سینیٹ انتخابات مکمل ہوئے اور چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کا مرحلہ بھی مکمل ہوچکا ہے۔ ان انتخابات کے پہلے مرحلے میں سینیٹرز کے انتخاب نے بہت سے سوالات اٹھائے لیکن اب چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے بعد تو ایک سے بڑھ کر ایک سوالیہ نشان ہر رکن سینیٹ کے سامنے آن کھڑا ہوا ہے۔ یہ سلسلہ آئندہ عام انتخابات تک جاری رہے گا۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوگا؟ اس سوال کے جواب کے لیے اہلِ سیاست کو اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا۔ ملک کی سیاست کے خاکے میں آج جو رنگ بھرا جارہا ہے ماضیٔ قریب کے واقعات کا اس سے بہت گہرا تعلق ہے۔ بلاشبہ پاکستان ایک اسلامی جمہوری ملک ہے، لیکن جمہوریت کا نام لینے سے جمہوریت نہیں آجاتی، اس کے لیے رویّے تبدیل کرنا ہوتے ہیں، کاروباری مفاد کے بجائے قومی مفادات کی مالا گلے میں ڈالنا ہوتی ہے، اور قومی سلامتی کے لیے اقدامات اٹھانا پڑتے ہیں۔ جمہوریت جمہور سے بنتی ہے۔ اِن جمہور کی بنیادی ضروریات تعلیم، صحت، صفائی، روٹی، کپڑا، رہائش، انصاف اور اخلاقیات اگر کوئی ادارہ نہیں دے سکتا تو وہ اِن کے سر کا تاج بھی نہیں بن سکتا۔ جمہور کے سر کا تاج وہی ہوگا جو ان سب باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے فرائضِ منصبی ادا کرے گا خواہ وہ عدلیہ ہو یا پارلیمنٹ، اصل محبوب وہی ہے جو اپنی محبوبہ کے ناز نخرے اٹھائے۔ ہمارے ملک میں حقیقی جمہوریت نہیں آئی، ہاں البتہ پنپ ضرور رہی ہے، اور ایک وقت ایسا آئے گا جب اسے مکمل عروج حاصل ہوگا۔ پاکستانی جمہوریت کی بہت فرسودہ حالت ہے۔ تمام سیاست دان جمہوریت کو اپنے اپنے مفاد کی خاطر استعمال کررہے ہیں۔ جب تک لوگوں کو جمہوریت اور ووٹ کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوگا انتخابات کے نتائج یہی رہیں گے۔ ایسے میں عوام جمہوریت کو کس طرح سمجھ سکتے ہیں! یہاں سیاسی جماعتیں اپنے اپنے مفادات کو جمہوریت کہتی ہیں۔
ہماری جمہوریت کے ساتھ ایک مسئلہ یہ ہے کہ سیاست دان اقتدار اور حقِ حکومت میں فرق نہیں کرپائے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ اب جمہوریت کو سمجھنے والے جمہوری رہنما ہی نہیں رہے، سیاست میں اُن کی جگہ ایسے بدنما کرداروں نے لے لی ہے جو ذاتی کاروبار کے تحفظ کے لیے سیاست میں آئے ہیں۔ اس وقت جمہوریت کا محافظ دور دور تک نظر نہیں آرہا۔ سیاست دان جب بھی خلا پیدا کرتے ہیں، اس خلا کو پُر کرنے کے لیے کوئی قوت میدان میں آجاتی ہے، اور اِس وقت یہی ہورہا ہے۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کھل کر سامنے کھڑی ہے اور عوام کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے قانون اور آئین کے دیے ہوئے ہتھیاروں سے لیس میدان میں اتر آئی ہے۔ اس کی پشت پر کون ہے؟ اسٹیبلشمنٹ یا رائے عامہ کی حمایت؟ دونوں ہی ہیں۔
