ممتاز ماہر معیشت ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی سے گفتگو

فرائیڈے اسپیشل:۔ پیرس میں ہونے والے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس میں امریکہ اور برطانیہ کی تحریک پر پاکستان کا نام دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت کرنے والے ممالک کی واچ لسٹ میں ڈال دیا گیا ہے، آپ اس صورت حال کو کس طرح سے دیکھ رہے ہیں؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی:۔ یہ پاکستان کی بڑی ناکامی ہے، کیونکہ جو قرارداد ہے اُس میں چین اور سعودی عرب نے امریکہ کا ساتھ دیا ہے۔ ہمارا صرف ایک ملک نے ساتھ دیا ہے، اگر دو ممالک ساتھ دیتے تو ہم بچ جاتے۔
پاکستان کے خلاف منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی فنانسنگ وغیرہ کو روکنے میں ناکامی کے الزامات پر فنانشل ٹاسک فورس کو پیش کردہ امریکی قرارداد منظور ہوتی ہے جو ایک قومی المیہ ہے۔ یہ امر بھی افسوسناک ہے کہ سعودی عرب اور چین نے بھی امریکہ کی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔ 37 میں سے صرف ایک ملک ترکی نے پاکستان کی حمایت کی اور اس قرارداد کی مخالفت کی۔ چناں چہ یہ قرارداد منظور ہوگئی۔ اب تین ماہ کے اندر پاکستان ایکشن پلان بنائے گا جس پر عمل درآمد کا جائزہ لیا جائے گا اور جون میں یہ فیصلہ ہوگا کہ پاکستان کو واچ لسٹ گرے یا بلیک میں رکھا جائے، اور پاکستان کو پرکھا جائے گا۔ دو دن قبل وزیر خارجہ نے جو تقریر کی تھی وہ غلط کی تھی، جلد بازی پر مبنی گفتگو نہیں کرنی چاہیے۔ مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ پاکستان پر الزامات لگاتا رہا تھا کہ پاکستان اُن دہشت گرد گروپوں اور افراد کے خلاف کارروائیاں نہیں کررہا جن کی نامزدگی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1267 میں کی گئی ہے، یہ صورتِ حال بہت سنگین ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:۔ یہ قرارداد پاکستان کے لیے کتنا بڑا خطرہ ہے؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی:۔ اس قرارداد کی منظوری سے اصل خطرہ یہ ہے کہ اگر ہم اپنی معیشت، اپنی برآمدات، قرضوں کی ترسیلات میں امریکہ اور یورپ پر اسی طرح انحصار کرتے رہے جیسے کہ اب تک کررہے ہیں تو دہشت گردی کی نام نہاد جنگ میں امریکی مطالبات پر مزید تابعداری کرتے چلے جانے کے باوجود امریکہ ہمیں معاف نہیں کرے گا، کیوں کہ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کی جنگ جو افغانستان میں امریکہ نے شروع کی ہے اُس کا ہدف پاکستان ہی ہے، اور امریکی مقاصد میں پاکستان کو غیر مستحکم کرنا، پاکستان کی معیشت کو تباہ کرنا اور بھارت کو خطے میں بالادستی دلانا شامل ہے۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ نائن الیون کے بعد پاکستان کے فوجی حکمران پرویزمشرف نے اقوام متحدہ کی قراردادوں سے کہیں بڑھ کر دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر دہشت گردی کو فروغ دینے کی جنگ میں امریکہ کی مدد کی۔ حالاں کہ اس جنگ کا ہدف خود پاکستان بھی تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ستمبر 2001ء میں 9/11 ہوا، اُس سے دو برس قبل اکتوبر 1999ء میں پاکستان پر فوجی حکمران نے قبضہ کرلیا تھا اور عدالتِ عظمیٰ نے اس کو تین سال کی مہلت دی۔ اگر یہ تین سال کی مہلت نہ ملتی یعنی 9/11 کے وقت پاکستان میں سول حکومت ہوتی تو اُس کے لیے یہ ممکن نہ ہوتا کہ پاکستان کی سلامتی کو دائو پر لگاکر امریکہ کی اس حد تک مدد کرتی، اور آج پاکستان کے ساتھ جو کچھ ہوا، جو کچھ ہورہا ہے، یا آئندہ ہونے والا ہے، نہ ہوتا۔ ایف اے ٹی ایف تنظیم کے استعماری مقاصد ہیں جن کے تحت ممالک کو گرین، گرے اور بلیک میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ یہ قرارداد امریکہ کے استعماری مقاصد کے حصول کے لیے ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:۔ اس قرارداد کے پس منظر میں اصل حقائق کیا ہیں؟ امریکہ چاہتا کیا ہے؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی:۔ اس قرارداد سے بھارت کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، کیوں کہ اس کے ذریعے حافظ سعید اور ان کے جو فلاحی ادارے ہیں ان کی رقوم اور اثاثے منجمد ہوگئے ہیں اور حکومت نے قبضے میں لے لیے ہیں۔ حالاں کہ حافظ سعید اور ان کے اداروں پر پاکستان میں کوئی الزام نہیں تھا، اور نہ ہی کوئی الزام پاکستان سے باہر ثابت ہوا تھا، البتہ ان اداروں کی سماجی خدمات کا اعتراف دنیا بھر میں کیا جاچکا ہے۔ جب ان کی یہ سرگرمیاں رکیں گی تو پاکستان میں انتہا پسندی کو فروغ ملے گا جو دہشت گردی کا سبب بنتی ہے۔ خود امریکی دانش ور نوم چومسکی یہ کہہ چکے ہیں کہ امریکہ پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دیتا رہا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس قرارداد سے امریکہ کو یہ موقع مل گیا ہے کہ حالات خراب ہوں گے، اس کا بہانہ بناکر امریکہ طویل مدت تک افغانستان میں فوجیں رکھے گا۔ یہی بات میں 9/11 کے بعد سے کہتا رہا ہوں کہ امریکہ افغانستان سے نکلنا نہیں چاہتا۔ یہ قرارداد اسی مقصد کے لیے ہے۔ تیسری جو بہت اہم بات ہے اور مجھے افسوس ہے کہ ہمارے نمائندے اس پر بات نہیں کررہے، وہ یہ ہے کہ افغانستان میں پوست کی کاشت دوبارہ شروع ہوگئی ہے۔ طالبان کے زمانے میں یہ صفر ہوگئی تھی۔ اس سے خطیر رقوم ملتی ہیں۔ ان رقوم کو دہشت گردی کی سرمایہ کاری میں استعمال کیا جارہا ہے، حالاں کہ الزام پاکستان پر ہے کہ وہ دہشت گردی کو روکنے میں ناکام ہے۔ چوں کہ امریکہ نے پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر باڑ نہیں لگانے دی، اس لیے ہماری سرحد پر اسلحہ اور ڈالر پاکستان میں منتقل ہورہے ہیں جو دہشت گردی کی سرمایہ کاری میں استعمال ہورہے ہیں۔ ہماری حکومت نے یہ بات کسی فورم پر نہیں کہی۔ ایک بات جو میں نے کہی تھی کہ امریکہ نے وعدہ کیا تھا کہ دہشت گردی کی جنگ کی معاونت کے صلے میں پاکستان کو قرضوں کے بوجھ سے نجات مل جائے گی اور یہ خوش حال ملک بن جائے گا، ہوا یہ کہ اس جنگ سے پاکستان کی معیشت کو 125 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، 70 ہزار شہری ہلاک ہوئے۔ اس کے باوجود ہمارے اوپر الزامات کی بارش ہورہی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے 22 اگست 2017ء کو پاکستان کے خلاف انتہائی معاندانہ بیان جاری کیا تھا۔ اس کے جواب میں پاکستان نے صرف لفظی گولہ باری امریکہ کے خلاف کی۔ مگر جو چیز انتہائی تشویشناک ہے وہ یہ کہ اس کے بعد سے پاکستان میں سیاسی افراتفری، الزام تراشیاں، آپسی جھگڑے وغیرہ اچانک بڑھ گئے ہیں۔ پاکستان میں ایک ہیجانی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ اس صورتِ حال کا تقاضا یہ تھا کہ ہمارے حکمرانوں، سیاست دانوں، ریاستی اداروں اور قیادت کو اکٹھے بیٹھ کر دیکھنا چاہیے تھا کہ امریکی پالیسی بیان سے جو خطرات ہیں اُن سے کیسے بچا جائے۔ لیکن ہمارے حکمرانوں، سیاست دانوں اور اہم ریاستی اداروں کی توجہ پاناما لیکس، سیاسی ہنگامہ آرائی، طاقتور طبقوں کو ناجائز مراعات دینے کی جانب مبذول رہی اور اداروں میں تنائو بڑھتا رہا۔ ملک پر جو خطرات منڈلارہے تھے اُن کی طرف توجہ نہیں دی گئی، حالاں کہ یہ خطرات بہت واضح نظر آرہے تھے۔ ستمبر2017ء میں پاکستان کے خلاف قرارداد منظور ہوئی ہے، اس سے کئی ماہ پہلے میں نے یہ لکھا تھا کہ امریکہ کو اس جنگ میں پاکستان کی مدد درکار ہے۔ چناں چہ فی الحال وہ پاکستان پر اقتصادی پابندیاں تو نہیں لگائے گا البتہ پاکستان کے خلاف ایک نئی چارج شیٹ تیار کی جاسکتی ہے۔ وہ چارج شیٹ اب امریکہ نے جاری کردی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے میں نے یہ بات بھی لکھی تھی کہ امریکہ یہ بات اچھی طرح سمجھتا ہے کہ پاکستان کی امداد بند کرنے کے علاوہ ایسے بہت سے اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں جن سے پاکستان کی معیشت بحران کا شکار ہوجائے گی۔ یہ جو قرارداد منظور ہوئی ہے، یہ پاکستان کا گھیرا تنگ کرنے کے لیے چارج شیٹ ہے، اسے مستقبل میں اُس وقت استعمال کیا جائے گا جب دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ کو پاکستان کی مدد کی ضرورت مزید کم ہوجائے گی، اس کے نتائج کا سوچ کر بھی خوف آتا ہے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ان خطرات کی طرف توجہ نہیں دی جارہی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:۔ 22 اگست 2017ء کو ٹرمپ نے جو بیان جاری کیا تھا، کیا وہ ایک مربوط حکمت عملی کے تحت دیا تھا؟ بہت سوچ سمجھ کر بیان دینے کا وقت مقرر کیا گیا تھا؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی:۔ جی! اس کی وجہ یہ تھی کہ تین سال پہلے ایک سازش ہوئی اور پاکستان نے آئی ایم ایف سے قرضہ لیا۔ اس قرضے کی شرائط یہ تھیں کہ پاکستان بجلی اور گیس کے نرخ بڑھائے گا۔ اس کا مطلب کیا ہے؟ جب آپ بجلی اور گیس کے نرخ بڑھائیں گے تو آپ کی پیداواری لاگت بڑھے گی، جب صنعتوں کی پیداواری لاگت بڑھے گی تو برآمدات گریں گی، اور جب برآمدات گریں گی اور غیر ضروری درآمدات آپ کریں گے تو آپ کا تجارتی خسارہ بڑھے گا، اور اُس وقت پاکستان کو بیرونی قرضوں کی مزید ضرورت ہوگی۔ معیشت بحران کا شکار ہوگی اور زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوں گے۔ یہ وقت مقرر کیا تھا امریکی صدر نے، اور اس سے پہلے مزید یہ حکمت عملی طے کی گئی تھی۔ لیکن پاکستان میں ان چیزوں کا ادراک کرنے کے بجائے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہیجانی کیفیت پیدا کردی گئی۔
