معاشرتی اقدار کسی بھی معاشرے کی بنیادی اساس ہیں اور تہذیب واقدار کی اصل محافظ عورت ہے۔ خاندان کی تربیت اور نسلوں کی تراش خراش کی ذمہ داری عورت پر ہے۔ اس لیے ہر تہذیب اور معاشرے کا بنیادی ستون عورت ہی ہے۔ اسلام نے عورت کو ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کی حیثیت سے قابلِ فخر مقام و مرتبہ دیا ہے اور نسلِ نو کی تربیت اس کے سپرد کرکے اسے کائنات کی معتبر ہستی بنادیا۔ نسلِ انسانی کی تخلیق کا گراں بار فریضہ عورت کے مقامِ بلند کی دلیل ہے۔ عورت کی اسی عظمت اور اہمیت کے پس منظر میں خواتین کے عالمی دن کے موقع پر انٹرنیشنل مسلم وومن یونین کے پلیٹ فارم سے چار روزہ ’’عالمی خواتین کانفرنس‘‘ کا لاہور میں انعقاد کیا گیا۔کانفرنس میں انڈونیشیا، سوڈان، فلسطین، سری لنکا، کشمیر، عراق، نائجیریا، یوگینڈا، ایران، تھائی لینڈ، چین، ناروے، اٹلی،ترکی، اردن، لبنان اور پاکستان سے خواتین شریک ہوئیں۔ کانفرنس سے اپنے افتتاحی خطاب میں صدر مسلم وومن یونین ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے اغراض و مقاصد بتاتے ہوئے کہا کہ ایک طرف عورت نرم و نازک، وفا کا پیکر اور وجۂ سکون ٹھیرائی گئی ہے، دوسری طرف وہی عورت نسلوں اور قوموں کے دلوں کو جوڑتی اور وفا کا درس دیتی ہے۔ اس عورت کے مقام و مرتبے اور تہذیب کے اس اہم ستون کو مضبوط بنانے کے لیے اس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ہے۔ عظیم الشان عالمی خواتین کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امیرجماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ تعلیم یافتہ عورت ہی ترقی یافتہ قوم کی ضمانت ہے۔ عورتوں کے استحصال کے خاتمے کے لیے بین الاقوامی سطح پر خواتین کو منظم کرنے کی ضرورت ہے، الیکشن کمیشن ایسے امیدوار کو الیکشن لڑنے کی اجازت نہ دے جس نے اپنی بہن اور بیٹی کو وراثت میں اس کا حق نہ دیا ہو۔ جاگیردار، وڈیرے اور سرمایہ دار اپنی جاگیریں، اثاثہ جات اور بینک بیلنس بچانے کے لیے بیٹیوں اور بہنوں کو وراثت سے محروم رکھتے ہیں۔ مغرب نے خواتین کے حقوق کو پامال اور انہیں باپ، بھائی اور بیٹے کی محبت سے محروم کیا، برابری کے نام پر عورت کا بدترین استحصال کیا گیا، اور بڑی چالاکی سے معاشی بوجھ بھی عورت کے کندھوں پر ڈال دیا گیاہے۔ مغرب اپنی شیطانی تہذیب کو مسلط کرنے کے لیے مسلم دنیا کے حکمرانوں کے ذریعے ہمارے خاندان کے قلعے کو مسمار کرنا چاہتا ہے۔ خواتین کو اسلام نے ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے رشتوں کے حوالے سے جو احترام دیا ہے اس کی مثال دوسرے کسی مذہب اور تہذیب میں نہیں ملتی۔ خواتین پر تشدد کرنے والے سے بڑھ کر کوئی بزدل نہیں ہوسکتا، ایسے ظالموں کو سخت ترین سزائیں دی جانی چاہئیں۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے اپنے کلیدی خطاب میں مزید کہاکہ خواتین کے حقوق کی ضمانت صرف اسلامی نظام دے سکتا ہے، جماعت اسلامی اقتدار میں آئی تو خواتین کو وراثت میں ان کا حق دلائے گی اور جہیز، قرآن سے شادی اور ونی جیسی رسومات کو ختم کرکے بچیوں کے لیے تعلیم کو لازمی قرار دے گی۔ اسلامی حکومت میں آبادی کے52 فیصد کو وسائل بھی ان کی تعداد کے مطابق دیئے جائیں گے، اگر اللہ نے ہمیں موقع دیا تو خواتین کے لیے علیحدہ یونیورسٹیاں اور تعلیمی ادارے بنائیں گے۔ اسلامی حکومت خواتین کو بلاسود قرضے دے گی تاکہ وہ گھریلو دستکاریوں اور چھوٹی صنعتوں کے ذریعے ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ خواتین کے لیے ہسپتالوں، ریلوے اسٹیشنوں اور ہوائی اڈوں پر علیحدہ کاؤنٹر بنائے جائیں گے تاکہ خواتین بغیر کسی جھجک کے اپنے امور سے عہدہ برا ہوسکیں۔ قومی سطح پر خواتین کے حقوق کے تحفظ سے ہی عورت کو احترام اور اعتماد دیا جاسکتا ہے۔ سراج الحق نے کہا کہ حکمران امریکہ اور مغرب کو خوش کرنے کے لیے مسلمان خواتین سے حجاب جیسی نعمت چھین لینا چاہتے ہیں۔ شیطان نے حضرت آدم اور حضرت حوا کو بے لباس کرکے جنت سے نکلوایا تھا اور آج اس کے چیلے انسانیت کو بے لباس کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں قرآن و حدیث کی روشن تعلیمات سے اپنے گھروں کو منور کرنے کی ضرورت ہے۔ معاشرے کو جہالت،کرپشن، بدامنی، دہشت گردی، غربت، مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل سے نجات دلانے کے لیے ہمیں خواتین کو اعتماد اور ان کے حقوق دینا ہوں گے۔
خواتین کانفرنس سے خطاب میں سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی خواتین دردانہ صدیقی نے کہا کہ قوموں کی تعمیر و ترقی کا تصور عورت کے مؤثر کردار کے بغیر ممکن نہیں۔ ماں کی گود کا نعم البدل نہیں۔ عورت اپنے فطری دائرۂ کار میں رہتے ہوئے قوموں کی ترقی میں بہترین کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اسلامی احکامات کی روشنی میں مرد و عورت کے باہمی اشتراک سے تمدن اور معاشرت کا نظام قائم ہوتا ہے۔ قومی سطح پر سفارشات مرتب کرتے ہوئے قرآن و سنت کو بنیاد بنایا جائے۔ انڈونیشیا کی ڈاکٹر نور سنیتا نے کہا کہ سیکولر نظام تعلیم نے مذہب سے سائنس کو الگ کردیا ہے۔ والدین عام طور پر اس بات سے لاعلم ہوتے ہیں کہ تعلیمی ادارے اُن کے بچوں کو کون سی تعلیم دے رہے ہیں۔ نوجوان ہمارا مستقبل ہیں۔ ان کی بہترین تعلیم و تربیت ملک و قوم کے لیے فائدہ مند ہوسکتی ہے۔ سیکولر نظام تعلیم کے مقابلے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کا گہرا مطالعہ کریں اور اپنے بچوں کو بھی اسلام سے متعلق آگاہی دیں۔ لبنان کی ڈاکٹر رابعہ یلماز نے کہا کہ اس وقت جنگ کی وجہ سے بہت سی عورتیں اور بچے متاثر ہورہے ہیں۔ عورتوں کے خلاف ہر طرح کی دہشت گردی ہورہی ہے۔ اس کو مل کر روکنا ہوگا۔ سوڈان کی سابق پارلیمنٹیرین ڈاکٹر عفاف احمد نے عورتوں کے حقوق کے حوالے سے سوڈان میں اپنے کیے گئے کام پر روشنی ڈالی۔ اس موقع پر حلیمہ وقابی اکبر (یوگینڈا)، رابعہ یلماز (ترکی)، سعدی کاسمیاق (ترکی)، کلثوم رانجھا، ثمینہ سعید، ساجدہ احسان (پاکستان)، زین العابدین محامنداوار (سری لنکا)، ڈاکٹر نصیحہ امین (سری لنکا)، ہیام ابوالعدس (اردن)، عائچہ یکان (لبنان)، حداد بلال (لبنان)، ہالہ محغوب (سوڈان)، ڈاکٹر عفاف احمد محمد حسیین (سوڈان)، ڈاکٹر نادیہ، سیتی ہانا حرن عبیداللہ (انڈونیشیا)، سیتی نرسانیتا (انڈونیشیا)، امانے لبث (انڈونیشیا) نے بھی خطاب کیا اور تعمیرِ امت اور معاشرے میں عورت کے کردار اور معاشی خود انحصاری، عالمی تنازعات اور امن سازی، شدت پسندی اور دہشت گردی کا سدباب، اختلافی نظریات، شمولیت اور بین العقاد، پُرامن بقائے وجود سمیت مختلف مقالہ جات پیش کیے، جس سے یہ اہم نکات سامنے آئے کہ انتہاپسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ، بین الاقوامی مسالک اور بین المذاہب مکالمہ، قوموں کی ترقی، علمی میدان، خاندان کے استحکام، صحت عامہ، سماجی کردار، اخلاقی اقدار، معاشی استحکام میں عورت کا کردار، بقائے باہمی میں یکجہتی اور عالمی تنازعات میں امن عامہ کا کردار، جس میں عالمی خواتین کانفرنس کے شرکا اس بات پر متفق ہیں کہ عورت تہذیبوں کی اصل محافظ اور اقدار و روایات کی امین ہے۔ عورت طاقت ہے، اگر وہ اپنی ذمہ داری کے منصب سے واقف ہو تو معاشرے میں انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عورت کے لیے ذہنی، فکری اور جسمانی سکون بہت ضروری ہے، تاکہ وہ آسودگی کے ساتھ خاندان اور معاشرے کے استحکام کے لیے اپنا کردار ادا کرسکے۔ ایک مقالے سے یہ بات سامنے آئی کہ شام، یمن، فلسطین، کشمیر، برما ہر جگہ جاری جنگوں سے عورت براہِ راست متاثر ہورہی ہے جس کے نقصانات واضح ہیں۔ بچوں اور خواتین کی زندگیاں بھی محفوظ نہیں۔ دنیا میں جاری جنگ و جدل عورت کی تباہی کا پیغام ہے۔ عورت محفوظ نہیں ہوگی تو تہذیبیں زمین بوس ہوجائیں گی۔ ہمیں اعتدال پر مبنی پُرسکون معاشرہ قائم کرنے کے لیے عورت کو محبت کے ساتھ حفاظت، امن اور احترام کا ماحول فراہم کرنا چاہیے تاکہ نسلِ انسانی کی تعمیر باوقار انداز میں ہوسکے۔ اس موقع پر مشترکہ اعلامیہ بھی پیش کیا گیا جس میں مطالبہ کیا گیا کہ:
ضرورت اس امر کی ہے اور یہ کانفرنس کا مطالبہ بھی ہے کہ قومی ترقی کے عمل میں خواتین کی مؤثر اور فعال شرکت کی ہر سطح پر حوصلہ افزائی کی جائے۔ خواتین کو اسلام کے تفویض کردہ حقوق (وراثت، مہر، تعلیم، صحت) کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے، جاہلانہ رسوم پر مبنی تمام رویوں اور اقدامات کی بیخ کنی کی جائے، تعلیمی اداروں اور ملازمت کی جگہوں پر محفوظ ماحول فراہم کیا جائے، خواتین ورکرز کے تحفظ اور مراعات سے متعلق قوانین پر مؤثر عمل درآمد کا نظام بنایا جائے، خواتین اور بچیوں سے زیادتی کے واقعات پر مجرموں کو کڑی سزائیں دی جائیں، خواتین کی تعلیمی سرگرمیوں کو قومی اور معاشرتی ضروریات اور تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے متعلقہ وزارتیں فوری اور مؤثر اقدامات کریں۔ میڈیا کے حوالے سے اس بات کا مطالبہ کیا گیا کہ عورت تہذیبی اقدار کی بنیاد ہے، لہٰذا ذرائع ابلاغ پر عورت کا مثبت کردار اجاگر کیا جائے اور اسے محض اشتہاری صنعت میں بطور نمائش استعمال نہ کیا جائے۔