سینیٹ انتخابات، شفافیت اور سیاسی المیے

سینیٹ کے حالیہ انتخابات کا ہونا بھی اہم تھا، لیکن یہ انتخابات جس انداز سے ہوئے، اس نے ہماری جمہوری سیاست کو مزید دھچکا لگایا ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ہمارا سیاسی اور جمہوری نظام اپنی اخلاقی ساکھ بری طرح مجروح کرچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں جمہوریت اور جمہوری ادارے بنیادی طور پر ساکھ کے بحران کا شکار ہیں۔ تمام سیاسی جماعتیں کھلم کھلا اعتراف کررہی ہیں کہ سینیٹ کے حالیہ انتخابات میں ووٹ نہیں بلکہ نوٹوں کا کاروبار ہوا ہے، اور ارکانِ اسمبلی کی منہ مانگی قیمتیں لگائی گئی ہیں۔ لیکن اس سارے بحران میں سیاسی نظام، قانون اور اخلاقیات بے بس ہے۔ اس نام نہاد نظام سے ہم جمہوری نظام اور قانون کی حکمرانی کا خواب دیکھتے ہیں۔
لیکن اس بحث سے قطع نظر اگر سینیٹ کے موجودہ انتخابات کا تجزیہ کریں تو یہ جو بعض سیاسی پنڈت خیال ظاہر کررہے تھے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ اور بعض سیاسی طاقتیں سینیٹ کے انتخابات کو ملتوی کرانے کے کھیل کا حصہ ہیں، وہ غلط ثابت ہوا۔ خود مسلم لیگ(ن)کی قیادت بلوچستان میں اپنی حکومت کی تبدیلی کے بعد یہ نکتہ بڑی شدت سے پیش کررہی تھی کہ اس کا مقصد سینیٹ کے انتخابات کا التوا ہے تاکہ ہماری اکثریت کو روکا جاسکے۔ لیکن سینیٹ کے انتخابات کا ان تمام تر خدشات کے باوجود ہونا خوش آئند امر ہے۔ سینیٹ کے اس اہم انتخابی معرکے میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے 15نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے سینیٹ میں اپنی نشستوں کی تعداد 33 کرکے خود کو اکثریتی جماعت ثابت کردیا ہے۔ نوازشریف کے بقول ان کی سیاست کو دیوار سے لگایا جارہا ہے، اس بحرانی کیفیت میں سینیٹ میں ان کی جماعت کا اکثریتی جماعت بننا اہم کامیابی ہے۔ بظاہر نوازشریف اس کامیابی کو اپنے نئے سیاسی بیانیے کی کامیابی سمجھتے ہیں اوراُن کے بقول ان کا بیانیہ مقبول ہورہا ہے اور وہی اصل سیاسی طاقت ہیں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بلوچستان میں اُن کی حکومت کی تبدیلی کے عمل نے اُن کو بلوچستان کی سیاست میں سیاسی دھچکا دیا ہے، لیکن اس پر خود مسلم لیگ(ن) کی قیادت کو یہ تجزیہ بھی کرنا چاہیے کہ بلوچستان میں ہونے والی تبدیلی میں ان کے اپنے داخلی مسائل کیا تھے۔ سارا ملبہ اسٹیبلشمنٹ پر ڈال کر مسئلے کا حل تلاش نہیں کیا جاسکے گا۔ پنجاب میں جہاں نوازشریف کی سیاسی طاقت ہے، تحریک انصاف کے چودھری سرور کا سب سے زیادہ ووٹ لے کر کامیابی حاصل کرنا، اور خود پیپلز پارٹی کو وہاں معقول تعداد میں ووٹ ملنا نوازشریف اور شہبازشریف کیمپ کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ کیونکہ مسلم لیگ (ن)کے38 ارکان نے چودھری سرور اور پیپلز پارٹی کو ووٹ دیا ہے جس سے پنجاب میں نئی سیاسی حکمت عملی کو بھی سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ چودھری سرور کی کامیابی میں ان کی سیاسی حکمت عملی اور قائد حزبِ اختلاف میاں محمود الرشید اور اسلم اقبال کا کردار بھی خاصا اہم رہا۔ البتہ خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کے 18 ارکان نے پارٹی قیادت کے فیصلوں کے برعکس اپنا کام دکھایا اور پارٹی کو دو نشستوں سے محروم کیا، جو ظاہر کرتا ہے کہ وہاں بھی ارکان پر وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی گرفت کمزور تھی اور داخلی مسائل نے ان کو نقصان پہنچایا ہے۔ اسی طرح عمران خان کی خود سینیٹ کے انتخاب میں ووٹ نہ ڈالنے کی منطق سمجھ سے بالاتر ہے۔ بہرحال عمران خان کو یہ کریڈٹ دینا چاہیے کہ انہوں نے کھل کر اعتراف کیا کہ سینیٹ کے حالیہ انتخابات میں ان کے اپنے ارکانِ اسمبلی نے چار سے پانچ کڑور روپے میں اپنے ووٹ فروخت کیے ہیں، اور اس ناکامی پر وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا پرویزخٹک نے اپنی رپورٹ عمران خان کو دے دی ہے جس میں اُن ارکان کی نشاندہی کی گئی ہے جنہوں نے ووٹ بیچے ہیں۔ عمران خان نے کہا ہے کہ وہ ان ارکان کے خلاف بڑی کارروائی کریں گے اور ان کی پارٹی میں کوئی جگہ نہیں ہوگی۔ البتہ اس بحران میں پیپلز پارٹی خاموش ہے، اور اُس کے بقول اُس نے کوئی ہارس ٹریڈنگ نہیں کی بلکہ ارکان کو دلائل کے ساتھ قائل کیا کہ وہ پیپلز پارٹی کا ساتھ دیں۔
اسی طرح سینیٹ کے اِن انتخابات میں ایم کیو ایم کے داخلی بحران اور باہمی چپقلش نے اس کی سیاسی ساکھ اور نتائج کو بری طرح متاثر کیا، اور لگتا ہے کہ ایم کیو ایم کو اپنی سیاسی بقا کی جنگ نئے سرے سے لڑنا ہوگی۔ یہ مسئلہ اب عام انتخابات میں بھی ایم کیو ایم کو سیاسی تنہائی کا شکار کرے گا۔ پیپلز پارٹی نے سینیٹ کے حالیہ انتخابات میں 10نشستیں جیت کر اپنی تعداد سینیٹ میں 20کرلی ہے، جو اس کے لیے بھی اہم کامیابی ہے۔ البتہ پیپلز پارٹی کا خود کو سندھ کی سیاست تک محدود کرنا اور پنجاب سے عملاً ختم ہونا توجہ طلب مسئلہ ہے۔
اس وقت سینیٹ میں پارٹی پوزیشن کچھ یوں ہے:
پاکستان مسلم لیگ (ن) 33، پیپلز پارٹی 20، پی ٹی آئی 12، ایم کیو ایم 5، پختون خوا ملّی عوامی پارٹی 5، نیشنل پارٹی5، جے یو آئی (ف)4، جماعت اسلامی 2، عوامی نیشنل پارٹی 1، مسلم لیگ فنکشنل 1، بی این پی ایم 1، جبکہ 15آزاد امیدوار ہیں۔
پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ چیئرمین سینیٹ پیپلز پارٹی سے ہوگا۔ سینیٹ کے حالیہ انتخابات میں پیپلز پارٹی نے سندھ اور خیبر پختون خوا میں اپنی سیاسی اور انتظامی حکمت عملی کی بنیاد پر کچھ نشستیں جیت کر ’’ایک زرداری سب پہ بھاری‘‘ کی مثال قائم کی ہے۔ پیپلز پارٹی کو دیگر جماعتوں کے مقابلے میں یہ کریڈٹ دینا ہوگا کہ اس کے امیدواروں کا چنائو باقی سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں خاصا بہتر تھا اور بیشتر لوگ مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھتے تھے، جن میں دو اقلیتی امیدوار بھی شامل تھے۔ پیپلز پارٹی کا ایک کمال یہ بھی سامنے آیا کہ اس نے دوسری جماعتوں سے کُل 105ووٹ حاصل کیے۔ ان میں سندھ سے 20، پنجاب سے 18، خیبر پختون خوا سے 27 اور بلوچستان سے 39 اضافی ووٹ شامل ہیں۔ یہ ووٹ کیسے حاصل ہوئے اور کیا یہ واقعی پیسے کا کھیل تھا؟ یہ توجہ طلب مسئلہ ہے۔
سینیٹ کے حالیہ انتخابات میں چارسوال اہم رہے:
(1) ان انتخابات میں ہارنے والی جماعتوں نے ووٹوں کی خریداری کا مسئلہ اٹھایا ہے۔ ان کے بقول جن جماعتوں کی جہاں اکثریت نہیں وہاں ان کا دیگر جماعتوں کے ارکان سے ووٹ لینا اور نشست جیتنا، خریدنے کے مترادف ہے۔ دس کے قریب آزاد امیدواروں کے جیتنے کے مسئلے کو بھی اسی تناظر میں دیکھا گیا ہے۔ سینیٹ کے انتخابات میں پیسے کا یہ کھیل واقعی بدنما ہے اور اس نے جمہوری عمل کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
(2) سینیٹ کے انتخابات میں مجموعی طور پر پارٹیوں نے سینیٹ جیسے ادارے کو مدنظر رکھ کر جن لوگوں کو ٹکٹ جاری کیے اُن میں سے بیشتر لوگ اس عہدے کے اہل ہی نہیں تھے۔ ان کی تقرری محض سیاسی وفاداری کو مدنظر رکھ کر کی گئی، جبکہ سینیٹ کے کردار اور ارکان کی اہلیت کو نظرانداز کیا گیا، بالخصوص ٹیکنوکریٹ نشست کا مذاق اڑایا گیا۔
(3) سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سو سے زیادہ لوگوں نے اپنی پارٹیوں کے مفاد کو پسِ پشت ڈال کر اپنے ذاتی تعلق کو نبھانے اور پیسے بنانے کے کھیل کو ترجیح دے کر جماعتی سیاست کو کمزور کیا۔
(4) سینیٹ کے انتخابات میں ایک صوبے کے فرد کا دوسرے صوبے سے جاکر انتخاب لڑنا بھی کوئی اچھا شگون نہیں، اور اس سے صوبے کی حق تلفی کا پہلو بھی سامنے آتا ہے۔ اس سارے کھیل کو دیکھتے ہوئے سینیٹ کے انتخابات کے طریقہ کار پر نئے سرے سے بحث شروع ہوئی ہے، اور کہا جارہا ہے کہ موجودہ طریقہ کار میں تبدیلی ناگزیر ہے، کیونکہ اگر ہم انتخابات اور سینیٹ جیسے ادارے کو برائے فروخت کے طور پر پیش کریں گے تو اس سے جمہوری ساکھ اور مقدمہ کمزور ہوگا، اس کے خلاف واقعی بند باندھنا ہوگا۔
اب اصل معرکہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کا ہے۔ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی دونوں کی کوشش ہوگی کہ چیئرمین اُن کا ہی ہو۔ لیکن اصل کھیل تعداد کے حساب سے چھوٹی جماعتوں اور آزاد ارکان بالخصوص بلوچستان کے ارکان کا ہوگا کہ وہ کہاں کھڑے ہوتے ہیں۔ چیئرمین سینیٹ کے لیے چار آپشن موجود ہیں… اول: پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں کسی مشترکہ امیدوار پر اتفاقِ رائے ہوجائے۔ پیپلز پارٹی رضا ربانی کے علاوہ چاہے گی کہ وہ بلوچستان سے کسی کو چیئرمین سینیٹ کے طور پر نامزد کرے تاکہ بلوچستان کے ووٹ بھی حاصل کیے جاسکیں۔ اگر رضا ربانی پر اتفاق ہوتا ہے تو مسلم لیگ (ن) ان کی حمایت کرسکتی ہے۔ دوئم: مسلم لیگ(ن) کے پاس بھی موقع ہے کہ وہ ایم کیوایم، جے یو آئی، اے این پی، محمود خان اچکزئی، نیشنل پارٹی، فاٹا اور کچھ دیگر آزاد ارکان کو ملاکر اپنا چیئرمین لاسکتی ہے۔ سوئم: پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی اور آزاد امیدوار نوازشریف مخالفت میں کسی ایک پر متفق ہوجائیں۔ چہارم: پیپلز پارٹی عوامی نیشنل پارٹی، جے یو آئی اور آزاد امیدواروں کی بنیاد پر پنجہ آزمائی کرے۔ یہاں اصل امتحان نوازشریف اور آصف زرداری کی سیاسی حکمت عملی اور جوڑتوڑ کی سیاست کا ہوگا کہ کون کس کو زیر کرتا ہے۔ بالخصوص چھوٹی جماعتیں آنے والے عام انتخابات کے پیش نظر کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر اپنا فیصلہ کن کردار ادا کریں گی۔ لیکن چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے موقع پر جو سیاسی رسّا کشی چل رہی ہے اس میں بھی سینیٹ کے انتخابات کی طرح ہارس ٹریڈنگ کے قصے سننے کو مل رہے ہیں اور کہا جارہا ہے کہ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں بھی پیسے کا کھیل عروج پر ہے اور اس کے سیاست پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سینیٹ کا یہ انتخاب عام انتخابات سے قبل ہوا ہے۔ یقینی طور پر ان نتائج نے عام انتخابات کے تناظر میں مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کو حوصلہ دیا ہے۔ لیکن عام انتخابات کا منظرنامہ سینیٹ کے انتخابات سے بالکل مختلف ہوتا ہے، اور اس کے Dynamicsبھی مختلف ہوتے ہیں۔ ایک امکان تو یہ ہے کہ سینیٹ کے انتخابات کے فوری بعد سیاسی سطح پر سیاسی جماعتوں میں خاصی اتھل پتھل ہوگی۔ جن لوگوں کو انتخاب لڑنا ہے وہ نئی حلقہ بندیوں سے پیدا ہونے والی صورتِ حال اور سیاسی محاذ پر ہونے والے بعض اہم فیصلوں کو سامنے رکھ کر اپنے لیے محفوظ راستہ تلاش کریں گے۔ نوازشریف کے خلاف متوقع عدالتی فیصلے بھی اس کھیل میں اہم کردار ادا کریں گے۔ یہ خبریں بھی عمومی طور پر گردش کررہی ہیں کہ پنجاب میں خود حکمران جماعت کے کیمپ میں خاصی تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گی۔ البتہ اب اصل معرکہ عام انتخابات کی طرف مثبت انداز میں پیش قدمی کرنا ہے۔ یہی سیاسی قوتوں کے لیے بڑا چیلنج بھی ہوگا۔کیونکہ ڈر اس بات کا ہے کہ اگر احتساب کا یہ عمل آگے بڑھتا ہے اور جس تیزی سے عدالتیں اپنا کام کررہی ہیں اس سے عام انتخابات کے ماحول میں جو سیاسی تلخی اور تنائو احتساب کے تناظر میں پیدا ہوگا وہ انتخابی عمل یا مہم کو متاثر کرے گا۔ دیکھنا ہوگا کہ انتخابی عمل اور احتساب کا عمل دونوں ایک ساتھ کیسے چل سکیں گے۔ بظاہر یہ عمل مشکل نظر آتا ہے، مگر یہی سیاسی قیادتوں کا چیلنج اور امتحان ہے کہ وہ اس معرکے میں کیسے سرخرو ہوتی ہیں۔