سینیٹ کے انتخابات اور فوج کے سربراہ کی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو گزشتہ ہفتے کے انتہائی اہم موضوعات ہیں، اور یہ ملکی سیاست اور قومی سلامتی سے جڑے ہوئے ہیں۔ سینیٹ انتخابات کے پہلے مرحلے میں سینیٹرز منتخب ہوئے تو چمک کے الزامات بھی سامنے آئے جن کی تحقیقات ہونی چاہیے تھی، لیکن نہیں ہوئی۔ سینیٹ انتخابات کی بازگشت قومی اسمبلی میں بھی سنی گئی۔ ارکانِ اسمبلی نے سینیٹ انتخابات میں ووٹ کے لیے بھاری رقوم کے استعمال کے الزامات پر تشویش ظاہر کی۔ انتخابات میں زر اور زور کا استعمال کیا گیا، ووٹ خریدا گیا اور ڈرایا گیا۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ اگر سینیٹ میں زر اور زور کا استعمال ہوگا تو پاکستان کی جڑیں کمزور ہوجائیں گی، بلوچستان میں ارکان کو ڈرایا دھمکایا گیا، ہم جمہوریت کے ساتھ ہیں، ہمارا آئین کہتا ہے کہ اگر کوئی آئین کی خلاف ورزی کرے تو اُس سے نمٹنا چاہیے، ہمیں مجبور نہ کیا جائے کہ ہم گلیوں میں نکل آئیں۔ سید نوید قمر نے کہا کہ ہمارے سیاسی نظام میں کمزوریاں ضرور ہیں، اگر حکومت پہلے دن سے ہی پارلیمنٹ کو اہمیت دیتی تو شاید ہم یہ دن نہ دیکھتے۔ جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ رواں جو سینیٹ الیکشن ہوا ہے وہ انتہائی غلیظ اور غیر شفاف ہوا ہے جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی، سینیٹ میں اُن لوگوں کو لایا گیا جو اربوں کے مالک تھے، کے پی کے میں ایک پارٹی کے 7 ممبر ہوتے ہیں اور وہ دو سیٹیں نکال لیتی ہے، اور ایک پارٹی کے پاس15سیٹیں تھیں وہ ایک سیٹ نکال پائی، کے پی کے میں الیکشن کی پُرزور مذمت کرتے ہیں، تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو بلاکر حلف لیں کہ انہوں نے سینیٹ انتخابات میں پیسے دئیے ہیں یا نہیں؟ جے یو آئی کی نعیمہ کشور نے کہا کہ سینیٹ کے موجودہ انتخابات سے ملک میں جمہوریت کا جنازہ نکل گیا ہے، ہم نے انتخابی اصلاحات میں الیکشن کمیشن کو طاقتور بنایا ہے، الیکشن کمیشن اس کا نوٹس لے اور پتا چلایا جائے کہ کہاں کہاں پیسہ چلا اور کس کس نے پیسے لیے۔
سینیٹ انتخابات پر اٹھنے والے سوالوں کے جواب تو نہیں ملے اور اسی دوران سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کا مرحلہ بھی گزر گیا۔ یہ مرحلہ اس قدر کٹھن تھا کہ ہر رکن نے سیاسی پلِ صراط سے گزر کر ووٹ ڈالا۔ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں ہر لمحہ صورتِ حال تبدیل ہوتی رہی، پہلے مرحلے میں تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی میں اتفاق ہوا، لیکن اس اتفاقِ رائے کے بعد پیپلزپارٹی نے کوشش کی کہ آزاد ارکان کو پارٹی میں شامل کرلیں۔ جب یہ کوشش ہوئی تو عمران خان پلٹا کھا گئے کہ ہماری جماعت پیپلزپارٹی کو ووٹ نہیں دے گی۔ پھر فیصلہ ہوا کہ دونوں جماعتوں کو فیس سیونگ ملے گی۔ پیپلزپارٹی نے چیئرمین کے لیے تحریک انصاف کے امیدوار صادق سنجرانی اور ڈپٹی چیئرمین کے لیے سلیم مانڈوی والا کے نام دے دیے، اور یوں بازی پلٹ گئی۔ اس عہدے کے لیے مسلم لیگ(ن) کا دعویٰ تھا کہ اس کے پاس سینیٹرز کی مطلوبہ تعداد موجود ہے، لیکن اس کے پاس یہ تعداد نہیں تھی، بلکہ اسے 52 ارکان کی حمایت میسر تھی۔ اس میں بھی جے یو آئی، فاٹا کے دو اور متحدہ کے ارکان کے علاوہ مسلم لیگ(ن) کی حمایت یافتہ کلثوم پروین نے مسلم لیگ(ن) کے فیصلے کے برعکس ووٹ دیا۔ یوں مسلم لیگ(ن) کے امیدوار راجا ظفرالحق کامیاب نہیں ہوسکے۔ اگر رضا ربانی کے نام پر اتفاق ہوجاتا تو سینیٹ میں رضا ربانی اور مولانا غفور حیدری کی صورت میں پرانا سیٹ اَپ ہی جاری رہتا۔ رضا ربانی کے لیے مسلم لیگ(ن) نے غیر مشروط حمایت دی تھی لیکن پیپلزپارٹی کے پالیسی چیئرمین آصف علی زرداری نے یہ پیش کش مسترد کردی اور اس کے بعد تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی اور آزاد سینیٹرز کے اتحاد پر مہر ثبت کردی گئی۔
اگرچہ آزاد، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف پر مشتمل گروپ نے مل کر انتخاب میں حصہ لیا، تاہم تحریک انصاف اس کھیل میں پیپلزپارٹی کے مقابلے میں خسارے میں رہی کہ چیئرمین کا منصب آزاد سینیٹرز لے گئے اور پیپلزپارٹی ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ اپنے پاس رکھنے میں کامیاب رہی۔ صادق سنجرانی کی کامیابی کا اعلان ہوا تو گیلریوں سے ’’ایک زرداری سب پہ بھاری‘‘ کی نعرے بازی ہوئی جبکہ تحریک انصاف کے سینیٹرز کے ڈیسک پر خاموشی رہی۔ یہاں ایک سوال عمران خان سے ہے کہ وہ مغربی جمہوریت کا بہت حوالہ دیتے ہیں، اس کی خوبیاں بھی بیان کرتے ہیں، لیکن خود یہ فیصلہ کیا کہ 13 سینیٹرز آصف علی زرداری کی جھولی میں ڈال دیے، اور فیصلے کا اختیار بھی انہیں دے دیا! عمران خان کی اس حکمت عملی اور ناپختہ سیاسی سوچ نے انہیں اس کھیل میں پیپلزپارٹی کے مقابلے میں پیچھے چھوڑا ہے۔ عمران خان کے مقابلے میں پیپلزپارٹی نے بہتر کارڈ کھیلے اور وہ آخری وقت تک دونوں جانب کھیلتی رہی۔ پیپلز پارٹی نے بلوچستان کے آزاد ارکان کی جانب سے امیدوار سامنے لانے کے معاملے کو بھی اپنی مشاورت کا حصہ بنایا۔ نوازشریف کی پیشکش مسترد کرنے کے باوجود راستہ کھلا رکھا، اور جہاں زیادہ فائدہ ملا وہاں حتمی فیصلہ کردیا۔
اب سوال یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے راجا ظفرالحق اور اس کے حمایت یافتہ عثمان کاکڑ کو اس انتخاب میں کیوں شکست ہوئی؟ مسلم لیگ(ن) کو جے یو آئی اور نیشنل پارٹی کی حمایت حاصل تھی، لیکن عین آخری مرحلے میں ’’جن پر تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے‘‘ والی بات ہوئی۔ جے یو آئی کے لیے سینیٹر چودھری تنویر احمد، سینیٹر مشاہد اللہ کی کوشش رائیگاں گئی، تاہم جماعت اسلامی کے ووٹ کے لیے خواجہ سعد رفیق متحرک رہے۔
اگر اس بات کا تجزیہ کیا جائے کہ مسلم لیگ(ن) کے راجا ظفر الحق کیوں منتخب نہیں ہوئے اور پیپلزپارٹی رضا ربانی کو اس منصب کے لیے اپنا امیدوار کیوں نامزد نہیں کرسکی، اس تجزیے کے لیے روشنائی آئین سے باہر رہ کر سیاسی جماعتوں کو دبائو میں لانے والے قلم میں ڈالنا ہوگی، کیونکہ فیصلہ یہی تھا کہ اِس بار چیئرمین سینیٹ کا منصب کسی بڑی سیاسی جماعت کو نہیں دیا جائے گا، تاکہ کوئی بھی سیاسی جماعت پارلیمنٹ میں بے لگام اختیارات اور پارلیمانی قوت حاصل نہ کرسکے، لہٰذا توازن لانے کے لیے بلوچستان سے صادق سنجرانی کا انتخاب اس لیے بھی کیا گیا کہ ان کا انتخاب بلوچستان میں پہاڑوں پر جانے والوں کے لیے ایک پیغام بھی ہے کہ وہ آئین، جمہوریت اور پارلیمنٹ کی جانب آئیں اور اپنے حقوق آئین و جمہوریت کے تحت پارلیمنٹ کے ذریعے حاصل کریں۔ اس منصوبے کا پہلا حصہ وہ تھا جب ڈاکٹر عبدالمالک کو صوبے کا وزیراعلیٰ بنایا گیا تھا، لیکن سیاسی جماعتوں کی مجبوریوں نے باری باری کی ٹرم کے نام پر ڈاکٹر عبدالمالک کا ساتھ راستے میں ہی چھوڑ دیا۔ پیپلزپارٹی مقتدر قوتوں کی حمایت کے بدلے مستقبل میں اب سندھ میں تو اپنا حصہ وصول کرے گی ہی، اس کے ساتھ پنجاب میں بھی اسے کسی حد تک سرخرو کیا جائے گا، لیکن یہ خیال رکھا جائے گا کہ کوئی سیاسی جماعت اتنی طاقت ور نہ بن جائے کہ اس کا جن بوتل میں بند ہی نہ ہوسکے، اور نہ اتنی کمزور ہو کہ پارلیمنٹ میں اکثریت کو چیلنج نہ کرسکے۔
سینیٹ کے انتخابات کے بعد اب اگلا منصوبہ ملک میں ایک معلق پارلیمنٹ لانے کا ہے، اور اس سال جولائی کے بجائے ستمبر میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد پارلیمنٹ سے وزیراعظم کا انتخاب بھی اسی طرح ہوگا جیسے چیئرمین سینیٹ کا ہوا ہے۔ اب جو کچھ بھی ہوگا جمہوریت کے نام پر ہی ہوگا۔ اسٹیبلشمنٹ کو بھی سمجھ میں آگیا ہے کہ پاکستان کی ترقی جمہوریت میں ہے، نہ کہ آمریت میں۔ اور عوام بھی آمریت کو ناپسندکرتے ہیں، لہٰذا سدھائی ہوئی جمہوریت اب پاکستان پر راج کرے گی اور مزاحمت کرنے والا راندۂ درگاہ ہوجائے گا۔
ملک کی سیاست کا نقشہ کیسا ہوگا یا کیسا ہونا چاہیے، اس کا اظہار فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی گزشتہ ہفتے میڈیا کے نمائندوں سے ہونے والی گفتگو سے کیا جاسکتا ہے جس کے چیدہ چیدہ نکات ٹکڑیوں کی صورت میں سامنے آرہے ہیں۔ جمہوریت اور پارلیمنٹ کی جو بھی ترجیح اور مجبوری ہو، وہ اپنی جگہ… فوج سیاست اور پارلیمانی امور میں کچھ اصلاحات چاہتی ہے، اس کا خیال ہے کہ گورننس کو درست کرنے کے لیے پارلیمنٹ کو پولیس ایکٹ 1861ء اور اٹھارہویں ترمیم پر نظرثانی کرنی چاہیے، کیونکہ دنیا میں جیسے جیسے سوسائٹی پنپتی ہے اور نئے نئے چیلنج سامنے آتے ہیں ویسے ویسے چیزوں میں تبدیلی کی جاسکتی ہے۔ اسے نیشنل ایکشن پلان کے 20 نکات پر عمل درآمد سے متعلق بھی تحفظات ہیں، پولیس اور سویلین اداروں کی ناقص کارکردگی کا بھی شکوہ ہے۔ لیکن فوج ملک میں عدلیہ کے وقار اور جمہوریت کی حامی ہے۔ عدالت کے حوالے سے اس کی پختہ سوچ یہ ہے کہ کسی کو بھی اس کی توہین کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ فوج ملک کے ٹیکس نظام میں بہتری لانے کی حامی ہے اور منی لانڈرنگ جیسے فعل کو ملکی معیشت کے لیے زہرِ قاتل سمجھتی ہے۔ اور سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ اسے تشویش ہے کہ ملک گرے لسٹ میں کیوں ڈال دیا گیا ہے، وہ سمجھتی ہے کہ پُرتشدد شدت پسند عالمی سطح پر ملک کا امیج خراب کررہے ہیں، ان سے چھٹکارہ حاصل کرنا ہوگا، دوسرے لفظوں میںکسی نان اسٹیٹ ایکٹر کو کسی بھی طرح کی کارروائی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
