ترجمہ:’’اے اولادِ آدم! ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمھارے جسم کے قابلِ شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمھارے لیے جسم کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہو، اور بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، شاید کہ لوگ اس سے سبق لیں۔‘‘ (الاعراف7 :26)
اہلِ عرب کے سامنے خود اُن کی اپنی زندگی کے اندر شیطانی اغوا کے ایک نمایاں ترین اَثر کی نشاندہی فرمائی ہے۔ یہ لوگ لباس کو صرف زینت اور موسمی اثرات سے جسم کی حفاظت کے لیے استعمال کرتے تھے، لیکن اس کی سب سے پہلی بنیادی غرض، یعنی جسم کے قابلِ شرم حصوں کی پردہ پوشی اُن کے نزدیک کوئی اہمیت نہ رکھتی تھی۔ انھیں اپنے سَتر دوسروں کے سامنے کھول دینے میں کوئی باک نہ تھا۔ برہنہ منظرعام پر نہا لینا، راہ چلتے قضائے حاجت کے لیے بیٹھ جانا، ازار کھل جائے تو ستر کے بے پردہ ہوجانے کی پروا نہ کرنا اُن کے شب و روز کے معمولات تھے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اُن میں سے بکثرت لوگ حج کے موقع پر کعبہ کے گرد برہنہ طواف کرتے تھے اور اس معاملے میں اُن کی عورتیں اُن کے مَردوں سے بھی کچھ زیادہ بے حیا تھیں۔ اُن کی نگاہ میں یہ ایک مذہبی فعل تھا اور نیک کام سمجھ کر وہ اس کا ارتکاب کرتے تھے۔ پھر چونکہ یہ کوئی عربوں ہی کی خصوصیت نہ تھی، دنیا کی اکثر قومیں اسی بے حیائی میں مبتلا رہی ہیں اور آج تک ہیں، اس لیے خطاب اہلِ عرب کے لیے خاص نہیں ہے، بلکہ عام ہے۔ اور سارے بنی آدم کو متنبہ کیا جارہا ہے کہ دیکھو! شیطانی اغوا کی ایک کھلی ہوئی علامت تمھاری زندگی میں موجود ہے۔ تم نے اپنے رب کی رہنمائی سے بے نیاز ہوکر اور اُس کے رسولوں کی دعوت سے منہ موڑ کر اپنے آپ کو شیطان کے حوالے کردیا، اور اُس نے تمھیں انسانی فطرت کے راستے سے ہٹاکر اسی بے حیائی میں مبتلا کردیا جس میں وہ تمھارے پہلے باپ اور ماں کو مبتلا کرنا چاہتا تھا۔ اس پر غورکرو تو یہ حقیقت تم پر کھل جائے کہ رسولوں کی رہنمائی کے بغیر تم اپنی فطرت کے ابتدائی مطالبات تک کو نہ سمجھ سکتے ہو اور نہ پورا کرسکتے ہو۔
چند اہم حقیقتیں
اوّل یہ کہ لباس انسان کے لیے ایک مصنوعی چیز نہیں ہے، بلکہ انسانی فطرت کا ایک اہم مطالبہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے جسم پر حیوانات کی طرح کوئی پوشش پیدائشی طور پر نہیں رکھی، بلکہ حیا اور شرم کا مادہ اس کی فطرت میں ودیعت کردیا۔ اُس نے انسان کے لیے اُس کے اعضائے صنفی کو محض اعضائے صنفی ہی نہیں بنایا، بلکہ سَوأۃ بھی بنایا، جس کے معنی عربی زبان میں ایسی چیز کے ہیں جس کے اظہار کو آدمی قبیح سمجھے۔ پھر اس فطری شرم کے تقاضے کو پورا کرنے کے لیے اُس نے کوئی بنا بنایا لباس انسان کو نہیں دے دیا بلکہ اس کی فطرت پر لباس کا الہام کیا (قدانزلنا علیکم لباسا) تاکہ وہ اپنی عقل سے کام لے کر اپنی فطرت کے اس مطالبے کو سمجھے اور پھر اللہ کے پیدا کردہ مواد سے کام لے کر اپنے لیے لباس فراہم کرے۔
