معرکۃ الآرا کے بارے میں پہلے بھی توجہ دلائی تھی کہ یہ غلط ہے۔ اس کا مطلب ہے ’’جس میں اختلافِ رائے بہت ہو۔‘‘ یہ اصل میں ’’معرکہ آرا‘‘ ہے جس کے معنی زبردست اور پُرزور ہیں۔ اس میں آرا فارسی کا لفظ ہے اور آراستن مصدر سے بنا ہے۔ ایک بار پھر توجہ دلانے کا مقصد یہ ہے کہ جسارت ہی کے 5 مارچ کے اداریے میں جملہ ہے ’’سینیٹ کے معرکۃ الآرا الیکشن‘‘۔ ابراہیم اسماعیل چندریگر روڈ پر مجاہد بک اسٹال ہے۔ اس کے مالک راشد رحمانی کو بھی زبان و ادب سے دلچسپی ہے۔ انہوں نے خط لکھا ہے کہ ’’25 فروری کے اخبارات میں سوائے جسارت کے سب نے سرخیوں میں ’طوطا‘ ط سے لکھا ہے۔ جسارت میں ’توتا‘ لکھا دیکھ کر خوشی ہوئی۔ لیکن 2 تا 8 مارچ کے فرائیڈے اسپیشل میں علم پر شاعری کے عنوان سے شیخ ابراہیم ذوقؔ کا شعر درج ہے:
آدمیت اور شے ہے علم ہے کچھ اور شے
کتنا طوطے کو پڑھایا پر وہ حیواں ہی رہا
جب کہ ذوقؔ نے ’’توتے‘‘ ہی باندھا ہے۔ ہم یہ شعر پہلے ایک رسالے میں پڑھ چکے ہیں اور شکیل عادل زادہ بھی توتا ہی لکھتے تھے۔ ہوسکتا ہے علم پر شاعری کے مرتب نے ذوق کی اصلاح کردی ہو۔
کراچی کے ایک معروف ادیب و شاعر بھارت کے سینیرصحافی ندیم صدیقی کی کتاب ’’پرسہ‘‘ پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’ندیم صدیقی کا ’طرزاسلوب‘ انداز بیان اور فکرکی پرواز سب میں توازن ہے‘‘۔ ایسا ہی ہوگا، لیکن ’طرز اسلوب‘ میں محترم ادیب نے توازن برقرار نہیں رکھا، حالانکہ وہ ادب کی ’’معراج‘‘ پر ہیں۔ حضرت‘ طرز اور اُسلوب ہم معنیٰ ہیں، یہ طرز اسلوب کیا ہے؟ اُسلوب (عربی، بالضم) کا مطلب ہے طرز، روش، طریقہ وغیرہ۔ شوق کا شعر ہے:
پہنچا جس وقت سے ترا مکتوب
زندگی کا بندھا ہے کچھ اسلوب
طرز بھی عربی کا لفظ ہے۔ طور، طریقہ، قاعدہ، روش۔ تذکیر وتانیث مختلف فیہ، ترجیح مذکر کو ہے۔ اقبال ؒ نے مونث استعمال کیا ہے:
تامل تو تھا ان کو آنے میں قاصد
مگر یہ بتا طرزِ انکار کیا تھی
اور داغ دہلوی کا شعر ہے:
نہیں ملتا کسی مضموں میں ہمارا مضموں
طرز اپنا ہے جدا، سب سے جدا کہتے ہیں
طرز اڑانا کا مطلب ہے انداز سیکھنا، کسی کی وضع کی نقل کرنا، اسلوب اختیار کرنا:
لے اڑی طرز فغاں بلبل نالاں ہم سے
گل نے سیکھی روش چاک گریباں ہم سے
بہرحال ’طرز اسلوب‘ کی ترکیب بالکل غلط ہے۔ اسی تاثراتی مضمون میں موصوف نے ’’ناتے‘‘کو ناطے لکھا ہے۔ ایک عام آدمی یہ غلطی کرے تو نظرانداز کی جاسکتی ہے، لیکن ایک معروف ادیب و شاعر کرے تو حیرت ہی کی جاسکتی ہے۔ اتنا تو معلوم ہونا چاہیے کہ ’ناتا‘ ہندی کا لفظ ہے اور ہندی الفاظ میں ’ط‘ کا گزر نہیں جو خالص عربی حرف تہجی ہے۔ مثنوی گلزار نسیم کا شعر ہے:
ناتا پریوں سے اس نے توڑا
رشتہ اک آدمی سے جوڑا
ناتا (ہندی) رشتہ، قرابت، بھائی بندی۔ ایک مصرع ہے
لحد میں سوئے جب جاکر، نہ رشتہ ہے نہ ناتا ہے
