ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سے نااہل قرار پانے والے سابق وزیراعظم اور حکمران لیگ کے سابق صدر میاں محمد نوازشریف، اُن کی صاحبزادی مریم نواز اور ان کے دیگر ہمنوا صبح و شام اٹھتے بیٹھتے عوام کے ووٹ کے تقدس کی پامالی پر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں، اور احتجاج کی یہ لہر کچھ اس قدر بے لگام ہوتی جارہی ہے کہ اعلیٰ عدلیہ اور دیگر قومی اداروں کے احترام کی بھی پروا نہیں کی جا رہی، اور کھلے بندوں اُن اداروں کی توہین کا سلسلہ جاری ہے جنہیں آئینی تحفظ اور تقدس حاصل ہے۔ اعلیٰ ترین عدالت کے ججوں کو مخاطب کرکے میاں صاحب اُن کے فیصلوں کو غصے اور انتقام پر مبنی قرار دے رہے ہیں۔ اس ضمن میں ایک اہم سوال تو یہ ہے کہ میاں صاحب سے اعلیٰ ترین عدالتوں کے معزز جج صاحبان کو آخر کیوں اور کیا بغض ہے جس کی بناء پر میاں صاحب کے بقول ان کے فیصلوں کو انتقام قرار دیا جائے!
یہ تو اعلیٰ عدلیہ اور میاں صاحب کا معاملہ ہے، مگر ایک اہم سوال خود میاں صاحب اور ان کی حکومت سے بھی جواب طلب ہے کہ آپ کی حکومت عوام سے کس بات کا انتقام لے رہی ہے جو ان پر گزشتہ سات ماہ سے ہر یکم تاریخ کو پیٹرولیم بم گرا رہی ہے! کیا ان کا جرم یہ ہے کہ انہوں نے ووٹ دے کر آپ اور آپ کی جماعت کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچایا؟ وہی ووٹ جس کے تقدس کا واویلا کرتے آپ نہیں تھکتے۔ سوال یہ ہے کہ عوام کو کیا صرف رائے دہی کا ہی حق ہے، اور کیا اسی حق ہی کی کوئی اہمیت ہے؟ یا انہیں زندہ رہنے کا حق بھی ہے، جسے چھین لینے کی تگ و دو میں آپ کی حکومت گزشتہ سات ماہ سے مسلسل ان کو مہنگائی بم کے حملوں کا نشانہ بنائے ہوئے ہے۔
یکم مارچ کو وفاقی حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل ساتویں بار اضافہ کردیا ہے۔ پیٹرول 3.56 روپے، ڈیزل 2.62 روپے اور مٹی کے تیل کے نرخ 6.28 روپے فی لیٹر بڑھائے گئے ہیں۔ اضافے کے بعد پیٹرول کی نئی قیمت 88.07 روپے، ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت 98.45 روپے اور مٹی کے تیل کی قیمت 76.46 روپے فی لیٹر ہوگئی ہے۔ گزشتہ 7 ماہ کے دوران پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں 21 روپے، اور مٹی کے تیل کے نرخ میں 32 روپے فی لیٹر تک کا اضافہ ہوچکا ہے، اور بظاہر یہی محسوس ہورہا ہے کہ حکومت قیمتوں میں اضافے کا یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رکھے گی، جس کی وجہ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتیں نہیں بلکہ حکومت کو درپیش سنگین معاشی مسائل بتائے جارہے ہیں۔ حکومت پیٹرولیم مصنوعات پر فی لیٹر 40 روپے سے زائد کا ٹیکس وصول کررہی ہے۔ جہاں تک عالمی منڈی کا تعلق ہے تو وہاں ابھی تک خام تیل کی قیمتوں میں استحکام پایا جاتا ہے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ حکومت پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو 2013ء کی سطح پر لے جانا چاہتی ہے جب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں 100 سے 106 روپے فی لیٹر تک تھیں، لیکن یہ فراموش نہ کیا جائے کہ اُس وقت خام تیل کی قیمت بھی 100 ڈالر فی بیرل کے قریب تھی۔ اِس وقت خام تیل 50 سے 55 ڈالر فی بیرل کے درمیان میں مل رہا ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہر چیز کی قیمت کو پر لگ جائیں۔ گزشتہ 7 ماہ کے دوران عوام کے ساتھ یہی ہورہا ہے، ادھر یکم تاریخ کو پیٹرول، ڈیزل اور مٹی کا تیل مہنگا ہوتا ہے، اُدھر ٹرانسپورٹ کرایوں اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بھی اضافہ کردیا جاتا ہے۔
