سینیٹ چیئرمین کا انتخاب، حکمراں مسلم لیگ کی شکست

سینیٹ کے انتخابات نے ملک کے سیاسی پنڈتوں کو یقینی طور پر حیران کیا ہوگا۔ جو نتائج سامنے آئے ہیں اس سے سیاسی پنڈت بآسانی مستقبل کی سیاست کے ماحول کو سمجھ سکتے ہیں، اور ان کو اندازہ ہورہا ہے کہ صورتِ حال کس جانب بڑھ رہی ہے۔ کیونکہ عمومی تجزیہ یہی تھا کہ مسلم لیگ(ن) اور اس کی اتحادی جماعتیں آسانی سے چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں کامیابی حاصل کرکے اپنی پہلے سے موجود سیاسی بالادستی کو اور مضبوط بنا لیں گی۔ مسلم لیگ (ن)کا خیال تھا کہ اگر وہ سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں اپنی برتری قائم کرتی ہے تو اس کا براہِ راست فائدہ اسے عام انتخابات میں ملے گا۔ نوازشریف کا خیال تھا کہ وہ سینیٹ میں بالادستی حاصل کرکے اپنے ووٹروں، حامیوں، اراکین اسمبلی، سیاسی مخالفین اور بالخصوص اسٹیبلشمنٹ کو یہ پیغام دینے میں کامیاب ہوجائیں گے کہ وہی اصل سیاسی طاقت ہیں۔
لیکن سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخابی نتائج نے نوازشریف اور ان کے اتحادی کیمپ کو بڑے صدمے سے دوچار کردیا ہے۔ نوازشریف اور ان کے حامیوں کے بقول سینیٹ کے انتخابات سے لے کر چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب تک ان کے ساتھ پسِ پردہ طاقتوں نے ڈکیتی کی ہے۔ نوازشریف کے لیے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب خاصی اہمیت کا حامل تھا،کیونکہ وہ اس ایوان میں برتری حاصل کرکے کچھ قانونی ترامیم کی مدد سے اپنے لیے ایک محفوظ راستہ تلاش کرنے کا منصوبہ رکھتے تھے، مگر وہ کامیابی حاصل نہیں کرسکے۔
اگرچہ پیپلز پارٹی بظاہر سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب پر بہت خوش ہے۔ اس کے اراکین کا دعویٰ ہے کہ ایک زرداری سب پر بھاری ثابت ہوا ہے۔ لیکن اس خوشی کے پیچھے ایک غم بھی پوشیدہ ہے۔ کیونکہ آصف زرداری کی نظریں اصلاً چیئرمین سینیٹ کی نشست پر تھیں۔ ان کا دعویٰ تھا کہ اِس بار بھی چیئرمین سینیٹ انھی کا نامزد کردہ ہوگا۔ لیکن ان کی امیدوں پر پانی بلوچستان کی صوبائی حکومت، آزاد ارکان اور بالخصوص عمران خان نے پھیر دیا ہے۔ ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) اپنا چیئرمین سینیٹ نہیں لاسکیں۔ پیپلزپارٹی کو بلوچستان حکومت اور عمران خان کی جانب سے نامزد کردہ صادق سنجرانی کی حمایت کی کڑوی گولی ہضم کرنا پڑی ہے۔
پیپلز پارٹی کی حکمت عملی تو یہ تھی کہ اس کا چیئرمین سلیم مانڈی والا ہو، جبکہ ڈپٹی چیئرمین بلوچستان سے ہو، مگر عمران خان نے عملاً کمالِ ہوشیاری سے گیند بلوچستان اور فاٹا کے آزاد ارکان کے کورٹ میں ڈال کر مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کو پیچھے دھکیل دیا اور پہلی بار ملک کی سیاسی تاریخ میں بلوچستان سے سینیٹ کا چیئرمین لانے کی کامیاب راہ ہموار کی۔ اس لیے پیپلز پارٹی کی خوشی مصنوعی ہے۔ پیپلز پارٹی کے پاس سیاسی طور پر یہ آپشن تھا کہ وہ رضا ربانی کو نامزد کرکے چیئرمین سینیٹ کی نشست کو محفوظ بناسکتی تھی۔ مگر آصف زرداری نے اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرائو کے بجائے مفاہمت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے سینیٹ کے چیئرمین کی قربانی دی۔ آصف زرداری کو یہ احساس بھی تھا کہ نوازشریف سیاسی طور پر کمزور وکٹ پر کھڑے ہیں اور ان کی حمایت کرکے وہ اپنے لیے مشکلات پیدا نہیں کرنا چاہتے تھے۔ آصف زرداری عملی سیاست کے کھلاڑی ہیں اور جانتے ہیں کہ انہیں اپنے سیاسی کارڈ کس انداز میںکھیلنے ہیں۔ رضا ربانی اور فرحت اللہ بابر کے خیالات سے ہٹ کر انہوں نے پارٹی کو اقتدار کی جماعت بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس لیے وہ جو بھی فیصلے کررہے ہیں ان کا مقصد اپنی سیاسی طاقت کو کسی اصولی اور نظریاتی سیاست کے مقابلے میں ایک انتظامی صلاحیت میں بدلنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ وہی اصل سیاسی طاقت ہیں اور باقی سب پر بھاری ہیں۔
یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ نوازشریف کا اصل انتخاب رضا ربانی نہیں تھے، انہوں نے پیپلزپارٹی کی جانب محض کارڈ پھینکا تھا، ان کے اصل امیدوار حاصل بزنجو یا پرویز رشید تھے۔ لیکن جب نوازشریف کو آخری لمحات میں پوری طرح یقین ہوگیا کہ وہ چیئرمین سینیٹ کی دوڑ سے باہر نکل گئے ہیں تو راجا ظفرالحق کو نامزد کردیا گیا، اورنوازشریف دوپہر ہی میں اسلام آباد سے جاتی امرا پہنچ گئے۔ اگر انہیں اپنی جیت کا یقین ہوتا تو اپنی فتح کا جشن منانے کے لیے اسلام آباد میں ہی رہتے۔ ایک تاثر حکمران جماعت کی جانب سے یہ دیا جارہا ہے کہ نوازشریف کے خلاف پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کا اتحاد ہوگیا ہے، اور یہ اتحاد اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے ساتھ آگے بھی چلے گا۔ حالانکہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف میں انتخابات، انتخابی مہم یا سیاسی محاذ پر اتحاد کا کوئی امکان نہیں۔ سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں دونوں جماعتیں جو ایک صف میں نظر آئیں اس کی ایک وجہ نوازشریف کا راستہ روکنا تھا۔ عمران خان برملا کہہ چکے تھے کہ وہ کسی بھی صورت میں نوازشریف کا حمایت یافتہ چیئرمین نہیں لانے دیں گے۔ خود آصف زرداری سے زیادہ بلاول بھٹو سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب میں نوازشریف کا راستہ روکنا چاہتے تھے۔ اس لیے اسٹیبلشمنٹ سے زیادہ ان دونوں جماعتوں یعنی پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کی اپنی سیاسی حکمت عملی بھی یہی تھی کہ نوازشریف کا راستہ روکنا ہے، جو کامیاب ثابت ہوئی۔ اس لیے سینیٹ کے انتخابات میں جو کچھ نوازشریف کے خلاف ہوا اس میں نوازشریف دشمنی کا پہلو نمایاں نظر آتا تھا، لیکن یہ کوئی ایسی بات نہیں کہ اس میں سازش کا پہلو تلاش کیا جائے۔ کیونکہ ہر سیاسی جماعت اپنی حکمت عملی اپنا ہدف سامنے رکھ کر تیار کرتی ہے۔ عمران خان کو اندازہ تھا کہ پیپلز پارٹی اگر ساتھ نہیں دے گی تو نوازشریف کے حمایت یافتہ چیئرمین کا راستہ نہیں رک سکے گا۔ لیکن عمران خان کسی بھی صورت میں براہِ راست پیپلز پارٹی کے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے تیار نہ پہلے تھے اور نہ اب ہیں۔ اسی لیے عمران خان نے نوازشریف کو روکنے اور زرداری کو پھنسانے کا راستہ اختیار کیا اور بلوچستان حکومت کو سخت پیغام دیا کہ اگر وہ ثابت قدم رہے تو چیئرمین بلوچستان سے ہوگا اور آصف زرداری کے پاس بھی اس کی حمایت کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ اس لیے جو دوست پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان نئے سیاسی رومانس کو تلاش کررہے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔
عمران خان کو بخوبی اندازہ ہے کہ پیپلزپارٹی نے نوازشریف کے ساتھ مفاہمت کا جو راستہ اختیار کیا اُس نے پنجاب میں پیپلز پارٹی کے سیاسی وجود کو ہی ختم کرڈالا۔ عمران خان سمجھتے ہیں کہ ان کی کامیابی کا امکان ان دونوں قوتوں کو چیلنج کرنے میں ہے۔ البتہ عام انتخابات کے بعد اگر مخلوط حکومت کے تناظر میں کوئی اتحاد ہوتا ہے تو اس کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس حالیہ سیاست میں بلاول بھٹو نے خود کو زرداری کی سیاست کے ساتھ کھڑا کرکے اپنی مستقبل کی سیاست پر بھی سوالیہ نشان کھڑے کیے ہیں۔ وہ خود اس وقت اسٹیبلشمنٹ کی سیاست کے قریب پائے جاتے ہیں۔ سینیٹ کے اندر چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں جو راستہ پیپلز پارٹی نے اختیار کیا اُس پر اس کے نظریاتی اور لبرل ساتھی خاصے نالاں نظر آتے ہیں، اور ان کی جانب سے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ زرداری نے جمہوریت کے مقابلے میں اسٹیبلشمنٹ کا راستہ اختیار کیا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ طاقت کی اس ساری لڑائی کو ہم بلاوجہ جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ حالانکہ سب کے سامنے اپنے اپنے مفادات کی سیاست تھی، اور اس میں کچھ لوگ کامیاب اورکچھ ناکام ہوئے ہیں۔
