بلوچستان، 6آزاد امیدوار کامیاب

نواب محمد اکبر خان بگٹی، ڈیرہ بگٹی میں اپنے قلعہ تک محدود ہو چکے تھے، حالات ان کے حق میں نہ تھے۔ پرویز مشرف کی حکومت تھی، بلوچستان میں بھی ان کی پروردہ ق لیگ برسرا قتدار تھی۔ جام یوسف مرحوم وزیراعلیٰ تھے۔ نواب بگٹی ذرائع ابلاغ سے روابط قائم کیے ہوئے تھے۔ کوئٹہ پریس کلب کی عمارت زیر تعمیر تھی۔ عارضی طو رپر پریس کلب کو پریس کونسل کی عمارت منتقل کردیا گیا تھا۔ نواب اکبر خان بگٹی نے ٹیلی فونک پریس کانفرنس کی جس کے انتظامات امان اللہ کنرانی ایڈووکیٹ نے کرائے تھے۔ امان اللہ کنرانی جمہوری وطن پارٹی کے سیکریٹری اطلاعات تھے۔ پارٹی کی ٹکٹ پر سینیٹر بھی منتخب ہوئے تھے۔ نواب بگٹی کی ہدایت پر صحافیوں کو ظہرانہ بھی دیا گیا۔ پریس کانفرنس میں صحافیوں کا ہجوم اکھٹا تھا، سارے سینئر صحافی شریک تھے کیونکہ نواب صحافیوں سے مخاطب ہورہے تھے وہ بھی ایسے وقتوں میں کہ جب ڈیرہ بگٹی کے حالات غیر یقینی تھے۔ بہت سارے سوالات ہوئے۔ غلام طاہر مرحوم نے سوال کیا کہ’’ نواب صاحب پاکستان میں ڈیموکریسی کے بارے میں آپ کیا کہیں گے‘‘۔ نواب بگٹی نے جواب دیا کہ ’’بابا یہ کریسی ہے‘‘۔ مجھے نواب بگٹی مرحوم کے یہ الفاظ ملک میں سیاست سے اصولوں، روایات، قول و اقرار اور راست گوئی کا خاتمہ ہوتے دیکھ کر یاد آئے۔ نواب نے تو یہ الفاظ اُن وقتوں میںکہے کہ جب ملک میں پرویزی آمریت کے سائے میں ’’جمہوریت‘‘ قائم تھی۔ مگر سچ یہ ہے کہ جمہوریت کا چہرہ آج زیادہ بدنما ہے۔ حالیہ سینیٹ انتخابات میں ملک بھر میں ہارس ٹریڈنگ کا چرچا ہوا، پیپلز پارٹی کا اس ذیل میںخاص کر تذکرہ ہو رہا ہے۔ بلوچستان کا نتیجہ تو بڑا ہی انوکھا رہا یعنی چھ آزاد امیدوار کامیاب ہوگئے۔ یقینا دولت کے زور پر ایسا ممکن ہوا۔ جن کے پاس پیسہ نہ تھا اُن کے لیے کام ہوا۔اگرچہ حکومتی ارکان نے خرید و فروخت کے تاثر کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ مگر کوئٹہ کے چارستارہ ہوٹل میں 2اور3مارچ کی درمیانی رات تک جمگھٹا کس مقصد کے لیے تھا، جس میں جے یو آئی ف کے ارکان بھی موجود تھے۔جہاں۔تنبیہ و ترغیب کے گُر استعمال ہوئے۔ ہم خیال لیگیوں نے آزادانہ حیثیت سے جنرل نشستوں پر انوار الحق کاکڑ، صادق سنجرانی، احمد خان، کہدہ بابر، خواتین کی نشست پر ثناء جمالی (ثنا ء جمالی سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان جان محمد جمالی کی بیٹی ہیں) اور ٹیکنوکریٹ کی نشست پر نصیب اللہ بازئی کو کامیاب کرایا۔ ان میں نصیب اللہ بازئی مسلم لیگ نواز کے صوبائی جنرل سیکریٹری ہیں۔ الیکشن سے دو روز قبل وفاداری تبدیل کرکے ہم خیال لوگوں کی صف میں شامل ہوئے۔ اس عہد کے ساتھ کہ وہ ان کے فیصلوں کے ساتھ جائیں گے۔ ہم خیال کی مجبوری یہ تھی کہ ان کے پاس ٹیکنوکریٹ پر اُمیدوار نہیں تھا۔ ان کا امیدوار حسین اسلام تھا جس کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوگئے تھے۔ نصیب اللہ بازئی کو لگا کہ وہ ن لیگ کے بچے کچے ووٹوں سے کامیاب نہیں ہوسکیں گے اس خاطرن لیگ سے تعلق توڑ دیا۔ انوار الحق کاکڑنے 2008ء کے عام انتخابات میں ق لیگ کے ٹکٹ پر کوئٹہ سٹی سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑاتھا، ناکام ہوئے، پھر ن لیگ سے وابستہ ہوئے۔ نواب زہری کی حکومت کے ترجمان بنے پھر اس حکومت پر ضرب لگانے والوں کے ساتھ مل گئے۔ قدوس بزنجو نے اپنی حکومت میں مشیر اطلاعات تعینات کیااور3مارچ کو سینیٹر منتخب ہوگئے۔ باقی کامیاب ہونے والے تین افراد سرمایہ دار ہیں۔ ان میں چندافراد کو آصف علی زرداری کی حمایت حاصل تھی۔جن میں حسین اسلام بھی شامل تھے۔پیپلز پارٹی کی نیک تمنائیں انوارالحق کا کڑ کے ساتھ بھی تھیں۔ گویا پیپلز پارٹی نے درپردہ ان امیدواروں کے ساتھ ہر طرح سے تعاون کیا۔ اسی لیے تو سینیٹ انتخابات میں الیکٹرانک میڈیا نے ’’زر‘‘داری کی اصطلاح وضع کی۔ یاد رہے کہ حسین اسلام نے سینیٹ انتخاب جنرل نشست پر لڑا، ناکام ہوئے،اگلے دن انہیں وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو نے اپنا مشیر برائے گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی مقرر کیا۔ یہ شخص سرمایہ دار بتایا جاتا ہے۔اس سے پہلے گورنر سندھ کے مشیر، برائے چیئرمین نیب، وائس چیئرمین کراچی پورٹ ٹرسٹ رہ چکے ہیں۔صادق سنجرانی اور احمد خان بھی سرمایہ میں کسی سے کم نہ ہیں۔گویا ضدِجمہوریت دروبست کرنے والوں نے سیاستدانوں کو مات دی۔ خود سیاسی جماعتیں بھی بری طرح استعمال ہوئیں۔ پشتونخوامیپ کے منحرف رکن منظور کاکڑ کو2مارچ کو الیکشن کمیشن نے فلور کراسنگ کے تحت ڈی سیٹ کردیا تھا۔ وہ اس الیکشن کے ’’انعامات ‘‘سے محروم رہے۔ چنانچہ پشتونخوامیپ کے باقی تیرا ارکان پارٹی نظم و ضبط کے پابند رہے۔ یعنی بلوچستان اسمبلی میں مثال قائم کردی۔ نیشنل پارٹی کے تین ارکان خالد لانگو، مجیب الرحمان محمد حسنی اور فتح بلیدی اپنے فیصلوں میں آزاد تھے۔نیشنل پارٹی کے باقی 8ارکان پارٹی فیصلوں کے ساتھ گئے۔بلوچستان نیشنل پارٹی نے اپنا امیدوار ہمایوں عزیز کرد کو کھڑا کیا تھا وہ ناکام ہوئے، کیونکہ اسمبلی میں ان کے دو ہی ارکان ہیں یعنی سردار اختر مینگل اور حمل کلمتی۔ یقینی طور پر حمل کلمتی نے بھی ووٹ اپنے مفاد اور مرضی کے تحت استعمال کیا۔۔ عوامی نیشنل پارٹی نے ایک نشست کے ساتھ سینیٹ امیدوار کھڑا کیا تھا۔تاہم معلوم نہیں اے این پی کے اسمبلی میں واحد رکن نے اپنے ووٹ کا استعمال کس طرح کیا؟۔ جے یو آئی کے فقط مولوی فیض اللہ کامیاب ہوسکے وہ بھی ناکامی سے بال بال بچ گئے۔ جے یو آئی کے تین اراکین اسمبلی قابو نہ ہوسکے۔ یہ الزام جے یو آئی پر پشتونخوامیپ نے بھی عائد کیا۔ اگر ایسا ہے تو جے یو آئی کو ان کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔ ن لیگ کے وہ ارکان جو نواب زہری کے ساتھ ہیں نے اتحاد یا یقین دہانی کے باوجود پشتونخوا میپ کو ووٹ نہ دیا۔ اگر ان کی جانب سے ووٹ دیا جاتا تو تو پشتونخوا میپ پر یوسف خان کاکڑ بھی ضرور کامیاب ہوتے۔ الیکشن کی رات ہی پشتونخو امیپ کے صوبائی صدر عثمان کاکڑ نے پارٹی کارکنوں سے خطاب میں کہا کہ ن لیگ نے وعدہ خلافی کی بلکہ عثمان کاکڑ نے نواب ثناء اللہ زہری اور جنرل عبدالقادر بلوچ کا نام لیکر ایسا کہا۔ یقینا ہارس ٹریڈنگ کا یہ شرمناک کھیل کھلم کھلا کھیلا نہیںجاتا۔ مگر بلوچستان میں یہ کھیل مختلف شکلوں میں ضرورکھیلا گیا ہے۔ بقول عثمان کاکڑ کے بلوچستان میں سینیٹ الیکشن میں دو ارب روپے سے زائد خرچ کیے گئے۔ پشتونخوا میپ اور نیشنل پارٹی کا اتحاد تھا جس میں دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔ نیشنل پارٹی اپنے منحرف ارکان کے خلاف کارروائی کی ہمت نہیں رکھتی۔ کامیاب ہونے والے ان آزاد ارکان سے پیپلز پارٹی کی ہائی کمان کے روابط ہوچکے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ سینیٹ چیئرمین کے لیے پیپلز پارٹی کا ساتھ دیں اور ہوسکتا ہے کہ ان میں ایک دو پیپلز پارٹی میں شمولیت ہی اختیار کرلیں۔ جمہوری روایات و اقدار کا جنازہ نکلتا جارہا ہے۔ سیاست نمبر گیم بن چکی ہے۔ سیاسی جماعتیں سرمایہ داروں اور ناپسندیدہ افراد کی جائے پناہ بن چکی ہیں۔حقیقت یہ بھی ہے کہ غیر سیاسی لوگوں کی پذیرائی بھی کی جا رہی ہے۔امانت و دیانت نہ رہی۔ سیاست کو سیاستدان گندا کررہے ہیں تاہم حقیقت یہ بھی ہے کہ سیاست اور سیاستدانوں کو گندا بھی کیا جارہا ہے۔
