انتخاب سے قبل احتساب؟۔

کیا واقعی ملک انتخابات سے قبل احتساب کے عمل کی جانب بڑھ رہا ہے؟ یہ سوال ہمارے اہلِ دانش اور سیاسی و صحافتی حلقوں میں زیرِبحث ہے۔ اس مسئلے پر اہلِ دانش کی رائے تقسیم نظر آتی ہے، لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے کہ معاملات میں بہت تیزی سے پیش رفت ہورہی ہے۔ بنیادی طور پر احتساب کے معاملے میں ہمارا ماضی کا ریکارڈ اچھا نہیں۔ فوجی ہو یا سول طبقہ… سب نے احتساب کو اپنے مخالفین کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی ملک کے کسی کونے سے احتساب کا عمل شروع ہوتا ہے تو یہ معاملہ جہاں مقبولیت حاصل کرتا ہے وہیں اس پر تنقید بھی ہوتی ہے۔ کیونکہ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اس کے پیچھے اصل مقصد احتساب کرنا نہیں، بلکہ اپنی مرضی کے نظام کو مستحکم کرنا اور من پسند لوگوں کو بالادست کرنا ہوتا ہے۔
پاکستانی ریاست، حکومت اور معاشرے کا ایک بنیادی مسئلہ عدم احتساب اور غیر شفاف نظام ہے۔ ریاستی نظام کے بارے میں ایک عمومی نکتہ نظر یہ موجود ہے کہ جو معاشرے احتساب اور شفافیت کے عمل کو مضبوط بنائے بغیر آگے بڑھتے ہیں وہ ساکھ کے بحران کا شکار رہتے ہیں۔ احتساب اور شفافیت پر مبنی نظام کی چار بنیادی خصوصیات ہوتی ہیں:
(1) ایک مضبوط اور شفافیت پر مبنی سیاسی قیادت کی کمٹمنٹ۔
(2) مضبوط اور خودمختار ادارہ جاتی نظام۔
(3) مربوط نگرانی اور احتساب کا داخلی نظام جو سیاسی مداخلتوں سے پاک ہو۔
(4) احتساب کا بلا تفریق عمل، جس میں کسی کی حمایت اور مخالفت میں تعصب کا پہلو نمایاں نہ ہو۔
لیکن ہمارا حکمرانی کا نظام بنیادی طور پر بلاتفریق احتساب اور شفافیت پر مبنی حکمرانی کے نظام کے خلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے سیاسی، سماجی، معاشی، انتظامی اور قانونی نظام اور عوام کے درمیان ایک واضح خلیج موجود ہے۔ اول تو پاکستان میں احتساب کا عمل آگے نہیں بڑھ سکا، لیکن اگر کبھی احتساب کے عمل کو دیکھنے کا موقع ملتا ہے تو اس میں مخالفین کے خلاف تعصب، نفرت اور انتقام زیادہ نمایاں نظر آتا ہے۔ میثاقِ جمہوریت میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی قیادتوں نے احتساب کے شفاف نظام اور ادارے کی تشکیل کا عہد کیا تھا، لیکن دونوں جماعتوں نے اپنے اپنے دورِ اقتدار میں احتساب پر سمجھوتا کرکے عملی طور پر ایک دوسرے کی بدعنوانی پر مبنی سیاست کو تحفظ دیا۔
