نام کتاب : اسلامی معاشرے میں یتیم کا مقام
مصنف : محمد مجاہد طبل اور حذیفہ ابراہیم
مترجم : گل زادہ شیرپائو
صفحات : 88 قیمت75 روپے
ناشر : منشورات، پوسٹ بکس 9093، علامہ اقبال ٹائون لاہور
فون نمبر : 0320-5434909/042-35252210-11 +92 332 003 4909
ای میل : manshurat@gmail.com
اسلامی شریعت نے یتیم کی کفالت کے سلسلے میں بہت سی ہدایات دی ہیں جن پر مسلم سماج میں عمل ہوتا رہا ہے۔ اس زیرنظر کتاب میں اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے اور ان ہدایات کو وضاحت سے بیان کیا گیا ہے، اور یہ مختصر کتاب اس قابل ہے کہ اس کو تمام مسلمان ایک دفعہ ضرور پڑھیں اور ان ہدایات پر عمل کریں۔ ابتدائیہ ہمارے بھائی پروفیسر مسلم سجادؒ صاحب کے قلم سے ہے:
’’کسی بھی انسانی معاشرے میں یتیموں پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے، لیکن مسلمان تو یتیموں سے خصوصی تعلق محسوس کرتے ہیں، اس لیے کہ ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یتیم پیدا ہوئے۔ پھر قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے یتیموں کے بارے میں خصوصی ہدایات دیں اور یتیموں سے حُسنِ سلوک کے حوالے سے غیر معمولی اجر کے وعدے کیے اور اپنے خصوصی قرب کی بشارت دی۔
اس کتاب میں یتیموں کے حوالے سے قرآن پاک کے احکامات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کو بڑے اچھے انداز میں ایک جگہ جمع کردیا گیا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ ہر حدیث کا حوالہ اور سند دی گئی ہے، اور یوں بیان مستند ہے۔
آخری باب بہت دلچسپ ہے۔ مصنف نے اُن بچوں اور بچیوں کو بھی یتیم قرار دیا ہے جن کے والد اپنے فرائض ادا نہیں کرتے اور انہیں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں آج کل ایسے یتیم بہ کثرت پائے جاتے ہیں۔
ہمارے لٹریچر میں یتیموں کا ذکر تو ہے لیکن اس حوالے سے اس نوعیت کی جامع تحریر جیسی یہ کتاب ہے، نہیں ملتی۔ وہ ادارے جو یتیموں کی خدمت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں، معاشرے میں یتیموں کے بارے میں شعور پیدا کرنے میں اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
جناب گل زادہ شیرپائو نے بڑی توجہ سے اس مجموعے کو عربی سے اردو میں منتقل کیا ہے، اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے۔‘‘
کتاب کے مترجم جناب گل زادہ شیرپائو تحریر فرماتے ہیں:
’’زیرنظر کتاب میں شیخ محمد مجاہد طبل اور جناب حذیفہ ابراہیم نے ایسے موضوع پر قلم اٹھایا ہے جس سے بہت سے لوگ غافل ہوگئے ہیں۔ یہ لوگوں کو اس سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد دلاتی ہے جسے لوگ بھلا بیٹھے ہیں، حالانکہ یہ سنتیں ان کی فلاح کا ذریعہ ہیں۔ یہ کتاب بتاتی ہے کہ یتیم کون ہے؟ یتیموں کی کفالت کی فضیلت کیا ہے؟ اور ان کے بارے میں شرعی نقطۂ نظر کیا ہے؟ ایک فلاحی معاشرہ کیسا ہوتا ہے؟ایک اسلامی معاشرے میں یتیم کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا جاتا ہے؟ ان امور پر قرآن و سنت سے دلائل دیے گئے ہیں اور بعض مثالی مائوں کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔
یہ کتاب تقریباً تین سال پہلے برادرِ محترم مولانا شاہ ولی اللہ کے ذریعے موصول ہوئی تھی، جو شیخ ملتون ٹائون، مردان میں ’’الاصلاح سینٹر‘‘ کے نام سے یتیموں کے ایک اچھے ادارے کے روح رواں ہیں اور سینکڑوں یتیم بچوں کی کفالت کی بھاری ذمہ داری اٹھائے ہوئے ہیں۔ اُس وقت تو کتاب کے چند صفحات کا ترجمہ درکار تھا، جسے وہ اپنے سالنامہ مجلہ ’’الاصلاح‘‘ میں شامل کرنا چاہتے تھے، مگر ساتھ ہی ان کی خواہش تھی کہ پوری کتاب کا ترجمہ بھی ہونا چاہیے۔ چنانچہ اب یہ ترجمہ اصل کتاب کی ترتیب میں کچھ ترامیم کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے۔
دعا ہے کہ یہ کتاب معاشرے کے اس بے بس طبقے کی بھلائی کا ذریعہ بنے اور اللہ تعالیٰ اسے مؤلف، مترجم اور ناشر کے لیے توشۂ آخرت بنائے۔ آمین!‘‘
