مقبوضہ کشمیر میں پچھلے چند روز میں مختلف واقعات کے دوران ایک درجن کے قریب افراد شہید ہوئے، جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔ تشدد کا یہ سلسلہ شوپیاں میں 6 افراد کی لاشیں برآمد ہونے کے بعد شروع ہوا۔ یہ تمام افراد بھارتی فوج کے ہاتھوں شہید ہوئے تھے۔ بھارتی فوج نے تسلیم کیا ہے کہ ان میں 4 عام افراد تھے جبکہ 2 حریت پسند تھے۔ چند دن بعد ایک اور واقعے میں 4 افراد کو عسکریت پسند قرار دے کر شہید کیا گیا۔ تشدد کے ان پے درپے واقعات نے کشمیر کو ایک بار پھر لاوا اُگلتے آتش فشاں میں بدل ڈالا۔ ان واقعات کے خلاف کشمیر میں عام ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ وادی میں عوامی مظاہروں کو روکنے کے لیے کرفیو نافذ کیا گیا ہے جبکہ انٹرنیٹ سروس بھی معطل کردی گئی ہے۔ وادی میں ایک بار پھر غم وغصے کی لہر دوڑ گئی ہے اور عوام کرفیو اور پابندیوں کی پروا کیے بغیر سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔
ایک طرف بھارت نے کنٹرول لائن پر روزانہ کی بنیاد پر بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کرکے نہتے لوگوں کو شہید کرنے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے، تو دوسری طرف وادی کے اندر بھی عوام کا قتلِ عام جاری ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں سے وادی میں بظاہر سکون دکھائی دے رہا ہے، مگر یوں لگتا ہے کہ بھارتی فوج کو کشمیریوں کے لہو کی چاٹ لگ گئی ہے، اور وہ کشمیر کے امن کو کوئی نہ کوئی جابرانہ کارروائی کرکے خراب کردیتی ہے۔ جس کے بعد مشتعل اور غم زدہ عوام سڑکوں کا رخ کرتے ہیں، اور یوں بھارتی فوج کو خون بہانے کے نئے مواقع میسر آتے ہیں۔
ایک طرف تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے یہ واقعات… تو دوسری طرف مقبوضہ کشمیر کے وزیر خزانہ ڈاکٹر حسیب درابو کے ایک بیان نے سیاسی ماحول میں ایک آگ بھر دی۔ مسٹر درابو کا تعلق محبوبہ مفتی کی جماعت پی ڈی پی سے ہے جو اس وقت کشمیر میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ شریکِ اقتدار ہے۔ حسیب درابو نے دہلی میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کی نظر میں کشمیر ایک سیاسی نہیں، سماجی مسئلہ ہے۔ اُن کے اس جملے نے نہ صرف بھارتی دھارے میں کام کرنے والی جماعتوں بلکہ حریت پسند گروپوں کو بھی مشتعل کردیا۔ حسیب درابو کے اس مؤقف کوکشمیریوں کے اجتماعی مؤقف کی نفی گردانا گیا۔کشمیر میں اجتماعی سوچ یہ ہے کہ کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے جس کا حل سیاسی انداز سے نکالا جا سکتا ہے۔ اس کے برعکس بھارت کا مؤقف یہ ہے کہ کشمیر اندرونی انتظامی، سماجی اور معاشی مسئلہ ہے، اگر کشمیر کوئی مسئلہ ہے بھی تو فقط اتنا کہ اس کا حصہ آزادکشمیر کی صورت میں پاکستان کے کنٹرول میں ہے۔ اس لیے حسیب درابو کے بیان نے کشمیر کے ماحول میں بجلیاں بھر دیں اور وادیٔ کشمیر کے ماحول میں یہ بیانیہ محبوبہ مفتی کی جماعت کی سیاسی خودکشی ثابت ہوسکتا تھا۔ محبوبہ مفتی اپنی سیاست کی بنیاد ہی مسئلہ کشمیر اور سیلف رول جیسی باتوں کو بنائے ہوئے ہیں۔
اسی مؤقف کے ساتھ انہیں کشمیر میں پذیرائی ملتی ہے۔ اس مؤقف سے ہٹ کر محبوبہ مفتی بھی بی جے پی کی طرح وادی کے عوام میں اجنبی اور ناپسندیدہ بن سکتی تھیں۔ شاید اسی خوف اور احساس کی وجہ سے محبوبہ مفتی نے اپنے وزیر خزانہ کو برطرف کرنے میں لمحوں کی تاخیر نہیں کی۔ عوامی طاقت اور دبائو کے پیش نظر ہونے والا یہ فیصلہ وادی کے عوام کے مزاج کا پتا بھی دیتا ہے جہاں کوئی بھی جماعت کشمیریوں کی اجتماعی سوچ کے برعکس مؤقف اپناکر فی الوقت سیاسی میدان میں زندہ نہیں رہ سکتی۔
اب کشمیر میں گرمیوں کا موسم آنے کو ہے۔ یہ کشمیر میں سیاحت کا سیزن ہوتا ہے۔ بھارتی فوج اس موسم میں جبر وستم کا راستہ اختیار کرکے کشمیریوں کے کاروبار کو تباہ کردیتی ہے۔ یہ کشمیریوں کے معاشی قتل کی منظم اور منصوبہ بند کوشش ہوتی ہے۔ اِس بار بھی موسمِ بہار کے آغاز پر ہی وادی میں ایک بار پھر بھارتی فوج نے ظلم وستم کا آغاز کردیا ہے، جس پر عوام اپنا بھرپور ردعمل ظاہر کررہے ہیں۔ اس طرح احتجاج اور ظلم کا ایک خودکار نظام حرکت میں آچکا ہے۔