ادیبوں، شاعروں اور اپنے صحافی بھائیوں سے گزارش ہے کہ لغت بھی دیکھتے رہا کریں۔
جسارت میں صدائے حریت کے مستقل عنوان سے 26 فروری کو شائع ہونے والے مضمون میں معیار کو تین جگہ ’میعار‘ لکھا گیا ہے۔ انہیں بھی لغت دیکھتے رہنے کی اشد ضرورت ہے۔ ایک نام وجیہ ہے جس کا املا عموماً غلط لکھا جاتا ہے اور ایک کے بجائے دو ’ہ‘ ڈال دی جاتی ہیں۔ یہ ستم جسٹس وجیہ کے نام کے ساتھ زیادہ ہوتا ہے اور ان کا املا ’’وجیہہ‘‘کردیا جاتا ہے جس کا تلفظ ہوگا ’’وجی ہی‘‘۔ وجیہ عربی کا لفظ ہے بروزن ’فصیح‘۔ صفت ہے اور مطلب ہے خوش نما، خوبصورت، خوش وضع، خوش رو، حسین،موزوں، زیبا۔ یہ وجہ سے ہے یعنی منہ، چہرہ، طریقہ، جانب، سبب، باعث، موجب۔ داغ کا شعر ہے:
جو وجہ دیر کی پوچھی کہا یہ قاصد نے
گزارنے تھے مصیبت کے دن گزار آیا
اس کا مطلب طرز، اسلوب، دستور وغیرہ بھی ہے۔ جمع اس کی وجوہ (’و‘ اور ’ج‘ پر پیش)۔ لکھنؤ میں مذکر اور دہلی میں مونث۔ اس کی جمع الجمع وجوہات بنالی گئی ہے۔
پہلے بھی کئی بار متوجہ کیا ہے کہ ایک جملے میں ’تا‘ کے بعد ’تک‘ نہیں آتا جیسے صبح تا شام تک۔ اس میں ’تک‘ بالکل غلط ہے۔ لیکن کراچی کے ایک بہت معروف اور اعلیٰ معیار کے اسکول کے اشتہار میں ایک جملہ ہے (رجسٹریشن فارم) صبح 9 تا دن 12 بجے تک حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ ایک نہایت معیاری اسکول کے اشتہار میں یہ غلطی کھٹکتی ہے۔ ’تک‘ کا استعمال بہت ضروری تھا تو ’تا‘ کے بجائے’سے‘ استعمال کیا ہوتا یعنی صبح 9 سے دن 12 بجے تک۔
بعض قلم کار اپنے مضمون میں ’’ایک طرف‘‘ لکھ کر بھول جاتے ہیں، اس کے بعد ’’دوسری طرف‘‘ بھی آنا چاہیے۔ مثلاً یہ جملہ ’’ایک طرف ان کی اعلیٰ قیادت جوڑ توڑ میں مصروف ہے‘‘۔ لیکن دوسری طرف کیا ہورہا ہے اس کا کوئی ذکر نہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے بہتر ہے کہ ’ایک طرف‘ لکھا ہی نہ کریں، اس طرح جملے میں جھول تو نہیں رہے گا۔
بلاغت کیا ہے ؟ اس کا مطلب ہے کم الفاظ میں بڑی بات کہنا۔ اس حوالے سے رشید حسن خان مرحوم نے لکھا ہے ’’زاید لفظوں سے مراد ایسے لفظ ہیں جن کو اگر نکال دیا جائے تو مفہوم پر اثر نہ پڑے اور عبارت پہلے سے بہتر ہوجائے‘‘۔ پنڈت ہری چند اختر مشہور شاعر و ادیب تھے۔ انہوں نے ایک بار نئے لکھنے والے سے کہا تھا ’’یہ تو بہتوں کو معلوم ہوتا ہے کہ کیا لکھنا ہے، لیکن یہ بات کم لوگوں کو معلوم ہوتی ہے کہ کیا نہیں لکھنا ہے‘‘۔ ایک مشہور مجسمہ ساز سے لوگوں نے پوچھا کہ آپ اس قدر خوب صورت مجسمے کیسے بنا لیتے ہیں؟ اس نے جواب دیا ’’میں پتھر کی سل میں سے فالتو حصے نکال دیتا ہوں‘‘۔ باکمال استاد نے ایک جملے میں پوری بات کہہ دی۔ یہی معاملہ تحریر کا ہے۔ لکھنے کے بعد غور کرنا چاہیے کہ اس میں ایسے کتنے الفاظ ہیں جن کو نکال دیں تو جملہ چست ہوجائے گا۔