ایک مسئلہ یہ ہے کہ جب بھی یہاں حکمران طبقات اور کسی بھی بڑے سیاسی یا دیگر طبقات کے احتساب کے عمل کو آگے بڑھایا جاتا ہے، تو فوری طور پر انتقام کی سیاست کا نعرہ بلند کردیا جاتا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اگر حکومت کے مخالفین کا احتساب ہو تو حکومت کے بقول یہ عمل شفافیت کی بنیاد پر چلایا جارہا ہے۔ جبکہ اگر مسئلہ خود حکومت کے اپنے احتساب کا ہو تو اسے اپنے خلاف پسِ پردہ قوتوں یا اسٹیبلشمنٹ کی سازش سے جوڑا جاتا ہے۔ یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ پسِ پردہ قوتیں اداروں کو حکومت کے خلاف استعمال کرکے حکومت، حکمران جماعت یا قیادت کو پسِ پشت ڈال کر اپنی حکمرانی یا طاقت کو مضبوط کرنا چاہتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں احتساب کا عمل شفاف انداز میں آگے نہیں بڑھ سکا۔ مسئلہ موجودہ حکومت کا نہیں بلکہ ساری حکومتوں کا ماضی احتساب میں رکاوٹیں پیدا کرنے کے عمل سے جڑا ہے۔ اسی طرح مسئلہ محض سیاست دانوں تک محدود نہیں بلکہ ہماری سول اور ملٹری بیوروکریسی، عدلیہ، انتظامیہ، کاروباری طبقات، میڈیا سمیت ہر شعبے میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو احتساب کی زد میں آتے ہیں، مگر سیاسی سمجھوتوں، مفادات پر مبنی سیاست اور اداروں کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی حکمت عملی رکاوٹ بن جاتی ہے۔ اگر کسی کے خلاف احتساب کے عمل کو آگے بڑھایا جائے تو وہ کہتا ہے کہ پہلے فلاں کے خلاف احتساب کیا جائے کیونکہ وہ بڑا چور ہے۔
یہ مسئلہ بھی درپیش ہے کہ جب بھی احتساب پر زور دیا جاتا ہے، یا اس عمل کو آگے بڑھایا جاتا ہے تو اسے جمہوری نظام کے تسلسل کے لیے خطرہ اور ایک بڑی سازش قرار دے کر احتساب کے عمل کو متنازع بنایا جاتا ہے۔
موجودہ دورِ حکومت میں پہلے پیپلز پارٹی نیب اور احتساب عدالتوں سمیت دیگر اداروں کی جانب سے احتساب کے عمل کو متنازع بناتی رہی ہے، اور اب مسلم لیگ(ن)کی قیادت بڑی شدت سے کہہ رہی ہے کہ احتساب کا حالیہ عمل ہمارے خلاف سازش ہے۔ کہا یہ جارہا ہے کہ اس وقت احتساب کا عمل یک طرفہ ہے اور سارا زور شریف خاندان اور ان کی جماعت پر لگایا جارہا ہے۔ اسی منطق کو بنیاد بناکر وہ عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ اور نیب سمیت دیگر اداروں کو سخت تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔ نیب کے حالیہ چیئرمین کی تقرری حکومت اور حزبِ اختلاف کی باہمی رضامندی سے ہوئی تھی، مگر اب اُن کے اختیارات کو محدود کرنے، سلب کرنے اور ان کو لگام ڈالنے کی باتیں کھلے عام کی جارہی ہیں۔ شریف برادران اور حکومت کی بنیادی سوچ اسی نکتہ کے گرد گھومتی ہے کہ ان کی حکمرانی کا نظام سب سے زیادہ شفافیت پر مبنی ہے۔ دیدہ دلیری سے کہا جاتا تھا کہ اگر ایک پیسے کی بھی کرپشن ثابت ہوجائے تو ہمیں الٹا لٹکا دیا جائے۔ مگر اب جب نیب کی جانب سے احتساب کے عمل میں تیزی دکھائی جارہی ہے تو حکمران طبقات سیخ پا نظر آتے ہیں۔