یہ تو تھی ایک سوچ، جو سیاست دانوں کی طرح چوکوں چوراہوں میں اپنا مدعا بیان نہیں کرسکتی۔ بہرحال وہ منہ میں زبان رکھتی ہے۔ اس کے مقابلے میں ملک میں جمہوری قوتیں ہیں، ان کا اپنا میثاق ہے۔ پیپلزپارٹی بھٹو کے نام کو نظریہ سمجھتی ہے اور ان کی پھانسی کو مغرب کی سازش قرار دیتی ہے، اس کے برعکس مسلم لیگ(ن) نوازشریف کو ایک سیاسی نظریہ قرار دے رہی ہے۔ یوں ملک میں شخصیات کو نظریہ قرار دینے کا سیاسی رواج چل پڑا ہے۔ پنجاب اور سندھ دونوں سیاسی جماعتوں کے اپنے اپنے کیمپ ہیں جو اب جمہوری مذاق بنے ہوئے ہیں۔ ہماری سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادتیں ترقی کے لیے مغرب کی مثال دیتی ہیں، لیکن خود اپنے اندر مغربی جمہوریت لانا نہیں چاہتیں۔ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی’’تقسیم کرو حکومت کرو‘‘ کا اصول اپنا کر ایک خاص حکمت عملی کے تحت آگے بڑھ رہی ہیں کہ سیاسی ماحول صرف ان کے ہاتھ میں ہی رہے۔ لیکن مسلم لیگ(ن) کی حکمت عملی پیپلزپارٹی سے کچھ بہتر ہے کہ وہ پنجاب کو اپنا مرکز بنا کر کھیل رہی ہے اور پنجاب میں خود اپنے لیے اپوزیشن کا رول بھی لے رہی ہے۔ شہبازشریف پنجاب کے وزیراعلیٰ ہیں اور لاہور میں ہی جوتا اُن کے بھائی نوازشریف کو پڑرہا ہے۔ اب کوشش ہورہی ہے کہ کسی طرح نوازشریف کو سیاسی شہید بنادیا جائے تاکہ سیاسی قربانیوں کے بیانیے میں بھٹو کے بعد نوازشریف کانام بھی لیا جائے۔ اس کوشش میں نوازشریف کو لمبی سزا بھی دلوائی جاسکتی ہے۔
ایوانِ بالا میں سینیٹر سراج الحق کا خطاب
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ سینیٹ الیکشن جمہوریت کی کامیابی ہے، ملک کی ترقی اور بقاء آئین کی عمل داری سے وابستہ ہے، پارلیمان کی بالادستی کے لیے تعاون کریں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے کیا۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور ڈپٹی چیئرمین سلیم ایچ مانڈوی والا کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ آئین کے مطابق آپ نے جو حلف اٹھایا ہے اس پر عوام کا اع
تماد ہے، ملک کی بقاء اور ترقی آئین کے ساتھ وابستہ ہے، اگر آپ آئین کی بالادستی کے لیے کام کریں گے تو جماعت اسلامی آپ کا سات
ھ دے گی، ایوان کو چلانا مشکل کام ہے، میاں رضا ربانی نے اچھی روایات قائم کی ہیں، امید ہے آپ ان روایات کو جاری رکھیں گے، پاکستان مشکل وقت سے گزر رہا ہے اور قوم کی نظریں ایوان کی طرف ہیں، سینیٹ پاکستان کا ذمہ دار ترین ادارہ ہے، جمہوریت کا تقاضا ہے کہ کوئی ایک ووٹ سے جیتے یا زیادہ ووٹوں سے، ہمیں اس کو قبول کرنا چاہیے، ہمیں جوش و جذبات سے بالاتر ہوکر ملک اور جمہوریت کے استحکام کے لیے کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت اور حکومت کا ملک میں اہم کردار ہوتا ہے، آپ پسماندہ صوبے سے منتخب ہوئے ہیں جو خوش آئند ہے، مگر اب آپ پورے پاکستان کے چیئرمین ہیں اور امید ہے کہ پورے پاکستان کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ میں ایوان بالا اور آپ کی کامیابی کے لیے دعاگو ہوں۔