فرائیڈے اسپیشل:۔ FATF کی قرارداد کے بعد پاکستان کن مشکلات کا شکار ہوسکتا ہے؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی:۔ یہ قرارداد مربوط حکمت عملی کے تحت لائی گئی ہے۔ اس پالیسی کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری برآمدات 2011ء سے کم ہیں، جب کہ ہمارا تجارتی خسارہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے۔ اکتوبر 2016ء سے اب تک ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر میں 5.4 ارب ڈالر کی کمی ہوچکی ہے۔ اتنی ہیجانی اور سنگین صورتِ حال پیدا کی گئی اور اس وقت امریکہ نے پالیسی بیان جاری کیا اور پاکستان کے خلاف اقدامات کیے، مگر ہم لوگوں نے اس کی طرف توجہ نہیں دی۔ برآمدات جس سے معیشت ترقی کرتی ہے اور روزگار ملتے ہیں، اس کی کمی کا نقصان کسی حد تک پورا کرنے کے لیے بیرونی ترسیلات پر انحصار کیا جارہا ہے۔ اس کے لیے ہم نے یہ قانون بنایا ہے انکم ٹیکس آرڈی نینس 211 سیکشن 4 کے تحت کہ پاکستان میں جو پیسہ ترسیلات کے ذریعے آتا ہے آپ پوچھ نہیں سکتے کہ یہ کہاں سے آیا، کیوں آیا۔ یعنی اگر متحدہ عرب امارات سے ڈالر کی نوکری کرنے والا شخص کسی کو تین ملین ڈالر بھیج دے تو ہم پوچھ نہیں سکتے کہ کیوں بھیجا۔ پاکستان سے رشوت اور چوری کا پیسہ باہر بھیجا جاتا ہے، کیونکہ ہماری معیشت دستاویزی نہیں ہے۔ اور جب یہ پیسہ پاکستان آتا ہے تو ترسیلاتِ زر تو بڑھ جاتی ہیں لیکن اس کی وجہ سے انکم ٹیکس کی مد میں ہمیں 3 ہزار ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے، ساتھ ہی پیسہ بھی سفید ہوجاتا ہے۔ یہ بھی منی لانڈرنگ کی ایک قسم ہے۔ پاکستان پر یہ الزام بھی لگ سکتا ہے۔ 4 سال 5 ماہ جو اِس حکومت کے ہیں اس میں 85 ارب ڈالر کی ترسیلات آئیں۔ ان میں 80 فی صد چار ملکوں سے آیا یعنی 67 ملین ڈالر چار ملکوں سے آئے جن میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، امریکہ اور برطانیہ شامل ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری جو معیشت ہے وہ ٹیکسوں کی وصولی، بچتوں، ملکی سرمایہ کاری کے بجائے بیرونی قرضوں، بیرونی امداد و نج کاری اور ترسیلات پر چل رہی ہے۔ یہ ہے اپنی گردن دوسروں کے ہاتھ میں دینا۔ اس وقت یہ زیادہ سنگین اس لیے ہے کہ اس فہرست میں امریکہ وبرطانیہ شامل ہیں اور باقی دو ممالک امریکہ کے زیر اثر ہیں، اور امریکہ جب چاہے اینٹی منی لانڈرنگ کی آڑ میں ان ترسیلات میں کمی کراسکتا ہے۔ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کو وہ استعمال کرسکتا ہے۔ ابھی جو حبیب بینک پر 22 ارب روپے کا جرمانہ ہوا اُس میں بھی الراضی جو سعودی عرب کی پارٹی تھی، شامل تھی کہ اُن کے ساتھ غلط کام کیا گیا ہے۔ اگر اس پالیسی کو بدلنا ہے تو اس کے لیے وہ اقدامات کرنے ہوں گے جن سے پاکستان کے طاقتور طبقے کے مفادات پر زد پڑے گی۔ اس لیے وہ ایسا نہیں کرتے۔
