مغرب اور مسلمان عورت

سورج سرد پڑجائے۔ چاند ماند پڑجائے۔ ہوا رُک جائے۔ پانی ٹھیر جائے۔ درخت پھل دینا بند کردے۔ پھول مہکنا بند کردے۔ یہ سب اپنے کام ترک کردیں… ظاہر ہے، نتیجہ قیامت خیز ہوگا۔ کائنات کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ رب العزت نے قرآن حکیم میں صراحت سے نظامِ کائنات کے بے نقص ہونے، اور اشیاء میں کامل مطابقت کا کثرت سے ذکرکیا ہے۔ یہی مساواتِ عالم ہے۔ یہی فلسفۂ مساوات انسانی معاشرے کے لیے ہے، اس سلسلے میں عورت کا معین کردار بنیادی ہے۔
اگر عورت ماں نہ رہے، اگر عورت بہن اور بیٹی نہ رہے۔ اگر عورت بیوی نہ رہے۔ بلاشبہ، انسانوں کا معاشرہ قائم نہ رہے گا۔ یہ سیدھا سا تاریخی سچ ہے۔ یہ سچ مغرب میں زمینی حقیقت بن چکا ہے۔ یہ سچ مشرق میں پیش قدمی کررہا ہے۔ دو حالیہ مظاہر فرانس اور سعودی عرب سے سامنے آرہے ہیں۔ انہیں سمجھنے کے لیے اس سچ کا تاریخی تناظر ایک نظر ضروری ہوگا۔
مرد اور عورت انسانی معاشرے کی اکائی ہیں۔ یہ اکائی خاندان تشکیل دیتی ہے۔ خاندان معاشرہ سازی کرتا ہے۔ مستحکم معاشرہ تہذیب کی تخلیق میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ یہ انسانی تہذیب ہی دنیا کی منزل ہے، آخرت کی مراد ہے۔ عورت اس سارے سفر میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ شاہ کلید اگر ہاتھ سے نکل جائے تو تہذیب کا شیرازہ بکھرجاتا ہے۔
مغرب میں عورت کا استیصال ابتدا سے ہے۔ یورپ کی Emancipation Movement سے شروع کرتے ہیں۔ زمیندارانہ اور جاگیردارانہ مظالم کے خلاف عورتوں نے تحریک چلائی۔ زمینداروں کی جنسی ہراسانی سے نجات کے لیے جدوجہد کی۔ ووٹ کے لیے آواز بلند کی۔ عائلی قوانین میں برابری کا حق مانگا۔ مزدوری پر مردوں جتنی اجرت کا مطالبہ کیا… مگر مظالم کچھ اورسنگین ہوگئے۔ ’صنعتی عہد‘ کی آمد نے شہروں، دیہاتوں، اور قصبات کی دنیا ہی بدل کر رکھ دی۔ حقوق کی تلاش میں سرگرداں عورت مشینی فیکٹریوں کی بیگار میں جا پھنسی۔ ہرے بھرے زرعی ماحول کے بچھڑے جب دھواں اڑاتی چمنیوں تلے ملے تو مایوس چہروں پر سیاہی چھائی ہوئی تھی۔ عورتوں کو حقوق نہ دیے گئے، بلکہ مزید جنسی ہراسانی کا شکار بنایا گیا۔ سستی مزدوری نے اس حال میں پہنچایا کہ جسم فروشی بھی شکم سیری نہ کرسکی۔ بچوں کو فیکٹریوں کی کال کوٹھڑیوں میں بچپن بِتانا پڑا۔ یہ ہے جدیدیت کی وہ آبیاری، جس کے تناظر میں مغربی عورت کا حال سمجھنا بہتر ہوگا۔ کیونکہ حقوق اور مساوات کے حالیہ نعروں کا ماضی ’صنعتی عہد‘ کی ہولناک وراثت ہی ہے۔ عظیم انگریزی ادیب چارلس ڈکنز کا پچپن لندن کی فیکٹریوں میں جس طرح پامال ہوا، اُسے آپ بیتی ناول David Copperfield اور Great Expectations میں دیکھا اور محسوس کیا جاسکتا ہے۔ یہ دور عورت کی تباہی اور خاندان کی بربادی میں کوئی ثانی نہیں رکھتا۔ ایک ماں اور ایک بیوی کے جذبات مشینوں میں کچلے گئے۔ جسم اور روح کا رشتہ جوڑتے جوڑتے عورت سب رشتے توڑ بیٹھی۔ اب وہ صرف پراڈکٹ بن چکی تھی، جسے پسند کیا جاتا تھا، خریدا جاتا تھا، بیچا جاتا تھا، اور بے عزت کیا جاتا تھا۔ عورت کی یہ حالت مزید خراب ہوتی چلی گئی۔ عالمی جنگوں میں مردوں کی موت نے اس پراڈکٹ کی قدر و قیمت کچھ اور گرادی۔ عورت کا بیڑہ غرق کردیا گیا۔ بیوائیں بیسوائیں بن کر رہ گئیں۔ رہی حقوق کی صورتِ حال… وہ فریب اور دھوکے کی زد میں ہی رہی۔ عورت بہرحال مارکیٹ پراڈکٹ ہی رہی، اور آج بھی ہے۔ ترمیم یہ ہوئی ہے کہ یہ ’پراڈکٹ‘ رنگ وروغن اور بیش قیمت زیب و آرائش میں لپیٹ دی گئی ہے۔ آج کی جدید جاہلیت میں ’پراڈکٹ‘ کی جدید ترین حالت تاریخی شواہد کی شہادت دے رہی ہے۔ مغرب کی سب سے دولت مند اور مثالی نمونہ (ماڈلز، فنکارائیں) خواتین جنسی زیادتی اور ہراسانی پر آج بھی نوحہ کناں ہیں۔ عام مغربی عورت کا حال فرانس سے تازہ ترین سروے میں سامنے آیا ہے۔ فرانس کی کُل خواتین کا 12 فیصد یعنی چالیس لاکھ ایک یا زائد بار جنسی زیادتی کا شکار ہوچکا ہے۔ فرانسیسی تھنک ٹینک فاؤنڈیشن کی افسوسناک رپورٹ کہتی ہے کہ 43 فیصد خواتین کوکم از کم ایک بار ہراساں کیا گیا۔ 58 فیصد فرانسیسی خواتین کونازیبا تبصروں اور تجاویزکا سامنا کرنا پڑا۔ اس رپورٹ کا سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ 42 فیصدواقعات میں بچیوں اور نوجوان لڑکیوں کو اپنے ہی گھروں میں نشانہ بنایا گیا۔ ان خواتین کا پانچواں حصہ خودکشی کی کوشش بھی کرچکا ہے۔ یہ جائرہ رپورٹ 2167 خواتین کی آراء سے تیار ہوئی ہے، یعنی اصل صورتِ حال بہت زیادہ سنگین ہے۔ مالی مجبوریوں اور نشے کی حالتوں میں جنسی استیصال اور بے راہ روی بے حساب ہے۔ اس ساری صورتِ حال میں تشویش کا سارا حصہ لبرل سیکولر خواتین کا ہے۔ یہاں سارا احتجاج لادین عورت کا ہے۔ یہ رپورٹ کسی مذہبی تنظیم نے تیار نہیں کی، اور نہ ہی ہالی وڈ سے بلند ہوتی صدائے احتجاج کا کسی مذہب، کسی الٰہیاتی اخلاقیات سے کچھ لینا دینا ہے۔ عورت کی یہ حالتِ زار مغرب کا اصل روپ ہے، جو ریمپ پر جتنا خوشنما نظرآتا ہے، پس منظر میں اتنا ہی بھیانک اور داغ دار ہے۔
