سینیٹ انتخابات، دولت کی جیت ، سیاست کی ہار

سینیٹ کے حالیہ انتخابات کے بعد ایک نئے ہنگامے نے سر اٹھالیا ہے، لگتا ہے کہ ایک پنڈورا باکس کھل گیا ہے، حالانکہ اِن انتخابات میں بھی وہی کچھ ہوا جو اس ادارے کے سابقہ انتخابات میں ہوتا رہا ہے۔ لیکن اِس بار کچھ ایسا ضرور ہوا ہے جس نے ملک کی سیاسی جماعتوں کو بھی سراپا احتجاج بنادیا ہے۔ حقیقت میں یہ ان ہی سیاسی جماعتوں کا ماضی کا کیا دھرا ہے جو اب خود ان کے قابو میں نہیں رہا۔ برائی اور خرابی کی خصوصیت یہی ہے کہ وہ کچھ عرصے بعد اپنے بانی یا موجد کے بھی کنٹرول میں نہیں رہتی اور اُسے بھی ڈس کر رہتی ہے۔ شاید اِس بار برائی یا خرابی سر چڑھ کر بول اٹھی ہے۔ ہر طرف سے آوازیں آرہی ہیں کہ سینیٹ کے انتخابات میں بولیاں لگتی رہیں، ہارس ٹریڈنگ ہوتی رہی، ووٹرز کی خرید و فروخت بڑے پیمانے پر جاری رہی، امیدوار اپنے مخالفین سے بڑھ کر قیمتیں لگاتے رہے اور معزز اراکینِ اسمبلی اپنے عوامی مینڈیٹ کی قیمتیں وصول کرتے رہے۔ سب کے پاس جواز تھا۔ کوئی اسے حکمت عملی قرار دے رہا تھا، کسی نے اسے سیاسی منصوبہ بندی قرار دیا۔ کسی کے مطابق یہ شطرنج کے مہروں کو اچھے انداز میں چلانے کا کام تھا، کچھ اسے جوڑتوڑ کا نام دیتے رہے۔ لیکن کوئی اس بات سے انکار نہیں کرسکا کہ ووٹرز کی خرید و فروخت کے لیے پیسہ چلتا رہا۔ اگرچہ ہر ایک الزام اپنے مخالف کو دیتا رہا، لیکن خود اُس پر اُس کے مخالف کا الزام بھی یہی تھا۔
1973ء میں سینیٹ کے قیام سے اب تک اس ادارے کے جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں اُن میں پہلا موقع ہے کہ ملک کی چار بڑی سیاسی جماعتوں اور اُن کے سربراہوں نے نہ صرف سینیٹ کے حالیہ انتخابات میں خرید و فروخت کا الزام لگایا ہے بلکہ ان کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان جناب سراج الحق جو خود سینیٹ کے پہلے سے رکن ہیں، انہوں نے اِن انتخابات کے دن ہی خرید و فروخت کا ذکر کیا تھا اور الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ سے اس کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوری عمل کو جاری کرنے اور انتخابات میں بے ضابطگیوں کو روکنے کے لیے الیکشن کمیشن کو ازخود اور بروقت کارروائی کرنی چاہیے۔ ایم کیو ایم پہلے دن سے دہائی دے رہی ہے کہ اس کے ارکانِ سندھ اسمبلی کو خریدا گیا، اور ایم کیو ایم کے دونوں دھڑوں کے اتحاد کے باوجود اُسے بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اُس کے مطابق وہ چار نشستیں جیت سکتی تھی، لیکن 6 بار کی ری کائونٹنگ کے باوجود اُس کا صرف ایک رکن تکنیکی بنیادوں پر سینیٹر منتخب ہوسکا۔ مسلم لیگ (ن) کو پنجاب اور بلوچستان میں خرید و فروخت کی شکایت ہے اور نوازشریف نے اس معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی تسلیم کیا ہے کہ ایک ایک ووٹ پر چار چار کروڑ کی بولی لگی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اُن کے ارکان بکے ہیں۔ اُنہیں خریداروں کا تو پتا ہے، بکنے والوں کے بارے میں معلومات اکٹھی کررہے ہیں۔ دوسری جماعتوں کو بھی یہ شکایات ہیں، لیکن فاٹا سے ایک آزاد امیدوار نے انکشاف کیا ہے کہ وہاں ایک ایک ووٹ کی بولی 90 کروڑ روپے لگی ہے۔ پیپلز پارٹی نے اگرچہ کسی پر خریداری کا الزام تو نہیں لگایا لیکن یہ سوال ضرور کیا ہے کہ پنجاب میں خریداری کے بغیر چودھری سرور کیسے جیت گئے؟ پیپلزپارٹی کے سعید غنی کا کہنا ہے کہ ہم نے بہتر حکمت عملی کے تحت کام کیا، ووٹرز ارکان سے رابطہ کیا، اور خاص طور پر دوسری جماعتوں کے ناراض ارکان ہمارا ہدف تھے۔ لیکن اُن کے اس مؤقف میں صداقت نظر نہیں آتی۔ البتہ وہ یہ ضرور کہتے ہیں کہ اگر کسی جگہ پیپلزپارٹی کی کامیابی دولت کا کمال ہے تو پھر دوسری جگہوں پر مخالفین کی کامیابی کے لیے بھی یہی پیمانہ ہونا چاہیے۔
ابھی یہ بحث جاری ہے کہ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لیے بھی جوڑتوڑ شروع ہوچکا ہے اور کہا جارہا ہے کہ شاید یہاں بھی دولت اور ترغیبات کام کریں۔ دوسری جانب سپریم کورٹ نے چار سینیٹرز کی دہری شہریت کا معاملہ اٹھادیا ہے۔ اگر سپریم کورٹ زیادہ گہرائی میں جائے تو سینیٹ، قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلیوں کے درجنوں ارکان کی دہری شہریت نکل آئے گی، خصوصاً خواتین ارکان کی تو اکثریت اس خانے میں فٹ ہوجائے گی۔
اِس بار سینیٹ کے انتخابات میں دولت کی ریل پیل کاجو ہنگامہ برپا ہے اس کی ایک وجہ تو بعض غیر متوقع نتائج ہیں، دوسرے سیاسی رسّا کشی نے معاملات کو زیادہ سنگین بنادیا ہے۔ سینیٹ میں جو غیر متوقع نتائج آئے ہیں وہ یقینی طو رپر چمک یا ترغیبات کا نتیجہ ہیں، اور ان نتائج نے ثابت کیا ہے کہ تمام بڑی سیاسی جماعتیں نظم و ضبط اور ڈسپلن کے فقدان کا شکار ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی اپنے ارکان پر گرفت مضبوط نہیں۔ یہ گرفت مضبوط کیسے ہو؟ جب ارکان لاکھوں کروڑوں روپے کے چندے، عطیات اور سرمایہ کاری کرکے ٹکٹ حاصل کریں تو پھر اُن پر پارٹی کی گرفت کیسے رہ سکتی ہے!
موجودہ سینیٹ الیکشن میں پنجاب میں مسلم لیگ (ن) بآسانی بارہ کی بارہ نشستیں جیت سکتی تھی، چونکہ تحریک انصاف کے پاس پنجاب اسمبلی میں صرف 31 ووٹ تھے اور چند روز قبل سینیٹ کے ضمنی انتخاب میں اُس کی امیدوار دیگر جماعتوں کے تعاون کے باوجود 35 ووٹ حاصل کرسکی تھیں، لیکن حیرت انگیز طور پر چودھری سرور نے 44 ووٹ حاصل کیے جو سب سے زیادہ ہیں۔ ظاہر ہے کہ انہوں نے آٹھ سے دس ووٹ خریدے ہیں یا یہ ووٹ مسلم لیگ (ن) سے کسی خفیہ مفاہمت کا نتیجہ ہیں کیونکہ پنجاب اسمبلی میں وہ اپوزیشن کے متفقہ امیدوار نہیں تھے۔ کراچی میں ایم کیو ایم چار نشستوں کی توقع کررہی تھی لیکن کامران ٹیسوری کے معاملے پر وہ دو گروپوں میں تقسیم ہوچکی تھی۔ کامران ٹیسوری کی واحد اہلیت بس پیسہ ہی تھا۔ لیکن پھر دونوں گروپوں کے اتحاد کے باوجود بمشکل ایک نشست جیت سکی، اور ایم کیو ایم کے رہنما کھلم کھلا کہہ رہے ہیں کہ اُن کے ارکان کو سندھ حکومت یا پیپلزپارٹی نے خریدا۔ یہاں پیپلزپارٹی اعداد و شمار سے تین نشستیں زائد جیتنے میں کامیاب ہوگئی۔ خیبر پختون خوا میں بھی اُسے بہتر اور غیر متوقع کامیابی ملی اور حکمران تحریک انصاف کم از کم دو نشستیں ہار گئی جو وہ جیت سکتی تھی۔ یہاں ارکان کے بکنے کا الزام خود عمران خان لگا چکے ہیں۔
بلوچستان میں صرف آزاد امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ نہ حکمران جماعت اور نہ اپوزیشن کوئی نشست جیت سکی۔ گویا یہاں بھی بنیادی کردار پیسے یا ترغیبات نے ادا کیا۔ فاٹا میں بھی تمام آزاد ارکان جیتے ہیں، وفاقی حکومت بھی یہاں کوئی نشست نہیں جیت سکی حالانکہ عمومی طور پر وہ یہ نشستیں جیت لیتی ہے۔