دوم یہ کہ اس فطری الہام کی رو سے انسان کے لیے لباس کی اخلاقی ضرورت مقدم ہے، یعنی یہ کہ وہ اپنی سَوئَ ۃ کو ڈھانکے اور اُس کی طبعی ضرورت مؤخر ہے، یعنی یہ کہ اُس کا لباس اُس کے لیے رِیش (جسم کی آرائش اورموسمی اثرات سے بدن کی حفاظت کا ذریعہ)ہو۔ اس باب میں بھی فطرتاً انسان کا معاملہ حیوانات کے برعکس ہے۔ اُن کے لیے پوشش کی اصل غرض صرف اس کا ’رِِیش‘ ہونا ہے۔ رہا اس کا ستر پوش ہونا، تو اُن کے اعضائِ صنفی سرے سے سَواَۃ ہی نہیں ہیں کہ انھیں چھپانے کے لیے حیوانات کی جبلت میں کوئی داعیہ موجود ہوتا اور اُس کا تقاضا پورا کرنے کے لیے اُن کے جسم پر کوئی لباس پیدا کیا جاتا۔ لیکن جب انسانوں نے شیطان کی رہنمائی قبول کی تو معاملہ پھر الٹ گیا۔ اُس نے اپنے اِن شاگردوں کو اس غلط فہمی میں ڈال دیا کہ تمھارے لیے لباس کی ضرورت بعینہٖ وہی ہے جو حیوانات کے لیے ریش کی ضرورت ہے۔ رہا اِس کا سَواَۃ کو چھپانے والی چیز ہونا، تو یہ قطعاً کوئی اہمیت نہیں رکھتا، بلکہ جس طرح حیوانات کے اعضا سَوء ۃ نہیں ہیں اسی طرح تمہارے یہ اعضا بھی سَوء ۃ نہیں، محض اعضائے صنفی ہی ہیں۔
سوم یہ کہ انسان کے لیے لباس کا صرف ذریعۂ ستر اور وسیلۂ زینت و حفاظت ہونا ہی کافی نہیں ہے بلکہ فی الحقیقت اس معاملے میں جس بھلائی تک انسان کو پہنچنا چاہیے وہ یہ ہے کہ اُس کا لباس تقویٰ کا لباس ہو، یعنی پوری طرح ساتر بھی ہو، زینت میں بھی حد سے بڑھا ہوا، یا آدمی کی حیثیت سے گرا ہوا نہ ہو، فخر وغرور اور تکبر و ریا کی شان لیے ہوئے بھی نہ ہو، اور پھر اُن ذہنی امراض کی نمائندگی بھی نہ کرتا ہو جن کی بنا پر مرد زنانہ پن اختیار کرتے ہیں، عورتیں مردانہ پن کی نمائش کرنے لگتی ہیں، اور ایک قوم دوسری قوم کے مشابہ بننے کی کوشش کرکے خود اپنی ذلت کا زندہ اشتہار بن جاتی ہے۔ لباس کے معاملے میں اس خیرِ مطلوب کو پہنچنا تو کسی طرح اُن لوگوں کے بس میں ہے ہی نہیں جنھوں نے انبیاء علیہم السلام پر ایمان لاکر اپنے آپ کو بالکل خدا کی رہنمائی کے حوالے نہیں کردیا ہے۔ جب وہ خدا کی رہنمائی تسلیم کرنے سے انکار کردیتے ہیں تو شیاطین اُن کے سرپرست بنادیے جاتے ہیں، پھر یہ شیاطین اُن کو کسی نہ کسی غلطی میں مبتلا کرکے ہی چھوڑتے ہیں۔
چہارم یہ کہ لباس کا معاملہ بھی اللہ کی اُن بے شمار نشانیوں میں سے ایک ہے جو دنیا میں چاروں طرف پھیلی ہوئی ہیں اور حقیقت تک پہنچنے میں انسان کی مدد کرتی ہیں، بشرطیکہ انسان خود اُن سے سبق لینا چاہے۔ اوپر جن حقائق کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے انھیں اگر تامل کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ بات بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے کہ لباس کس حیثیت سے اللہ تعالیٰ کا ایک اہم نشان ہے۔
(تفہیم القرآن، دوم، ص 18۔20۔ الاعراف حاشیہ 15۔16)
لباس
٭ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام کپڑوں میں قمیص سب سے زیادہ محبوب تھی۔ (ترمذی۔ ابودائود ۔ عن ا,م سلمہؓ)
٭ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب قمیص پہنتے تو دائیں طرف سے شروع کرتے۔ (ترمذی۔ عن ابی ہریرہؓ)
٭ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’مومن کا تہبند نصف پنڈلی تک ہونا چاہیے۔ اگر ٹخنوں تک ہوجائے تب بھی کچھ گناہ نہیں، لیکن اس سے نیچے دوزخ میں لے جانے کا باعث ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات 3 مرتبہ فرمائی کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اُس آدمی کی طرف نہیں دیکھیں گے جو تکبر کی وجہ سے تہبند (ٹخنوں سے نیچے) لٹکا کر چلتا ہے۔‘‘
(ابودائود۔ ابن ماجہ۔ عن ابی سعید خدریؓ)
٭ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس آدمی نے دنیا میں شہرت کا لباس پہنا، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو ذلت کا لباس پہنائیں گے۔‘‘
(ابن ماجہ۔ ابودائود۔ عن عبداللہ بن عمرؓ)