مشرق میں عورت کی تباہی کا نیا منصوبہ سعودی عرب میں رو بہ عمل ہے، مقصد اس کا اسلامی معاشرے کی تباہ کاری ہے۔ کیونکہ اسلامی معاشرے کی بربادی مشرق کی بربادی ہے۔ مشرق میں اسلامی معاشرے کے سوا سب مکمل مغرب زدہ ہوچکے ہیں۔ سعودی عرب کے بادشاہ شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان نے مغرب سے ’وژن‘ 2030 کا پراجیکٹ درآمد کیا ہے۔ اس کا سب سے اہم پہلو عرب مسلمان عورت کوگھرکی چار دیواری سے فیشن ریمپ تک پہنچانا ہے۔ مغرب کا فلسفۂ ’مساوات‘ ہی استعمال کیا جارہا ہے۔ بظاہر بے ضرر قسم کی اجازتیں دی جارہی ہیں، جو اسلام کی نسبت عرب ثقافت سے زیادہ متعلق ہیں۔ ان ہی اجازتوں میں بے راہ روی کی راہ ہموار کی جارہی ہے، جیسے خواتین کا سینما اور خواتین کا فیشن شو وغیرہ۔ تفصیل روز ہی بتدریج سامنے آرہی ہے۔ تاثر یہ دیا جارہا ہے کہ عرب یعنی اسلامی معاشرہ مغربی معنوں میں قدامت پرست ہے، اور اسے مغربی جدیدیت کی ضرورت ہے۔ اسلام کے خلاف جدید جہالت کی یہ دلیل عالمی ذرائع ابلاغ کا ’سلوگن‘ بن چکی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ مغرب کی جدید عورت مسلمان عورت کے لیے کیسا معیار ہوسکتی ہے؟ کیا مشرقی اور مسلمان عورت کی تاریخ اور تکمیل کا مغرب کی عورت سے کوئی موازنہ کیا جاسکتا ہے؟
مغرب کی عورت کے معیار اور تاریخ کا ذکرآچکا ہے۔ یقینا اسلام میں عورت کی یہ تاریخ نہیں ہے۔ بلاشبہ، اسلام میں عورت کے لیے ذلت و غربت موجود نہیں۔ اس تاریخ میں کہیں عورت کے ساتھ جنسی ہراسانی و زیادتی موجود نہیں۔ یہاں معززگھرانے کا بچپن ہے، یہاں محبت بھری ممتا ہے، لاڈلی بیٹی ہے، وفادار بیوی ہے، اور ایک ایسا پُرسکون خاندان ہے، جس کا سارا معاشی بوجھ مرد کے کاندھے پر ہے۔ یہاں کوئی ماں، بہن، بیٹی بازار میں بیچی نہیں جاتی، خریدی نہیں جاتی، بے عزت نہیں کی جاتی۔ یہاں عورت خاندان بناتی ہے، معاشرہ سازی کرتی ہے، تہذیب تشکیل دیتی ہے۔ انسانی تہذیب کی واحد ضمانت اب مسلمان عورت ہی ہے۔ اس لیے یہ مغرب کا مرکزی ہدف ہے۔
کیا مغرب یہ ہدف حاصل کرسکتا ہے؟ ظاہر ہے، یہ ناممکن ہے۔ وجہ سادہ سی ہے۔ مسلمان خواتین کی غالب اکثریت اسلامی تشخص سے مطمئن ہے۔ یہ اکثریت خاندان کی اہمیت سے واقف ہے۔ یہ اکثریت ہرگز ریمپ پر تماشا بننے کے لیے تیار نہیں۔ یہ اکثریت ہرگز رنگین پراڈکٹ بننے پر آمادہ نہیں۔ اس لیے کہ عورت کی عزتِ نفس یہ سب گوارا نہیں کرسکتی۔ مغرب کی اس جنگ میں فتح مسلمان عورت کا مقدرہے۔ یہ عورت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی ناقابلِ تسخیر روح ہے۔ یہ عورت ترک خاتونِ اوّل امینی اردوان کا وجود ہے۔ یہ عورت مریم رڈلے کا سا حوصلہ ہے۔ یہ عورت آسیہ اندرابی کا سا عزم ہے۔ یہ عورت مریم جمیلہ کی سی میراث ہے۔