حکومت کے اس قطعی ظالمانہ اقدام کو عدالتِ عالیہ لاہور اور سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا گیا ہے۔ معروف قانون دان اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے عدالتِ عالیہ لاہور میں دائر کی گئی اپنی درخواست میں کہا ہے کہ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہر ماہ غیر قانونی اضافہ کیا جا رہا ہے، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے قبل وفاقی کابینہ سے منظوری بھی حاصل نہیں کی گئی۔ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو کالعدم قرار دے۔ سندھ ہائی کورٹ میں درخواست گزار شارق مبشر خان ایڈووکیٹ نے سیکرٹری خزانہ اوگرا اور وزارتِ پیٹرولیم سمیت دیگر کو فریق بناتے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہے کہ گزشتہ کئی ماہ سے مسلسل پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرکے عوام کی مشکلات میں اضافے کے ساتھ کروڑوں روپے کی لوٹ مار کی جا رہی ہے۔ قیمتوں میں اضافہ غیر قانونی ہے، کیونکہ بین الاقوامی مارکیٹ میں پیٹرول کی فی بیرل قیمت 60 ڈالر ہے، جب کہ اوگرا نے پیٹرول کی فی لیٹر قیمت 88 روپے مقرر کی ہے جو زیادتی اور غیر قانونی ہے۔ درخواست گزار نے عدالت کی توجہ 2014ء کے احکامات پر مبذول کرواتے ہوئے بتایا کہ عدالتِ عظمیٰ نے احکامات جاری کیے تھے کہ حکومت ٹھوس وجہ کے بغیر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کرسکتی، لیکن حکومت نے کئی بار غیر قانونی اضافہ کیا، اس لیے قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیا جائے۔ سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس عقیل احمد عباسی کی سربراہی میں قائم 2 رکنی بینچ نے درخواست پر سیکرٹری خزانہ، اوگرا اور وزارتِ پیٹرولیم کو 28 مارچ کے نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا ہے اور کہا ہے کہ تفصیلی احکامات جاری کریں گے۔
پنجاب اور سندھ کی ان اعلیٰ عدالتوں نے اگر حکومت کے خلاف فیصلے دیئے تو ممکن ہے حکمران نواز لیگ ان فیصلوں کو انتقامی اور حکومتی معاملات میں مداخلت قرار دے۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ عدالتی فیصلے آنے سے قبل ہی حکومت اپنے ناعاقبت اندیشانہ اقدامات کو واپس لینے کا اعلان کردے، جس کا ایک نہایت مناسب جواز یہ ہے کہ ملک کے عوام کے نمائندہ ادارے قومی اسمبلی میں لوگوں کے منتخب نمائندوں نے حکومت کے اس اقدام کو قطعی نامناسب قرار دیتے ہوئے اسے واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے، جب کہ ملک کے سب سے بڑے اور نواز لیگ کے صدر میاں شہبازشریف کے اپنے صوبے کی اسمبلی میں بھی عوامی نمائندوں نے اس حکومتی اقدام کی مذمت اور اس کی واپسی کے لیے قراردادیں جمع کرا دی ہیں۔ قراردادیں تحریک انصاف کے رکن اسمبلی شعیب صدیقی اور جماعت اسلامی کے رکن ڈاکٹر وسیم اختر کی طرف سے پنجاب اسمبلی میں الگ الگ جمع کروائی گئیں، جن میں کہا گیا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں اضافے سے مہنگائی کا طوفان آئے گا، اور اشیائے خور و نوش سمیت ادویہ کی قیمت میں بھی اضافہ ہوگا۔ قرارداد میں کہا گیا کہ 7 ویں بار پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت بڑھائی گئی ہے۔ ایوان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں اضافے کی مذمت کی گئی اور اور اس اضافے کو واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا۔
