امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اچانک اپنی ٹیم میں ایک بڑی تبدیلی کردی ہے۔ انہوں نے اپنے نامزد وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کو خارجہ امور کی ذمہ داری کے منصب سے برطرف کرکے سی آئی اے کے سربراہ مائک پامپیو کو نیا وزیر خارجہ مقرر کردیا ہے۔ یہ تبدیلی ان معنوں میں تو حیران کن نہیں تھی کہ ٹرمپ اپنے وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کے مؤقف اور کارکردگی پر علی الاعلان تنقید کرتے تھے، اور عام خیال یہ تھا کہ وہ کسی وقت بھی تبدیل ہوسکتے ہیں، اور ایسا ہی ہوا۔ اُن کی جگہ کوئی نیا چہرہ سامنے نہیں آیا ہے، بلکہ امریکی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے کے سربراہ مائیک پومپیو کو وزیر خارجہ مقرر کیا گیا ہے۔ وزارتِ خارجہ کی ٹیم میں تبدیلی کا سبب یہ بتایا گیا ہے کہ امریکی صدر شمالی کوریا سے انتہائی نازک مذاکرات شروع کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے انہیں ایک ’’بااعتماد‘‘ وزیر خارجہ کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے سی آئی اے کے سربراہ کا انتخاب کیا ہے۔ مائیک پومپیو امریکی خفیہ ایجنسی کی سربراہی سے قبل فوج سے وابستہ رہے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی سیاسی قیادت یعنی صدرِ امریکہ نے فیصلہ کن اقدامات کے لیے فوج اور انٹیلی جنس ایجنسی سے ہی ’’بااعتماد‘‘ افراد کا انتخاب کیا ہے۔ اس سلسلے میں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ صدرِ امریکہ کے سامنے جو اہم امور ہیں اُن میں افغانستان کی جنگ بھی ہے۔ یہ وہ جنگ ہے جس میں پاکستان کو امریکہ کا خطِ اول کا اتحادی قرار دیا جاتا تھا، لیکن امریکہ نے پاکستان کو ایک اعتبار سے دشمنِ اوّل قرار دے دیا ہے۔ یہ بات زبان سے تو اِن الفاظ میں کبھی نہیں کہی گئی لیکن جن لوگوں کی امریکی سامراجی پالیسی کے اتار چڑھائو پر نظر ہے وہ اس سے مختلف بات نہیں کہہ سکتے۔ اس بات کو کہنے کا آغاز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ’’سالِ نو‘‘ کے آغاز پر ’’دھماکا خیز ٹوئٹ‘‘ کے ذریعے کردیا تھا۔ امریکی صدر نے سفارتی زبان کو پس پشت ڈالتے ہوئے نہ صرف براہِ راست الزام تراشی کی بلکہ ’’گالیاں‘‘ بھی دینی شروع کردیں۔ امریکی صدر کے ٹوئٹ کے بعد سے پاکستان امریکہ تعلقات میں کشیدگی یا تنائو مرکزی موضوع بنا ہوا ہے۔ پاکستان جن خطرات میں گھرا ہوا ہے اُن کا مقابلہ کرنے کے لیے اوّلین ضرورت قومی یک جہتی اور اتحاد کی ہے۔ قومی یک جہتی اور اتحاد کی بنیاد ہمارے پاس اسلام اور نظریۂ پاکستان کے سوا کوئی بھی نہیں ہے، جبکہ عالمِ مغرب نے امریکی فوجی اور اقتصادی بالادستی کے زعم میں اسلام کے خلاف ایک عالمگیر مہم شروع کی ہوئی ہے، جس کا ایک نام ’’اسلاموفوبیا‘‘ بھی ہے، جس کا شکار امریکہ اور مغرب میں رہنے والے تارکینِ وطن ہیں۔ مسلمان ملکوں اور ان کی قیادت کا حال یہ ہے کہ وہ عالمِ اسلام اور مسلمانوں کے تحفظ کی فکر کرنے اور اس کے لیے حکمت و دانائی اور تدبر کے ساتھ اقدامات کرنے کے بجائے امریکہ اور مغرب کے سامنے سجدہ ریزی کرتے ہوئے امت کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنے ہوئے ہیں۔ اس تناظر میں پاکستان میں وزارتِ خارجہ کی کوئی قیادت ہی موجود نہیں ہے۔ یہ بات ہر پاکستانی کے علم میں ہے کہ امریکہ پاکستان کی داخلی سیاست میں بھی ملوث ہے۔ وہ افراد کسی بھی منصب پر آہی نہیں سکتے جن کے بارے میں یہ تاثر ہو کہ وہ امریکی احکامات کے مقابلے میں مزاحمت کا تصور بھی کرسکتے ہیں۔ جن شخصیات، قیادتوں اور جماعتوں کو امریکہ کی طرف سے ناپسندیدہ قرار دے دیا جاتا ہے ہماری قیادت بھی اپنی مفاد پرستی اور ’’غلامانہ ذہنیت‘‘ کی وجہ سے ان سے بریت کا اظہار کرنے لگتی ہے۔ افغانستان پر امریکی حملہ اسی طرح جھوٹ کی بنیاد پر تھا جس طرح امریکہ نے عراق پر وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار کی موجودگی کا الزام عائد کیا تھا۔ عراق پر امریکی قبضے سے صرف عراق ہی تباہ نہیں ہوا بلکہ پورا مشرق وسطیٰ اس آگ میں جل رہا ہے۔ یہ عراق پر امریکی قبضے ہی کے نتائج ہیں جنہوں نے ’’عرب بہار‘‘ یعنی سیاسی جمہوری تحریک کو خزاں بلکہ ہلاکت خیز آندھی میں بدل دیا ہے۔ اسی طرح افغانستان کی جنگ کی بنیاد بھی جھوٹ پر رکھی گئی۔ امریکہ نے نائن الیون کا ذمہ دار اسامہ بن لادن کو قرار دیا جو افغانستان میں پناہ گزین تھے، اور طالبان کے امیر ملاّ عمر پر ’’دہشت گردی کے مجرم‘‘ کو پناہ دینے کا الزام عائد کیا۔ اس کے کوئی شواہد پیش نہیں کیے گئے اور دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر فروغِ دہشت گردی کی ایک جنگ شروع کردی گئی۔ یہ امریکی تاریخ کی دوسری ناکام ترین جنگ ہے۔ امریکی قیادت نے اس جنگ میں اپنی ناکامی کا ذمہ دار پاکستان کو کھلے الفاظ میں قرار دے دیا ہے۔ اب تک ’’ڈومور‘‘ کا سلسلہ چل رہا تھا، لیکن ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں پاکستان کو دہشت گرد تنظیموں کی مالیاتی مدد کرنے کا ملزم قرار دینے کی قرارداد منظور ہوگئی ہے اور جون میں پاکستان کو ’’گرے‘‘ فہرست میں شامل کردیا جائے گا۔ اس حوالے سے پاکستان کی وزارتِ خارجہ کی کارکردگی مذاق بن گئی ہے۔ انہی دنوں میں نام کے وزیر خارجہ خواجہ آصف ماسکو کے دورے پر تھے اور انہوں نے وہیں سے قوم کو ’’خوشخبری‘‘ سنادی کہ ہم نے چین اور روس کی مدد سے امریکی منصوبہ ناکام بنادیا، لیکن دوسرے ہی دن معلوم ہوا کہ سوائے ترکی کے پاکستان کے ساتھ کوئی ملک نہیں ہے۔ یہ ہے ان خطرناک حالات میں وزیر خارجہ کی کارکردگی۔ اس قرارداد کی منظوری کے ساتھ ہی ٹرمپ کی معاونِ خصوصی لیزا کرٹس پاکستان کی قیادت کو پیغام دینے کے لیے اسلام آباد آئی تھیں ۔ انہوں نے کیا مذاکرات کیے اس کی حقیقی تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس درمیان میں وزارتِ خارجہ اور فوجی قیادت کی جانب سے امریکہ کے ساتھ خاموش سفارت کاری کا عمل جاری رہا ہے۔ اسی خاموش سفارت کاری کے عمل میں سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ واشنگٹن جاکر امریکی قیادت سے مذاکرات کرکے واپس آچکی ہیں۔ تہمینہ جنجوعہ کی سفارت کاری کے بارے میں قوم کو آگاہ کرنے سے گریز کیا گیا۔ اس تناظر میں ایک اور دھماکا خیز خبر آئی ہے اور وہ یہ کہ حکومتِ پاکستان نے جس کی مدت ختم ہونے والی ہے، امریکہ میں پاکستان کے سفیر کی تبدیلی کا فیصلہ کیا ہے۔ جس شخص کو امریکہ میں پاکستان کا سفیر مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اُس کی اہلیت اور صلاحیت اِس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ وہ محض ایک نوجوان سرمایہ کار ہیں اور وزیراعظم کی فضائی کمپنی کے شریک اور ڈائریکٹر رہ چکے ہیں۔ عام طور پر امریکہ جیسے ملک میں تجربہ کار سفارت کار کو متعین کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں موجودہ حکومت کی کارکردگی سب سے ناقص ہے۔ میاں نوازشریف نے دو تہائی اکثریت سے وزیراعظم بننے کے بعد کسی بھی شخص کو وزیر خارجہ متعین ہی نہیں کیا۔ حالانکہ پاکستان میں حکومت سازی کا عمل بھی عالمی سیاست اور پاک امریکہ تعلقات کے تناظر میں ہورہا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے علی الاعلان اپنے وزیر خارجہ کو برطرف کرکے سی آئی اے کے ڈائریکٹر کو ’’نازک‘‘ مذاکرات کے لیے یہ منصب دیا ہے، جبکہ پاکستان کی سیاسی قیادت کا حال ہمارے سامنے ہے۔ ملک کی سب سے بڑی جماعت کے قائد موجودہ سیاسی بحران اور اپنی نااہلی کو عالمی سازش بھی قرار دیتے ہیں۔ ہم عالمی سازشوں کے وجود کو نہ صرف تسلیم کرتے ہیں بلکہ اس کی طرف مستقل اپنی قیادت کو متوجہ بھی کرتے رہے ہیں۔ لیکن ان کے اقدامات کیا ہیں! یہ بات پوری قوم کو معلوم ہے کہ موجودہ سیاسی زلزلے کا مرکز ’’ڈان لیکس‘‘ ہے، یعنی پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات… لیکن کیا ہماری سیاسی و عسکری قیادت آزادانہ اور خودمختارانہ فیصلے کرنے کی اہلیت اور جرأت رکھتی ہیں۔ سیاسی قیادت کی نااہلی تو واضح ہوگئی ہے۔