دن اور رات

ابو سعدی
٭رات کا پہلا پہر چوروں اور زانیوں کے لیے مختص ہوتا ہے، کلبوں کے لیے اور جوئے خانوں کے لیے۔ آخری پہر خدائی ہوتا ہے، اس میں ایسی حرکات نہیں ہو پاتیں۔ یہ پہر بڑی برکت والا ہوتا ہے۔ تحقیق سے ثابت ہے کہ اس وقت انسانی کروموسومز الگ الگ ہوتے ہیں۔ ایکس الگ اور وائی الگ۔ اس وقت صحت مند بیکٹریا جنم لیتے ہیں۔ دہی کے بیکٹریا دہی جماتے ہیں۔ زخموں میں مندمل ہونے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔
٭تائی پیدھو نے کہا: میں جوانی میں بیوہ ہوگئی۔ چار بچوں کا بوجھ، نہ کام نہ کاج۔ میں نے دو روپے کے کاغذ پر اللہ سے شراکت نامہ کرلیا کہ کام میں کرتی جائوں گی، فکر میری جگہ تُو کرتے جانا۔ اس نے رضامندی کرلی۔ جب سے اب تک ہمارا شراکت کا کاروبار بڑی کامیابی سے چل رہا ہے۔
٭اللہ اور اس کے رسولؐ کے فرمان کو جان لینے کے بعد من مانی کی جائے تو یہ غرورِ جلی ہے۔ معافی؟ نہ نہ ہرگز نہیں۔ اگر غرورِ جلی کو معاف کردیا جائے تو یہ مسلمین اور مجرمین کو مساوی قرار دینے کے مترادف ہوگا۔
٭حقوق العباد کا ادا کرنا اوراد و وظائف سے بدرجہا بہتر اور ضروری ہے۔ اس کے ترک کرنے سے مواخذہ ہوگا، اور ترکِ وظائف سے کچھ مواخذہ نہیں۔
(کتاب ’’بابا صاحبا‘‘ از اشفاق احمد)

پاکستان کی تہذیب

پاکستان کے بارے میں ایک بنیادی پیش پا افتادہ بات یہ ہے کہ یہ اسلامی مملکت ہے جس کی اپنی ایک تہذیب ہے اور پاکستان اس لیے وجود میں آیا ہے کہ اس تہذیب کی بقا اور استحکام کے فریضے کو زندگی کی ساری توانائیوں کے ساتھ پورا کرے۔ اب یہ تہذیب ایک مذہبی تہذیب ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ ایک مذہب کے، انسانوں پر عمل اور ردعمل سے پیدا ہوئی ہے اور تمام بنیادی انسانی رشتوں کو متعین کرتی ہے۔ انسانی رشتوں کی چار مرکزی اور بنیادی شکلیں ہیں: خدا اور انسان کا رشتہ، انسان اور کائنات کا رشتہ، انسان اور انسان کا رشتہ اور انسان کا خود اپنے نفس سے رشتہ۔ یہ رشتے مثبت اور منفی دونوں ہوتے ہیں، یعنی جب ہم خدا اور انسان کے رشتے کا ذکر کرتے ہیں تو اس کے معنی یہ نہیں ہوتے کہ یہ رشتہ لازمی طور پر مثبت ہوتا ہے۔ مثبت رشتہ خدا کا اقرار کرتا ہے، منفی رشتہ انکار۔ لیکن رشتے دونوں ہوتے ہیں۔ ان معنوں میں کوئی بھی تہذیب خدا اور انسان کے رشتے کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ یہی حال دوسرے انسانی رشتوں کا ہے۔ آپ فطرت، انسان اور اپنے نفس کے بارے میں مثبت یا منفی کوئی بھی رویہ اختیار کرسکتے ہیں۔ اب یہ تہذیب، تہذیب پر مبنی ہے کہ وہ کس رشتے کو کس طرح محسوس کرتی ہے۔ تہذیبوں کے اختلافات اسی احساس کے اختلاف سے پیدا ہوتے ہیں۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی تہذیب اسلامی تہذیب ہے تو اس سے ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ خدا، فطرت انسان اور نفس کے بارے میں ایک خاص طرح محسوس کرتی ہے اور اپنی ہیئت کے تمام مظاہر میں ایک بنیادی طرزِ احساس کا اظہار کرتی ہے۔ اس طرزِ احساس کے بغیر یہ تہذیب نہ اپنے تمام اجزا کو مجتمع کرسکتی ہے اور نہ ماضی، حال اور مستقبل کے تسلسل میں انھیں زندہ اور فعال طور پر قائم رکھ سکتی ہے(سلیم احمد)