حکمران طبقات کی جانب سے نیب کو دھمکیاں اور اُس کے اختیارات محدود کرنے کی یہ آوازیں پہلی بار سننے کو نہیں ملی ہیں، بلکہ ماضی میں جب بھی پنجاب میں احتساب کی بات شروع کی جاتی تھی تو وزیراعظم، وزیراعلیٰ اور ان کے وفاقی وزراء لنگوٹ کس کر نیب اور احتساب کے خلاف سامنے آجاتے تھے اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے تھے۔ احتساب کا عمل سندھ میں ہو تو درست، پنجاب میں ہو تو انتقامی عمل… یہ منطق سمجھ سے بالاتر ہے۔ پنجاب میں حالیہ دنوں میں وزیراعلیٰ پنجاب کے سب سے چہیتے بیوروکریٹ احد چیمہ کی گرفتاری پر جس شدت سے پنجاب کے حکمران طبقات نے ردعمل دیا وہ ظاہرکرتا ہے کہ ان میں احتساب سے خوف طاری ہے۔ احد چیمہ شہبازشریف کے سب سے من پسند افسر سمجھے جاتے تھے، یہی وجہ ہے کہ ان کی گرفتاری کے باوجود انھیں19ویں سے 20 ویں گریڈ میں ترقی دی گئی ہے تاکہ وہ اپنی زبان بند رکھیں۔ یہ جو ڈی ایم جی گروپ کی جانب سے احد چیمہ کے معاملے پر بہت زیادہ مزاحمت دیکھنے کو ملی ہے اس کی وجہ بھی اندر کا ایک خوف ہے جو بیوروکریسی پر غالب ہے۔ کیونکہ سب جانتے ہیں کہ یہاں جو حکمرانی کا نظام ہے اس میں حکمران طبقہ اپنے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے اداروں اور بیوروکریسی کو استعمال کرکے ان اداروں کی ساکھ خراب کرنے کا سبب بنتا ہے۔ لیکن ہماری بیوروکریسی کی حالت یہ ہے کہ اس میں ایسے لوگ یقینی طور پر موجود ہیں جو حکمران طبقات کے سامنے کمزور ہوتے ہیں، اور اس کے پیچھے اصل وجہ اُن کی ترقی کا عمل ہوتا ہے اور وہ بھی سمجھتے ہیں کہ اصل طاقت قانون نہیں بلکہ حکمران طبقات کی خوشنودی ہوتی ہے۔
احد چیمہ نے کیا کیا ہے اورکس حد تک وہ اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے رہے ہیں، اس کا فیصلہ تو عدالت کو کرنا ہے، مگر جس بھونڈے انداز میں ہماری بیوروکریسی کے ایک مخصوص گروپ نے احد چیمہ کی حمایت میں اپنے آپ کو پیش کرکے پوری بیوروکریسی کو متنازع بنایا، وہ بھی شرمناک عمل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے حکمران طبقات نے اپنی سیاسی مداخلتوں سے انتظامی ڈھانچے اور بیوروکریسی کو خاصا کمزور اور خراب کیا ہے، لیکن یہ تاثر دینا کہ اس وقت پوری بیوروکریسی احد چیمہ یا پنجاب کے حکمرانوں کے شفافیت پر مبنی نظام کے ساتھ کھڑی ہے، غلط ہے۔ یقینی طور پر ہماری بیوروکریسی میں سب برا نہیں۔ اچھے انتظامی افسران اور لوگ موجود ہیں۔ مگر المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں اچھے، دیانت دار اور شفاف بیوروکریٹ کو ترجیح دینے کے بجائے ایسے افراد کو لیا جاتا ہے جو قانون کی حکمرانی اور ریاستی مفاد سے زیادہ ایک خاندان یا حکمران طبقے کے مفادات کو تقویت دے کر پورے نظام کو آلودہ کرتے ہیں۔
