سینیٹ کے انتخابات مکمل ہوگئے ہیں۔52 سینیٹر چھے سال کی مدت کے لیے منتخب ہوئے ہیں۔ ان انتخابات کے نتائج ہر صوبے میں اس قدر حیران کن رہے کہ چھانگا مانگا کی سیاست بھی منہ چھپا رہی ہے۔ ہارس ٹریڈنگ کا یہ عمل کسی ایک جماعت تک محدود نہ رہا، بلکہ ووٹ کی خرید و فروخت کا داغ اب منافع بخش سیاسی کاروبار بن کر رہ گیا ہے۔ سینیٹ کے حالیہ انتخابات میں کروڑوں، اربوں روپے سے امیدواروں کو خریدنے کی باتیں بھی ہوئیں۔ یہ الزام بلاوجہ نہیں، منڈی تو لگی ہے، مگر اب ثبوت کون کہاں سے لائے گا؟ اس کے باوجود الیکشن کمیشن نے پہلی بار انتخابی عمل میں پیسے کے استعمال کو قانون کی نظر سے پرکھنے کا فیصلہ کیا ہے، جہاں اب بات ثبوت کے ساتھ ہوگی،جن رہنمائوں نے پیسے کے عمل دخل کا الزام لگایا ہے انہیں الیکشن کمیشن کو ثبوت فراہم کرنے ہوں گے۔ بلاشبہ انتخابی عمل میں پیسہ چلا ہے، تاہم الزام کے حق میں ثبوت نہ دیے گئے تو معاملہ ہمیشہ کے لیے گمبھیر ہوجائے گا۔
دُہری شہریت کے معاملے پر بھی چار سینیٹر سعدیہ عباسی، نزہت صادق، چودھری سرور اور ہارون اختر کا معاملہ الیکشن کمیشن میں پہنچ چکا ہے، تاہم یہ معاملہ بھی کسی ثبوت کے بغیر اچھالا گیا ہے۔ یہ سب سینیٹر اپنی اپنی غیر ملکی شہریت ختم کرچکے ہیں۔ پارلیمنٹ کی رکنیت کے لیے آئین نے ایک معیار مقرر کیا ہوا ہے۔ سینیٹ کا رکن بننے کے لیے بھی وہی معیار ہے جو آئین میں قومی اسمبلی کے امیدوار کے لیے ہے، اس میں زیر، زبر کا بھی فرق نہیں ہے۔
سینیٹ انتخابات کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ جوڑتوڑ ہوا، ہارس ٹریڈنگ ہوئی۔ انتخابات سے پہلے ہی کہا جارہا تھا کہ ایک ووٹ کے بدلے کروڑوں روپے کی پیش کش کی جارہی ہے، اور نتائج دیکھ کر یقین بھی ہوگیا کہ سکہ رائج الوقت کی طاقت نے واقعی اپنا کام دکھایا ہے۔ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے وقت بھی یہی سکہ چلنے کا امکان ہے۔ اس منصب کے لیے مسلم لیگ(ن) کی جانب سے راجا ظفرالحق اور پیپلزپارٹی کی جانب سے سلیم مانڈوی والا حتمی امیدوار ہوسکتے ہیں۔ سینیٹ میں اس وقت تین بڑے گروپ مسلم لیگ(ن)، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف سامنے آئے ہیں۔ چھوٹے گروپوں کو نظرانداز کرکے کوئی فیصلہ کیا گیا تو یہ تینوں گروپ ہی آپس میں تعاون کریں گے۔ چیئرمین سینیٹ کے لیے سیاسی جماعتوں میں جاری بات چیت میں تحریک انصاف نے پیپلزپارٹی کو تجویز دی ہے کہ مسلم لیگ (ن) سے بغاوت کرکے آزاد سینیٹر منتخب ہونے والوں میں سے کسی کو چیئرمین سینیٹ بنایا جائے، تحریک انصاف اسے ووٹ دے گی، لیکن اس عہدے کے لیے پیپلزپارٹی کے کسی امیدوار کو ووٹ نہیں دے گی، تاہم ڈپٹی چیئرمین کے لیے پیپلزپارٹی کے امیدوار کو ووٹ دیا جائے گا۔ اپنا چیئرمین سینیٹ لانے کے لیے کسی بھی جماعت کو 53 ووٹ درکار ہوں گے اور اس وقت مسلم لیگ (ن) 33 نشستوں کے ساتھ سرفہرست ہے، اگر اتحادیوں کے ووٹ بھی شامل کیے جائیں تو حکمران جماعت کے پاس اپنا چیئرمین سینیٹ لانے کے لیے 45 سے زائد ووٹ ہیں۔ سینیٹ میں پیپلز پارٹی 20 نشستوں کے ساتھ دوسری، اور تحریک انصاف 12 نشستوں کے ساتھ تیسری بڑی جماعت ہے۔ نیشنل پارٹی اور پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کے پاس 5،5 جب کہ جے یو آئی (ف)کے پاس 4 سیٹیں ہیں۔ پیپلز پارٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ چیئرمین سینیٹ کی دوڑ میں اُسے فاٹا کے 8 آزاد سینیٹرز کی حمایت حاصل ہوگئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق سینیٹ انتخابات کے بعد نون لیگ کے ساتھ پیپلزپارٹی بھی اپنا چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ لانے کی کوششیں کررہی ہے، آصف زرداری نے پارٹی رہنماؤں کو آزاد اراکین کو ساتھ ملانے کا ٹاسک دے رکھا ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما ڈاکٹر قیوم سومرو اور سلیم مانڈوی والا پر مشتمل دو رکنی وفد نے فاٹا کے 8 سینیٹرز سے ملاقات کی اور انہیں پیپلز پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی۔ پیپلزپارٹی کے رہنماؤں سے ملاقات کرنے والے سینیٹرز میں ہدایت اللہ، ہلال الرحمان، تاج محمد آفریدی، اورنگ زیب خان، سجاد توری، مرزا محمد آفریدی، مومن خان آفریدی اور ناصر خان آفریدی شامل تھے۔ چیئرمین سینیٹ کے لیے نون لیگ بھی سرگرم ہے۔ فاٹا سے آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے سینیٹر مرزا محمدآفریدی نے نوازشریف سے ملاقات کرکے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا اعلان کیا تھا۔ پیپلز پارٹی کے وفد سے ملاقات کرنے والے سینیٹرز میں نومنتخب سینیٹر مرزا محمد آفریدی بھی شامل تھے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما ڈاکٹر قیوم سومرو کی سربراہی میں پیپلز پارٹی کا ایک وفد بلوچستان گیا تھا جہاں انہوں نے نومنتخب آزاد سینیٹرز اور وزیراعلیٰ بلوچستان سے ملاقاتیں کیں۔ اطلاعات ہیں کہ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب اور مسلم لیگ (ن) کا راستہ روکنے کے لیے پیپلز پارٹی نے تحریک انصاف کو مشترکہ کوشش کی بھی پیشکش کی ہے۔ پیپلز پارٹی نے چیئرمین سینیٹ کا عہدہ اپنے پاس اور ڈپٹی چیئرمین شپ کا عہدہ تحریک انصاف کو دینے کی پیشکش کی، جب کہ تحریک انصاف کے رابطہ کاروں نے پیپلز پارٹی کی پیشکش اعلیٰ قیادت تک پہنچانے پر اتفاق کیا ہے۔ یہ سودے بازی کہاں تک کامیاب ہوگی اس بارے میں ابھی کچھ کہنا مشکل ہے، لیکن ان فیصلوں میں آئین اور آئین کی شرائط کہیں نظر نہیں آرہی ہیں۔ کسی بھی امیدوار کی آئینی اور قانونی اہلیت کا معیار آرٹیکل62۔63 میں وضاحت کے ساتھ درج ہے۔ آئین کا آرٹیکل 63(1) (g)اور (h) سزا یافتہ مجرموں کی نااہلیت کے معیار سے متعلق ہے۔ آرٹیکل63(1) (g) کی رو سے ایک شخص مجلس شوریٰ کے انتخاب یا چُنے جانے سے نااہل قرار پاتا ہے۔ آرٹیکل g کے تحت مجاز عدالت سے نظریہ پاکستان کے منافی مؤقف یا پروپیگنڈے پر سزا ہوئی ہو، یا نظریہ پاکستان کے منافی رویّے، ملک کی خودمختاری، یکجہتی،سلامتی یا اخلاقیات یا امن وامان کی بحالی یا پاکستان کی عدلیہ کی آزادی و سالمیت یا عدلیہ اور مسلح افواج کی بدنامی، تضحیک کا مرتکب ہوا، جب تک کہ اس کی رہائی کو 5 سال کا عرصہ گزرا ہو۔ آرٹیکل 63(1) (h)کے تحت ایک شخص مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے لیے اپنے انتخاب سے نااہل قرار پاتا ہے اگر (h) اسے اخلاقی پستی کے افعال میں ملوث ہونے پر سزا ہوئی ہو جو دوسال سے کم نہ ہو، اور جب تک کہ اس کی رہائی کو 5 سال کا عرصہ مکمل نہ ہوگیا ہو۔ جبکہ آرٹیکل 63(1)(g)غداری تک کا احاطہ کرتا ہے۔ لیکن منتخب سینیٹرز میں سے کتنے ہیں جنہیں آئین کے اس آرٹیکل پر جانچا جائے تو سینیٹ کا رکن بننے کے اہل قرار پائیں گے! لیکن آج سیاسی جماعتوں کو بانجھ بناکر آزاد امیدوار کے لیے سازگار فضا بنانے کا دور ہے، شمیم آفریدی اور انوارالحق کاکڑ جیسے سینیٹر ہر حکم بجا لانے کو تیار ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آزاد امیدوار جو سینیٹر منتخب ہوئے، ان کی اب ’’ٹرانسفر پوسٹنگ‘‘ کس جماعت میں ہوگی۔ مسلم لیگ(ن) کے حمایت یافتہ منتخب سینیٹرز تو مسلم لیگ(ن) کے کیمپ میں ہی رہیں گے، دیگر آزاد امیدواروں میں سے کون کس کے گھونسلے کی رونق بنے گا؟ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔
سینیٹ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ 16 ارکان منتخب ہوئے ہیں، جبکہ سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) کے 18 ارکان پہلے سے موجود ہیں۔ اس طرح 34 ارکان کے ساتھ مسلم لیگ (ن) سینیٹ کی سب سے بڑی پارٹی تو بن گئی، مگر چاروں صوبائی اسمبلیوں میں مسلم لیگ (ن) کے ارکانِ اسمبلی کی تعداد کو دیکھا جائے تو اس کے کم از کم 18 نئے سینیٹر منتخب ہونے چاہیے تھے۔ اس طرح مسلم لیگ (ن) جس کی سینیٹ میں 36 نشستیں ہونی چاہیے تھیں، اب صرف 34 نشستیں حاصل کرسکی ہے۔
پیپلز پارٹی انتخابات میں سندھ سے 10 اور کے پی کے سے 2 سینیٹر منتخب کروانے میں کامیاب رہی، جبکہ سینیٹ میں پہلے سے اُس کے 8 ارکان موجود ہیں۔ سینیٹ میں پیپلز پارٹی کے سینیٹرز کی تعداد اب 20 ہوگئی ہے۔ چاروں صوبائی اسمبلیوں میں اگر پیپلز پارٹی کے ارکانِ اسمبلی کی تعداد کو دیکھا جائے تو سینیٹ انتخابات میں اس کے 8 نئے سینیٹر منتخب ہونے چاہیے تھے، وہ 4 زائد سینیٹر منتخب کرانے میں کامیاب رہی۔ کے پی کے میں 18 ارکان اسمبلی کو ایک سینیٹر منتخب کرنا تھا۔ کے پی کے اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے ارکان کی تعداد 6 ہے مگر وہاں سے پیپلز پارٹی کے 2 سینیٹر منتخب ہوئے۔ اس اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے ارکان کی تعداد 16 ہے، اس کے بھی 2 سینیٹر منتخب ہوئے ہیں۔ سندھ میں ایم کیو ایم میں انتشار اور کے پی کے میں ہارس ٹریڈنگ کا فائدہ پیپلز پارٹی نے اٹھایا اور اپنے اضافی 4 سینیٹر منتخب کروانے میں کامیاب رہی۔ ایم کیو ایم سندھ اسمبلی میں 40 ارکان ہونے کے باوجود صرف ایک سینیٹر منتخب کراسکی، حالانکہ کم از کم 2 سینیٹر منتخب کرا سکتی تھی۔ سندھ اسمبلی میں 24 ارکان اسمبلی ایک سینیٹر منتخب کرسکتے ہیں۔ صوبے میں پیپلز پارٹی کے ارکان کی تعداد 95 ہے جس کے صرف 4 یا 5 سینیٹر منتخب ہوسکتے ہیں، مگر وہاں پیپلز پارٹی کے 10 سینیٹر منتخب ہوئے۔ تحریک انصاف کے پی کے سے 5 اور پنجاب اسمبلی سے اپنا ایک سینیٹر منتخب کروانے میں کامیاب رہی۔ اس کے سینیٹ میں پہلے سے 6 ارکان موجود ہیں۔ سینیٹ میں اب اس کے ارکان کی تعداد 12 ہوگئی ہے۔ کے پی کے میں تحریک انصاف کے 6 سینیٹر منتخب ہونے چاہیے تھے، تحریک انصاف کی اپنی رپورٹ کے مطابق اس کے 16 ارکانِ اسمبلی اپنا ضمیر فروخت کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ مصطفی کھوکھر کی سندھ سے کامیابی ایک بڑا واقعہ ہے۔ مصطفی کھوکھر اسلام آباد سے قومی اسمبلی کا الیکشن بھی لڑیں گے، اور اگر وہ کامیاب ہوگئے تو سینیٹ کی نشست چھوڑ دیں گے۔ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کے ساتھ کھوکھر خاندان کی قریبی وابستگی ان کی کامیابی کا سبب بنی ہے، تاہم آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی فیصل سخی بٹ کی خیبر پختون خوا سے ناکامی پیپلزپارٹی کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ فیصل سخی بٹ نے دوبارہ گنتی کی درخواست دے رکھی ہے، اگر دوبارہ گنتی میں نتیجہ اُن کے حق میں نکل آیا تو جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان کے لیے مشکل ہوسکتی ہے۔ سینیٹ انتخابات میں سندھ میں ایک بڑا اَپ سیٹ ایم کیو ایم پاکستان کو ملا ہے جس میں اُن کے پانچ میں سے صرف ایک امیدوار کامیاب ہوسکا اور باقی ہارس ٹریڈنگ کا شکار ہوگئے۔ بلوچستان میں نیشنل پارٹی اور پشتون خوا میپ کے تین، تین سینیٹر منتخب ہونے چاہیے تھے مگر ان کے صرف دو، دو سینیٹر ہی منتخب ہوسکے۔ بلوچستان میں 9 ارکان اسمبلی ایک سینیٹر منتخب کرسکتے ہیں، وہاں 21 ارکان کے باوجود نون لیگ ایک سینیٹر منتخب کرا سکی۔ جبکہ مسلم لیگ(ق) اور بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) کوئی نشست حاصل نہیں کرسکیں اور پارٹی پوزیشن میں یہ دونوں پارٹیاں سینیٹ سے باہر ہو چکی ہیں۔بلوچستان میں سینیٹ الیکشن سے قبل مسلم لیگ(ن) کے لیے ایک بڑا دھچکا ثناء اللہ زہری کی حکومت کا خاتمہ تھا۔ توقعات کے عین مطابق بلوچستان میں زیادہ آزاد امیدوار کامیاب ہو ئے، جن میں زیادہ تر وہ ہیں جن کی ماضی میں مسلم لیگ(ن) سے وابستگی رہی ہے۔ سابق اسپیکر بلوچستان اسمبلی جان جمالی کی بیٹی ثناء جمالی بھی کامیاب ہوئی ہیں، گزشتہ سینیٹ انتخابات میں جان جمالی نے مسلم لیگ (ن) سے اپنی بیٹی ثنا جمالی کے لیے ٹکٹ مانگا تھا جو نہیں دیا گیا تھا، تاہم جان جمالی نے اپنی بیٹی کو دستبردار کرنے سے انکار کرتے ہوئے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑایا جس میں وہ کامیاب نہیں ہو سکی تھیں، لیکن اِس بار وہ ثنا ء جمالی کو آزاد حیثیت میں سینیٹر منتخب کرانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