بر بط

ابوسعدی
بیان کیا جاتا ہے کہ ایک اوباش نوجوان شراب کی مستی میں بربط بجا رہا تھا۔ ایک نیک آدمی اُس کے پاس سے گزرا تو بربط اٹھاکر اس کے سر پر دے مارا اور اُس کی اس حرکت سے بربط ٹوٹ گیا۔
یہ حرکت بہت نازیبا تھی۔ کوئی عام آدمی ہوتا تو مار مار کر اوباش کا سارا نشہ اتار دیتا۔ لیکن اس نیک مرد نے صبر کیا بلکہ مزید احسان یہ کیاکہ دوسرے دن کچھ رقم لے کر اس اوباش کے پاس گیا اور بہت شفقت سے کہا کہ برادر! تُو نے نشے کی حالت میں اپنا بربط میرے سر پر دے مارا تھا، جس سے دونوں کا نقصان ہوا۔ میرا سر زخمی ہوگیا اور تیرا ساز ٹوٹ گیا۔ خدا نے چاہا تو میرا سر جلد ہی ٹھیک ہوجائے گا لیکن تیرا بربط بغیر روپے کے ٹھیک نہیں ہوسکتا۔ میں یہ حقیر رقم لایا ہوں، قبول کر اور اپنا بربط ٹھیک کرالے۔
بُروں کے ساتھ بھلائی کرو تو بات بنے
بھلوں کے ساتھ تو سب ہی بھلائی کرتے ہیں
خدا نے جن کو عطا کی ہے حلم کی خوبی
وہ دشمنوں سے بھی کب بے وفائی کرتے ہیں
وضاحت: حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں برائی کے بدلے بھلائی کرنے کا درس دینے کے ساتھ ایک اور لطیف نکتہ یہ بیان کیا ہے کہ کسی جرم کی سزا دینے سے پہلے یہ سوچنا بھی ضروری ہے کہ اس شخص نے وہ جرم کن حالات میں کیا۔ بربط نواز چونکہ نشے کی حالت میں تھا اس لیے نیک شخص نے اُسے بے بس خیال کیا اور انتقام لینے کا خیال بھی اس کے ذہن میں نہ آیا۔
[حکایات بوستانِ سعدیؒ/ نظر زیدی۔ صفحہ نمبر 106]

جوتا اور پاؤں

زمانے کی گردش اور دنوں کی سختی سے میں کبھی دل شکستہ اور رنجیدہ نہیں ہوا۔ مگر ایک بار ضرور ملال ہوا، جب میرے پاؤں میں جوتی نہ تھی اور نہ خریدنے کو جیب میں پیسہ تھا۔
میں حیران پریشان کوفے کی جامع مسجد میں جانکلا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ ایک شخص کے پاؤں ہی نہیں۔ پس میں نے اپنے پائوں کی سلامتی پر خدا کا شکر ادا کیا اور ننگے پاؤں رہنا ہی غنیمت سمجھا۔
٭ اگرچڑیوں میں اتحاد ہوجائے تو وہ شیر کی کھال اُتار سکتی ہیں۔
٭عورتوں اور بچوں سے راز نہ کہو، اور کسی چیز میں طمع اور لالچ نہ کرو۔

جماعت اسلامی کا مقصد

’’یہ جماعت کسی ملک یا قوم کے وقتی مسائل کو سامنے رکھ کر وقتی تدابیر سے ان کو حل کرنے کے لیے نہیں بنی ہے، اور نہ اس کی بِنائے قیام یہ قاعدہ ہے کہ پیش آمدہ مسائل کو حل کرنے کے لیے جس وقت جو اصول چلتے نظر آئیں اُن کو اختیار کرلیا جائے۔ اس جماعت کے سامنے صرف ایک ہی عالمگیر اور ازلی و ابدی مسئلہ ہے کہ انسان کی دنیوی فلاح اور اُخروی نجات کس چیز میں ہے، پھر اس کا ایک ہی حل اس جماعت کے پاس ہے کہ اللہ کے تمام بندے صحیح معنوں میں اللہ کی بندگی اختیار کریں اور اپنی پوری انفرادی و اجتماعی زندگی کو اس کے سارے پہلوئوں سمیت ان اصولوں کی پیروی میں سپرد کردیں جو اللہ کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت میں پائے جاتے ہیں۔ ہمیں اس حل کے سوا دنیا کی کسی دوسری چیز سے قطعاً کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اور جو شخص بھی ہمارے ساتھ چلنا چاہتا ہو اُسے لازم ہے کہ ہر طرف سے نظر ہٹا کر پوری جمعیتِ خاطر کے ساتھ اس شاہراہ پر قدم جمائے چلتا رہے۔ اور جو شخص اتنی ذہنی و عملی یکسوئی بہم نہ پہنچا سکے، جس کے ذہن کو اپنے ملک یا اپنی قوم کے وقتی مسائل بار بار اپنی طرف کھینچتے ہوں، اور جس کے قدم بار بار ڈگمگاکر ان طریقوں کی طرف پھسلتے ہوں جو دنیا میں آج رائج ہیں، اُس کے لیے زیادہ مناسب یہ ہے کہ پہلے ان ہنگامی تحریکوں میں جاکر اپنا دل بھرلے۔‘‘
(’’تحریک آزادیٔ ہند اور مسلمان‘‘۔ ص 227)

انقلاب

دیکھ رفتارِ انقلاب فراقؔ
کتنی آہستہ اور کتنی تیز
(فراق گورکھپوری)
کام ہے میرا تغیر نام ہے میرا شباب
میرا نعرہ انقلاب و انقلاب و انقلاب
(جوشؔ ملیح آبادی)
ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
(ترجمہ: فیض احمد فیضؔ)
کوئی تو سود چکائے کوئی تو ذمہ لے
اس انقلاب کا جو آج تک ادھار سا ہے
(کیفی اعظمی)
ستونِ دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ
جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے
(مجروح سلطان پوری)

جس کا کام اسی کو ساجھے

ایک شخص آشوبِ چشم میں مبتلا ہوگیا۔ علاج کے لیے سلوتری (جانوروں کے معالج) کے پاس گیا۔ اس نے وہی دوا، جو جانوروں کی آنکھوں میں لگاتا تھا، اس کی آنکھوں میں لگادی۔
اس دوا سے آشوبِ چشم کیا ٹھیک ہونا تھا، بے چارہ اندھا ہوگیا اور سلوتری سے جھگڑنے لگا۔ یہاں تک کہ معاملہ عدالت میں پہنچا۔ قاضی نے فیصلہ دیا کہ سلوتری پر کوئی تاوان نہیں۔ اگر یہ شخص گدھا نہ ہوتا تو سلوتری کے پاس کیوں جاتا! داناؤں کے نزدیک یہ کم عقلی کی بات ہے کہ ایسے کام کو کسی ناتجربہ کار آدمی کے سپرد کیا جائے، جس کے لیے تجربہ اور مہارتِ فن لازم ہو۔