر حال میں مگن اور مطمئن رہے گا۔ اس میں سے مَیں نے تھوڑا ہی حصہ پایا ہے اور اس کا فیض یہ ہے کہ میرے اطمینانِ قلب میں ذرا فرق نہیں آنے پایا ہے۔ ایک سال کی قید کے بعد اس وقت میری صحت اتنی اچھی ہے کہ پچھلے پندرہ سال میں کبھی ایسی اچھی نہیں رہی۔
آدمی اپنی جہالت سے سمجھتا ہے کہ اس دنیا میں کچھ انسانی منصوبے پورے ہورہے ہیں، حالاں کہ یہاں دراصل ایک ہی منصوبہ پورا ہوتا ہے اور وہ خدا کا منصوبہ ہے۔ دانش مند انسان خدائی منصوبے کے اچھے پہلوئوں میں کام کرنا پسند کرتے ہیں اور سرخ رو ہوتے ہیں۔ نادان اس کے برے پہلوئوں میں کام کرنے کا انتخاب کرتے ہیں اور سیہ روئی مول لیتے ہیں۔ یوسف کے حق میں جو کچھ مقدر تھا، وہی ہوکر رہا۔
برادرانِ یوسف اور زلیخا اور عزیز مصر جو جو کچھ کرتے گئے، خدا اسی کو اپنے منصوبے کی تکمیل کا ذریعہ بناتا گیا اور خود اُن کے حصے میں ندامت کے سوا کچھ نہ آیا۔ انسان کی دانائی کا سارا امتحان بس اس میں ہے کہ وہ خدائی منصوبے کے کون سے پہلو میں کام کرنا اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ اگر خدا کے دیئے ہوئے علم و عقل سے کام لے کر اچھے پہلو کو پہچان لیا ہے اور اسے اختیار کرلیا ہے تو انجام بہرحال بہتر ہے خواہ بیچ میں کتنی ہی برائیوں سے اس کو سابقہ پیش آئے۔ آخر دنیا میں کسی انسان کے ساتھ اس سے زیادہ کیا برائی ہوسکتی ہے جو حسینؓ ابن علیؓ، ابوحنیفہؒ، امام احمدؒ، ابن تیمیہؒ، مجدد سرہندیؒ اور سید احمد بریلویؒ کے ساتھ ہوچکی ہے، لیکن کسی کو ان کے انجام کا ہزارواں حصہ بھی میسر آجائے تو یقینا وہ خوش قسمت ہے۔
میری طرف سے گھر میں سب کو سلام اور بچوں کو بہت بہت پیار۔
ابوالاعلیٰ مودودی
تاریخ:16اکتوبر 1949ء‘‘
(بحوالہ: ’’ابوالاعلیٰ مودودی۔ علمی و فکری مطالعہ‘‘…
بشکریہ، معارف فیچر، دسمبر 2006ء)

بیابہ مجلسِ اِقبال

ضمیرِ لالہ میں روشن چراغِ آرزو کر دے
چمن کے ذرے ذرے کو ’’شہیدِ جستجو‘‘ کر دے
نظم ’’طلوعِ اسلام‘‘ کے اس شعر میں علامہ مسلمانوں کے لیے دعا کرتے ہیں کہ یہ جو مُردہ دل ہوچکے ہیں او ران کے دل میں کسی قسم کی تمنائیں اور آرزوئیں جنم نہیں لیتیں تُو ان کے دلوں میں اُمیدوآرزو کے چراغ روشن کر، اور انہیں زندگی کا وہ شعور دے کر یہ مقاصد کے حصول کے لیے جستجو اور جدوجہد کرسکیں۔ یعنی زندگی تو ہے ہی یہی کہ انسانوں کے دل زندہ ہوں، ان میں امیدیں اور آرزوئیں جنم لیتی ہوں او ران کے حصو ل کے لیے بھرپور جدوجہد کا راستہ اختیار کیا جائے۔
ضضض
جہاں دانی سے ہے دشوار تر کارِ جہاں بینی
جگر خوں ہو تو چشمِ دل میں ہوتی ہے نظر پیدا
یہ شعر اس پس منظر میں لکھا گیا ہے کہ گزشتہ صدی میں مسلمانوں کی خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ ہوا جس کا مرکز ترکی تھا، تو علامہ مسلمانوں کو اپنی ترقی کے نئے دورکے لیے تیار کرتے ہوئے رہنمائی دیتے ہیں کہ عالمی چالوں کو سمجھنے کی کوشش کرو اور غور کرو کہ دشمن نے کیسی کیسی چالیں اختیار کرکے مسلمانوں کو خلافت سے محروم کردیا۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان اپنے دور کے مسائل اور تقاضوں کو سمجھیں اور پوری جفاکشی اور محنت سے اپنا مستقبل تخلیق کریں، کہ جب جدوجہد میں خونِ جگر صرف ہو تب آنکھوں میں بصارت اور بصیرت حاصل ہوتی ہے اور انسان اپنے اردگرد کی دنیا کو سمجھنے کے قابل ہوتا ہے۔