ایک دلیل حکمران طبقے اور ان کے حامیوں کی جانب سے یہ دی جارہی ہے کہ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخابی نتائج کا سارا اسکرپٹ اسٹیبلشمنٹ نے لکھا ہے، اور اس کے حمایت یافتہ کرداروں نے اس میں رنگ بھرا ہے۔ یقینی طور پر ہمیں اسٹیبلشمنٹ کے عمل کو سیاسی تنہائی میں نہیں دیکھنا چاہیے۔ ممکن ہے انہوں نے بھی رنگ بھرا ہو۔ لیکن اس کے باوجود جو کچھ بھی ہوا ہے وہ نئی سیاسی ضرورتوں کا بھی احاطہ کرتا ہے۔ ہر جماعت نے کسی کی حمایت کی یا کسی کی مخالفت کی، اس کے پیچھے جمہوریت سے زیادہ خود ان کے حال اور مستقبل کے تناظر میں مسائل اور امکانات ہیں۔ سیاسی محاذ پر سیاسی جماعتیں گھاٹے کا سودا کرنے کے بجائے اپنے سیاسی مفادات کو تقویت دیتی ہیں۔
بہرحال سینیٹ کے نئے ارکان سمیت چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخابات کے بعد اب سیاسی قوتوں کا اصل میدان متوقع طور پر 2018ء کے عام انتخابات ہیں۔ سیاسی محاذ پر ایک نئی صف بندی بھی ہوگی۔ لیکن اس وقت سب سے اہم سوال نوازشریف اور اُن کے خاندان کے دیگر افراد کے خلاف جاری مقدمات کا فیصلہ اور نیب اور عدالتوں کی جانب سے جاری احتساب کی مہم ہے۔ اگر عام انتخابات سے قبل احتساب کا یہ دائرہ پھیلتا ہے اور اس کے نتائج بھی دیکھنے کو ملتے ہیں تو سیاسی محاذ پر بڑی تبدیلیاں نمودار ہوسکتی ہیں۔ پہلے ہی سیاست دانوں اور بیوروکریسی میں ایک خوف کی فضا قائم ہے کہ کہیں وہ قانون کی گرفت میں نہ آجائیں۔ سیاسی جماعتوں اور بالخصوص حکمران جماعت میں یہ خوف موجود ہے کہ کہیں عام انتخابات سے قبل احتساب کا عمل ان کی انتخابی مہم پر منفی اثر نہ ڈال دے۔ اسی لیے دلیل دی جارہی ہے کہ قانونی احتساب کو بند کیا جائے اور عوامی عدالت میں یہ فیصلہ ہونے دیں کہ عوام کس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ لیکن اب جو نئی صورتِ حال بن رہی ہے اور جس انداز سے اداروں کو عوامی تائید مل رہی ہے اس سے اداروں میں بھی ایک نئی حرارت پیدا ہوئی ہے۔ عدلیہ کے عمل کو تو ایک بڑے جوڈیشل ایکٹوازم کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ سینیٹ کے انتخابات نے انتخاب لڑنے اور جیتنے والوں کو واضح پیغام دیا ہے کہ نوازشریف کی سیاست ناگزیر نہیں، اور ان کی متبادل سیاست کے امکانات بھی ابھر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت ملک میں انتخاب لڑنے والے نئے حالات میں نئے فیصلوں کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔کئی لوگ نئی سیاسی اڑان کے لیے بھی تیار کھڑے ہیں، جس سے ملک میں نئی سیاسی تبدیلیوں کی طرف پیش قدمی کے واضح اشارے ملتے ہیں۔ اس لیے سینیٹ کے انتخابات سے قبل جو سیاسی صورت حال نظر آرہی تھی وہ اب یکسر بدل رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتی کیمپ میں خاصی مایوسی نظر آتی ہے اور خود نوازشریف برملا کہہ رہے ہیں کہ ان کا سیاسی راستہ روکا جارہا ہے۔ کہا جارہا تھا کہ نوازشریف کے متبادل ان کے بھائی شہبازشریف ہوں گے، یہ بھی اب آسان نظر نہیں آرہا، اور خود شہبازشریف کو بھی قانونی محاذ پر کئی طرح کی مشکلات کا سامنا ہے۔ بہرحال اب دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا واقعی عام انتخابات بروقت ہوسکیں گے؟ اور اگر ہوتے ہیں تو اس کی انتخابی شکل کیا ہوگی۔ کیونکہ نئی حلقہ بندیوں پر کئی اعتراضات اٹھ رہے ہیں اور دلیل دی جارہی ہے کہ اس کو بنیاد بناکر انتخابی عمل ملتوی ہوسکتا ہے۔ اس وقت بڑا چیلنج بروقت، منصفانہ اور شفاف انتخابات کا ہے۔ اگر سیاسی جماعتیں اس چیلنج سے بہتر طور پر نمٹ سکیں اور انتخابات بروقت ہوگئے تو یہ جمہوری سیاست کے عمل کو آگے بڑھانے میں مدد دیں گے۔ مگر سینیٹ کے انتخابات کے باوجود ایک غیر یقینی صورت حال عام انتخابات کے تناظر میں بدستور موجود ہے جو جمہوریت کے لیے اچھا شگون نہیں۔