بلوچستان سے سینیٹ کی گیارہ نشستوں پر22 امیدواروں میں مقابلہ تھا۔ سات جنرل نشستوں پر15 امیدوار، دو ٹیکنوکریٹ نشستوں پر3، دو خواتین نشستوں پر5امیدوارمیدان میں تھے۔ حکمران ہم خیال لیگیوں کے اتحاد نے جنرل پر سات امیدوار، ٹیکنوکریٹ پر ایک اور خواتین نشست پر دو امیدوار کھڑے کیے تھے۔ پشتونخوامیپ اور نیشنل پارٹی کے اپوزیشن اتحاد نے جنرل پر تین امیدوار،خواتین اور ٹیکنوکریٹ کی نشست پر ایک ایک امیدوار کھڑے کیے تھے۔ جے یو آئی کا جنرل اور ٹیکنوکریٹ پر ایک ایک امیدوارتھا۔ خواتین کی نشست پر امیدوار کو ہم خیال اتحاد کے حق میں دستبردار کرادیا تھا جس کے بدلے حکمران اتحاد نے ٹیکنوکریٹ کی نشست پر اضافی ووٹ جمعیت کے امیدوار کامران مرتضیٰ کو دئیے۔ ن لیگ کے دو امیدوار جنرل اور خواتین کی نشستوں پر،بی این پی مینگل اور اے این پی کا ایک امیدوار جنرل نشست پرمقابلے میں شامل تھا۔ ہم خیال حکمران اتحادنے جنرل کی سات نشستوں میں سے چار نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ کامیاب ہونیوالوں میں محمد صادق سنجرانی، احمد خان، انوار الحق کاکڑاور کہدہ بابر شامل ہیں۔ اپوزیشن اتحاد کے پشتونخواملی عوامی پارٹی کے حمایتی آزاد امیدوار سردار شفیق ترین اور نیشنل پارٹی کے محمد اکرم اور جمعیت علمائے اسلام کے مولوی فیض محمد نے بھی جنرل نشست پر کامیابی حاصل کی۔ اس سے قبل ووٹوں کی گنتی کے دوران پشتونخوامیپ کے حمایت یافتہ یوسف خان کاکڑ کو کامیاب قرار دیا گیا تھا لیکن بعد ازاں دوبارہ گنتی میں ایک ووٹ مسترد ہونے کی وجہ سے یوسف خان کی بجائے انہی کی جماعت کے حمایتی دوسرے امیدوار سردار شفیق ترین کامیاب قرار پائے۔مولوی فیض محمد حکمران اتحاد کی جانب سے ملنے والے اضافی پوائنٹس کی بنیاد پر کامیابی حاصل کر پائے۔ ن لیگ کے آزاد امیدوار امیر افضل مندوخیل نے صرف پانچ ووٹ لیے۔ ناکامی کے سبب ان کے ووٹ بھی ترجیحات میں شامل حکمران اتحاد کے امیدواروں کو مل گئے۔ ٹیکنوکریٹ اور علماء کی دو نشستوں پر اپوزیشن اتحاد کے حمایتی نیشنل پارٹی کے طاہر بزنجو 28 ووٹ لیکر اور حکمران اتحاد کے آزاد امیدوار نصیب اللہ بازئی 24ووٹ لیکر کامیاب ہوئے۔ ناکام امیدواروں میں جمعیت علمائے اسلام کے کامران مرتضیٰ کو 17 ووٹ ملے۔ ٹیکنوکریٹ کی نشست پر پشتونخواملی عوامی پارٹی نے اپنا امیدوار ڈاکٹر مناف ترین نیشنل پارٹی کے طاہر بزنجو کے حق میں دستبردار کرادیا تھا۔ خواتین کی نشستوں پر اپوزیشن اتحاد کی آزاد امیدوار عابدہ محمد عظیم دوتانی 22ووٹ جبکہ حکمران اتحاد کی آزاد امیدوار ثناء جمالی 19ووٹ لیکر کامیاب ہوئیں۔ ناکام امیدواروں میں حکمران اتحاد کی شمع پروین مگسی کو 14ووٹ جبکہ ن لیگ ثناء اللہ زہری گروپ کی حمایتی آزاد امیدوار ثمینہ ممتاز زہری 9ووٹ حاصل کر پائیں۔ دو دو نئے سینیٹرز کی کامیابی کے بعد سینیٹ میں پشتونخواملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کے سینیٹرز کی تعداد پانچ پانچ ہوگئی ہے۔