ملک راشد شیخ
نام کتاب : مولانا ابوالجلال ندوی۔ دیدہ و شنیدہ و خواندہ
مصنف : احمد حاطب صدیقی
ضخامت : 212 صفحات
قیمت : 400روپے
ناشر : اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی،ڈی۔35، بلاک۔5، فیڈرل بی ایریا کراچی 75950
فون : (021)36809201-36349840
ای میل : irak.pk@gmail.com
اردو کے معروف شاعر اکبر الٰہ آبادی نے ایک موقع پر برصغیر پاک و ہند کے تین معروف تعلیمی اداروں یعنی دارالعلوم دیوبند، دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے باہمی فرق کو کچھ یوں بیان کیا تھا:
ہے دلِ روشن مثالِ دیوبند
اور ندوہ ہے زبانِ ہوش مند
ہاں علی گڑھ کی بھی تم تشبیہ لو
ایک معزز پیٹ بس اس کو کہو
پیٹ ہے سب پر مقدم اے عزیز
گو کہ فکرِ آخرت ہے اصل چیز
ان اشعار میں ’’زبانِ ہوش مند‘‘ یعنی دارالعلوم ندوۃ العلماء سے سندِ فراغت حاصل کرنے والے حضرات اپنے نام کے ساتھ ’’ندوی‘‘ لکھتے ہیں۔ اس تعلیمی ادارے کی یہ انفرادیت رہی ہے کہ یہاں سے فارغ التحصیل حضرات قدیم و جدید علوم کے ماہر ہوتے ہیں۔ ندوی حضرات نہ صرف قرآن و حدیث اور عربی زبان میں مہارت کا مظاہرہ کرتے، بلکہ حالاتِ زمانہ سے بھی واقف ہوتے۔ ندوی حضرات تحریری اور تصنیفی ذوق کے حامل بھی ہوتے تھے اور ان حضرات کی تصنیفی خدمات خصوصاً تاریخ اسلام سے متعلق تصنیفی خدمات سے عام اردو دان بخوبی واقفیت رکھتے ہیں۔ البتہ ان تمام ندوی اہلِ قلم حضرات میں ایک شخصیت منفرد خصوصیات کی حامل تھی، وہ تھے مولانا ابوالجلال ندوی مرحوم۔ اس انفرادیت کی وجہ یہ تھی کہ مولانا کو جن جن علوم پر مہارت حاصل تھی اُن علوم کا ماہر ندوی تو کیا کوئی غیر ندوی بھی نظر نہیں آتا۔ ان علوم میں تفسیر قرآن، حدیث، رجال، فقہ، تاریخ اور ادب کے علاوہ ہندوئوں کی مقدس کتب وید، گیتا، اُپ نشد کے علاوہ عبرانی زبان پر بھی مہارت حاصل تھی۔ مولانا ابوالجلال ندوی 22 نومبر 1894ء کو چِرَیّا کوٹ (اعظم گڑھ) میں پیدا ہوئے اور 4 اکتوبر 1984ء کو کراچی میں وفات پائی۔ مولانا کے انتقال کے بعد ان کے بارے میں متعدد مضامین شائع ہوئے جن میں ایک مضمون ان سطورکے عاجز راقم کا بھی تھا، لیکن ضرورت اس بات کی تھی کہ مولانا کی وسیع الاطراف اور وسیع الموضوعات علمی خدمات اوران کے حالاتِ زندگی پر کوئی جامع کتاب لکھی جاتی۔ الحمدللہ اس موضوع پر اردو زبان میں پہلی کتاب مولانا کے لائق بھتیجے احمد حاطب صدیقی صاحب نے لکھی ہے۔ لائق مؤلف پیش نظر کتاب کی ابتدا کے بارے میں ’’پس نوشت‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’یہ 2002ء کے اواخر کی بات ہے۔ راقم الحروف نے محترم مولانا ابوالجلال ندوی سے متعلق سرسری یادداشتیں قلمبند کرنے کا آغاز کیا۔ حکایت لذیذ تھی سو دراز تر ہوتی گئی۔ یہ تاثراتی تحریریں ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی میں شائع ہونا شروع ہوئیں تو مسلسل دو ماہ تک یعنی اس کی جلد 5 کے شمارہ نمبر 1 (3 جنوری 2003ء) سے شروع ہوکر شمارہ نمبر 8 (21 فروری 2003ء) تک شائع ہوتی چلی گئیں۔‘‘
