۔’حامی‘ اور ’ہامی‘ کا جھگڑا طے ہونے میں نہیں آرہا ہے۔ منگل کے ایک اخبار کی سرخی ہے ’’محتسب کے سامنے زبانی حامی بھرنے والا…‘‘
ارے بھائی، حامی کا مطلب تو حمایت کرنے والا ہے، یہ کہیں بھری نہیں جاتی۔ اور جو بھری جاتی ہے وہ ’ہامی‘ ہے جس کا مطلب ہے ہاں، اقرار۔ ہامی بھرنا: اقرار کرنا کسی کام کا جو کسی قدر دشوار ہو، وعدہ کرنا، زبان دینا وغیرہ۔ ایک شعر میں ہامی کا استعمال دیکھیے:
کیوں مرے قتل پہ ہامی کوئی جلاد بھرے
آہ جب دیکھ کے تجھ سا ستم ایجاد بھرے
منگل ہی کے اخبار جسارت کے ادارتی صفحے پرکوئی ڈاکٹر صاحب قلم بدست ’عیدالاضحی‘ کو ’’عیدالضحیٰ‘‘ لکھتے ہیں۔ ضحی تو دوپہر کو کہتے ہیں۔ حیرت ہے کہ مولوی نورالحسن نیر (مرحوم) کی ’نوراللغات‘ میں بڑی عجیب تشریح کی گئی ہے کہ ’’چونکہ بقرعید میں دوپہر سے پیشتر نماز پڑھ کر قربانی کرتے ہیں اس واسطے اس کا نام عیدالضحیٰ ہوا‘‘۔ واہ کیا بات ہے! ضحی کا مطلب حاضری، کھانے کا وقت اور چاشت کا وقت بھی ہے۔ اب اگر صاحبِ نوراللغات کی یہ بات تسلیم کرلی جائے تو ’’عیدالاضحی‘‘ کی کیا توجیح کی جائے۔ اضحی قربانی کو کہتے ہیں اسی لیے یہ قربانی والی عید کہی جاتی ہے۔ اب اگر بقرعید میں دوپہر کے بعد، شام میں یا اگلے دو دن میں قربانی کی جائے تب بھی کیا اسے عید کی نماز سے مشروط کیا جائے گا؟ ایسا لگتا ہے کہ مولوی صاحب کے دور میں عیدالضحیٰ اتنا عام ہوگیا تھا کہ موصوف نے وہی معنیٰ درج کردیے۔ دو ضخیم جلدوں کے مولف کو ایسی لاپروائی سے کام نہیں لینا چاہیے تھا۔ایسا لگتا ہے کہ جسارت کے مضمون نگار نے بھی ’نوراللغات‘ سے استفادہ کیا ہے۔ پھر اسی لغت کی جلد اول میں اضحی کے معنی دیے گئے ہیں ’’قربانی کا دن، عیدِ قرباں۔ اردو میں عیداضحی بولتے ہیں‘‘۔ اب کس سے پوچھیں کہ پھر عیدالضحیٰ کے مذکورہ معانی کہاں سے لے آئے! عربی کا ایک لفظ ہے ’’اضیحہ‘‘ (بضم اول وسکون دوم وکسر سوم وتشدید چہارم) اردو میں بغیر تشدید بولتے ہیں (ہمارے خیال میں تو بولتے ہی نہیں) اس کا مطلب بھی قربانی ہے۔ منیر کا ایک شعر ہے:
ہے خونِ اضیحہ سے شفق گوں تمام شہر
قربانیوں کی دھوم ہے چرچا ہے عید کا
بعض لکھنے والے الفاظ کی ترتیب کا خیال نہیں رکھتے۔ یہ خرابی سرخیوں میں بھی نظر آتی ہے، مثلاً ’’فلاں جماعت کی دہشت گردی کی مذمت‘‘۔ مذکورہ مضمون میں ایک جملہ ہے ’’حالیہ سینیٹ کے الیکشن میں…‘‘ اس سے لگتا ہے کہ سینیٹ حال ہی میں وجود میں آئی ہے۔ اگر یوں لکھا جاتا ’’سینیٹ کے حالیہ الیکشن میں‘‘ تو کیا قباحت تھی! اخبارات کی سرخیوں کا معاملہ تو عجلت کا ہوتا ہے لیکن مضمون نگار لکھ کر بار بار نظر ڈال لیں تو خود ہی اپنی تصحیح کرسکتے ہیں بشرطیکہ اپنی غلطیاں نظر آئیں۔ (ہمیں بھی اپنی غلطیاں کہاں نظر آتی ہیں)
دو الفاظ ہیں ’منہگائی اور منہدی‘۔ ان کا درست املا تو یہ ہے کہ ’م‘ کے بعد ’ن‘ آتا ہے (م ن ہ گ ا) لیکن زبانوں پر ان دونوں کا تلفظ ’مہنگائی‘ اور ’مہندی‘ ہے اور یہ اتنا عام ہوگیا ہے کہ اگر ہم ’منہگائی‘ لکھیں تو کمپوزر صاحب صحیح کردیتے ہیں۔ بچوں کا ایک رسالہ ’ساتھی‘ کراچی سے شائع ہوتا ہے، اس میں صحیح املا دیکھنے میں آیا، گو کہ ایک مراسلہ نگار نے اسے غلطی قرار دے کر توجہ دلائی تھی۔ ہماری رائے ہے کہ اب مہنگائی اور مہندی پر سمجھوتا کرلینا چاہیے خواہ منہگائی بڑھتی اور منہدی کا رنگ اترتا جائے۔ ایسے ہی کچھ اور الفاظ بھی ہیں مثلاً ’تشہیر‘ جس کا مطلب رسوائی ہے، مگر اب مشہور کرنے، شہرت ہونے کے معنیٰ میں عام ہوگیا ہے۔
