تہذیبوں کا تصادم اور بی بی سی کا کردار

برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی اردوکا مطالعہ ایک مسلمان قاری پر عموماً منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ دو نمایاں ردعمل پیدا ہوتے ہیں۔ ایک خود ملامتی، دفاعی، وضاحتی، یا شرمندگی کا ہوتا ہے۔ دوسرا اسلام اور پاکستان کے خلاف مبالغہ آرائی پر ناگواری اور احساسِ جوابدہی کا ہوتا ہے۔ یعنی بی بی سی اردو ’اسلام اور مسلمان‘ پر سوچا سمجھا (Agenda Setting ) مواد پیش کرتا ہے۔ اس صورتِ حال سے دو رویّے سامنے آتے ہیں۔ ایک بی بی سی اردو کا ہے۔ دوسرا قاری کا ہے۔ بی بی سی کا یہ رویہ نامعقول نہیں ہے، بلامبالغہ، اسلام سے تہذیبی تصادم میں اس کا ایک کردار ہے۔ اسے اس کردار کا مکمل شعور ہے۔ لفظی اغلاط سے قطع نظر، ایک ایک جملہ معنوی باریک بینی کا گواہ ہے۔ خودساختہ لبرل، سیکولر لکھاری اسلامی قوانین کی تحقیر سازی کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ چند مثالوں سے پہلے مسلمان قاری کے ردعمل کا پہلا حصہ سمجھنا ناگزیر ہوگا۔ مسلمان وضاحتی اور شرمندہ کیوں ہیں؟ یقینا علم اور معلومات دونوں کا قحط ہے، یا ایمان کی کمی ہے۔ بے ایمان یہاں موضوع نہیں۔ اُن پر وقت کا زیاں موزوں بھی نہیں۔ البتہ جو علم اور معلومات دونوں سے تہی دست ہیں، اُنہیں تہذیبی کشمکش کا واضح شعور نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ’تہذیبوں کا تصادم‘ ہارورڈ پروفیسر ہن ٹنگٹن کی بے بنیاد اختراع ہے، جبکہ یہ سراسر لاعلمی ہے۔ پروفیسر ہن ٹنگٹن نے محض مغرب کے لیے عام ’یاددہانی‘ کا کام انجام دیا ہے۔ اس سے پہلے مؤرخ برنارڈ لوئیس نے زیادہ وضاحت سے اس ’تصادم‘ پر نظریاتی کام کیا ہے۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے اپنی آمد پر واضح کردیا تھا کہ ’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل کو مٹنا ہی ہے‘‘۔ اسلام واحد انسانی تہذیب ہونے کا حتمی اعلان کرچکا ہے۔ تہذیبوں کے تصادم کا کلیہ نیا، اجنبی، اور مغربی نہیں، بلکہ اسے اندلس کے ساحلوں سے صلیبی جنگوں تک تسلسل سے دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ خلافتِ عثمانیہ کے خلاف سازش میں نمایاں ہے۔ اسے مسئلہ فلسطین میں سمجھا جاسکتا ہے۔ اسے الجزائراور بوسنیا قتلِ عام میں محسوس کیا جاسکتا ہے۔ دہشت گرد جنگ اس کا واضح ثبوت ہے۔ عراق کی تباہی اور شام کی بربادی میں یہ نمایاں ہے۔ اس وقت یورپ میں اسلام سے تصادم کی کیفیت عام ہے۔ ہرحکومت پر اسلام مخالفین کا بھرپور دبائو ہے۔ امریکہ سمیت پوری دنیا میں انتخابات کا اہم ترین نعرہ ’اسلام دشمنی‘ ہے۔ ٹرمپ کی انتخابی کامیابی کل کی بات ہے۔ فرانس کے نئے لبرل صدر میخواں نے انتہا پسند عیسائیوں اور یہودیوں کے دباؤ پرفیصلہ کیا ہے کہ ’اسلام کو قابو‘ میں رکھا جائے گا، تاکہ فرانس کا سیکولر تشخص بچایا جاسکے۔ پورے مغرب کی حکومتی مشینری اسلام سے متصادم ہے۔ غرض تہذیبوں کے اس تصادم پر پوری انسانی تاریخ اور سارا عالم گواہ ہے۔ اس معاملے سے ناواقفیت عذرگناہ بدتر از گناہ کے سوا کچھ نہیں۔