فرائیڈے اسپیشل:۔کیا ہماری سیاسی و عسکری قیادت کو اس سنگین صورتِ حال کا ادراک ہے؟ اور کیا اس قرارداد کو روکا جاسکتا تھا؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی:۔ اگر پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت حالات کی سنگینی محسوس کرتی تو جب یہ قرارداد پیش کی گئی تھی اُس وقت چین اور سعودی عرب کی قیادت سے رابطہ کیا جاتا اور خصوصاً سعودی عرب کے ولی عہد سے بات کی جاتی، اور خصوصاً چین کے صدر سے، تو 22 فروری کو یہ قرارداد منظور نہ ہوتی۔ ہوا یہ کہ یہ قرارداد پہلے مسترد ہوئی 20 فروری 2018ء کو، اور یہ اس لیے مسترد ہوئی کہ چین، سعودی عرب اور ترکی نے امریکہ کی مخالفت اور پاکستان کی حمایت کی۔ اس موقع پر ہمارے وزیر خارجہ نے فوراً ہی ایک ٹوئٹ کرکے کامیابی کا اعلان کردیا، حالاں کہ یہ کام پہلے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کو کرنا چاہیے تھا۔ اس کے بعد امریکہ نے چین اور سعودی عرب کو راضی کیا اور انہوں نے پاکستان کی مخالفت کی، جس کے نتیجے میں یہ قرارداد پاس ہوگئی۔ یہ ہے ہماری سیاسی و فوجی قیادت اور ریاستی اداروں کی ناکامی۔ ان کو اس کی ذمے داری قبول کرنی ہوگی۔ جب ایبٹ آباد میں آپریشن ہوا تھا ہم نے اُس کی جو فلم دیکھی تھی اُس میں امریکی صدر اوباما، وزیر خارجہ، وہاں کی فوجی قیادت بہت بوکھلائے ہوئے غور سے ایبٹ آباد میں فوجی آپریشن دیکھ رہے تھے، جبکہ ہمارے ہاں سول و فوجی قائدین خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔ اب بھی یہی ہوا کہ 20 فروری سے پہلے بھی جب امریکی صدر نے پاکستان کے خلاف بیان دیا تھا ہم ہوش میں نہیں آئے، اور 20 فروری کے بعد دو دن میں جو کچھ ہوا اور انہوں نے چین اور سعودی عرب کو توڑ لیا اس پر بھی یہاں کوئی ڈسکشن نہیں ہورہا۔ اگر ہم ان دو دنوں کے اخبارات دیکھ لیں تو نظر آجائے گا کہ ہمارے لیڈروں کی توجہ کس طرف ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:۔ امریکہ پاکستان کو کمزور کرنا چاہتا ہے یا اس کے پیچھے کچھ اور بھی مقاصد ہیں؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی:۔ پاکستان 2012ء سے 2015ء تک بھی گرے لسٹ میں تھا لیکن اُس وقت اتنی بری حالت میں نہیں تھا، لیکن 2013ء میں ہم نے امریکہ کی ہدایت پر آئی ایم ایف سے قرضہ لے لیا۔ اس طرح انہوں نے ہمارے اوپر ایک تلوار لٹکا دی ہے جس کا ہم ادراک نہیں کررہے۔ ہمارا تجارتی خسارہ اس سال میرے خیال میں 16 ارب ڈالر رہے گا۔ ہماری برآمدات ہدف سے کم از کم 12 ارب ڈالر کم رہیں گی۔ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر (reserves) مسلسل گر رہے ہیں۔ اگر جون تک ہم بڑے پیمانے پر بیرونی قرضے نہ لیں تو اپنے قرضے بھی ادا نہیں کرسکتے۔ اگر یہ قرارداد منظور ہوگئی تو ہمیں بیرونی قرضے لینے میں بڑی مشکلات رہیں گی، ہمیں شرح سود زیادہ دینی پڑے گی، ہمارا بینکاری کا شعبہ اور زیادہ مشکلات کا شکار ہوگا، بیرونی سرمایہ کاری پہلے بھی نہیں ہورہی تھی، اب اس میں مزید کمی ہوگی۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ان حقائق کا ادراک کرنے کے بجائے ہم یہ باتیں کررہے ہیں کہ ٹیکس ایمنسٹی دی جائے۔ ہم ان حقیقی خطرات سے بے پروا اور لاتعلق ہوکر رہ گئے ہیں جو ہمارے سر پر منڈلا رہے ہیں۔ یہ بہت ہی سنگین صورتِ حال ہے۔ امریکہ کا کہنا یہ ہے کہ 2015ء میں جب گرے لسٹ سے پاکستان کو ہٹایا گیا تھا اُس کے بعد سے دہشت گرد تنظیمیں جو پاکستان میں ہیں وہ افغانستان پر حملے کررہی ہیں، چناں چہ پاکستان کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اُن گروہوں اور افراد کے خلاف کارروائی کرے جن کو اقوام متحدہ نے دہشت گرد قرار دیا تھا۔ ان کے پاس لسٹیں ہیں جو وہ ہمیں دیں گے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر ہم امریکی مطالبات پورے کردیں، تو وہ خاموش ہوجائیں گے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ ذرا وضاحت کیجیے۔
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی:۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ Do more چاہتا ہے، اور یہ بھی چاہتا ہے کہ پاکستان بھارت کی بالادستی قبول کرے۔ پاکستان جو پہلی مسلمان جوہری قوت ہے، عالم اسلام کا آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا ملک ہے،امریکہ چاہتا ہے کہ اس کو اِس قابل نہ چھوڑا جائے کہ وہ آئندہ کوئی بڑا کردار عالمی معاملات میں ادا کرسکے۔ خصوصاً اس لیے بھی کہ چین یہاں سرمایہ کاری کررہا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:۔ اس صورت حال میں پاکستان کو کیا کرنا چاہیے اور وہ کیا کرسکتا ہے؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی:۔ آگے چل کر منی لانڈرنگ، ٹیرر فنانس، دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کے الزامات لگاکر ہمارے خلاف زیادہ کارروائی کی جاسکتی ہے۔ ممکنہ طور پر میرے ذہن میں 7 نکات ہیں جن پر فوری طور پر عمل درآمد ہونا چاہیے، ورنہ خطرات بڑھتے چلے جائیں گے۔ ان کے نتائج کا سوچ کر بھی آدمی کی روح کانپ جاتی ہے۔ وہ 7 تجاویز یہ ہیں: (1) معیشت کو دستاویزی بنانا، (2) انکم ٹیکس آرڈی نینس شق (4)III کو منسوخ کرنا، (3) کالے دھن کو سفید ہونے سے روکنا۔ کسی بھی قسم کی ٹیکس ایمنسٹی کا اجرا نہ کرنا۔ پاکستان اس وقت واحد ملک ہے جہاں چوری کے پیسے کو، رشوت کے پیسے کو بغیر قومی خزانے میں ایک پیسہ جمع کرائے سفید کرنا ممکن ہے۔ ان تمام قوانین کو ختم کرنا ہوگا، (4) کوئی نئی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم اس بہانے سے کہ بیرونی ممالک سے دولت منگوائی جائے، یہ پاکستان کی تباہی کا نسخہ ہے، یہ نہیں ہونا چاہیے، (5) آپ پاناما کی بات کررہے ہیں کہ باہر سے لوٹی ہوئی دولت منگوائیں گے، سپریم کورٹ نے بھی اس معاملے میں نوٹس لیا ہے، مگر میں پوری ذمے داری سے کہہ رہا ہوں کہ باہر سے معلومات حاصل کرنا اور اس دولت کا چند برسوں میں واپس آنا ممکن نہیں ہے۔ 