چین اور بلوچ شدت پسندوں کے درمیان’’مذاکرات‘‘۔

دبرطانیہ کے مؤقر اخبار ’’فنانشل ٹائمز‘‘ نے حال ہی میں اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ چین اور بلوچ شدت پسندوں کے درمیان پانچ سال سے خفیہ مذاکرات جاری ہیں تاکہ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبوں کو محفوظ کیا جاسکے۔ پاکستانی حکام کی طرف سے ان رابطوں کی تردید ہوچکی ہے اور چین نے بھی ان باتوں کو رد کیا ہے۔ دیکھا جائے تو چینی حکومت نے اگر ایسی کوئی پیش رفت کی ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں، بلکہ چین اور بلوچ مسلح مزاحمتی تنظیموں کے درمیان رابطوں کے امکان کو رد بھی نہیں کیا جاسکتا۔ کچھ عرصہ قبل پاکستان میں متعین چینی سفیر یائو ژینگ نے کہا تھا کہ بلوچ شدت پسند اب ان کے لیے یعنی سی پیک کے لیے خطرہ نہیں رہے ۔ چینیوں کا یہ اظہارِ اطمینان بلوچ شدت پسندوں سے مذاکرات ظاہر کرتا ہے ۔
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ پاکستان کی فورسز بشمول خفیہ ادارے ان شدت پسندوں کی گردن مروڑ چکے ہیں۔ لیکن مزاحمتی سوچ اور اس کے وجود سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ یہ گروہ کہیں نہ کہیں کوئی کارروائی کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ بلوچستان میں اگر دوسرے بدخواہ ممالک کی شہہ اور مالی تعاون سے مزاحمت شروع ہوسکتی ہے، اور اس کے مقابلے میں اگر چین صوبے میں امن کے لیے کوئی مثبت پیش رفت کرتا ہے تو یہ اچھی بات ہے، کہ وہ پاکستان کے ساتھ مل کر اس بڑے منصوبے کی حفاظت کو یقینی بنائے۔ تاہم اس میں پاکستان کی مرضی اور اجازت لازم ہے۔ ماضی میں بلوچستان میں چینی انجینئرز اور دوسرے ہنرمند قتل ہوچکے ہیں۔ دوئم بھارت نہیں چاہتا کہ پاکستان اور چین اقتصادی اور معاشی میدان میں آگے بڑھیں اور ایک دوسرے کے معاون ہوں۔ بھارتی فوج کے سربراہ جنرل بپن راوت نے حال ہی میں کہا ہے کہ ’’پاکستان چین کے تعاون سے جنگ لڑرہا ہے‘‘۔ پاکستان اور چین کی یہ قربت امریکہ کو بھی کسی طور قبول نہیں۔ امریکہ اور بھارت افغانستان میں ناکام ہوچکے ہیں۔ بدلے میں وہ پاکستان کو کسی تباہی سے دوچار کرنے کی تخریبی نیت رکھتے ہیں، بلکہ ان دونوں ممالک کی کوشش ہوگی کہ بلوچ شدت پسندوں کو استعمال کریں تاکہ پاکستان عدم اعتماد کا شکار ہو اور ساتھ سی پیک کا منصوبہ شرمندۂ تعبیر نہ ہو۔ امارتِ اسلامیہ اور ایران کے درمیان مسلک، نظریات اور ترجیحات کا اختلاف پوری طرح سے موجود ہے، مگر اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ایران نے امارتِ اسلامیہ سے تعلقات استوار کررکھے ہیں۔ اسی طرح روس اور امارتِ اسلامیہ کے درمیان ہم آہنگی موجود ہے باوجود اس کے کہ سوویت یونین کے خلاف افغان طویل جنگ لڑچکے ہیں۔ 23 فروری2018ء کو افغانستان کے صوبے ہرات میں تاپی گیس منصوبے کا افتتاح ہوا۔ امارتِ اسلامیہ افغانستان (طالبان) نے اس کے تحفظ کا اعلان کیا۔ دراصل اس منصوبے پر پیش رفت طالبان دورِ حکومت میں ہوئی تھی۔ امریکہ نے اس کے خلاف فتنہ کاری کی تھی۔ پاکستان کے حکمران امریکی حکم کے آگے بچھ گئے تھے۔ یقینی طور پر اس منصوبے کے خلاف وہ گروہ متحرک ہوں گے جو افغانستان اور افغانوں کے مفادات کے خلاف سرگرم ہیں، اور یقینی طور پر ان گروہوں کو امریکی حمایت حاصل ہے۔ اس لیے خود پاکستان کو چاہیے کہ وہ بلوچ شدت پسندوں سے رابطے قائم کرے۔ اسی طرح آنے والے دنوں میں امریکی اور بھارتی سازشوں کا سدباب کیا جاسکے گا۔
