بادشاہ گروں کا انتخاب بلوچستان ہی کیوں؟

مسلح تصادم کا منصوبہ ہو یا سیاسی سازشیں… اس کے لیے صوبہ بلوچستان کو ہی کیوں منتخب کیا جاتا ہے؟
اس پہلو سے تجزیہ کیا جائے تو بڑی حیرت ہوتی ہے کہ مختلف حادثات کے لیے بادشاہ گروں کا انتخاب بلوچستان ہی ٹھیرتا ہے۔ 1958ء میں پاکستان میں سیاسی اقتدار کے خاتمے کے لیے بلوچستان کو منتخب کیا گیا۔ خان آف قلات میر احمد یار خان کے خلاف فوجی کارروائی کی گئی، انہیں گرفتار کیا گیا۔ اس کے خلاف قلات کے عوام نے مزاحمت کی، کچھ لوگ مارے گئے۔ نواب نوروز خان، ان کے ساتھیوں اور بیٹوں کو گرفتار کیا گیا، بعد میں ان میں سے 6 کو پھانسی دے دی گئی۔ نواب نوروز خان نے جیل ہی میں زندگی کی بازی ہار دی۔ بعد میں میر احمد یار خان کو رہا کردیا گیا۔ اسکندر مرزا کو حکومت سے فارغ کیا گیا اور ملک میں مارشل لا لگادیا گیا۔
پھر عوامی تحریک اٹھی اور جنرل یحییٰ خان نے ایوب خان کا تختہ الٹ دیا۔ 1970ء میں عام انتخابات ہوئے، دسمبر 1971ء میں مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد 1972ء میں بھٹو صاحب کو اقتدار دیا گیا۔ 1970ء کے انتخابات کے نتیجے میں نیپ کی حکومت قائم ہوئی جسے فروری 1973ء میں بھٹو نے ختم کردیا۔ اس غیر جمہوری اقدام کے خلاف ردعمل پیدا ہوا اور پہاڑوں پر مسلح جدوجہد شروع ہوگئی۔ 1977ء میں جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کا تختہ الٹ دیا۔ حیدرآباد ٹریبونل توڑ دیا اور بلوچ قیادت کو آزاد کردیا۔ ولی خان بھی رہا ہوگئے۔
ایوب خان اور بھٹو نے بلوچستان ہی کو ان اہم معاملات کے لیے استعمال کیا۔ ایوب خان اور بھٹو کے دور میں مسلح جدوجہد منظم ہوتی گئی اور بیرونی قوتوں کو راستہ دکھایا گیا۔ پھر مسلح گروہوں کے رابطے بیرونِ ملک ہوگئے۔ اس کے بعد جنرل ضیاء الحق کے دور میں دوبارہ مسلح جدوجہد شروع ہوگئی۔ اب سوویت یونین اس کی پشت پر تھا، اور بلوچستان دوبارہ ان سازشوں کی آماجگاہ بن گیا۔
اگر ہم سازشوں کا جائزہ لیں تو بلوچستان ہی ہدف رہا ہے اور اس صوبے کو استعمال کیا گیا ہے۔ 1988ء میں نواب بگٹی کی پارٹی کو بلوچستان اسمبلی میں اکثریت حاصل تھی لیکن انہیں حکومت دینے کے بجائے سازش کے ذریعے میر ظفر اللہ کو استعمال کیا گیا اور انہیں وزیراعلیٰ بنایا گیا۔ اس اقدام کو نواب بگٹی نے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا، جہاں نواب بگٹی کے حق میں فیصلہ ہوا اور وہ اکثریت کی بنیاد پر وزیراعلیٰ بن گئے۔ ظفر اللہ کے لیے جمعیت علمائے اسلام کا ایک ووٹ خریدا گیا تھا۔
اب ایک طویل وقفے کے بعد بلوچستان ہی سے پھر اس کھیل کو دوبارہ شروع کیا گیا۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ جو کھیل کھیلا جارہا ہے اُس میں بلوچستان ہی اصل کردار ادا کرے گا۔ سینیٹ میں جو کچھ ہوا اور جو کچھ سندھ میں ایم کیو ایم کے ساتھ ہوا اس سب پر غور کیا جائے تو راز، راز نہیں رہے گا کہ اس کا آغاز بلوچستان سے کیا گیا، اور اس کھیل کے لیے انتخاب مسلم لیگ(ن) کی حکومت اور مسلم لیگ(ن) ٹھیری ہے۔ پہلے مرحلے پر مسلم لیگ(ن) میں بغاوت پیدا کی گئی، اور باغیوں نے اس کھیل کو کھیلا، سامنے سرفراز بگٹی کو رکھ کر بغاوت کا آغاز کیا گیا۔ اس کھیل میں نواب ثنا اللہ زہری ہار گئے، ان کا بوریا بستر گول کردیا گیا اور مسلم لیگ (ن) دھڑام سے گرگئی۔ خفیہ ہاتھوں نے نیشنل پارٹی اور پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی پر نظر کی تو انہیں ان میں سے بھی اراکین ہاتھ آگئے۔ پشتون خوا کا ایک رکن اور نیشنل پارٹی کے 3 اراکین پھسل گئے اور پھر قدوس بزنجو کو وزارتِ اعلیٰ دی گئی۔
اور یہ سب کھیل سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے لیے کھیلا گیا۔ بلوچستان میں 8 افراد پر مشتمل گروپ آزاد کے نام سے تشکیل دیا گیا، اور سینیٹ میں آزاد گروپ کو پہنچادیا گیا۔ انتخاب کے مرحلے پر صادق سنجرانی پر نگاہ ٹھیری ہوئی تھی۔ یہ کھیل بڑا دلچسپ اور سفاک تھا کہ اس میں پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی استعمال ہوگئیں، اور ان دونوں کی موجودگی میں ایک آزاد شخص کو چیئرمین سینیٹ بنادیا گیا۔ یہ سیاسی المیہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں ایک ایسے شخص پر متفق ہوگئیں جس کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں، اور پی ٹی آئی نے تو بڑی ذہانت اور چابک دستی سے پیپلزپارٹی کو ووٹ دینے کے لیے خوبصورتی سے استعمال کیا۔ یہاں پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کی سیاست دھری کی دھری رہ گئی، دونوں اس طرح استعمال ہوئیں کہ خوشی سے اس کھیل کا حصہ بن گئیں۔
اس کھیل کا پہلا مرحلہ مکمل ہوگیا ہے۔ اب دوسرا اور آخری مرحلہ شروع ہوگا۔ اس کھیل میں کون کون استعمال ہوگا اور کون کون استعمال ہورہا ہے، اس کی جھلکیاں نظر آرہی ہیں۔ اب بڑا اَپ سیٹ کیا ہوگا یہ 2018ء کے انتخابات سے پہلے نظر آجائے گا۔ودہ حکومت میں تعلیم تباہ ہو چکی ہے ۔