تعلیم قوموں کی تعمیر و ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے، تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں انہی معاشروں کو باوقار مقام حاصل ہوا ہے جنہوں نے تعلیم کو فروغ دینے پر خصوصی توجہ دی ہے۔ اسے ہم اپنی بدقسمتی ہی قرار دے سکتے ہیں کہ قیام پاکستان کے معجزے کو رونما ہوئے ستّر برس سے زائد بیت چکے ہیں مگر آج تک ہم یہ طے نہیں کرپائے کہ ہمیں کس نوعیت کا نظام تعلیم اختیار کرنا ہے، جس کا نتیجہ ہے کہ اس وقت ملک میں درجنوں قسم کے نظام تعلیم رائج ہیں۔ ضرورت تھی کہ قیامِ پاکستان کے فوری بعد ملک کی نظریاتی بنیادوں اور جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ تعلیمی نظام تیار کرکے اسے پورے ملک میں رائج کردیا جاتا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی بہتری کے لیے ضروری اقدامات کیے جاتے رہتے، لیکن ہمارے یہاں کے فوجی آمروں اور جمہوری حکمرانوں اور پالیسی سازوں نے یکساں طور پر اس اہم ترین شعبے کو مسلسل نظرانداز کیا، جس کے باعث ملک میں آج کل رنگا رنگ تعلیمی نظام رواج پا چکے ہیں جو شتر بے مہار کی طرح اپنا دائرۂ کار بڑھاتے چلے جارہے ہیں، اور قومی سطح پر ان کے چیک اینڈ بیلنس کا کوئی نظام موجود نہیں۔ چنانچہ تعلیمی شعبے کی اس زبوں حالی کے اثراتِ بد بھی تیزی سے سامنے آرہے ہیں۔
اسلام میں طلبِ علم ہر مسلمان کے لیے لازم قرار دیا گیا ہے، مگر اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی اس مملکتِ خداداد میں ’’علم‘‘ تو بہت بعد کی بات ہے، محض ’’خواندگی‘‘ کی شرح بھی شرمناک ہے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب، جس کے خادم اعلیٰ اپنی قیادت میں صوبے میں ہونے والی تعمیر و ترقی کے ڈنکے بجاتے نہیں تھکتے، اس صوبے میں گزشتہ دنوں منظرعام پر آنے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مارچ 2015ء میں شروع کیے گئے ’’پڑھو پنجاب، بڑھو پنجاب‘‘ منصوبے کے تحت 2018ء تک سو فیصد شرح خواندگی کا ہدف مقرر کیا گیا تھا، جب کہ صوبے کے تمام اسکولوں میں پینے کے صاف پانی اور بجلی کی فراہمی کے ساتھ ساتھ چار دیواری اور بیت الخلاء کی تعمیر کو یقینی بنایا جانا تھا، مگر اب بھی صورتِ حال یہ ہے کہ ملک میں پانچ سے سولہ سال تک کی عمر کے مجموعی طور پر 5 کروڑ 36 لاکھ بچوں میں سے 2 کروڑ 26 لاکھ بچے اسکول جانے سے محروم ہیں، پنجاب کے 52 ہزار سے زائد سرکاری اسکولوں میں بچوں کے لیے صرف ایک استاد ہے۔ 10 ہزار سے زائد اسکولوں میں بجلی اور پانی میسر نہیں۔ 4350 اسکول چار دیواری اور 2500 سے زائد بیت الخلاء کی سہولت سے محروم ہیں۔ ملک کے سب سے ترقی یافتہ صوبے کا یہ حال ہے تو دیگر صوبوں کی صورتِ حال کس قدر ناگفتہ بہ ہوگی، اس کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں۔
ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے منصفِ اعلیٰ جسٹس ثاقب نثار نے عوام کے لیے صحت اور تعلیم کی سہولتوں کے حوالے سے ازخود نوٹس لے رکھا ہے، جس پر حکمران اگرچہ خاصی ناپسندیدگی اور پریشانی کا اظہار کررہے ہیں مگر گزشتہ دنوں اس معاملے کی سماعت کے دوران منصفِ اعلیٰ نے بجا طور پر ریمارکس دیئے ہیں کہ ریاست اگر اپنی ذمہ داریاں درست طور پر ادا نہ کررہی ہو تو آئین کے محافظ کے طور پر ہمیں یہ کام کرنا ہے۔ منصفِ اعلیٰ نے یہ ریمارکس بھی دیئے ہیں کہ ملک بھر میں ایک اسکول، ایک بستہ، ایک نصاب اور ایک یونیفارم ہونا چاہیے۔ مگر عملاً جو صورت حال ہے وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں اور اس نے ملک کو مختلف طبقات اور علاقائی و لسانی اکائیوں میں تقسیم کردیا ہے۔ بیرونی قوتوں کی ہمارے نظامِ تعلیم خصوصاً نصاب کے معاملے میں کھلی مداخلت بھی لمحۂ فکریہ سے کم نہیں۔ بیرونی قوتوں کے اشاروں پر کام کرنے والے عناصر پوری سرگرمی سے اس بات کے لیے کوشاں ہیں کہ پاکستان کی نئی نسل کو اعلیٰ اسلامی اقدار، تہذیبی روایات اور ثقافتی ورثے سے مکمل طور پر بے گانہ کردیا جائے، چنانچہ ان حوالوں سے پہلے سے نصاب میں موجود لوازمہ، خصوصاً قرآنی آیات، اسلامی تاریخ، دینی تعلیمات اور مثبت تہذیبی و ثقافتی روایات پر مبنی مضامین کو چن چن کر نصاب سے خارج کیا جارہا ہے، اور ان کی جگہ بے ہودگی، بے راہ روی اور نام نہاد ترقی پسندی کو فروغ دینے اور دین سے بے گانہ کرنے والے افکار و خیالات کو شاملِ نصاب کیا جا رہا ہے۔
نظام تعلیم کے حوالے سے یہ پہلو بھی توجہ طلب ہے کہ گزشتہ ربع صدی کے دوران نجی تعلیمی ادارے برسات کی کھمبیوں کی طرح وجود میں آگئے ہیں جنہوں نے حکومت کی جانب سے تعلیمی سہولتوں کے فقدان اور ناقص معیارِ تعلیم کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے معیاری تعلیم اور انگلش میڈیم کے نام پر دونوں ہاتھوں سے عوام کو لوٹنے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ یہ تعلیمی ادارے معیار اور میڈیم کے نام پر ایک جانب بھاری فیسیں وصول کرتے ہیں اور دوسری جانب من پسند نصاب پر مبنی مہنگی کتب اور مخصوص یونیفارم لازمی قرار دے کر والدین کا مالی استحصال کرتے ہیں، اسی طرح آئے روز مختلف فنڈز کے نام پر بھی والدین کی جیبیں خالی کی جاتی رہتی ہیں۔ افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے ان تعلیمی اداروں کو کسی نظام اور نظم و ضبط کا پابند بنانے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے انہیں من مانی کرنے کی کھلی چھوٹ حاصل رہی ہے۔ یہ ادارے اساتذہ اور اسٹاف کو انتہائی کم معاوضے دے کر ان کا استحصال کرتے مگر خود آئے روز حیلوں بہانوں سے فیسوں میں اضافہ کرکے والدین کی مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھاتے تھے۔ بعض تعلیمی اداروں کے مالکان نے تو اس حد تک اندھیر مچا رکھا تھا کہ والدین کو فیس پاکستانی کرنسی کے بجائے امریکی ڈالروں میں ادا کرنے پر مجبور کرتے تھے۔ اس ضمن میں قوم ایک بار پھر اعلیٰ عدلیہ کی ممنون ہے کہ اس نے ان تعلیمی اداروں کو نظم و ضبط کا پابند بنانے کی ٹھوس کوشش کی ہے، اور نجی تعلیمی اداروں کی فیسوں میں اضافے کو تعلیمی معیار اور اساتذہ کی تنخواہوں سے مشروط کردیا ہے، اس کے ساتھ ہی سالانہ پچاس فیصد تک فیسیں بڑھانے کا سلسلہ ترک کرکے اسے پانچ فیصد سالانہ تک محدود کر دیا ہے۔
ضرورت ہے کہ ہمارے اربابِ اختیار اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں اور اعلیٰ عدلیہ کے احکام پر مؤثر طور پر عمل درآمد اور اس کے مثبت نتائج کے لیے ٹھوس حکمت عملی وضع کرکے اسے روبہ عمل لائیں۔ اسی طرح اہلِ فکر و دانش کی مدد سے ملک کی نظریاتی بنیادوں اور قومی تقاضوں سے ہم آہنگ نصاب تیار کروایا جائے جو اسلامی تعلیمات اور قائداعظم و علامہ اقبال کے افکار کا آئینہ دار ہو… اور پھر اس نصاب کی تدریس تمام سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں لازم قرار دی جائے تاکہ نئی نسل میں فکری ہم آہنگی پیدا ہو، تمام بچوں کو آگے بڑھنے کے یکساں مواقع میسر آئیں اور قوم کو تعلیم کے نام پر طبقاتی تقسیم سے نجات مل سکے۔