سلگتا اور جلتا ہوا کشمیر جنوبی ایشیا کے امن کے لیے مستقل خطرہ ہے۔ المیہ یہ ہے کہ عالمی طاقتیں اس حقیقت سے نظریں چرا رہی ہیں۔ امریکہ نے اپنی آنکھوں پر بھارتی مفاد کی عینک چڑھا اور سجا لی ہے۔ اقوام متحدہ ایک اپاہج ادارہ ہے جسے امریکہ کی بیساکھی کی عادت پڑ چکی ہے۔ اسی طرح انسانی حقوق کے حوالے سے سرگرم عالمی ادارے اور فورم بھی مصلحتوں اور بین الاقوامی سیاسی مجبوریوں کا شکار نظر آتے ہیں۔ یہ صورتِ حال بھارت کو شیر بناکر معصوم کشمیریوں کے لہو کی ہولی کھیلنے میں مددگار ثابت ہورہی ہے۔ اس سے جنوبی ایشیا کا عارضہ کم ہونے کے بجائے بڑھتا اور لاعلاج ہوتا چلا جارہا ہے۔ دنیا نے اگر کشمیریوں کے جذبات کو محسوس کیے بغیر جنوبی ایشیا میں امن اور استحکام کا کوئی خواب دیکھا ہے تو یہ خودفریبی ہے۔ یہ بات نوشتہ ٔ دیوار ہے کہ خطے میں امن کا ہر راستہ کشمیر سے ہوکر گزرتا ہے۔ اس بات کی گونج جنیوا میں بھی سنائی دی۔
جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس کے دوسرے روز پاکستان کے نمائندے طاہر اندرابی نے کمیشن سے مطالبہ کیا کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے واقعات کو مرتب کیا جائے اور بھارت کو کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے باز رکھا جائے، کیونکہ کشمیری عوام وہ حق مانگ رہے ہیں جس کا وعدہ بھارت عالمی ایوان میں متعدد بار کرچکا ہے۔ مسٹر اندرابی نے کنٹرول لائن پر بھارتی اشتعال انگیزیوں کی جانب بھی دنیا کی توجہ مبذول کرائی۔ پاکستانی نمائندے کے جواب میں بھارتی مندوب خاتون منی دیوی کمام پھٹ پڑیں اور انہوں نے پاکستان کے خلاف روایتی الزام تراشی شروع کردی۔ انہوں نے پاکستان کو ناکام ریاست بھی قرار دیا اور کہا کہ یہ وہ ملک ہے جہاں سے اُسامہ بن لادن برآمد ہوئے۔
پاکستان کی طرف سے عالمی فورم پر مسئلہ کشمیر کا ذکر اس کی بین الاقوامی ذمہ داری ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت پاکستان مسئلہ کشمیر کا ایک اہم فریق ہے۔ اس لیے کشمیریوں کی تکالیف اور پریشانیوں پر بات کرنا اور اُن کے دکھوں کو عالمی ضمیر کے سامنے لانا پاکستان پر لازم ہے۔ یہ الگ بات کہ کبھی حالات سے مجبور ہوکر پاکستان اس کام میں سست روی اپناتا ہے اور حالات کے بھنور سے نکلنے کے بعد پھر اس کام میں تیزی لے آتا ہے، مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ پاکستان کشمیر اورکشمیری عوام سے لاتعلق ہوگیا ہو۔ جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کا اجلاس بھی ایک ایسی عالمی سرگرمی ہے جہاں دنیا بھر سے سرکاری اور غیر سرکاری نمائندے اور وفود جمع ہوکر انسانی حقوق اور اقدار کی بات کرتے ہیں۔ یہاں دنیا کے مظلوم انسانوں کی بات بھی ہوتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ دنیا کے تمام مظلوم اس وقت مسلم دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔کشمیر اور فلسطین ان میں سرفہرست ہیں۔ ان مسائل نے دنیا کے کئی نئے مسئلوں کو جنم دیا اور امن کی منزل دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ مشرق وسطیٰ کی ساری کشیدگی کی جڑ اگر فلسطین ہے تو جنوبی ایشیا میں امن کی منزل کی دوری کی وجہ کشمیر ہے۔ بھارت نے کشمیری عوام کا حقِ آزادی اور خودارادیت سلب کرکے جنوبی ایشیا کو امن اور استحکام کی منزل تک پہنچنے نہیں دیا۔ ستّر برس گزرنے کے بعد بھی کشمیر کا مسئلہ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان نزع کا باعث بنا ہوا ہے۔ بھارت اب بھی معقولیت کی راہ اختیار کرنے کو تیار نہیں۔ پاکستان کی طرف سے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے جواب میں آئیں بائیں شائیں کا رویہ شتر مرغ کی طرح سر ریت میں دینے کے مترادف ہے۔ مسائل سے فرار کا یہ طریقہ کارگر نہیں رہا، بلکہ یہ طرزِ فکر وعمل کئی نئے مسائل کو جنم دیتا ہے۔