بمبئی (ممبئی) کے بہت سینیر صحافی جناب ندیم صدیقی کو بھی اردو ٹھیک کرنے سے دلچسپی ہے، اور یہ اس صورت میں بہت اہم ہے کہ بھارت میں اردو بے یارو مددگار ہوتی جارہی ہے۔ اردو جہاں پل بڑھ کر جوان ہوئی اب وہاں کے نوجوان بھی اس سے بے گانہ ہوتے جارہے ہیں اور اس کی جگہ ہندی لے رہی ہے۔ ’’روزی روٹی سے جڑی زبان‘‘ پر زور دیا جاتا ہے، یعنی ہندی پڑھ لکھ کر روزگار آسانی سے مل جاتا ہے۔ بہرحال، ذکر ہے ندیم صدیقی کا۔ اُن کا ایک بہت عمدہ مضمون ہے ’’ذرا سنبھال کے لفظوں کو جوڑیئے (جوڑیے) صاحب‘‘۔ ’مشکور‘ کے غلط استعمال کے بارے میں ہم بھی نشاندہی کرچکے ہیں، جس کے جواب میں کچھ قارئین نے اساتذہ کے ایسے اشعار بھیج دیے تھے جن میں مشکور کا مطلب شکرگزار ہے۔ ندیم صدیقی نے اپنے مؤقف کی تائید میں ’سعی مشکور‘ کی ترکیب کا حوالہ دیا ہے۔ حاجی حضرات جب حج سے فارغ ہوتے ہیں تو اہلِ عرب ان کو ’حج مبرور‘ اور ’سعی مشکور‘ کی دعا دیتے ہیں۔ ندیم صدیقی لکھتے ہیں ’’اردو میں ایک لفظ ’سیلاب‘ کا صَرف بھی توجہ چاہتا ہے۔ یہ لفظ ’سیل‘ اور ’آب‘ کا مرکب ہے۔ سیل کے معنی ریلا، رو، بہائو وغیرہ کے ہیں۔ آپ نے عام طور پر اخبارات میں سیلاب کا صَرف (استعمال) اس طرح دیکھا ہوگا ’’یوپی میں شدید سیلاب کے سبب کئی گائوں ڈوب گئے‘‘۔ سیلاب کا یہ صَرف یقینا صحیح ہے، مگر ہمارے بہت سے لکھنے والے یوں لکھ جاتے ہیں: ’’عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلوس میں انسانوں کا وہ سیلاب تھا کہ آدمی چل نہیں رہا تھا، بہا جارہا تھا‘‘۔ اس جملے میں سیلاب کا صَرف ہم جیسوں کو بہت کھٹکتا ہے۔‘‘
ندیم صدیقی کا اعتراض بڑی حد تک درست ہے۔ مثلاً سیلابِ رنگ و نور کی جگہ صرف ’سیل‘ سے کام چلایا جاسکتا ہے۔ لیکن معذرت کے ساتھ، سیلاب بجائے خود ایک الگ لفظ بن گیا ہے۔ اس کی مثال حضرتِ امیر خسرو کے شعر سے دی جاسکتی ہے۔ وہ اپنے مرشد حضرتِ نظام الدین سلطانِ اولیا سے ملاقات کے خواہش مند تھے، لیکن مرشد نے ان کو حاضری کی اجازت نہیں دی۔ چنانچہ امیر خسرو نے ایک شعر لکھ کر اندر بھجوا دیا اور مرشد نے انہیں فوراً اندر بلوا لیا۔ شعر یہ تھا:
اے آتشِ فراقت دل ہا کباب کردہ
سیلابِ اشتیاقت جاں ہا خراب کردہ
یعنی خسرو نے سیلابِ اشتیاق استعمال کیا ہے۔ خسرو سے بڑی سند اورکیا ہوگی۔ ایک سند داغ دہلوی کی بھی ہے:
مرے اشکوں کا فلک پر موجزن سیلاب تھا
نالہ، مہ کی جگہ شب حلقہ گرداب تھا
یعنی ’’اشکوں کا سیلاب‘‘۔ استاد چاہتے تو ’سیلِ اشک‘ یا ’اشکوں کا سیل‘ بھی استعمال کرسکتے تھے۔ ان دو اسناد سے ظاہر ہے کہ ’سیلاب‘ بغیر پانی کے بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ خسرو بھی چاہتے تو ’اے سیلِ اشتیاقت‘ استعمال کرسکتے تھے گو کہ دونوں مصرعوں میں ’اے‘ کی تکرار معیوب ہوتی۔ اے کی جگہ ’یہ‘ بھی استعمال ہوسکتا تھا۔ خسرو بہرحال ایک دلیل دے گئے۔ حضرت نظام الدین بھی زبان و بیان کی باریکیوں کو خوب سمجھتے تھے، محض خانقاہی درویش نہیں تھے۔ برسبیل تذکرہ حضرت شیخ نظام الدین، اولیا کہلاتے ہیں، جب کہ اولیا جمع ہے ولی کی۔ لیکن ان کا لقب سلطان الاولیا تھا۔ ان کے چاہنے والوں نے سلطان نکال کر صرف اولیا کردیا۔ امید ہے ندیم صدیقی محسوس نہیں کریں گے۔ اور ہاں! یہ لفظ معمّہ نہیں ’معمّا‘ ہے۔ وہ بھی لغت دیکھ لیں۔