یہاں بی بی سی اردو کا ’تہذیبوں کے تصادم‘ میں جو روزمرہ کردار ہے، اس کی ایک مثال نقل کرتے ہیں۔ ایک حالیہ سرخی کچھ یوں جمائی گئی ہے کہ ’’پاکستان کی وجہ سے روم کے تاریخی کولیسیئم کا رنگ سرخ کیوں؟‘‘
ذیلی عنوان یوں ہے ’’حال ہی میں روم کا تاریخی کولیسیئم سرخ روشنی میں نہا گیا۔ اس ایونٹ کا تعلق پاکستان سے تھا۔ وجہ کیا تھی؟‘‘
یہ ایک وڈیو اسٹوری ہے۔ ایک زخمی مسیحی شخص ساجد کا بیان اسکرین پر ابھرتا ہے۔
وہ کہتا ہے: ’’انہوں نے میرا موبائل لیا اور مجھے مارنے لگے۔‘‘
اب بی بی سی اردو اپنا تبصرہ شامل کرتا ہے کہ: ’’یہ (کولیسیئم پرسرخ رنگ) اس شخص اور پاکستان میں امتیاز کا شکار دیگر مسیحیوں سے اظہارِ یکجہتی تھا۔‘‘
’’ساجد مسیح کے مطابق اس نے اہلکاروں سے بچنے کے لیے چوتھی منزل سے چھلانگ لگائی۔ وہ اپنے اس رشتے دار کے ہمراہ زیر تفتیش تھا جس پر توہینِ مذہب کا الزام لگا تھا۔ اُس کے کزن نے مبینہ طور پر فیس بُک پر ایک توہین آمیز تصویر شیئر کی تھی۔ لیکن اگر ساجد مشتبہ شخص نہیں تھا تو اُس نے چھلانگ کیوں لگائی؟ اس کا یہ کہنا تھا کہ انہوں نے ہمیں مارنا شروع کیا۔ پھر مجھے کزن سے بدفعلی کے لیے کہا… میں نے کہا وہ میرے بھائی جیسا ہے… وہ چیخنے لگے، سو میں کھڑکی کھول کر کود گیا۔ ساجد تیس فٹ نیچے گرا اور زخمی ہوا۔ ایف آئی اے نے ان ملزمان کے جنسی استحصال یا ان پر تشدد سے انکار کیا ہے۔ پاکستان میں حقوقِ انسانی کے کارکن، حکام پر زیر حراست ملزمان پر تشدد کے الزامات لگاتے رہے ہیں۔ پاکستان میں حالیہ برسوں میں توہینِ مذہب کے نام پر درجنوں ملزمان کو قتل کیا جاچکا ہے۔ توہینِ مذہب پاکستان میں حساس معاملہ ہے۔ یہاں پیغمبر اسلام کی توہین کی سزا موت ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق 2017ء میں 19 افراد توہینِ رسالت و مذہب کے جرم میں سزائے موت کے منتظر تھے، جبکہ سیکڑوں مقدمات کے فیصلوں کے منتظر ہیں۔‘‘
یہ ایک ’کریکٹراسٹوری‘ ہے، جس میں ایک عیسائی پر پاکستان میں گزرنے والے مظالم کی منظرکشی کی گئی ہے۔ یہ کتنی سچ اور کتنی مستند ہے، اس سے قطع نظر، اس خبرکے متن کا سرسری سا تجزیہ صورتِ حال واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ بتانا مفید ہوگا کہ کولیسیئم کا سرخ رنگ میں نہا جانا دنیا بھر کے اُن عیسائیوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے ہے، جن پر دنیا میں کہیں بھی ظلم ہورہا ہے۔ واضح رہے کہ کولیسیئم رومن عہد کی وہ تماشا گاہ ہے، جہاں انسانوں کی جانوروں کے ہاتھوں چیر پھاڑ کروائی جاتی تھی۔ غلاموں کی وحشی درندوں سے کُشتی پر لطف اندوز ہوا جاتا تھا۔
