خالقِ کائنات کی حیرت انگیز نشانیاں

کائنات تمام کی تمام اللہ کی بہت بڑی نشانی ہے۔ روز و شب کی گردش، دن رات کا الٹ پھیر اور لیل و نہار کا اختلاف، ہر شام کو ڈوبتا ہوا سورج، جس نے نہ کبھی طلوع ہونے میں کوتاہی کی اور نہ غروب ہونے سے باز رہا! رات کی تاریکی میں ہیروں کی طرح چمکتے ہوئے ستارے اور سرگوشیاں کرتے ہوئے سیارگانِِ فلک! ایک باریک شاخ کی صورت میں طلوع ہونے والا چاند، جو بڑھتے بڑھتے بدرِ کامل بن جاتا ہے، اور پھر گھٹتے گھٹتے پھر باریک شاخ کی طرح ہوجاتا ہے! زمین کے سینے کو شق کرکے نکلنے والا پودا اور اس میں پھوٹنے والی حسین و جمیل کونپلیں! چھوٹے چھوٹے محوِ پرواز پرندے! اور حقیر و کمتر کیڑے مکوڑے! نوزائیدہ اطفالِ حیوانات اور چونچوں سے دانہ دنکا دیتی ہوئی اور دودھ پلاتی ہوئی ان کی مائیں! مُردہ زمین سے ابلتا ہوا زندگی کا سرچشمہ! عجیب نظام، حیرت انگیز انتظام! بڑی باریکی اور مہارت کے ساتھ چلنے والا نظام کائنات! کہیں کوئی ابتری نہیں! کوئی گڑبڑ نہیں! کروڑوں اور اربوں ستاروں میں سے کوئی ستارہ اپنے محور سے ایک انچ اِھر اُدھر نہیں سرکتا! زمانے کے نشیب و فراز! زمانے کی حقیقت اور اس کا ادراک! اس ساری عجیب و غریب اور حیرت انگیز کائنات میں گھرا ہوا کمزور و ناتواں انسان! یہ سب آیاتِ الٰہی ہیں! اور کائنات میں خالقِ کائنات کے وجود کی حیرت انگیز نشانیاں ہیں۔ لیکن انسان ان کے درمیان رہتے ہوئے ان کے عادی ہوجاتے ہیں اور پھر ان نشانیوں کے درمیان سے بغیر ان کی جانب توجہ کیے ہوئے اور بغیر ان پر غور کیے ہوئے گزر جاتے ہیں۔
(محمد قطب شہیدؒ)

تقدیر,ابلیس ویزداں

اقبال نے خود تحریر فرمایا ہے کہ ابلیس اور ذاتِ باری تعالیٰ کی یہ گفتگو جس میں تقدیر کے مسئلے کی حقیقت واضح کی گئی ہے، شیخ محی الدین ابنِ عربی کی کسی کتاب سے ماخوذ ہے۔
اے خدائے کن فکاں مجھ کو نہ تھا آدم سے بیر
آہ! وہ زندانی نزدیک و دور و دیر و زود
حرف ’’استکبار‘‘ تیرے سامنے ممکن نہ تھا
ہاں مگر تیری مشیت میں نہ تھا میرا سجود!
کن فکاں: لفظی معنی ہوجا۔ اصطلاح میں مخلوقات، کائنات، دنیا۔ استکبار: تکبر کرنا، اپنے آپ کو بڑا سمجھنا۔ یہ اشارہ قرآن مجید کی اس آیت کی طرف ہے جس کے مطابق خدا نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدمؑ کو سجدہ کریں۔ ابلیس کے سوا سب سجدے میں گر پڑے۔ ارشاد ہوتا ہے: ابی واستکبرو کان من الکافرین۔ (ابلیس نے نہ مانا اور تکبر کیا، اور تھا وہ کافروں میں)۔ مشیت: خدا کی مرضی، خدا کا ارادہ۔ حجت: دلیل۔ دود: دھواں۔
1 ۔ اے کائنات کے مالک خدا! مجھے آدم سے کوئی دشمنی نہ تھی جس کے باعث سجدہ نہ کیا۔ وہی آدم جو زمان و مکان کی قید میں پھنسا ہوا ہے بھلا اس آدم سے دشمنی کی مجھے کیا ضرورت تھی جو نزدیک اور دور، دیر اور جلدی کی قید میں الجھا ہوا ہے۔ ابلیس سجدہ نہ کرنے کی اصل وجہ آگے بتاتا ہے لیکن اس نے آدم پر طنز کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔
2۔ بارِالٰہ، بھلا کیوں کر ممکن تھا کہ میں تیرے حضور میں بڑائی اور تکبر کا کوئی کلمہ زبان پر لاتا، یا سجدے کے لیے تیرا حکم ماننے سے انکار کرتا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ میرے لیے سجدہ کرنا تیری مرضی اور ارادے میں نہ تھا۔
(یزداں)
کب کھلا تجھ پر یہ راز؟ انکار سے پہلے کہ بعد؟
3۔ یہ سنتے ہی باری تعالیٰ کا ارشاد ہوا کہ ابلیس! ذرا یہ تو بتا کہ تجھ پر یہ بھید کب کھلا؟ تُو نے کب سمجھا کہ سجدہ میری مرضی اور ارادے میں نہ تھا؟ سجدے سے انکار کرچکنے کے بعد یا اس سے پہلے؟
(ابلیس)
بعد! اے تیری تجلی سے کمالات وجود!
اے وہ پاک ذات! کہ ہستی کے تمام کمالات تیری تجلی کا کرشمہ ہیں، یہ بھی مجھ پر انکار کے بعد آشکارا ہوا۔ پہلے آشکارا نہ تھا۔
(یزداں)
(فرشتوں کی طرف دیکھ کر)
پستیٔ فطرت نے سکھلائی ہے یہ حجت اسے
کہتا ہے، تیری مشیت میں نہ تھا میرا سجود
دے رہا ہے اپنی آزادی کو مجبوری کا نام
ظالم اپنے شعلۂ سوزاں کو خود کہتا ہے دود!
4۔ (فرشتوں کی طرف دیکھ کر) دیکھو یہ کہتا ہے کہ سجدہ میری مرضی اور ارادے میں نہ تھا، یہ دلیل اسے پستیٔ فطرت نے سجھائی ہے۔ اگر اس کی فطرت پست نہ ہوتی تو حکم سنتے ہی اس کے سامنے سر جھکا دیتا، لیکن اس نے اپنی آزادی کو مجبوری کا نام دے دیا۔ اپنے لپکتے ہوئے شعلے کو دھواں کہہ رہا ہے۔
آزادی اور مجبوری کے لیے شعلۂ سوزاں اور دود سے بہتر تشبیہیں تلاش کرنا مشکل ہے۔ اس میں یہ نکتہ بیان کیا گیا ہے کہ ابلیس نے اپنی نافرمانی کے لیے تقدیر کو بہانہ بنایا۔ انکار سے پہلے اسے معلوم ہی نہ تھا کہ خدا کی مشیت کیا ہے۔ وہ آزاد تھا، مجبور نہ تھا۔ دانستہ اس نے انکار کیا اور یہ کہتے ہوئے کیا کہ میں آدم سے زیادہ بڑا ہوں۔ میں آگ سے پیدا ہوا ہوں، وہ مٹی سے۔ پھر میں اسے کیوں سجدہ کروں؟ انکار کے بعد وہ راندہ ہوگیا تو یہ دلیل پیدا کرلی کہ سجدہ مشیت ہی میں نہ تھا۔