20 سال سے ہم بات کررہے ہیں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ جب ایک کروڑ روپیہ لوٹا جاتا ہے، ٹیکس چوری کی جاتی ہے تو 60 لاکھ روپیہ تو پاکستان میں رہتا ہے، 40 لاکھ دنیا بھر میں پھیل جاتا ہے، اس میں سے کچھ واپس آجاتا ہے، یہ جو 60 لاکھ پاکستان میں ہے اس کی تفصیلات پاکستان میں موجود ہیں، اور یہ رقم ہماری دسترس میں ہے، اور میں سمجھتا ہوں کہ 2 ہزار ارب روپیہ وصول ہوسکتا ہے، میری درخواست سپریم کورٹ سے بھی یہی ہے کہ باہر سے دولت منگوانے کے لیے وہ جو کچھ بھی کررہے ہیں وہ کوششیں کریں، لیکن اس میں کامیابیاں اگلے چند برسوں میں نہیں ہوں گی، البتہ اگلے چند ماہ میں لوٹی ہوئی دولت کے 2 ہزار ارب روپے وصول ہوسکتے ہیں جو پاکستان میں ہیں، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی اس پر بات کرنے کو تیار نہیں ہے۔ باہر سے تو آپ تفصیلات مانگ رہے ہیں لیکن جو چیزیں آپ کے پاس ہیں اُن کی بات نہیں کرتے۔ ابھی کچھ عرصہ قبل میں یورپ گیا، وہاں مائیلنگ سے بات ہوئی، وہ ہمارے ساتھی ہیں۔ وہ ہنس رہے تھے کہ آپ کے ملک میں کیا تماشا ہورہا ہے! آپ کہہ رہے ہیں ہمیں تفصیلات دو پراپرٹیز کی جو پاناما میں، سوئٹزرلینڈ میں اور دنیا بھر میں پھیلی ہیں۔ جو آپ کے پاس ہیں ان کو آپ کہتے ہیں کہ انہیں چھوڑ دیں! دنیا بھر کے سفارت کار حیرت سے دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان کو اتنا بڑا خطرہ درپیش ہے اور یہ لوگ سیاسی جھگڑوں میں لگے ہوئے ہیں۔ ملکی پاناما پر ہاتھ ڈالیں جس کا میں نے ذکر کیا۔ (6) ہمارے ہاں جائداد میں سرمایہ کاری رشوت اور چوری کے پیسے کو محفوظ بنانے کا بہترین ذریعہ بن گئی ہے، ہوتا یہ ہے کہ ایک کروڑ کی جائداد کی ایف بی آر کی ویلیو یا ڈی سی ریٹ 10 لاکھ ہے، حکومت نے اب یہ کردیا ہے کہ ایف بی آر ریٹ لے آئی ہے۔ یہ کیوں نہیں کرتے کہ ایک قانون بنادیا جائے کہ ڈی سی ریٹ مارکیٹ کے نرخوں کے برابر ہوگا۔ لیکن چاروں صوبے اس کے لیے تیار نہیں ہیں، اس کا وفاق سے تعلق نہیں ہے، اس کو ہم تبدیل کرنا کیوں نہیں چاہتے، یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس کے علاوہ ہماری سرحدوں سے بڑے پیمانے پر اسمگلنگ ہورہی ہے، ملک میں انڈر انوائسنگ ہورہی ہے، اس کو روکنا چھٹا کام ہے،(7) دہشت گردوں کی سرمایہ کاری ہر قیمت پر روکیں۔
ناجائز دولت آج بھی باہر جاسکتی ہے، حالاں کہ ہم بات کررہے ہیں کہ دولت واپس لانی ہے۔ کیا ایسے قوانین موجود نہیں ہیں جن کے ذریعے لوٹی ہوئی دولت جو آج بھی پاکستان سے باہر جارہی ہے، اسے روکا جاسکے؟ وہ تمام چیزیں جو پاکستان کے مفاد میں ہیں ان کے لیے ایک آل پارٹیز کانفرنس میں منظوری لی جائے۔ اور اس کے بعد ہماری خارجہ سلامتی کمیٹی اس کو نیشنل ایکشن پلان میں لے اور اس کی ہر مہینے مانیٹرنگ ہو۔ اگر آپ یہ نہیں کرتے تو امریکہ کی طرف سے جو خطرہ ہے وہ تو اپنی جگہ ہے، اس کے علاوہ بھی ہماری معیشت تباہ رہے گی۔
