نئی طرہ، مگر کیا؟

کہتے ہیں بڑوں کی غلطیاں بھی بڑی ہوتی ہیں۔ بڑے اخبار کا دعویٰ رکھنے والے ایک کثیرالاشتہار اخبار میں پیر 26 فروری کو صفحہ اوّل پر بڑی دلچسپ سرخی ہے ’’رضا ربانی (چیئرمین سینیٹ) اور ایک نئی ’طرہ‘ ڈال رہے ہیں‘‘۔ ویسے تو ’اور ایک‘ کی جگہ ایک اور ہونا چاہیے تھا، لیکن یہ ’طرہ‘ کیا ہے؟ اور کون سی زبان کا لفظ ہے؟ احتیاطاً دستیاب لغات بھی دیکھ ڈالیں کہ شاید طرہ کوئی لفظ ہو۔ وہاں پر طُرہّ تو موجود ہے مگر اس کا مطلب کچھ اور ہے، اور اس کا کوئی تعلق نئی یا پرانی طرہ ڈالنے سے نہیں ہے۔ سرخی ہی نہیں متن میں بھی نئی طرہ ڈال دی گئی ہے۔
یہ لفظ اصل میں ’طرح‘ ہے، طرہ نہیں۔ رپورٹر یا مذکورہ اخبار کے مبصر کو حق ہے جیسی چاہے طرح ڈال دے، لیکن تصحیح کرنا نیوز ایڈیٹر کی ذمے داری ہوتی ہے۔ وہ ’طرح‘ جو ڈالی جاتی ہے عربی کا لفظ اور بڑا کثیرالمعنیٰ ہے، اور ’ڈالنا‘ کے ساتھ آتا ہے، جیسے مکان کی بنیاد ڈالنا، نئی عمارت، نقاشی (مجازاً) صورت، پیکر، تفریق نکالنا جیسے 8 میں سے 3 طرح نکلے تو 5 باقی رہے۔ لیکن اردو میں ان معنوں میں استعمال دیکھنے میں نہیں آتا، البتہ وضع، انداز، طرز کے معنوں میں عام ہے۔ مثلاً مومنؔ کا یہ شعر ؎
یہ تم نے نئی طرح نکالی
معشوق ہے آپ کی نرالی
(مومنؔ کے اس شعر میں شتر گربہ ہے، یعنی پہلے مصرع میں تم، دوسرے میں آپ۔)
زمانۂ طالب علمی میں پڑھا ہوا ایک شعر یاد آگیا ؎
وہ کچھ اس طرح سے آئے، مجھے اس طرح سے دیکھا
مری آرزو سے کم تر، مری تاب سے زیادہ
مشاعروں کے لیے مصرع طرح بھی مقرر کیا جاتا ہے، یعنی وہ مصرع جو غزل کہنے کے لیے ردیف، قافیہ، بحر بتانے کو دیا جاتا ہے۔
بنیاد رکھنے کے معنوں میں یہ شعر دیکھیے ؎
چمن میں آمد آمد ہے خزاں کی
عبث بلبل نے طرح آشیاں کی
طرح سے اسم صفت ہے طرحدار، وضعدار، خوبصورت، بانکا۔ رشکؔ کا شعر ہے
اے رشکؔ یارِ سادہ سے اب دل لگائیے
صدمہ طرح طرح کا طرحدار سے ملا
طرح سے تراکیب بھی ہیں مثلاً طرح اڑانا، کسی کا ڈھنگ سیکھ لینا، طرح ڈالنا (فارسی طرح افگندن سے)، طرح دے جانا یعنی ٹال جانا، چشم پوشی کرنا، درگزر کرنا۔ یہ بھی فارسی طرح دادن سے ہے۔ ایک شعر دیکھیے ؎
ہے یقیں داورِ محشر بھی طرح دے جائے
نہ سنے حشر میں فریاد طرحداروں کی
اس صحافی کا شکریہ جس نے نئی ’طرہ‘ ڈال کر ہمیں طرح طرح سے لکھنے کا موقع دیا۔
