سندھ یونیورسٹیز ترمیمی بل 2018ء

ڈاکٹر اسامہ شفیق
حکومتِ سندھ کی جانب سے سندھ اسمبلی میں پیش کردہ اور بعد ازاں بلا بحث منظور کردہ سندھ یونی ورسٹیز ترمیمی بل2018 پر سندھ بھر کی جامعات میں احتجاج جاری ہے۔ آخر یہ احتجاج محض اختیارات کی گورنر سندھ سے وزیراعلیٰ سندھ کو منتقلی کی بنیاد پر کیا جارہا ہے؟ کیا یہ محض ایک لسانی و سیاسی مسئلہ ہے؟ کیا یہ وفاق اور صوبوں کے مابین ایک روایتی محاذ آرائی ہے؟ شاید کچھ لوگ ابھی تک ان ہی باتوں پر دھیان دے رہے ہیں، لیکن اس سب کے برعکس معاملہ کچھ یوں ہے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کی بنیاد پر صحت اور تعلیم کے شعبہ جات وفاق سے صوبوں کو منتقل کردیئے گئے، اور اب صوبوں کا یہ کام تھا کہ وہ اپنی قانون سازی کرکے ان اداروں کو اپنے ماتحت کریں۔ گویا عام الفاظ میں ہونا یہ تھا کہ قانون سازی کرکے یہ اختیارات صوبائی نظام کا حصہ بن جاتے۔ گویا اب گورنر کے بجائے جامعات کا اختیار وزیراعلیٰ سندھ کے پاس چلا جاتا اور پہلے سے موجود نظام کے تحت اس کو چلایا جاتا۔ لیکن اس کے برعکس اٹھارہویں آئینی ترمیم کی آڑ میں اختیارات کی وفاق سے صوبوں کو منتقلی کے بارے میں قانون سازی کرنے کے بجائے جامعات کے اصل ڈھانچے اور قانون سازی کو ہی تبدیل کردیا گیا۔ اس نئے ترمیمی بل کی بدولت سندھ کی 24سرکاری جامعات کا اختیار نہ صرف وزیراعلیٰ کو منتقل کیا گیا بلکہ ان جامعات کے اداروں (جو کہ قانون سازادارے ہیں) کا داخلہ پالیسی اور تقرری کا اختیار بھی کلی طور پر وزیراعلیٰ نے بیک جنبش قلم ان 24 جامعات کے الگ الگ قوانین میں ترمیم کے ذریعے ازخود حاصل کرلیا۔ یہ وہ معاملہ ہے کہ جس پر اساتذہ، طلبہ، ملازمین سراپا احتجاج ہیں۔ جامعات دنیا بھر میں اعلیٰ تعلیم و تحقیق کے ایسے ادارے ہیں کہ جن کو خودمختار اداروں کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ پاکستان میں بھی جامعات کی حیثیت نیم خودمختار اداروں کی سی ہے کہ جہاں پر تعلیم و تحقیق کی آزادی کے ساتھ ساتھ ان کو ایک حد تک مالیاتی پر خودمختاری بھی دی گئی ہے، اور ان تمام امور کو آئینِ پاکستان میں تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ جامعات کی خودمختاری کی بنیاد پر ہی آزادانہ تعلیم و تحقیق ممکن ہے کہ جہاں معاشرے کا ایک فرد اپنی تعلیم کی آخری منازل طے کرتا ہے اور اُس کو اس علمی آزادی کی بنیاد پر ہی مختلف نظریات، سماجی، معاشرتی اور معاشی مسائل پر مختلف نقطہ ہائے نظر سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس بات کو بنیاد بنایا گیا کہ اس علمی آزادی پر کوئی قدغن عائد نہ کی جائے، لہٰذا جامعات کی قانون سازی کو اُن کا اپنا ہی حق تسلیم کیا گیا کہ جہاں وہ ایک بڑے لیگل فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے داخلہ پالیسی، ترقی، تقرریوں اور نئے پروگرامات و شعبہ جات کے بارے میں آزادانہ فیصلے کرتی ہیں۔ لیکن بدقسمی کہ ایک جمہوری دورِ حکومت میں جامعات کی اس خودمختاری کو آئینی ترمیم کی آڑ میں چھیننے کی کوشش کی گئی ہے۔ جامعات کے روزمرہ امور، ترقی، تقرریوں اور دیگر معاملات پر فیصلہ ساز ادارے سنڈیکیٹ کہ جس کو ایک بنیادی حیثیت حاصل ہے، کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی کرکے اس کی جمہوری روح کو مکمل طور پر مجروح کردیا گیا ہے ۔ مثال کے طور پر جامعہ کراچی ایکٹ 1972کے تحت سنڈیکیٹ میں جامعہ کراچی انجمن طلبہ کا صدر، کالجوں کی انجمنوں کے صدور میں سے ایک صدر (منتخب)، کالجوں (جن کا الحاق جامعہ سے ہو) کے پرنسپلز میں سے ایک پرنسپل، الحاق شدہ کالجوں کے دو اساتذہ (منتخب)، جامعہ کے چار اساتذہ لیکچرر، اسسٹنٹ پروفیسر،ایسوسی ایٹ پروفیسر اور پروفیسر، تمام کے تمام منتخب، سینیٹ جامعہ سے سنڈیکیٹ کے دو نمائندے (منتخب)، میئر کراچی یا ان کا منتخب نمائندہ، سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس یا ان کا نمائندہ، سندھ اسمبلی کا ایک نمائندہ، ایک عالم دین (نامزد)، ایک خاتون (نامزد)، ایک ڈین جامعہ کراچی (نامزد) بطور ممبر سنڈیکیٹ اس فورم کا حصہ تھے۔ پوری سنڈیکیٹ میں زیادہ تر افراد منتخب تھے اور چند نامزدگیاں بھی موجود تھیں ۔ ان تمام کے تمام افراد کا تعلق کسی نہ کسی طور پر تعلیم سے تھا۔ یہ ایک حسین امتزاج تھا کہ جس میں طلبہ، اساتذہ، کالج کے اساتذہ اور دیگر مل کر جامعات کی بہتری کے لیے فیصلے کرتے تھے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ 1984ئکے بعد سے طلبہ کی نمائندگی کا سنڈیکیٹ میں طلبہ یونین پر پابندی کے بعد سے جو خاتمہ ہوا تھا اس کی بحالی کے لیے کوئی لائحہ عمل ترتیب دیا جاتا۔ پیپلز پارٹی کے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے پارلیمنٹ میں اپنے اوّلین خطاب میں طلبہ یونین کی بحالی کا اعلان کیا تھا۔ کم از کم دس سال گزرنے کے بعد ہی صرف صوبہ سندھ میں ہی اس پر پیش رفت کی جاتی، لیکن جمہوری دور میں نئے ترمیمی بل کے ذریعے سنڈیکیٹ سے طلبہ کی نمائندگی کا خاتمہ کردیا گیا۔ کالج پرنسپلز اور کالجوں کے اساتذہ کی نشستوں کو سنڈیکیٹ سے ختم کردیا گیا۔ شہر کے میئر کی بطور نمائندہ شہر کی نشست ختم کردی گئی، اس کی جگہ چار بیوروکریٹس، تین نامزد کردہ افراد (وزیراعلیٰ کی جانب سے) اور صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن کو نمائندگی دی گئی۔ یوں نامزد کردہ افراد منتخب افراد سے تعداد میں زیادہ ہوجانے کی بنا پر سنڈیکیٹ کی حیثیت وزیراعلیٰ کی کٹھ پتلی کی سی رہ گئی ہے۔
جامعات کی داخلہ پالیسی بنانے، اس پر عمل درآمد کروانے کا اختیار وزیراعلیٰ سندھ نے اکیڈمک کونسل سے لے کر اپنے پاس رکھ لیا ہے۔ یعنی اب جامعہ کے اساتذہ اس بات کا بھی تعین نہیں کرسکتے کہ کن طلبہ کو کن صلاحیتوں کی بنیاد پر کس شعبے میں داخلہ ملنا چاہیے۔ یہ بات واضح طور پر سمجھ لینے کی ہے کہ جامعات میں داخلے اسکول اورکالجوں کی طرز پر نہیں ہوتے، بلکہ صرف جامعہ کراچی میںہی 52 شعبہ جات اور 18انسٹی ٹیوٹس کے لیے اساتذہ اس بات کا مل کر تعین کرتے ہیں کہ ان کے شعبے میں کس صلاحیت کے حامل طلبہ کی ضرورت ہے جو کہ اس کورس کو پڑھ سکیں۔ اور اس کے ساتھ ہی ساتھ اکیڈمک کونسل اہل طلبہ کے داخلوں کو یقینی بنانے کے لیے مکمل طور پر نگاہ رکھتی ہیں۔ اب کسی کو کہاں اور کیسے داخلہ ملنا چاہیے، اس بات کا تعین بھی وزیراعلیٰ سندھ اس ترمیمی بل 2018 کے بعد خود کریں گے۔