فرائیڈے اسپیشل:۔ پاکستان کی فوجی اور سیاسی قیادت اس میں سنجیدہ بھی نہیں تو پھر پاکستان کا مستقبل کیا ہے؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی:۔ 2009ء میں چیف جسٹس کو میں نے خط لکھا تھا کہ اسٹیٹ بینک کے غیر قانونی سرکلر کے تحت بہت بڑے پیمانے پر قرضے معاف کیے گئے ہیں، آپ اس پر نوٹس لیں۔ تو چیف جسٹس نے سماعت کے دوران یہ کہا تھا کہ ہم اس سرکلر کا جائزہ لیں گے۔ قرضوں کی معافی کا معاملہ سپریم کورٹ میں 2002ء سے زیر سماعت ہے اور سپریم کورٹ نے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمیشن بھی بنایا تھا، اس کمیشن نے 2013ء میں اپنی رپورٹ جمع کرادی تھی۔ اس سے پہلے چیف جسٹس نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ قرضے معاف کراکے پیسہ باہر بھیج دیا گیا۔ اس رپورٹ پر قطعی کارروائی نہیں ہورہی، کئی سو ارب کا یہ بھی نقصان ہوجائے گا۔ آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ جب تک امریکہ کو دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کی مدد کی ضرورت ہے وہ پاکستان کو مکمل طور پر تباہ ہونے نہیں دے گا، لیکن اس کو تیرنے بھی نہیں دے گا۔ ہمیں آکسیجن ٹینٹ میں رکھے گا، ہمیں داد بھی دے گا، قرضے بھی دلائے گا لیکن ہم سے مطالبات بھی منظور کرائے گا… سیاسی بھی اور معاشی بھی۔ ہم اپنے آپ کو کھوکھلا کرتے رہیں گے۔ یہ وہ چیز ہے جس سے نظریں چرانا بہت بڑا جرم ہے جو ناقابلِ معافی ہوگا۔
فرائیڈے اسپیشل:۔ واچ لسٹ کے مسئلے پر ہمارے ساتھ چین بھی کھڑا نہیں ہوا جس کے ساتھ ہمارا سی پیک منصوبہ چل رہا ہے۔ اس کو آپ کس طرح دیکھ رہے ہیں؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی:۔ میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ سی پیک چین نے اپنے مفاد میں دیا ہے اور وہ سرمایہ کاری کررہا ہے، اس سے یقینا ہمیں بھی فائدہ ہوگا کیوں کہ گوادر پورٹ ہماری ہے وہ ڈویلپ ہوگی، ہماری توانائی کی ضروریات پوری ہوں گی، حالاں کہ اس کے منافع کی شرح بہت زیادہ ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ امریکہ کے مقابلے میں چین پاکستان پر زیادہ مہربان ہے کیوں کہ ہمارے اور چین کے مفادات خطے میں یکساں ہیں، جبکہ امریکہ اور بھارت کے مفادات یکساں ہیں۔ لیکن یہ سمجھنا کہ چین آئوٹ آف دی وے جاکر ہماری مدد کرے گا، غلط ہوگا۔ چین نے وعدہ کیا تھا کہ وہ بھاشا ڈیم بنائے گا لیکن بھارت کے اعتراض پر اُس نے اپنی پیش کش واپس لے لی، اب وہ بھاشا ڈیم نہیں بنارہا۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہم کمزور ملک ہیں، بھارت دنیا کی بڑی طاقت بن رہا ہے، اس کو کوئی نظرانداز نہیں کرسکتا۔ ہم نے تو یہ اہم ترین مسئلہ دو آدمیوں پر چھوڑ دیا تھا۔ ہماری وزارت خارجہ کیا کررہی تھی جس وقت ہمارے وزیر خارجہ نے ٹوتٹ کیا جو نہیں کرنا چاہیے تھا۔ آپ اپنے ساتھ ہی مخلص نہیں ہیں، سیاسی جھگڑوں میں لگ گئے ہیں، حکومت اپنے دفاع میں ہے، ادارے ایک دوسرے سے ٹکرائو میں ہیں، اور سیاست دان ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کررہے ہیں۔ اگر آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ صرف ترکی ہے اور باقی پوری دنیا پاکستان کے خلاف ہے تو سوچنے کی بات ہے کہ ہم نے یہ موقع کیوں آنے دیا؟ ہم خود کتنے مجرم ہیں اس کے؟