اسلامی جمہوریہ پاکستان اور مسئلہ لاپتا

غالب نے کہا تھا ؎
ہوئے ہم جو مر کے رسوا ہوئے کیوں نہ غرقِ دریا
نہ کہیں جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا
غالب کے اس شعر میں ’’لاپتا‘‘ ہونے کی جو خواہش موجود ہے وہ اُن کی زندگی میں کبھی بروئے کار نہ آسکی۔ غالب کا زمانہ ہی ایسا تھا۔ اُس زمانے میں لاپتا ہونے کے لیے غالب کو دریا پر جانا پڑتا اور اس میں چھلانگ لگانے کی زحمت کرنی پڑتی۔ غالب ہمارے زمانے کے پاکستان میں ہوتے تو اُن کے لیے ’’جہادی‘‘ ہونے کا ’’شبہ‘‘ بھی کافی ہوسکتا تھا۔ آپ کہیں گے کہ بھلا غالب جیسے مشہور آدمی پر کون ہاتھ ڈالتا؟ لیکن یہ آپ کی لاعلمی ہے۔ میاں رضا ربانی پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما اور سینیٹ کے چیئرمین ہیں، اس کے باوجود انہوں نے چند روز پیشتر فرمایا کہ وہ پارلیمنٹ کو طاقتور نہیں سمجھتے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ مضبوط ہوسکتی ہے مگر اِس کے لیے مزاحمت کرنی پڑے گی خواہ ہم لاپتا ہی کیوں نہ ہوجائیں۔ (روزنامہ جنگ 26 دسمبر 2017ء)
ظاہر ہے کہ میاں رضا ربانی ابھی تک ’’لاپتا‘‘ نہیں ہوئے۔ انہوں نے بتادیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو مضبوط بنانے کے لیے مزاحمت کریں گے تو ’’لاپتا‘‘ ہوسکتے ہیں۔ خیر، میاں رضا ربانی تو سیاست دان ہیں۔ مگر ایسی ہی بات اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے بھی کہی ہے۔ اسلام آباد میں دھرنے کے بعد مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے دھرنے کے معاہدے میں ’’تیسرے فریق‘‘ کے کردار پر اظہارِ برہمی کیا۔ انہوں نے کہا کہ جسے شوق ہے وہ ریٹائر ہوکر سیاست میں آئے۔ انہوں نے کہا کہ ان باتوں کے بعد ممکن ہے میں مارا جائوں یا لاپتا کردیا جائوں۔ (روزنامہ جنگ۔27 نومبر 2017ء)
رضا ربانی اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے مذکورہ بیانات کو دیکھا جائے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں لاپتا ہونے کا مسئلہ اتنا سنگین ہے کہ عام افراد کیا، سینیٹ کے چیئرمین اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزز جج کے ذہن میں بھی لاپتا ہونے کا اندیشہ موجود ہے۔ سامنے کی بات ہے سپریم کورٹ لاپتا افراد کے معاملات کو کئی برسوں سے دیکھ رہی ہے مگر وہ بھی اب تک اس سلسلے میں بحیثیت ایک ادارہ کچھ نہیں کرسکی ہے، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ لاپتا افراد کے مقدمات کی سماعتوں کے حوالے سے ’’سپریم کورٹ‘‘ کا ’’سپریم‘‘ کہیں نظر ہی نہیں آتا، بلکہ کبھی کبھی تو اس کے صرف ’’کورٹ‘‘ ہونے پر بھی شبہ ہوتا ہے۔ مطلب یہ کہ لاپتا افراد کا مسئلہ اتنا بڑا ہے کہ سینیٹ کا چیئرمین، سینیٹ کا چیئرمین نہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کا جسٹس، جسٹس نہیں۔ سپریم کورٹ، سپریم کورٹ نہیں۔ اس صورتِ حال میں عام افراد ’’لاپتائیت‘‘ کے جس جہنم میں جاگریں، کم ہے۔ اس جہنم کا ایک پہلو لاپتا افراد سے متعلق ہے، یہ بجائے خود بہت ہولناک زاویہ ہے۔ مگر اس سے بھی زیادہ ہولناک قصہ یہ ہے کہ لاپتا افراد کے ہزاروں ماں باپ، بیوی بچے، بہن بھائی اور عزیز و اقارب لاپتا افراد کے برابر اذیت جھیل رہے ہیں۔ انسان مر جاتا ہے تو متعلقین دو چار دن، دوچار ہفتے، یا دو چار ماہ روپیٹ کر صبر کرلیتے ہیں۔ لیکن لاپتا افراد کے متعلقین کو تو یہ بھی معلوم نہیں کہ لاپتا انسان زندہ ہے یا مرگیا۔ یہ ابہام جان لیوا ہے، اسی لیے لاپتا ہونے کی سزا، سزائے موت سے زیادہ سنگین ہے، خاص طور پر لاپتا افراد کے متعلقین کے لیے۔ ممکن ہے لاپتا افراد میں بہت سے لوگ واقعتا ملک اور معاشرے کے لیے خطرناک ہوں۔ لیکن ایسا ہے تو اُن پر مقدمہ چلنا چاہیے اور انہیں قانون کے مطابق قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔ لیکن یہ ’’مسئلہ لاپتا‘‘ کی صرف ایک جہت ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کا مسئلہ صرف یہ نہیں کہ اس میں ہزاروں افراد لاپتا ہیں، بلکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مدتوں سے پاکستان کا نظریہ لاپتا ہے، پاکستان کی آزادی لاپتا ہے، پاکستان کی خودمختاری لاپتا ہے، پاکستان کی معیشت لاپتا ہے، پاکستان میں آزادیٔ اظہار لاپتا ہے، پاکستان میں انصاف لاپتا ہے، پاکستان میں علم و اہلیت لاپتا ہیں، پاکستان میں قیادت لاپتا ہے، پاکستان میں جمہوریت لاپتا ہے، یہاں تک کہ فلسفۂ ’’استعمال کرو اور پھینکو‘‘کے تحت بیچاری جماعت الدعوۃ بھی لاپتا ہوگئی ہے۔
پاکستان اور اس کے نظریے میں وہی تعلق ہے جو جسم اور روح کے درمیان ہوتا ہے۔ پاکستان جسم ہے، نظریۂ پاکستان روح ہے۔ روح نہ رہے تو جسم بھی مرجاتا ہے۔ اس نظریے کی طاقت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ اس نظریے نے قوم پرست جناح کو اسلام پرست قائداعظم بنایا۔ برصغیر کے ہجوم جیسے مسلمانوں کو ایک ملّت اور ایک قوم میں ڈھالا۔ اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کو خودغرضی اور مفاد پرستی سے اتنا بلند کیا کہ انہوں نے یہ معلوم ہونے کے باوجود کہ وہ کبھی پاکستان کا حصہ نہ ہوں گے پاکستان کے لیے تن، من، دھن کی قربانی دی۔ یہاں تک کہ نظریۂ پاکستان نے انگریزوں اور ہندو اکثریت کی خواہش کے برعکس دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت قائم کر ڈالی۔ نظریۂ پاکستان کی قوتِ محرکہ یا Motivation اور اس کی برکت کے بغیر یہ معجزہ ناممکن تھا۔ مگر پاکستان کی سول اور فوجی اشرافیہ نے نظریۂ پاکستان کے ساتھ جو کچھ کیا ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ تاریخ، مذہبی جماعتوں اور علماء کے دبائو کے تحت پاکستان کے حکمران طبقے نے پاکستان کو اسلامی جمہوریہ تو تسلیم کرلیا مگر پاکستان کے آئین کو اسلام کا ’’قید خانہ‘‘ اور ’’میوزیم‘‘ بنادیا۔ اس قید خانے اور میوزیم میں ہر طرف اسلام ہی اسلام ہے، مگر اس اسلام کو آئین سے نکل کر حکومتی اور ریاستی زندگی میں مرکزی کردار ادا کرنے کی ’’اجازت‘‘ نہیں۔ چنانچہ ہماری سیاست پر اسلام کا کوئی اثر نہیں۔ ہماری معیشت اسلام سے بے نیاز ہے۔ ہمارے قوانین اسلام سے متصادم ہیں۔ ہمارے عدالتی نظام کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ ہمارا تعلیمی نظام اسلام کو صرف اتنا پہچانتا ہے کہ وہ اسلامیات کو ایک مضمون کی حیثیت سے نصاب کا حصہ بناتا ہے اور بس۔ ہمارے ذرائع ابلاغ کو اسلامی شعور، اسلامی احساس اور اسلامی تہذیب کی ہوا بھی نہیں لگی۔ اس کے برعکس یہ ذرائع ابلاغ سیکولر اور لبرل تصورات، سیکولر اور لبرل اقدار، اور سیکولر و لبرل مثالیوں یا Idealsکو پروان چڑھا رہے ہیں۔ اسلام کے لاپتا ہونے کی ایک صورت تو یہ ہے۔ نظریۂ پاکستان کے لاپتا ہونے کی دوسری صورت یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ اور اعلیٰ تعلیمی اداروں پر سیکولر اور لبرل عناصر کا قبضہ ہے، چنانچہ وہ اس ’’سفید جھوٹ‘‘ کو عام کرنے میں لگے ہوئے ہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر نہیں بنا تھا بلکہ قائداعظم ایک سیکولر رہنما تھے۔ اس سلسلے میں سیکولر عناصر کے پاس صرف دو دلائل تھے جو علمی و تحقیقی کاوشوں نے دریا برد کردیے ہیں۔ سیکولر عناصر کے پاس ایک دلیل جسٹس منیر کی جانب سے قائداعظم سے منسوب کیا گیا وہ بیان تھا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ قائداعظم نے کہا تھاکہ پاکستان میں اقتدارِ اعلیٰ عوام کے پاس ہوگا۔ سلینا کریم نے اپنی تصنیف ’’سیکولر جناح‘‘ میں اس جھوٹ کا پردہ فاش کردیا اور بتایا کہ جسٹس منیر نے قائداعظم سے وہ بات منسوب کی جو انہوں نے کبھی کہی ہی نہیں۔ دوسری دلیل سیکولر عناصر کی یہ تھی کہ قائداعظم نے 11 اگست 1947ء کی تقریر میں جو یہ کہا ہے کہ پاکستان میں ہندو اپنے مندروں، عیسائی اپنے گرجوں اور مسلمان اپنی مساجد میں جانے کے لیے آزاد ہوں گے اور یہ سب لوگ بلاتخصیص پاکستان کے شہری یعنی پاکستانی کہلائیں گے۔ ہم گزشتہ 27 سال سے قائداعظم کی اس تقریر کو اسلامی تصورات کا مظہر قرار دے رہے تھے مگر کوئی مان کر ہی نہیں دے رہا تھا۔ اب سلینا کریم نے قائداعظم کا حوالہ دے کر اس مسئلے کو بھی حل کردیا ہے۔ ہیکڑ بولیتھو نے صاف کہا ہے کہ اس تقریر میں الفاظ تو جناح ہی کے ہیں مگر ان الفاظ پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبۂ حجۃ الوداع کا سایہ ہے۔ ہیکٹر بولیتھو نہ اسلام پسند ہے، نہ کسی مذہبی جماعت کا رہنما، نہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ… لیکن اس کے علم اور اس کے فہم نے بھی اسے وہی بات بتائی جو بہت سے افراد مدتوں سے کہہ رہے تھے۔ مگر ان حقائق کے باوجود سیکولر اور لبرل افراد جھوٹ کا کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اور یہ نظریۂ پاکستان کو ’’لاپتا‘‘ کرنے کی ایک گھنائونی سازش ہے۔