اس کے مضامین درج ذیل ہیں:
قرآن اور یتیم کی کفالت
نفسیاتی تربیت، نگرانی و کفالت، نفسیاتی تربیت کے تقاضے، معاشی تحفظ، یتیم کے مال میں تجارت اور زکوٰۃ ، اچھے مال کو برے مال سے نہ بدلو!، یتیم کے معاملے میں مزید اہتمام، رخصت اور آسانی، یتیم کا مال کھانے کا انجام، منکرینِ آخرت کی صفت، یتیم لڑکی کا حق۔
احادیث اور یتیم کی کفالت،بہترین گھر، یتیموں پر شفقت اور رحم، یتیم کی محتاجی اور شرعی نقطۂ نظر، اسلامی معاشرے کی روایت، اسلامی معاشرہ اور باہمی تکافل، خلافتِ عمرؓ کا ایک نمونہ، یتیم کی تعلیم و تربیت، اپنے بچے کا مستقبل محفوظ کریں، یتیم شریعت اور قانون میں، عدالت کے سامنے حلیہ سازی، شریعت کا حل، ایک بری عادت، قانونِ حسبہ، خیانت اور جعل سازی، یتیم کے مال سے تجارت، وصیت کے لیے نااہلی، یتیم کے ساتھ سلوک کے منفی پہلو، متبنیٰ (منہ بولا بیٹا) بنالینا، اسلام میں متبنیٰ کا حکم، خاندانی فخر و غرور کا اظہار۔
مثالی مائیں
حضرت نسیبہ (ام عمارہ) بنتِ کعبؓ، حضرت تُماضِر (خنساؓ) بنتِ الحارث، ایک ماں کی اپنی بیٹی کو شادی کے موقع پر نصیحت، یتیم کی کفالت کا زیادہ مستحق کون!، والدین کی موجودگی میں یتیمی، نوجوانوں کی سرکشی کے اسباب، باہمی ربط کی کمی، والدین کا نامناسب رویہ، بچوں کی غلط تربیت، ذرائع ابلاغ، دین سے دوری، خاندان کا شیرازہ بکھرنا۔
کتاب بہت خوبصورت طبع کی گئی۔ نہایت حسین وجمیل سرورق سے مزین ہے۔
کتاب : قوموں کی شکست و زوال
کے اسباب کا مطالعہ
مصنف : آغا افتخار حسین
صفحات : 278 قیمت 400 روپے
ناشر : ڈاکٹر تحسین فراقی، ناظم مجلسِ ترقی ادب 2کلب روڈ لاہور
قوموں کی شکست و زوال کے اسباب کا مطالبہ ایک پیچیدہ عمل ہے اور اس میں بحث و مباحثہ کا وسیع میدان ہے جس میں ہنگامہ برپا رہتا ہے۔ بہرحال مصنف فرماتے ہیں:
’’اس کتاب میں جو مسائل زیربحث آئے ہیں اُن میں سے اکثر کا تعلق معاشرتی علوم مثلاً فلسفہ، تاریخ، فلسفۂ تاریخ، نفسیات، عمرانیات، سیاسیات اور علومِ انتظامیہ وغیرہ سے ہے۔ میں نے کوشش کی ہے کہ مضامین کو آسان زبان میں رقم کروں تاکہ میری معروضات عام تعلیم یافتہ حضرات تک بھی پہنچ سکیں۔ اگر ان مسائل کو خالص علمی سطح پر بیان کیا جاتا تو بعض اہم نظری موضوعات پر سیر حاصل بحث کا موقع ملتا اور میں زیادہ مطمئن ہوتا، لیکن میرے پیش نظر زیادہ اہم فریضہ یہ تھا کہ قوم کے زیادہ سے زیادہ افراد کے لیے معلومات فراہم کروں۔ چند اہم مسائل کا تعارف کرائوں اور ان سے متعلق اپنا حاصلِ فکر عام فہم انداز میں پیش کردوں۔ اس لیے اس کتاب میں میرے مخاطب زیادہ تر قوم کے وہ افراد ہیں جنہیں بہ وجوہ مذکورہ بالا علوم کا تفصیل سے مطالعہ کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ یوں میرا خیال ہے کہ ان صفحات میں فضلا اور متخصصین کو بھی ایسے مباحث مل جائیں گے جو اُن کی دلچسپی کا باعث ہوں۔ میں نے جس دعوتِ فکر کی جسارت کی ہے وہ عام قارئین کے لیے بھی ہے اور فضلائے کرام کے لیے بھی۔‘‘
جناب احمد ندیم قاسمی لکھتے ہیں:
’’ڈاکٹر آغا افتخار حسین فلسفے اور ادب کی دنیا کی ایک معروف شخصیت ہیں۔ زندگی اور اس کے گوناگوں مسائل کے بارے میں ان کا نقطۂ نظر مثبت، عقلی اور منطقی ہے۔ انہوں نے اپنی اس زندگی افروز تصنیف میں قوموں کے عروج و زوال کے محض اسباب ہی نہیں گنائے ہیں، بلکہ ایک عقلیت پسند فلسفی کی حیثیت سے وہ اِن اسباب کے مضمرات پر سے بھی پردے اٹھاتے چلے گئے ہیں۔ ان کا یہ ارشاد صد فیصد درست ہے کہ جب کسی قوم پر زوال آتا ہے تو وہ خود تنقیدی سے گریز کرنے لگتی ہے اور اپنی تمام ناقدانہ صلاحیتیں دیگر اقوام کی تنقید پر صرف کرنے لگتی ہے۔ اس فراری ذہنیت نے کتنی ہی قوموں کو فنا کر ڈالاہے اور اِس وقت بھی بعض قومیں فنا کے اسی عمل سے گزر رہی ہیں۔‘‘
کتاب چار حصوں میں تقسیم ہے جس میں مصنف نے اپنے خیالات رقم کیے ہیں جن پر بحث ہونی چاہیے۔ ان کے بہت سے بیانات غیر متوازن ہیں۔
کتاب سفید کاغذ پر طبع ہوئی ہے۔ مجلّد ہے۔