اس صورت حال میں سینیٹ کا پورا ادارہ ہی مشکوک ہوکر رہ گیا ہے۔ ویسے تو کسی سیاسی جماعت نے سینیٹ کے ٹکٹوں کی تقسیم میں بھی کسی اصول یا ضابطے کو پیش نظر نہیں رکھا۔ سیاسی جماعتوں کے یہی رویّے اداروں کی کمزوری کا باعث بنتے ہیں۔ کامران ٹیسوری کا ٹکٹ جو ایم کیو ایم پاکستان کی تقسیم کا باعث بن گیا، اس کی وجہ بھی کامران ٹیسوری کی دولت تھی۔ موجودہ انتخابات میں جیتنے والوں میں شاید کوئی ایک امیدوار بھی متوسط طبقے کا نہ ہو۔ تمام امیر کبیر یا دہری شہریت کے حامل ہیں، یا پہلے سے سیاسی جماعتوں پر چھائی ہوئی اشرافیہ کے رشتے دار ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے اس معاملے میں ایک اور مثال قائم کی چند روز قبل پارٹی میں شامل ہونے والے مشاہد حسین سید کو ٹکٹ دے کر، جو نہ صرف برے دنوں میں پارٹی کو چھوڑ کر قاف لیگ میں چلے گئے تھے، بلکہ مسلم لیگ (ن) کے لوگ پرویزمشرف دور میں اُن کی نظربندی کو بھی ایک ڈراما قرار دیتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں ماضی میں بھی سینیٹ کو بازیچۂ اطفال ہی سمجھتی تھیں۔ سینیٹ کا مقصد متعلقہ صوبے کی برابری کی طاقت کے ساتھ نمائندگی ہے تاکہ سینیٹرز اپنے صوبے کے لیے مؤثر کردار ادا کرسکیں، لیکن سیاسی جماعتیں دوسرے صوبوں کے اپنے پسندیدہ لوگوں کو کسی اور صوبے سے سینیٹر منتخب کراتی رہی ہیں۔ حال ہی میں نااہل ہونے والے سینیٹر نہال ہاشمی کراچی کے شہری ہیں مگر مسلم لیگ (ن) نے انہیں پنجاب کی نشست سے سینیٹ میں بھجوایا۔ یہی کام اے این پی نے کراچی کی سیاست میں دہائیوں سے سرگرم شاہی سید کو خیبر پختون خوا کی نشست پر سینیٹر منتخب کرواکر کیا، کہ وہ پارٹی سربراہ کے سمدھی ہیں۔ جبکہ نوازشریف بھی اپنے مفرور سمدھی کو سینیٹر منتخب کرا چکے ہیں، حالانکہ وہ کاغذات جمع کرانے کے موقع پر ریٹرننگ افسر کے سامنے پیش نہیں ہوئے جو ایک لازمی تقاضا ہے۔
اس صورتِ حال میں سینیٹ کا حالیہ انتخاب ایک تماشا بن کر رہ گیا ہے، اور رہی سہی کسر چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کے موقع پر پوری ہوجائے گی۔ اگر الیکشن کمیشن، سیاسی جماعتوں اور اعلیٰ عدلیہ نے اس کا سنجیدگی سے نوٹس نہ لیا اور بہتری کے لیے اقدامات نہ کیے تو ہارس ٹریڈنگ اور دولت کی سیاست کی شرح مزید بڑھ جائے گی۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ الیکشن کمیشن اپنا کردار ادا کرے۔ سینیٹ کے امیدواروں کی بے رحمی سے اسکروٹنی کرے کہ کیا وہ اس صوبے کے شہری ہیں یا نہیں، اور کیا پارٹی کے لیے ان کی کوئی خدمات ہیں، یا وہ دولت کی بنیاد پر امیدوار بنے ہیں۔ پھر خرید و فروخت کرنے والے امیدوار اور بکنے والے ووٹر دونوں کو نہ صرف انتخابی عمل سے باہر نکال کر نااہل قرار دیا جائے بلکہ اُن کے خلاف تادیبی کارروائی بھی عمل میں لائی جائے۔ اس سلسلے میں اعلیٰ عدلیہ بھی معاملات پر نظر رکھے اور بروقت نوٹس لے، اور مقننہ بھی ضروری اور مؤثر قانون سازی کرے۔ نیز ضوابط کی خلاف ورزی پر سیاسی جماعتوں کے خلاف بھی سخت ترین کارروائی ہونی چاہیے، ورنہ منتخب ادارے بازیچۂ اطفال بنے رہیں گے۔