عزام حسین
عالم عرب میں عشروں سے قائم جابرانہ حکومتوں کے خلاف بغاوت کی لہر اٹھی تو شام بھی محفوظ نہ رہا ۔مارچ2011ء میں شام کے مختلف علاقوں میں حکومت مخالف مظاہروں کا آغاز ہوا،مظاہرین سیاسی اصلاحات کا مطالبہ کررہے تھے، تاہم 15 مارچ کو حکومتی فورسز نے درعا میں نہتے عوام پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں 4 شہری شہید ہوگئے۔ ایرانی اور روسی حمایت یافتہ قاتل بشارالاسد کا خیال تھا کہ طاقت کے استعمال سے مظاہروں کو کچل دیا جائے گا، مگر یہ مظاہرے ملک بھرمیں پھیل گئے۔ حکومتی کریک ڈاؤن کا سلسلہ بھی حلب تک جاپہنچا تو ظالم شامی افواج اور مظاہرین کے درمیان لڑائی شروع ہوئی، اور یہ تاریخی شہر تباہی سے دوچار ہوگیا۔ لڑائی ملک بھر میں پھیلی تو بشارالاسد کے پاس صرف20 فیصد علاقے کا کنٹرول باقی رہ گیا۔ شامی افواج، ایرانی جنگی ماہرین، تربیت یافتہ شیعہ فورسز اور حزب اللہ کو شام میں شکست کا سامنا تھا، اس مرحلے پر ایران اور ناجائز شامی حکومت نے روسی صدر ولادی میر پیوٹن کو مداخلت کی دعوت دی۔ ایران نے اپنے اڈوں سے روسی جنگی طیاروں کو پرواز کی اجازت دے دی، یوں مزاحمتی قوتوں کے زیراثر علاقوں پر وحشیانہ روسی بمباری کے سلسلہ شروع ہوا۔ روسی صدر نے آیت اللہ خامنہ ای کی حمایت سے حلب کو اسی طرح تباہ کیا جیسے ماضی میں گروزنی کو تباہ کیا تھا۔
شام میں روسی مداخلت کے بعد توازن تبدیل ہوگیا، مزاحمتی قوتوں کے پاس روسی فضائی حملوں کے توڑ کے لیے میزائل موجود نہ تھے۔ حلب جیسی صورت حال کا سامنا اب غوطہ کے مسلمانوں کو ہے۔ حکومتی افواج کی وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں 600 کے قریب بچے،عورتیں اور جوان شہید ہوچکے ہیں، کلورین اور بیرل بم کے استعمال کی بھی اطلاعات ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ جب معصوم شامی بچے کیمیائی ہتھیاروں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ غوطہ کی صورت حال اس قدر سنگین ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے اسے زمین پر جہنم سے تعبیر کیا ہے۔ حکومتی محاصرے کے نتیجے میں چارلاکھ افراد مشرقی غوطہ میں محصور ہیں۔ یہ علاقہ دارالحکومت دمشق کے قریب مزاحمتی قوتوں کا سب سے بڑا گڑھ ہے۔ اس قبضے کو ختم کرانے کے لیے شامی زمینی افواج اور روسی فضائیہ کی وحشیانہ کارروائی جاری ہے۔ آگ برساتے جنگی طیارے بلاتفریق بچوں، خواتین اور بزرگوں کو نشانہ بنارہے ہیں۔ اس دہشت ناک کارروائی کے باوجود شامی افواج اب تک ایک انچ پر بھی قبضہ نہیں کرسکیں۔
سلامتی کونسل کی جانب سے 30 دن کے لیے جنگ بندی کے مطالبے پر بھی عمل نہ ہوسکا۔ مقامی آبادی علاقہ خالی کرنے پر آمادہ نہیں، انہیں خطرہ ہے کہ اس صورت میں حکومتی افواج نہ صرف انہیں انتقامی کارروائی کا نشانہ بنائیں گی بلکہ وہ دوبارہ اپنے علاقوں کو لوٹ بھی نہ سکیں گے۔ مارچ 2011ء میں شروع ہونے والی تحریک اب آٹھویں برس میں داخل ہوچکی ہے۔ اس عرصے میں تقریباً پانچ لاکھ جاں بحق جب کہ ایک کروڑ سے زائد افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔ عالمی طاقتیں بشارالاسد کی ناجائز حکومت کے خلاف کسی فیصلہ کن اقدام سے گریزاں ہیں، سلامی کونسل میں پیش ہونے والی ہر قرارداد روس ویٹو کردیتا ہے، یہاں تک کہ کیمیائی ہتھیاروں کی تحقیق سے متعلق قرارداد بھی روس نے ویٹو کردی۔ ایران کھل کر ناجائز شامی حکومت کی پشت پناہی کررہا ہے اور ہر طرح کی مدد فراہم کررہا ہے۔ امریکہ کی دلچسپی کردوں کو مضبوط اور منظم کرنے میں ہے، تاہم ترکی امریکی ایجنڈے کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ عرب ممالک اب صرف زبانی جمع خرچ میں مصروف ہیں،بات چیت کا کوئی بھی دور اب تک کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔ شام کے مسئلے نے اقوام متحدہ، عرب لیگ اور او آئی سی سب کی ناکامی ثابت کردی ہے۔