جامعات میں گریـڈ 17اور اعلیٰ گریڈز میں تقرریوں و ترقیوں کے لیے قانون کے تحت سلیکشن بورڈ ز کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے کہ جہاں متعلقہ شعبہ جات کے ماہرین، وائس چانسلر کی سربراہی میں کسی فرد کی اہلیت کو جانچتے ہیں اور اپنی سفارشات سنڈیکیٹ کو بھیجتے ہیں، جو ان سفارشات کی روشنی میں ان افراد کی تقرریوں، ترقیوں کا فیصلہ کرتی ہے۔ لیکن اب ان ترامیم کے بعد نہ صرف سلیکشن بورڈز میں براہِ راست وزیراعلیٰ سندھ کے نمائندے شامل ہوں گے بلکہ اب ان تقرریوں، ترقیوں کا اختیار سنڈیکیٹ سے لے کر وزیراعلیٰ سندھ کو تفویض کیا گیا ہے۔ یعنی اب فردِ واحد ہی تقرریوں اور ترقیوں کا فیصلہ کرے گا ۔ اس کے ساتھ ساتھ اہم ترین ترمیم وائس چانسلرز کی اہلیت کے بارے میں کی گئی ہے کہ جہاں وائس چانسلر کی اہلیت کے ضمن میں یونی ورسٹی پروفیسر یا ایڈمنسٹریٹر کی ترمیم کرکے اس بات کی راہ ہموار کی گئی ہے کہ آئندہ کوئی بھی غیر تعلیمی فرد جامعہ کا وائس چانسلر بن سکے۔ وائس چانسلرکو عہدے سے برطرف کرنے کے لیے مضحکہ خیز طریقہ اختیار کیا جائے گا، اب وزیراعلیٰ وائس چانسلر کو شوکاز نوٹس دے گا اور اس کے جواب کے بعد ہی ازخود فیصلہ کرکے اس کوعہدے سے سبک دوش کردے گا۔ یعنی جو الزام عائد کرے گا وہی فیـصلہ بھی کرے گا۔
ان تمام ترامیم کے بعد جامعات کی خود مختاری مکمل طور پر ختم ہوچکی ہے، کہ جہاں داخلے سے لے کر تقرریوں تک کا اختیار فردِ واحد کے پاس ہو وہاں کیسے کوئی آزاد علمی فضا پروان چڑھ سکتی ہے! جامعات کی ترقی کا راز ہی آزاد علمی و تحقیقی فضا میں مضمر ہے کہ جہاں طلبہ و اساتذہ کسی بھی سیاسی دباؤ سے آزاد ہوکر مختلف نظریات و خیالات سے آگہی حاصل کرسکیں اور اس کی روشنی میں اپنے ملک و قوم کا مستقبل بنا سکیں۔ وہ قومیں جو علمی آزادی پر یقین رکھتی ہیں وہ جامعات کی خودمختاری کو یقینی بنانے کے لیے اپنے تمام وسائل بروئے کار لاتی ہیں، لیکن پاکستان میں علمی آزادی پر قدغن، جامعات کی خودمختاری کا خاتمہ صرف طلبہ، اساتذہ اور ملازمین کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ اس پورے سماج کا مسئلہ ہے کہ جہاں غربت، جہالت، بے روزگاری کا عفریت سر اٹھائے کھڑا ہے، اور اب علمی آزادی پر پابندی لگاکر جامعات کی سطح کو سرکاری اسکول کے برابر لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ مسئلہ محض اہلِ علم کا نہیں ہے بلکہ ہر اُس فرد کا مسئلہ ہے جو تعلیم، سماج اور جہالت سے فکرمند ہے، یہ پوری قوم کا مسئلہ ہے اور اس مسئلے کی جزیات کوسمجھتے ہوئے ہر فرد کو اپنے اپنے دائرے میں آواز اٹھانا ہوگی، ورنہ سندھ کی سرکاری جامعات کا مستقبل سندھ کے سرکاری اسکولوں سے مختلف نہیں ہوگا۔