کیا یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ حکومت اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کا انتظار کیے بغیر عوام کے نمائندوں کے مطالبے پر توجہ دے گی، کہ خود حکمران لیگ کے کارپردازان صبح شام عوام کے منتخب نمائندوں کے حقِ حکمرانی کی وکالت کرتے نہیں تھکتے، اور یہ مطالبہ تو یقینا عوام کے منتخب نمائندوں ہی کی طرف سے کیا جا رہا ہے، اس لیے اپنے اس بیانیے کی روشنی میں حکومت کو اس کی بھرپور پذیرائی کرنی چاہیے، کہ عوام کا صرف رائے دہی کا حق ہی قابلِ احترام نہیں، انہیں جینے کا حق بھی آئین اور قانون نے دیا ہے۔ کیا ہی بہتر ہو کہ حکمران عوام کے اس حق کو بھی تسلیم کریں اور اسے اہمیت بھی دیں، خصوصاً ان حالات میں کہ یہ سال عام انتخابات کا سال ہے اور بہت جلد حکمرانوں کو ووٹ مانگنے کے لیے عوام کے حضور پیش ہونا ہے۔ 2013ء کے عام انتخابات میں حکمرانوں نے دیگر بہت سے وعدوں کے ساتھ عوام کو مہنگائی کے خاتمے، لوڈشیڈنگ سے نجات اور بے روزگاروں کے لیے روزگار کی فراہمی کے وعدے بھی کیے تھے۔ حکومت اگرچہ لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے بلند بانگ دعوے کررہی ہے اور اس ضمن میں بڑے بڑے اشتہارات بھی ذرائع ابلاغ کی زینت بن رہے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ موسم گرما شروع ہونے میں ابھی کچھ دیر ہے، مگر ابھی سے دیہات اور شہروں میں چار سے آٹھ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کرکے حکومت اپنے دعووں کی قلعی خود کھول رہی ہے۔ جہاں تک مہنگائی کے خاتمے کا تعلق ہے تو یہ حقیقت بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ اشیائے ضروریہ کی گرانی کے باعث عام آدمی کے لیے جینا دوبھر ہے… اور یہ حقیقت بھی ناقابلِ تردید ہے کہ اشیائے ضروریہ کی مہنگائی اور گرانی کا بڑا سبب بھی حکومتی اقدامات ہیں، جس نے روزمرہ استعمال کی ہر چھوٹی بڑی چیز پر بھاری جنرل سیلزٹیکس عائد کر رکھا ہے، جب کہ بجلی، پانی، گیس، ٹیلی فون اور اسی نوعیت کے دیگر بلوں پر بھی کئی کئی قسم کے ٹیکس غریب امیر کی تفریق کیے بغیر وصول کیے جا رہے ہیں اور اس پر وزارتِ خزانہ اور ایف بی آر کے حکام یہ شور مچاتے نہیں تھکتے کہ لوگ ٹیکس نہیں دیتے، اور ٹیکس نیٹ مزید وسیع کرنے کے لیے مختلف نوعیت کے جبری اقدامات کیے جاتے رہتے ہیں جن میں سے ایک، بینکوں کے ذریعے لین دین پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی بلا جواز وصولی بھی ہے۔ اسی طرح گزشتہ برس جائدادوں کی خرید و فروخت پر بھی ناروا ٹیکس عائد کرکے عام آدمی کے لیے رہائشی سہولتوں کا حصول مزید مشکل بنادیا گیا ہے۔
اس صورتِ حال میں خود حکومت کا بھلا اسی میں ہے کہ وہ باقاعدہ انتخابی مہم شروع کرنے سے پہلے عوام پر پیٹرول بم گرانے جیسے اقدامات سے گریز کرے اور ان کے رائے دہی کے حق کی طرح جینے کے حق کا خود بھی احترام کرے… ورنہ اس وقت تک حکمران جماعت اپنی مقبولیت کے زعم میں کچھ اس قدر مبتلا دکھائی دیتی ہے کہ اسے کسی قسم کے ردعمل کی کوئی پروا محسوس نہیں ہوتی، اور اسے اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ ظلم اور برداشت کی کوئی حد ہوتی ہے اور تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق عوامی ردعمل کا ایسا سیلاب بھی آسکتا ہے جس میں تمام تر مقبولیت خس و خاشاک کی طرح بہہ جایا کرتی ہے…!!!
مجھے کیوں نکالا
مرے دم سے تھا ملک بھر میں اجالا … مجھے کیوں نکالا
مرے نام کی سب ہی جپتے تھے مالا … مجھے کیوں نکالا
کوئی تو بتائے خطا کیا تھی میری … مجھے کیوں سزا دی
نہ پھوڑا، نہ تھا میں ہتھیلی کا چھالا … مجھے کیوں نکالا
سمجھتی ہے ہر ایک لیڈر سے اچھا … مجھے ساری دنیا
میں اس کی نگاہوں میں ہوں بھولا بھالا … مجھے کیوں نکالا
یقینا مہکتا ہوا باغ تھا میں … کہ بے داغ تھا میں
نہیں تھا اگر دال میں کچھ بھی کالا … مجھے کیوں نکالا
اقامے پہ کیسی سزا میں نے پائی … دہائی دہائی
یہ سازش تھی یا کوئی گڑبڑ گھٹالا … مجھے کیوں نکالا
ہر اک شخص کرتا ہے مجھ سے محبت … یہی ہے حقیقت
ابھی تک یہاں ہے مرا بول بالا … مجھے کیوں نکالا
نشان عبرتوں کا بنیں گے یقینا … جو ہیں میرے دشمن
کروں گا میں اک روز منہ اُن کا کالا … مجھے کیوں نکالا
درِ محتسب یا درِ منصفی ہو … غرض کوئی بھی ہو
لگا دوں گا ایسے اداروں پہ تالا … مجھے کیوں نکالا