سب سے پہلے مسیحی اقلیت سے پاکستان میں امتیازی سلوک کا ذکرکیا گیا ہے، ساتھ ہی اظہارِ یکجہتی کا ذکرکیا گیا ہے۔ سب سے پہلے ’مسیحی‘ تشخص پر بات کرتے ہیں۔ رپورٹ میں کہیں بھی ’پاکستانی مسیحی‘ نہیں کہا گیا۔ یعنی پاکستان کے مسیحی شہریوں کو براہِ راست عیسائیت کے مرکز روم سے Identify کیا گیا۔ یعنی اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں عیسائی خطرے میں ہیں، اور روم اُن سے اظہارِ یکجہتی کرتا ہے، کیونکہ یہ اقلیتی طبقہ عیسائی تہذیب سے وابستہ ہے، اسے اپنی تہذیب سے یکجہتی کا احساس دلانا ازحد ضروری ہے۔ جبکہ یہی بی بی سی اردو برما کے مسلمانوں کو محض ’روہنگیا‘ اور ’روہنگیا افراد‘ سے Identify کرتا ہے، یا زیادہ سے زیادہ ’روہنگیا مسلمان‘ نقل کرتا ہے۔ یہاں برما کے مظلوم مسلمانوں کے خلاف بی بی سی اردو کے ایک پروپیگنڈہ مضمون کا ذکر برمحل ہوگا۔ یکم اکتوبر 2017ء کے مضمون کا عنوان ہے ’’ہمیں روہنگیا بخار ہے!‘‘ کالم نگارآمنہ مفتی نے یہاں انتہائی بے حسی سے روہنگیا مسلمانوں کی حالتِ زارکا موازنہ پاکستان میں مقیم اُن ترک شہریوں سے کیا ہے جو فتح اللہ گولن نیٹ ورک کے لیے کام کرتے رہے ہیں۔ تفصیل کا یہاں موقع نہیں۔ عنوان ’روہنگیا بخار‘ بیمار ذہنیت کا بہتر عکاس ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کے لیے ہمدردی کا ’بخار‘ خاتون پر شدید ناگوار گزرا ہے۔
بات ہورہی ہے ’کریکٹر ساجد مسیح‘ کی… بی بی سی اردو پر مسلمانوں پر ’کریکٹر اسٹوری‘ کی ایک مثال موازنے کے لیے کفایت کرے گی۔ 5 دسمبر 2017ء کو بی بی سی نے مقبوضہ کشمیر سے ایک کریکٹر اسٹوری حاصل کی۔ اس کا عنوان تھا ’مہک: میں کشمیری ہوں اور کشمیری حالات پر اگر نہیں بولوں گی تو کیا فائدہ؟‘ تحریک آزادی کے لازوال کرداروں اور شہداء کی سرزمین سے بی بی سی نے ایک ایسی کریکٹر اسٹوری برآمد کی، جس کا تحریک آزادیٔ کشمیر یا خطے کی مجموعی صورتِ حال سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس کریکٹر اسٹوری کی پہلی اور سب سے خاص بات ذیلی عنوان میں کچھ اس طرح ہے ’’امریکی ریپر ایمینم سے متاثر سری نگر کی 17 سالہ رہائشی مہک کشمیر کی پہلی خاتون ریپر ہیں‘‘۔ یعنی کشمیری لڑکی مہک کی ’اعلیٰ صفت‘ یہ ہے کہ وہ امریکی ریپر سے متاثر ہے۔ دوسری خاص بات یہ ہے کہ وہ پہلی کشمیری ریپر ہے۔ تیسری خاص بات یہ ہے کہ وہ بطور ریپر کشمیر کا تشخص اجاگرکرنا چاہتی ہے۔ ظاہر ہے، بی بی سی اردو کی یہ کریکٹر اسٹوری تحریک آزادیٔ کشمیرکا پورا ’کریکٹر‘ تباہ کرنے کی کوشش ہے۔ اس رپورٹ میں مقبوضہ وادیٔ کشمیرکے مجموعی کریکٹر پر حملہ کیا گیا ہے۔ ایسی ’کریکٹر اسٹوری‘ بی بی سی اردوکی اسپیشلٹی ہے۔