خبروں میں عموماً پڑھنے میں آتا ہے ’’گندے پانی کا جوہڑ‘‘۔ منگل کے ایک اخبار کے اداریے میں بھی ایسے ہی ہے۔ تو کیا صاف پانی کا جوہڑ بھی ہوتا ہے؟ صرف جوہڑ لکھ دینا کافی ہے۔ ’گندے پانی‘ کا اضافہ اسراف ہے، اور اسراف روپے پیسے کے علاوہ الفاظ میں بھی برا ہے۔ لغت کے مطابق جوہڑ بارانی تالاب کو کہتے ہیں۔ تالاب پر یاد آیا کہ بعض ظالم ’’پانی والا تالاب‘‘ بھی لکھ دیتے ہیں۔ تالاب میں تو پہلے ہی ’’آب‘‘ موجود ہے۔ عبارت میں زاید الفاظ شامل کرنے سے فصاحت و بلاغت مجروح ہوتی ہے۔
جناب شفق ہاشمی کے اس دعوے سے اتفاق ہے کہ وہ زیادہ علم والے ہیں۔ چناں چہ ہم نے اپنے پاس موجود تمام لغات میں سے وہ صفحے پھاڑ دیے جن میں جُولاں کا مطلب بیڑیاں دیا ہوا ہے۔ محترم شفق ہاشمی نے لکھا ہے کہ ’’اہلِ جسارت اب تک استحصال اور استیصال کے شکنجے سے نہیں نکل سکے ہیں۔ بے چارہ شفق ہاشمی کہاں تک ان فاضلانہ کج ادائیوں کی بیخ کنی کرتا رہے گا‘‘۔ لگتا ہے کہ لغت میں سے مزید کئی صفحے نکالنے ہوں گے۔ مثال کے طور پر کچھ لغات میں استحصال کا مطلب ہے: حاصل کرنا، حاصل کرنے کی خواہش۔ عربی کا لفظ ہے (بالکسر و کسر سوم و سکون چہارم)۔ زبردستی حاصل کرنے، ڈرا دھمکا کر کوئی چیز حاصل کرنے کے لیے ’’استحصال بالجبر‘‘ کہا جاتا ہے۔ چند برس پہلے تک منفی معنوں میں بالجبر ضرور لگایا جاتا تھا۔ اور استیصال کی بیخ کنی تو محترم شفق ہاشمی نے کر ہی دی ہے۔ یہ بھی عربی کا لفظ ہے اور مطلب ہے: بیخ کنی کرنا، جڑ سے اکھاڑنا۔ استاد تسلیم کا شعر ہے ؎
عشق کے ہاتھوں گئے دل سے مرے صبر و قرار
ہو گیا دو دن میں استیصال اس اقلیم کا
لیکن اب وضاحت سے فائدہ؟ لغت سے یہ صفحہ بھی نکال دیا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ صرف جلد رہ جائے۔ بلاشبہ شفق ہاشمی زیادہ علم والے ہیں۔
جَولاں اور جُولاں کی بحث ہم نے تو ختم کردی تھی لیکن دبئی سے گزرگاہ خیال پر سفر کرنے والے جناب عبدالمتین منیری کے توسط سے یمین الاسلام زبیری کا ای میل موصول ہوا ہے، وہ لکھتے ہیں:
’’میں جناب اطہر ہاشمی کا صفحہ بہت توجہ سے پڑھتا ہوں اور اس سے بہت سیکھتا ہوں۔ انھوں نے اپنے کالم کے آخری حصے میں ایک اور ’ہاشمی‘ جناب شفق ہاشمی کا مراسلہ شامل کیا ہے جس میں لفظ پابجولاں سے بحث کی گئی ہے۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں انہوں نے ثبوت کے ساتھ اس لفظ کے اردو (یا فارسی) ہونے پر اعتراض کیا ہے۔ میں نے اردو انسائیکلو پیڈیا اور شان الحق حقی کی فرہنگ تلفظ میں تلاش کیا تو دونوں جگہ اس کے معنی دیے گئے ہیں۔ حقی صاحب کے مطابق پابجُولاں کا مطلب پائوں میں بیڑی کے ساتھ ہے۔ اور جولاں عربی الجول سے ہے جس کے معنی ہیں رسّی۔ یعنی پابجولاں کا مطلب ہے پابستہ، رسن بستہ۔