گویا کہ پیش نظر کتاب میں درج معلومات کا آغاز جنوری 2003ء میں فرائیڈے اسپیشل میں اقساط کی صورت میں ہوا تھا۔ پیش نظر کتاب بارہ ابواب پر مشتمل ہے۔ ہر باب کو مولف نے فصل کا نام دیا ہے۔ ان فصول کے عنوانات درج ذیل ہیں:
فصل اول: ہے مرے عالمِ افکار پہ غالب کوئی شخص
فصل دوم: چریا کوٹ: اس خاک سے اٹھے ہیں وہ غواصِ معانی
فصل سوم: ندوۃ العلماء کی یادیں
فصل چہارم: محی الدین پور کی باتیں
فصل پنجم: دارالمصنفین اعظم گڑھ کی مصروفیات اور واقعات
فصل ششم: اعظم گڑھ سے مدراس تک
فصل ہفتم: مدراس سے واپسی، دارالمصنفین سے دوبارہ وابستگی
فصل ہشتم: دارالمصنفین سے پھر مدراس
فصل نہم: موہنجوداڑو کی زبان پڑھ لی
فصل دہم: اک ذرا کوچۂ سیاست تک
فصل یازدھم: ذوقِ شعری اور نمونۂ کلام
فصلِ آخر: دفن ہوگا نہ کہیں ایسا خزانہ ہرگز
اس کے بعد کتاب میں مولف نے دو ضمیموں کا اضافہ کیا ہے، یعنی
ضمیمۂ اول: قصص بقلم خود
ضمیمۂ دوم: مضامین سے انتخاب
پیش نظرکتاب کی فصول اور ضمائم کے مطالعے سے ہی یہ بات بخوبی عیاں ہوجائے گی کہ لائق مولف نے مولانا ابوالجلال ندوی کی حیات اور علمی خدمات پر کتاب بڑے سلیقے سے ترتیب دی ہے اور نادر معلومات پیش کی ہیں، لیکن ہر انسانی کام میں کوئی نہ کوئی کمی رہ جاتی ہے اورہر کتاب کے دوسر ے ایڈیشن میں مناسب ترمیم واضافات ایک عام دستور ہے۔ سب سے بڑی کمی جو عاجز نے محسوس کی وہ یہ ہے کہ مولانا کے حوالے سے مولف نے اپنی یادداشتوں اور مولانا کی مطبوعہ تحریروں سے استفادہ کیا، لیکن مولانا کی بہت سی تحریریں ایسی ہیں جنہوں نے اب تک دن کی روشنی نہیں دیکھی اور وہ مولانا کے اخلاف کے پاس منتظرِاشاعت ہیں۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ مولف ان تمام غیرمطبوعہ تحریروں کا ایک جامع اشاریہ (Index) بھی شاملِ کتاب کردیتے تاکہ ان قیمتی جواہر پاروں سے دنیا آگاہ ہوجاتی۔ اس کے علاوہ پیش نظر کتاب کے آخر میں اگر ’’کتابیات‘‘ بھی شامل کی جاتی تو مناسب ہوتا۔ ہمارے ہاں علمی کتب کے آخر میں اب تک اشاریہ شامل کرنے کا رواج نہیں، لیکن اگر آئندہ ایڈیشن میں مصنف اس کا بھی اہتمام کرلیں تو بہت مناسب ہو۔
مولانا ابوالجلال ندوی ایک جامع الکمالات شخصیت تھے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ نہ تو مولانا کی زندگی میں ان کی قدر کی گئی اور نہ اب تک ان کی علمی و تحقیقی تحریروں کی حفاظت و اشاعت کا مناسب انتظام ہوسکا۔ دیگر اداروں سے تو توقع نہیں لیکن ادارۂ معارف اسلامی (کراچی۔لاہور)کے ذمہ دار حضرات اگر اس جانب توجہ مبذول فرمائیں تو یہ علمی جواہر پارے کتابی شکل میں محفوظ ہوسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مولانا کے تمام علمی آثار پر مشتمل ’’کتابیات‘‘ کی اشاعت بھی مولانا کے بارے میں تحقیق کرنے والوں کے لیے مفید ثابت ہوگی۔ آخر میں ہم یہ عرض کرنا مناسب سمجھتے ہیں کہ پیش نظر کتاب مولانا پر اولین کتاب ہے لیکن ابھی مولانا کی مفصل اور جامع سوانح عمری لکھنا باقی ہے ۔ کیا ہی اچھا ہو کہ مصنف محترم اس جانب قدم اٹھائیں اور نہ صرف پاکستان بلکہ دارالمصنفین اعظم گڑھ اور جمالیہ کالج مدراس سے رابطہ کرکے وہاں سے مولانا کے قلمی آثار حاصل کریں اور ایک مستند اور جامع سوانح عمری شائع کرائیں۔
اللہ کرے زور ِقلم اور زیادہ