جدید مغرب
جدید مغرب کے پاس وسیع وسائلِ حیات ہیں۔ سائنس کی ایجادات، کثیر پیداواری اور کام کی بے پناہ لگن بھی اس میں موجود ہے، مگر اس کے باوجود حیوانی خواہشات کی پرستش کی وجہ سے اس کے جزوی انحطاط کا آغاز ہوچکا ہے، مگر ہم لوگ جو گزشتہ دو صدی سے ناموافق حالات و واقعات کی بنا پر مغرب کے مقابلے میں کہیں زیادہ پسماندہ چلے آرہے ہیں، تہذیب و ترقی کے نام پر یا رجعت پسندی کے طعنے سے ڈر کر حیوانی لذت کی سرمستیوں میں اپنے آپ کو گم کردیں، تو آخر ہمیں اس سے کیا ملے گا؟ اس کا نتیجہ صرف یہ ہوگا کہ ہمارے حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جائیں گے اور ہم کبھی ان پر قابو نہ پا سکیں گے۔ روشن خیالی کے جو مدعی چاہتے ہیں کہ ہم اپنی تاریخی روایات سے اپنے آپ کو منقطع کرلیں، وہ دراصل نوآبادیاتی سامراج کے آلۂ کار بنے ہوئے ہیں۔ نوآبادیاتی سامراج ایسے تمام نام نہاد ’’روشن خیال‘‘ ادیبوں اور مفکروں کی پیٹھ ٹھونکتا ہے، کیونکہ اسے خوب معلوم ہے کہ اپنی قوم کے اخلاق میں انتشار اور نوجوانوں کو لذت پرستی میں مبتلا کرکے یہ لوگ دراصل اسی کے مذموم مقاصد کی تکمیل کا سامان کررہے ہیں۔
(بحوالہ: اسلام اور جدید ذہن کے شبہات/ محمد قطب)
پاکستان کے بغیر
اس برصغیر میں مسلمانوں کا من حیث القوم کوئی مستقبل ہی نہیں تھا۔ جہاں تک مسائل کا تعلق ہے، مسلمان قوم کی روایت یہ نہیں کہ مسائل سے گھبرا جائیں، بلکہ یہ ہے کہ مسائل جتنے بڑے ہوں وہ اپنی ہمت اتنی ہی بلند رکھیں۔
(قائداعظم محمد علی جناح)

مولوی کون؟

مولوی سے مراد عالمِ باعمل ہے، جس کا نام آپ درویش رکھ لیجیے یا کسی اور لقب سے نواز دیجیے۔ جو ایسا نہیں درحقیقت وہ مولویوں میں داخل ہی نہیں۔ صرف عربی جاننے والے کو مولوی نہیں کہا جاسکتا۔ مصر اور بیروت میں عیسائی اور یہودی بھی عربی داں ہیں تو کیا ان کو مقتدائِ دیں کہا جائے گا؟
مولوی دراصل اس کو کہتے ہیں جو مولیٰ والا ہو اور علمِ دین بھی رکھتا ہو، متقی اور پرہیزگار ہو، اور اخلاقِ حمیدہ سے متصف ہو۔ صرف عربی جاننے سے کوئی آدمی مولوی نہیں ہوجاتا، چاہے وہ کیسا ہی ادیب ہو، عربی میں تقریر بھی کرلیتا ہو اور تحریر کے فن سے بھی واقف ہو۔ عربی داں تو ابوجہل بھی تھا، بلکہ وہ آجکل کے ادیبوں سے بدرجہا بہتر عربی جانتا تھا۔ بسبب ایں اسے بڑا محقق ہوجانا چاہیے، اس کے باوجود اسے ابوجہل کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔
(تحفت العلماء، مولانا اشرف علی تھانوی)