urduencyclopedia.org
اردو انسائیکلوپیڈیا کے مطابق اس کے معنی بیڑیاں لگنا ہے۔ میں نے یہاں اس کا ایک صفحہ برقی نتھی کردیا ہے، خود دیکھ لیں۔ غالباً آخر میں ملے گا۔‘‘
اسی حوالے سے جناب عبدالمتین منیری نے بھی کچھ لکھ بھیجا ہے، لیکن جولاں کی بحث سے قطع نظر انہوں نے لکھا ہے کہ ’’آپ کے کالموں میں بڑی موٹی موٹی کتبِ لغت کے نام آتے ہیں، کبھی لغتِ کشوری کا تذکرہ بھی کردیا کریں۔ مولوی تصدق حسین نے یہ لغت منشی نولکشورکی (کے) ایما پر لکھی تھی۔ اس کے مستند ہونے میں آپ کو بھی کلام نہیں ہوگا۔ لیپ ٹاپ پر استعمال کے لیے اس کا نسخہ ہمارے پاس ہے۔ چاہیے تو ارسال کردوں‘‘۔ نیکی اور پوچھ پوچھ! منشی نول کشور (نَوِلْ) ہندو ہونے کے باوجود بڑے ’’مسلمان‘‘ آدمی تھے۔ ان کے چھاپا خانے میں قرآن کریم کی طباعت ہوتی تھی۔ ایسے میں وہ باہر بیٹھ جاتے تھے اور جو ملازم تھے وہ نہ صرف مسلمان ہوتے تھے بلکہ ان کو باوضو رہنے کی تاکید تھی۔ پتھر کی جن پلیٹوں سے قرآن کریم چھپتا تھا ان کو دوبارہ دھوکر استعمال کیا جاتا تھا، لیکن منشی نول کشور پلیٹوں کا دھوون بھی بڑی احتیاط سے ایک ایسی جگہ ڈلواتے تھے جہاں کسی کے پیر نہ پڑیں۔ اب تو بہت کم لوگ ان کا نام جانتے ہیں اور بیشتر ان کے نام ’نول‘ کا تلفظ بروزن گول کرتے ہیں، جب کہ یہ نَ۔ وِل ہے۔
ایک صاحب نے جسارت کی ایک سرخی میں ’بڑی غلطی‘ کی طرف توجہ دلائی ہے کہ طوطا کو ’توتا‘ لکھا گیا ہے۔ اس نشاندہی کا بہت شکریہ، لیکن لوگ کبھی کبھی لغت دیکھ لیا کریں۔ یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ ’ط‘ عربی کا حرفِ تہجی ہے اور یہ ہندی الفاظ میں استعمال نہیں ہوتا، جیسے ناتا کو لوگ ’ناطہ‘ لکھ دیتے ہیں۔ برسوں پہلے بابائے اردو مولوی عبدالحق بھی توتے کو ’ت‘ سے صحیح قرار دے چکے ہیں، اور بچوں کے قاعدوں میں بھی ت سے توتا ہے۔ توتا لکھنے میں نہ تو اُس کے رنگ ضائع ہوتے ہیں اور نہ ہی اُس کی توتا چشمی میں تبدیلی آتی ہے۔ لغت میں واضح طور پر درج ہے کہ ط سے طوطا غلط ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ ’وتیرہ‘ عربی کا لفظ ہے لیکن اس کو زبردستی وطیرہ کرلیا گیا ہے۔ ایک استاد (قدر) کا شعر ہے ؎
بے سمجھ آدمی نہیں ہوتا
یوں نبی جی رٹا کرے توتا
توتا کے حوالے سے اساتذہ کے اور بھی اشعار ہیں۔ توتا پالنا اردو کا محاورہ بھی ہے۔ ط سے طوطا لکھنے والے نئی طرح ڈال رہے ہیں۔ اللہ خوش رکھے۔