مسلم لیگ(ن) کی حکومت پانچ سال مکمل کرنے والی ہےاس لیےہچکولے کھاتے یہ مدت پوری کی ہے۔ اس کی پانچ سالہ مدت کے دوران دوسری بار سینیٹ کے انتخابات ہورہے ہیں۔ سینیٹ کے انتخاب کا جو رنگ ماضی میں تھا آج تین سال کے بعد بھی وہی رنگ ہے، بلکہ آج سکہ رائج الوقت کی حکمرانی ہے اور ایک ایک ووٹ کی قیمت لگ رہی ہے۔ سینیٹ کے انتخابات میں ایک مسلم لیگ(ن) ہی نہیں، تمام سیاسی جماعتیں اور سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار غیر یقینی کی صورتِ حال کا شکار ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ سینیٹ کے انتخابات میں ایک ایک ترجیح کی الگ الگ قیمت ہے۔ بلامبالغہ ایک ووٹر اپنے ووٹ کے لیے تین سے چار کروڑ روپے کی منڈی لگائے بیٹھا ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان خود یہ بات تسلیم کرچکے ہیں کہ انہیں چالیس کروڑ روپے کی پیش کش ہوئی ہے۔ سینیٹ کے انتخابات میں ہر صوبائی اسمبلی سے مساوی ارکان سینیٹ کے لیے منتخب ہونے ہیں، لہٰذا بولی وہاں زیادہ لگ رہی ہے جہاں ووٹرز کی تعداد کم ہے۔ بلوچستان میں ووٹ کی قیمت زیادہ اور پنجاب میں کم ہے، ایک امیدوار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ آخری وقت تک اپنی کامیابی کے لیے یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتے۔ اس امیدوار کا خدشہ بالکل درست ہے۔ سینیٹ کے گزشتہ انتخابات کے دوران ایک امیدوار کو آدھے گھنٹے میں چالیس کروڑ روپے دینے کے لیے کہا گیا تھا اور رعایت یہ تھی کہ وقت آدھے گھنٹے کا دیا گیا ہے۔ سینیٹر ادریس صافی اس صورتِ حال کے عینی شاہد رہے ہیں۔ سینیٹ کے انتخابات میں فاٹا اور بلوچستان میں ہمیشہ یہی ہوتا رہا کہ جس کی جیب بھاری سمجھی جاتی ہے وہی کامیاب قرار پاتا ہے، لیکن پنجاب میں بھی اِس بار مسلم لیگ (ن) اپنے امیدوار آزاد قرار دیے جانے کے بعد مشکل صورتِ حال میں گھری ہوئی ہے، اور اُس کے کسی بھی امیدوار کے لیے اپنے ووٹر کو اپنے ساتھ رکھنا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ یہی صورتِ حال سندھ اور دیگر صوبوں میں ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پنجاب ہو یا سندھ، خیبر پختون خوا یا بلوچستان… سب جگہ ارکانِ صوبائی اسمبلی اپنی اپنی قیادت سے خوش نہیں ہیں، لہٰذا بدلہ چکانے کا اُن کے پاس سینیٹ کے انتخاب کے سوا کوئی بہترین موقع نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین راجا ظفرالحق کہتے ہیں کہ ایک بزنس ٹائکون بھاری مالی پیش کش لیے رابطہ کررہا ہے، اس ٹائکون کو پنجاب میں ایک بڑا گھر بناکر دینے کے لیے سندھ حکومت نے جہاں جہاں وہ ہاتھ رکھتا ہے جگہ دینے کی پیش کش کررکھی ہے۔ سینیٹ کے حالیہ انتخابات میں پچاس سینیٹر منتخب ہونے ہیں اور اگر واقعی “سکہ رائج الوقت” کو ہی چلنا ہے تو پھر یہ چار ارب روپے کی ساری کہانی ہے۔ سینیٹ کے انتخابات میں پیسے کا بہائو ہمارے قومی سیاسی مزاج اور رویے کا ایک کھلا چہرہ ہے جس نے ہماری سیاسی اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے یہ صورت حال کیوں نہ ہو ہر سیاسی جماعت کے امیدوار ووٹ لینے کے لیے پہلی ‘ دوسری اور تیسری ترجیح کے ووٹ کی الگ الگ قیمت دینے کو تیار ہیں اور یہ اس قوم کی سینیٹ کے انتخابات ہیں جس پر غیر ملکی قرضوں کا بلند ترین بوجھ ہے اور سینیٹ میں پیش کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق 80 ارب ڈالر کے قرضے ہیں جن پر تیرہ ارب ڈالر سود ادا کرنا ہے۔ ہماری حکومت‘ سیاسی جماعتیں اور سینیٹ کے انتخاب کے کھیل میں شریک کاروباری مہرے سمجھتے ہیں کہ ملک کی معیشت مضبوط ہے اور ترقی ہورہی ہے تعجب ہے کہ ملک قرضوں تلے دب گیا ہے اور دعویٰ ہے کہ معیشت ٹھیک چل رہی ہے۔ سینیٹ میں پیش کی جانے والی رپورٹ کے مطابق صرف پچھلے سال غیر ملکی قرضوں میں 13 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔ بدقسمتی سے آزادی کے فوراً بعد ملکی معیشت کو چادر کے مطابق پائوں پھیلانے کے سنہری اصول پر چلانے کی بجائے، قرضوں کے چکر میں پھنسا دیا گیا۔ بھارت کے جارحانہ رویوں کے باعث بجٹ خسارے میں جاتا رہا ہے جسے پورا کرنے کے لیے غیر ملکی قرضوں اور امداد پر انحصار کرنا پڑا اگر اس کے ساتھ ساتھ ملک میں زراعت پر مبنی صنعتیں لگانے کے منصوبے بنائے جاتے اور ٹیکس کی وصولی کا شفاف نظام اختیار کیا جاتا تو یقیناً اس بری طرح مقروض ہونے کی نوبت نہ آتی۔ پنجابی محاورے کے مطابق ہمارا وتیرہ یہ رہا کہ قرض اٹھا کر عیاشیاں کرتے جائو، حساب کتاب اور ادھار کی ادائیگی کی فکر نہ کرو۔ ہماری معیشت کوسیاسی عدم استحکام، کرپشن، آئین و جمہوریت سے محرومی، طویل آمریتیں اور توانائی کا بحران ایسے روگ لگ گئے، جن میں سے بعض سے اب تک چھٹکارا نہیں پا سکے اور پیسے کے بل بوتے پر سینیٹ میں آنے والے سینیٹر ملک کی حالات سنواریں گے؟ جس قوم کے مزاج کا یہ عالم ہو کہ وہ اس بات پر اطمینان ظاہر کرے کہ عالمی فورم میں ہمارا نام واچ لسٹ سے باہر رہنے کی بجائے گرے لسٹ میں آگیا ہے ایسی قوم کی سیاسی‘ اخلاقی اور قومی ترجیحات پر کیا بات کی جاسکتی ہے بلاشبہ پاکستان کی سیاست میں اس وقت ہر لحاظ سے ٹوٹ پھوٹ اور دھڑے بندیوں کا شکا ر ہے یہی وجہ ہے کہ سینیٹ انتخابات میں سیاسی جماعتوں کا کردار محدود نظر آرہا ہے کہ کاروباری مفادات کے حامل افراد حاوی نظر آتے ہیں‘ یہ صورت حال سیاسی جماعتوں کے سیاسی مفادات کے کھیل کو الیکشن کمیشن تک لے گئے ہیں اور ایم کیو ایم میں تو اس وقت قانونی جنگ چھڑ چکی ہے اور دیگر سیاسی رہنمائی بھی دبائو میں ہیں ہر کوئی اپنی خدمات گنوا رہا ہے یہ وہ صورت حال ہے جس میں پاکستان عالمی سطح پر اپنی قسمت اور قومی مفاد کی جنگ لڑتے ہوئے نڈھال پڑا ہے خبر یہ ہے کہ پاکستان نے امریکہ کو یقین دہانی کرادی ہے کہ وہ واشنگٹن سے اتحاد بچانے کے لیے جس قدر ممکن ہوا لچک دکھانے کو تیار ہے یہ یقین دہانی دفتر خارجہ نے کرادی ہے کیا سینیٹ کے انتخاب میں پیسے کے بل بوتے پر جیت کر ایوان میں آنے کے لیے کامیاب قرار پانے والے عالمی سطح پر پاکستان کے مقدمے کی جنگ لڑ نے کے قابل ہیں؟ سینیٹ کا ایوان ایک ایسے ملک کا ایوان بالا ہے جو دہشت گردی کی لپیٹ میں رہا اوراپنی معیشت تباہ کرا بیٹھا ہے،70ہزار پاکستانی شہری اور 6 ہزار سکیورٹی فورسز کے جوان کے اس جنگ میں اپنی جان دے ہوچکے ہیں ہماری مشرقی سرحد پر بھارت مورچہ لگائے بیٹھا ہے مغربی سرحد پر امریکا کابل میں مورچہ لگائے ہمیں اپنے نشانے پر لیے ہوئے ہے بھارت کے ایما پر امریکہ بھی حقائق کے برعکس الزام تراشی کرتا، دھمکیاں دیتا اور سپورٹ فنڈ کی مد میں ادائیگیاں بھی موخر کرتا اور کبھی روک دیتا ہے۔ اب امریکہ کا دبائو ہے کہ پاکستان افغانستان میں بھارت کے کردار کو قبول کرے، ایسا ممکن نہیں ہو سکتا کیونکہ بھارت پہلے ہی افغان سرزمین پاکستان میں مداخلت کے لیے استعمال کرتا ہے، اس کے کردار میں مزید توسیع کی گئی تو پاکستان میں بھارت کی مداخلت مزید بڑھ جائے گی دفتر خارجہ کے ترجمان کہتے ہیں بطور ترجمان وہ ایف اے ٹی ایف کے معاملے پر کوئی بات کرنے کے مجاز نہیں ہیں ۔