’ساجد مسیح‘ کی کہانی پر واپس آتے ہیں، جو زیادہ تر’مبینہ‘ اور ’مطابق‘ پر استوار ہے۔ رہے ظالم اہلکار، تو وہ اقلیت اور اکثریت میں درحقیقت کوئی فرق کرتے ہی نہیں، سب سے برابر ’’فیضیاب‘‘ ہوتے ہیں، بلکہ اکثریت نسبتاً زیادہ ہی مظلوم ہے۔ مگر بی بی سی اردو نے کبھی پاکستان کی اکثریت سے کوئی ’کریکٹر اسٹوری‘ حاصل نہیں کی۔ یہ تو چھوڑئیے، لندن سے کراچی میں پچیس سال تک مسلسل جو بدترین دہشت گردی ہوئی، اُس پر بی بی سی اردو نے پچیس کریکٹر اسٹوریز بھی تیارکیں؟ کبھی نہیں۔ ’پچیس سالہ کراچی‘ برطانوی تاریخ پر وہ داغ ہے جسے مٹایا نہیں جاسکتا۔ بی بی سی اردو بلدیہ فیکٹری کراچی میں راکھ ہونے والے کتنے خاندانوں پرکتنی رپورٹس تیار کرچکا ہے؟ شاید ایک کریکٹر اسٹوری بھی نہیں۔
’ساجد مسیح‘ رپورٹ آگے کہتی ہے ’’پاکستان میں حقوقِ انسانی کے کارکن حکام پر زیر حراست ملزمان پر تشدد کے الزامات لگاتے رہے ہیں‘‘۔ اس جملے سے بی بی سی کی مراد اگر سلمان حیدر اور احمد وقاص گورایہ جیسے اخلاق باختہ افراد اور اُن کے الزامات ہیں، تو اس پر تبصرے کے لیے ’جو اندازِ گفتگو‘ چاہیے اس سے یہ قلم تہی دست ہے۔ آگے رپورٹ کا اصل مدعا یوں سامنے آتا ہے: ’’پاکستان میں حالیہ برسوں میں توہینِ مذہب کے نام پر درجنوں ملزمان کو قتل کیا جاچکا ہے۔ توہینِ مذہب پاکستان میں حساس معاملہ ہے۔ یہاں پیغمبر اسلام کی توہین کی سزا موت ہے‘‘۔ ساجد مسیح سے تہذیبِ روم کا اظہارِ یکجہتی اور پاکستان میں توہینِ رسالت کے قانون پر حملہ، اس رپورٹ کے یہی دو بنیادی مقاصد ہیں۔ یہ دونوں مقاصد کیا ہیں؟ اور کیوں ہیں؟ ان سوالوں کے جوابات ہی اس مضمون کا مغز ہیں۔ مگر ان سے پہلے بی بی سی اردو کی چند اور سرخیاں نقل ہوجائیں۔
2مارچ 2018ء کو بی بی سی اردوکی سند یافتہ تاریخ دان رعنا صفوی نے مضمون لکھا ’’کیا مسلمانوں کو ہولی نہیں کھیلنی چاہیے؟‘‘ اس عنوان تلے خاتون کی دلیل کا لبِ لباب یہ ہے کہ ہندوستان میں مسلمان اور ہندو ساتھ مل کر ہولی کھیلا کرتے تھے، اس لیے آج بھی کھیلنی چاہیے۔ ہولی کا تہوار بھگوان وشنوکے نام پر منایا جاتا ہے۔ بھگوتا پرانا کے ساتویں باب میں وشنو کے متعلقہ قصے کا ذکر ہے۔ غرض اس مضمون کا مدعا ہے کہ مسلمان ہندو روایات اپنا لیں۔ آج وشنو بھگوان کا تہوار منائیں، کل سندور لگائیں، اور پرسوں طواف کے بجائے سات پھیرے لگانا شروع کردیں۔ خاتون تاریخ کا وہ صفحہ بغیر پڑھے پلٹ گئیں، جہاں بت شکن مجاہدین کا تذکرہ ہے، اُن کی روایت بت شکنی تھی۔ بی بی سی اردو’’کیا ہندوؤں کو بت شکنی کی روایت نہیں اپنا لینی چاہیے؟‘‘ کے عنوان سے کوئی مضمون شائع کرسکتا ہے؟ ناممکن!