امریکہ افغانستان میں پاکستان کو دھوکا دے چکا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی پوری توجہ پاکستان کے خلاف منفی پالیسیوں اور منصوبوں پر لگی ہوئی ہے۔ چنانچہ ان حالات میں بلوچستان کے مسئلے کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جب سے چین پاکستان اقتصادی راہداری کا معاہدہ عملی طور پر منصۂ شہود پر آیا ہے تب سے حکومتوں، سیاستدانوں اور سیکورٹی حکام کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ بلوچ شدت پسند تنظیمیں سی پیک کو ناکامی سے دوچار کرنے کے تخریبی منصوبوں پر کاربند ہیں۔ یہ تنظیمیں اگرچہ گوادر پورٹ اور سیندک میں چین کے ساتھ معاہدوں کو بلوچستان کے مفادات کے برعکس سمجھتی ہیں، لیکن بلوچستان میں وفاق پر عدم اعتماد اور الحاق کے معاہدے کے خلاف سیاسی و مزاحمتی تحریک کی تاریخ 1948ء سے شروع ہوتی ہے کہ جب خان آف قلات میر احمد یار خان کے بھائی شہزادہ عبدالکریم نے مسلح مزاحمت کی ٹھان لی اور لشکر تیار کرکے افغانستان ہجرت کرلی تھی۔ بلوچوں نے افغان حکمرانوں کے آگے بھی مزاحمت کی ہے اور انگریزوں کے استعماری منصوبوں کے آگے بھی سینہ سپر ہوکر آزادی اور خودمختاری کا علَم بلند کرچکے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد علیحدگی کی پے درپے تحریکیں اٹھیں جن میں علیحدگی کے ساتھ صوبائی خودمختاری کا نعرہ شامل رہا ہے۔ 1970ء کی دہائی کی تحریک کے آگے پیپلز پارٹی کھڑی ہوگئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ان سے کوئی رعایت نہ کی۔1977ء کے مارشل لا کے بعد جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو قید کرکے فنا کے گھاٹ اُتار دیا اور حیدرآباد سازش کیس میں مقید سندھی، بلوچ، پشتون اور دوسرے سیاسی لوگوں کو رہا کردیا۔ اس طرح علیحدگی کی تحریک پس منظر میں چلی گئی اور افغانستان میں مقیم بلوچ رہنما بھی پاکستان آگئے۔ اُس زمانے میں پشتونستان تحریک بھی اپنا رنگ دکھا رہی تھی۔ یعنی ان دونوں تحریکوں کی سرپرستی افغانستان کی جانب سے کی جاتی تھی۔ کہنے کا مقصد ہے کہ سی پیک تو ابھی چند مہینوں کی بات ہے، جبکہ بلوچستان میں مسئلہ وفاق کے ساتھ صوبائی خودمختاری کا رہا ہے جس میں کبھی شدت آکر علیحدگی کا نعرہ بھی بلند ہوجاتا تھا۔ میر احمد یار خان، شہزادہ عبدالکریم، نواب خیر بخش مری ہوں یا ان کے صاحبزادے… سب مختلف اوقات میں نظام اور اسمبلیوں کا حصہ رہے ہیں اور آئینِ پاکستان کے تحت حلف اٹھا چکے ہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ بنیادی مسئلہ آئین اور قانون پر عملدرآمد کا ہے۔ خلافِ آئین و قانون اقدامات اور فیصلے احساسِ محرومی کے جذبات اور سوچ پیدا کرتے ہیں، اور دشمن ایسے ہی موقعوں کی تاک میں رہتے ہیں۔ ہمارے سامنے صوبائی خودمختاری تاحال ایک حل طلب مسئلہ ہے۔ اس پر فوری اور کماحقہٗ عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ سیاسی اور جمہوری عمل کو جاری و پروان چڑھنے دینا دراصل ملک کی سلامتی، ترقی اور خوشحالی کا زینہ ہے۔ نظام مصنوعی حربوں سے چلانے سے مزید مسائل پیدا ہوں گے۔ پچھلے دنوں اخبارات میں ایک خبر رساں ادارے کے متواتر بیانات اور خبریں لگیں کہ صوبے میں نئی حکومت بننے کے بعد عوام کے مسائل حل ہونا شروع ہوگئے ہیں۔کیا واقعی معاملہ اتنا آسان تھا جو ماضی کی حکومتیں سمجھنے سے قاصر تھیں؟ سرکار کی جانب سے جاری کی ہوئی ایک خبر نظر سے گزری کہ میر عبدالقدوس بزنجو نے حلف اٹھانے کے بعد اپنا پہلا وعدہ پورا کردیا۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جناح روڈ کا چند سو میٹر حصہ بنانے کی غرض سے اکھاڑ دیا گیا تھا، پھر تاخیر پہ تاخیر ہوتی گئی۔ بزنجو نے اس کی بلیک کارپیٹنگ کا حکم دیا۔ اس طرح سڑک کی تعمیر کو کارنامے سے تعبیر کیاگیا اور کہا گیا کہ وعدہ پورا کردیا گیا۔ کیا اس طرح کے پست اعلانات اور سطحی باتوں سے بلوچستان اور یہاں کے عوام کے مسائل حل ہوجائیں گے؟ میں سمجھتا ہوں کہ بلوچستان کے مسائل کا حل اگر آسان نہیں تو مشکل بھی ہرگز نہیں۔ البتہ ان مسائل کو حقیقی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ الغرض کالعدم بی ایل ایف نے فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کی تردید کی ہے اور دوسری شدت پسند تنظیموں کا اس ضمن میں تردیدی یا وضاحتی بیان نظر سے نہیں گزرا۔