دنیا کی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ اس تاریخ میں کسی ملک کا آدھا حصہ ایک دن میں ’’لاپتا‘‘ نہیں ہوا، مگر 16 دسمبر 1971ء کو سقوطِ ڈھاکا کے ساتھ ہی آدھا پاکستان لاپتا ہوگیا۔ آج لاپتا افراد کے حوالے سے جلوس نکلتے ہیں، مظاہرے ہوتے ہیں، عدالتوں میں سماعتیں وقوع پذیر ہوتی ہیں، مگر آدھے پاکستان کے لاپتا ہونے کے حوالے سے تو کچھ بھی نہ ہوا۔ ایک عدد حمود الرحمن کمیشن قائم ہوا، جس کا دائرۂ کار عسکری معاملات تک محدود تھا، مگر اس کی رپورٹ بھی جاری نہ ہوسکی۔ جاری ہوئی بھی تو بھارت میں، اور وہ بھی ادھوری۔ حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا کہ لاپتا ہوجانے والے آدھے پاکستان کے سانحے کو ہم نے اپنے انفرادی اور اجتماعی شعور میں جگہ ہی نہ دی، نہ اس کو نصاب کا حصہ بنایا۔ اس سلسلے میں ہمارے حکمران طبقے کو اتنی توفیق تک نہ ہوئی کہ وہ سقوطِ ڈھاکا کے سلسلے میں ایک’’سرکاری بیانیہ‘‘ ہی تیار کرلیتا اور اس کو قومی شعور کا حصہ بنادیتا۔ سامنے کی بات ہے کہ جب حادثے یا سانحے شعور کا حصہ بن جاتے ہیں تو ان کے نفسیاتی، جذباتی اور نظریاتی مضمرات پر قابو پانا آسان ہوجاتا ہے۔ چونکہ ہم نے سقوطِ ڈھاکا کے حوالے سے یہ نہیں کیا، چنانچہ سقوطِ ڈھاکا ایک بھوت کی طرح ہمارے تعاقب میں ہے۔ کچھ احمق اور کم فہم یہ سمجھتے ہیں کہ ’’مٹی پائو پالیسی‘‘ سے ہر مسئلہ حل ہوسکتا ہے، یا تاریخ کی طبقاتی اور گروہی تعبیر سے بات بن سکتی ہے۔ جو لوگ ایسا سمجھتے ہیں وہ تاریخ کی الف ب بھی نہیں جانتے۔ تاریخ کو ادھورے سچ کی نہیں ’’پورے سچ‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ادھورے سچ سے تاریخ کی بھوک اتنی بڑھ جاتی ہے کہ پھر پورا سچ بھی تاریخ کا پیٹ نہیں بھرپاتا۔
پاکستان کی تخلیق ہماری سیاسی آزادی ہی کی نہیں ہماری فکری، نفسیاتی، ذہنی اور جذباتی آزادی کی بھی علامت تھی۔ اس آزادی کے سلسلے میں ہم نے صرف اپنے مذہب، اپنی تہذیب، اپنی تاریخ اور اپنے حوصلوں سے مدد طلب کی تھی، مگر قائداعظم کے انتقال اور لیاقت علی خان کے قتل کے ساتھ ہی ہماری آزادی کی تمام صورتیں ایک ایک کرکے لاپتا ہوتی چلی گئیں۔ بدقسمتی سے ان آزادیوں پر سودے بازی کا آغاز جنرل ایوب خان نے کیا۔ امریکی پیپرز سے یہ حقیقت آشکار ہوچکی ہے کہ اگرچہ جنرل ایوب نے مارشل لا 1958ء میں لگایا، مگر وہ 1954ء سے امریکہ کے ساتھ رابطے میں تھے اور امریکیوں سے کہہ رہے تھے کہ پاکستان کے سیاست دان پاکستان کو تباہ کررہے ہیں، اور فوج ان کو ہرگز ایسا نہیں کرنے دے گی۔ اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان جرنیلوں نے نہیں بنایا تھا، چنانچہ جنرل ایوب پاکستان کو اپنی جاگیر کی طرح دیکھنے کے مجاز ہی نہیں تھے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر ملک کی بقا اور سلامتی خطرے میںپڑ گئی تھی اور مارشل لا لگانا ناگزیر ہوگیا تھا تو جنرل ایوب یہ ’’نیک کام‘‘ امریکہ کی مرضی، اعانت اور اُس کے ساتھ سازباز کے بغیر کرتے۔ لیکن جو کچھ ہوا وہ امریکہ کی آشیرباد کے ساتھ ہوا، اور ہمیشہ کے لیے ایک مثال بن گیا۔ نتیجہ یہ کہ ہماری سیاسی، فکری، نفسیاتی، ذہنی اور جذباتی آزادی ’’لاپتا‘‘ ہوگئی اور ابھی تک لاپتا ہے۔ بدقسمتی سے اس ’’گمشدگی‘‘ کے ذمے دار جرنیل بھی ہیں اور سول حکمران بھی۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ہمارے حکمران طبقے نے اس حد تک امریکہ پرستی کی کہ انہیں امریکہ معاذ اللہ خدا سے بھی بڑا خدا نظر آتا ہے۔ اس ضمن میں جرنیلوں اور سول حکمرانوں میں امریکہ پرستی کا مقابلہ ہوتا رہا ہے۔ یہ مقابلہ اِس وقت بھی جاری ہے۔ امریکہ میاں نوازشریف اینڈ کمپنی کے سر پر بھی ہاتھ رکھے کھڑا ہے اور مارشل لا کو روکے ہوئے ہے، مگر پینٹاگون فوجی قیادت کو بھی ’’کھٹے میٹھے‘‘ گیت سنارہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پلڑا بالآخر کس جانب جھکتا ہے۔ امریکہ کو نہ جرنیلوں سے محبت ہے، نہ نوازشریف سے۔ امریکہ کو صرف اپنے مفادات سے محبت ہے۔ امریکہ نہ جرنیلوں کے ساتھ ہے، نہ نوازشریف کے ساتھ۔ امریکہ صرف اپنے ساتھ ہے اور اپنے حلیف بھارت کے ساتھ۔ بہرحال یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ ہمارے حکمران طبقے کی امریکہ پرستی نے ہمارے لیے آزادی کی ہر صورت کو خواب و خیال بنادیا۔ ہم نے امریکہ کی حمایت اور مدد کے بغیر پاکستان بنایا تھا۔ ہم امریکہ کی حمایت اور مددکے بغیر اپنا وجود برقرار رکھ سکتے تھے اور اب بھی رکھ سکتے ہیں۔ اس کام کے لیے جو ایمان، جو جذبہ، جو علم، جو فراست اور دنیا سے جو بے نیازی درکار ہے وہ ہمارے حکمران طبقے کے پاس نہیں۔ نتیجہ یہ کہ ہماری سیاسی آزادی لاپتا ہے، ہماری فکری، نفسیاتی، جذباتی آزادی لاپتا ہے، یہاں تک کہ ہماری معاشی آزادی بھی لاپتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے حکمران طبقے کو ان لاپتا آزادیوں کا کوئی دکھ اورکوئی ملال بھی نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران طبقے کو یہ آزادیاں درکار ہی نہیں ہیں۔ یہ آزادیاں صرف مذہبی شعور کو درکار ہوتی ہیں، اور ہمارے حکمرانوں کا کوئی مذہبی شعور ہی نہیں۔ یہ آزادیاں اُن لوگوں کو بھی درکار ہوتی ہیں جو خود تکریمی یا Self Respect کی نعمت کے حامل ہوں۔ بدقسمتی سے ہمارے حکمران طبقے میں ایسی خودتکریمی یا حب الوطنی بھی نہیں ہے کہ وہ اپنی آزادیوں کے دفاع کے لیے اپنے مفادات کو دائو پر لگادیں۔
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ امریکہ نے ہماری فوجی اور سول اسٹیبلشمنٹ کی آزادی کو لاپتا کیا ہوا ہے اور اسٹیبلشمنٹ نے ملک کے دائرے میں قومی قیادت اور شعور کی آزادی کو لاپتا کیا ہوا ہے۔ غلامی، غلامی ہے… امریکہ کی ہو یا اسٹیبلشمنٹ کی۔ مسلمانوں نے اپنی تاریخ کے طویل سفر میں جب بھی کوئی اہم، قابلِ قدر اور بڑا کام کیا ہے، طاقت کے مراکز یا Power Structure کے باہر کیا ہے۔ پاور اسٹرکچر اتنی ہولناک چیز ہے کہ وہ تخلیقی قوت کو بھی کھا جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال کمیونسٹ روس ہے۔ کمیونسٹ انقلاب سے قبل روس نے ٹالسٹائے اور دوستو وسکی جیسے عظیم ناول نگار پیدا کیے۔ چیخوف جیسے افسانہ نگار اور پشکن جیسے شاعر پیدا کیے۔ مگر جب روس کی تخلیقی روح کمیونسٹ پاور اسٹرکچر کا حصہ بن گئی تو روس نے دیوزاد پیدا کرنے بند کردیے اور بالشتیے پیدا کرنے شروع کردیے۔ اقبال کی عظیم الشان تخلیقی واردات، اقبال کی بے پناہ خلاّقی پورے عصر کے پاور اسٹرکچر کو پھلانگ گئی۔ محمد علی جناح اگر اپنے زمانے کی مقامی اور بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے زیراثر ہوتے تو وہ محمد علی جناح ہی رہتے، قائداعظم نہ بنتے۔ ان کے ذہن میں قیام پاکستان کی جدوجہد کی بات تو کیا، الگ ملک کا خیال بھی نہ آتا۔ بڑے خیالات کے لیے انسان کی روح، انسان کے قلب، انسان کی نفسیات، انسان کے ذہن اور اس کے علم کا آزاد ہونا بنیادی شرط ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں کون سا اہم سیاست دان ہے جس پر فوجی اسٹیبلشمنٹ کی مہر نہ لگی ہوئی ہو! ذوالفقار علی بھٹو، میاں نوازشریف، الطاف حسین اور اب عمران خان فوجی اسٹیبلشمنٹ کی ’’تخلیقی صلاحیت‘‘کا مظہر ہیں۔ بہت سے لوگ اس تناظر میں اسٹیبلشمنٹ کو بڑا ’’تخلیقی‘‘ یا Creative سمجھتے ہیں۔ بلاشبہ اسٹیبلشمنٹ ان معنوں میں ’’تخلیقی‘‘ ہے بھی، مگر بدقسمتی سے لوگ اسٹیبلشمنٹ کی تخلیق کے ’’معیار‘‘ کو نہیں دیکھتے۔ لیکن اصل مسئلہ معیار کا بھی نہیں ہے۔ غلام ذہن میاں نوازشریف، الطاف حسین اور عمران خان کی سطح سے بلند ہوہی نہیں سکتا۔ آج میاں نوازشریف اسٹیبلشمنٹ کی گرفت سے ’’آزاد‘‘ ہیں، مگر اُن کی آزادی کی اصلیت یہ ہے کہ وہ چھوٹی اسٹیبلشمنٹ کی گرفت سے نکل کر بڑی اسٹیبلشمنٹ یعنی امریکہ کی گرفت میں چلے گئے ہیں۔ ان کے سر پر یورپ اور بھارت سایہ کیے کھڑے ہیں۔ ان کی ساری جرأت اور بے باکی یہیں سے جنم لے رہی ہے۔ الطاف حسین کا قصہ بھی یہی ہے۔ وہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کے دائرے سے نکلے تو بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کا حصہ بن گئے۔ بھٹو صاحب کے پاس شاید Choice ہی نہیں تھی۔ اس تناظر میں عمران خان کے مستقبل سے امیدیں وابستہ کرنا حماقت ہے۔ اس سلسلے میں اقبال نے بنیادی بات کہہ دی ہے، انہوں نے کہا ہے ؎
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں سے
سرِ آدم ہے ضمیر کن فکاں ہے زندگی
آزاد اور زندہ لوگوں کی شان یہی ہوتی ہے کہ وہ خدا کے بعد اپنی صلاحیتوں پر اعتبار اور انحصار کرتے ہیں۔ جو شخص اپنی دنیا آپ پیدا نہیں کرسکتا وہ مسلمان کیا صرف انسان کہلانے کا بھی مستحق نہیں۔ مگر بدقسمتی سے وطنِ عزیز میں آزاد اور خود پر انحصار کرنے والا شعور بھی ’’لاپتا‘‘ ہے۔ ہم بحیثیت ایک قوم مانگے کے اجالے کے عاشق ہوگئے ہیں۔ ہمیں آزادی کی روکھی سوکھی روٹی کے بجائے غلامی کے پراٹھے کھانے کی عادت پڑ گئی ہے۔ یہ صورت حال افراد اور جماعتوں کے لیے ہی نہیں، قوموں اور تہذیبوں کے لیے بھی تباہ کن ہے۔ اقبال نے کہا ہے ؎
بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب
اور آزادی میں بحرِ بیکراں ہے زندگی
مگر ہم بحرِبیکراں کے بجائے زیادہ سے زیادہ ایک Bath Tube بننا چاہتے ہیں، اور بن جائیں توا س پر خوش ہوتے ہیں۔ اقبال نے مزید کہا ہے ؎
سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
اب آپ ہمیں بتایئے کہ صداقت، عدالت اور شجاعت کا سبق پڑھ کر کوئی کسی کا بھی غلام کیسے ہوسکتا ہے؟ لیکن ہمیں ان باتوں سے کیا! ہم تو لاپتا شعور ہیں۔لاپتا تفہیم ہیں۔ لاپتا، لاپتا، لاپتا۔