آگے بڑھیے، اگلا عنوان دیکھیے ’’امریکہ: مسلمان ہم جنس پرستوں کو تیزی سے قبول کررہے ہیں‘‘۔ بی بی سی اردو نے یہ ’’خوشخبری‘‘ جس طرح پیش کی ہے، اُس پر ’بلا تبصرہ‘ ہی کہنا کافی ہوگا۔
بی بی سی اردو کو ہر 14 اگست پر11 اگست بھی بہت یاد آتا ہے۔ ہر بار ایک مضمون گیارہ اگست کی تقریر پر ضرور چھاپا جاتا ہے، جبکہ قائداعظم کی دیگر تمام تقاریر، اور قراردادِ پاکستان کوکبھی درخورِ اعتنا نہیں سمجھا جاتا۔ محمد علی جناح جیسے فاضل اور جہاں بیں مسلمان رہنما پر سیکولر ہونے کی تہمت کی تکرار زیادتی ہے۔ انہوں نے کبھی کسی تقریر میں اپنے لیے یا پاکستان کے لیے اصطلاح ’سیکولر‘ استعمال نہیں کی۔
اب آجاتے ہیں فرانک عمیدی کی حالیہ رپورٹ پر، جسے سوشل میڈیا ’جیسے‘ ذریعہ ابلاغ کی بنیاد پر استوار کیا گیا ہے۔ چند ٹوئٹس استعمال کیے گئے ہیں، اسلام کے مقاماتِ مقدسہ کا تقدس مجروح کیا گیا ہے۔ اس کا آغاز مصری نژاد امریکی صحافی مونا ایلتھوے نے کیا۔ خاتون نے پانچ سال پہلے دورانِ حج جنسی ہراسانی کا ذکرکیا ہے۔ اس حوالے سے ہیش ٹیگ قائم کیا ہے۔ بی بی سی اردو کے انتخاب کو داد دینی چاہیے۔ مونا ایلتھوے وہ خاتون ہے جس نے Headscarves and Hymens: Why the Middle East Needs a Sexual Revolution کے عنوان سے اسلام مخالف متنازع کتاب لکھی۔ مشرق وسطیٰ میں جنسی بے راہ روی کی وکالت کی۔ ایک ایسی عورت، جو مسلمان خواتین میں جنسی بے راہ روی کے لیے مہم سازی کررہی ہو، وہ اگر حج کے دوران جنسی ہراسانی کی شکایت کرے، تو اسے ’اسلام دشمن‘ صحافت کی پستی ہی سمجھا جاسکتا ہے۔ بالکل اسی طرح، جب چوبیس گھنٹے پوری دنیا کو جنسی ہراسانی میں مبتلا کرنے والی ہالی وڈ فنکارائیں زیادتی کا شکوہ کرتی ہیں تو سننے والوں کی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ بلاشبہ، مغرب زدہ ذہن سمجھ ہی نہیں سکتے کہ شرم کسے کہتے ہیں، حیا کس شے کا نام ہے۔ مختصر یہ کہ ایک بوگس رپورٹ کی بنیاد پرکروڑوں مسلمانوں کے جذبات مجروح کیے گئے ہیں۔ کیا بی بی سی اردوکسی دوسرے مذہب کے مقدس مقامات پر ایسی کسی رپورٹ کا متحمل ہوسکتا ہے؟ قطعی طور پر نہیں۔
پھر ساجد مسیح کی رپورٹ پر چلتے ہیں، جس میں سے برآمد ہونے والے دو سوالات پر مضمون کو سمیٹتے ہیں۔ ساجد مسیح سے تہذیبِ روم کا اظہارِ یکجہتی کیوں؟ اور پاکستان میں توہینِ رسالت کے قانون پرحملہ کیوں؟
مذکورہ تمام مثالیں واضح کررہی ہیں کہ ’تہذیبِ روم‘ اور ’اسلامی تہذیب‘ کا تصادم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں توہینِ رسالت کے قانون، اور اسلامی پاکستان کے تشخص پرحملہ کیا جارہا ہے۔ ظاہر ہے توحید، قرآن اور رسالت پر ایمان کامل ہی ’اسلامی تہذیب‘ کی بنیاد ہیں۔ خدانخواستہ اگر مسلمان توہینِ رسالت اور توہینِ اسلام پرسمجھوتا کرلیں، تو تہذیب کی جڑ اکھڑ جائے گی، یہی منفی پروپیگنڈے کا مقصد ہے۔