نیب کی حالیہ کارروائیوں اور احد چیمہ کے مسئلے پر پنجاب کی بیوروکریسی واضح طور پر تقسیم نظر آتی ہے۔ ایک بڑے گروپ نے واضح کیا ہے کہ ہم قانون کی حکمرانی اور ریاستی نظام کی مضبوطی چاہتے ہیں۔ صوبائی مینجمنٹ سروس ایسوسی ایشن پنجاب کے سیکریٹری جنرل نوید شہزاد نے واضح طور پر اس حالیہ احتجاج کا حصہ بننے سے انکار کیا ہے، اور ان کے بقول یہ احتجاج محض ڈی ایم جی گروپ کے کچھ افسران تک محدود ہے جن کی تعداد سو ڈیڑھ سو سے زیادہ نہیں، جبکہ صوبائی مینجمنٹ کے 1200سے زائد افسران اس احتجاج کا حصہ نہیں۔ اُن کے بقول یہ ایک فرد کے خلاف انکوائری ہے، اس کو ادارہ جاتی تناظر میں نہ دیکھا جائے۔
کچھ لوگوں کے بقول پنجاب میں بیوروکریسی کا ایک مخصوص طبقہ جو حکمران طبقات سے جڑا ہوا ہے، یہ تاثر دینے کی کوشش کررہا ہے کہ پوری بیوروکریسی نیب کے اقدامات کے خلاف ہے، مگر ایسا نہیں ہے۔ صوبائی کابینہ کا اجلاس، احد چیمہ کی حمایت، اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق اور گورنر پنجاب سمیت کئی حکومتی لوگوں کا احد چیمہ کی حمایت میں کھڑا ہونا اور شہر میں اس کی حمایت میں بینر لگانا کہ ’’یااللہ یا رسول… احد چیمہ بے قصور‘‘ ظاہر کرتا ہے کہ حکمران طبقات پر خوف طاری ہے۔ اہلِ دانش کی سطح پر بہت سے لوگوں نے پنجاب حکومت کے اس ردعمل کو پسند نہیں کیا اور کہا کہ اس طرح کے ردعمل کے ذریعے شریف خاندان یا شہبازشریف نے اپنی پوزیشن کو مستحکم نہیں کیا، بلکہ اس واقعے نے بیوروکریسی کو بھی پیغام دیا ہے کہ وہ مستقبل میں حکمران طبقات کی خوشنودی کے لیے ان کے ناجائز کاموں میں مدد کرنے کے بجائے قانون کا راستہ اختیار کرے۔ یہی وجہ ہے کہ اب بیوروکریسی کا پیغام یہ سامنے آیا ہے کہ ’نومور‘… یعنی اب جو بھی کام ہوگا، قانون کے مطابق ہوگا اور زبانی احکام ماننے سے گریز کیا جائے گا۔ خود چیف جسٹس نے کہا ہے کہ بیوروکریسی کیسے بغیر کسی تحریری حکم کے اہم عہدوں پر تقرریاں کرتی ہے! اور زبانی تقرری کا عمل غیر قانونی ہے اور شفافیت کے نظام کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔
اب پاکستان کے عوام اور اہلِ دانش سمیت دیانت اور شفافیت پر یقین رکھنے والے لوگوں اور اداروں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ بلاتفریق احتساب کی بحث کو آگے بڑھائیں۔ اگر واقعی حکمران احتساب میں مخلص ہوتے تو آج ہمیں اداروں کی جانب سے یہ غیر معمولی اقدامات دیکھنے کو نہ ملتے۔ ہمیں افراد اور جماعتوں کے مقابلے میں اداروں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے، اور اداروں کو بھی پابند کرنا ہوگا کہ ان کا عمل شفافیت اور بلاتفریق احتساب سے جڑا ہو، جس میں کسی کے خلاف تعصب کا پہلو نمایاں نہ ہو۔ کیونکہ اگر احتساب کا عمل واقعی بغیر کسی تعصب اور تفریق کے آگے بڑھتا ہے اور جمہوری نظام کو بھی چلایا جاتا ہے تو اس سے ملک میں ایک مثبت تبدیلی دیکھنے کو مل سکتی ہے۔ لیکن اگر ماضی کے کھیل کو دہرایا گیا تو اس کے نتائج ماضی کی بداعمالیوں سے مختلف نہیں ہوں گے۔