فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا اجلاس

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی صدارت میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں تینوں مسلح افواج کے سربراہان نے شرکت کی۔ یہ اجلاس پیرس میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے چھے روزہ اجلاس کے بعد منعقد ہوا ہے۔ اس عرصے میں وزیر خارجہ خواجہ آصف روس کے دارالحکومت ماسکو کے دورے پر تھے۔ پاکستان کے حوالے سے پیرس میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس میں امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے ایک قرارداد پیش کی جانی تھی جس میں پاکستان کو دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت کرنے والے ممالک کی مالیاتی نگرانی کرنے والی فہرست میں شامل کرنا تھا۔ 20 فروری کو ہونے والے اجلاس کے بعد وزیرخارجہ خواجہ آصف نے ماسکو سے بہ ذریعہ ٹوئٹ ذرائع ابلاغ کو مطلع کیا کہ ہماری کوششیں رنگ لائی ہیں اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والے ملکوں کی واچ لسٹ میں پاکستان کا نام شامل کرنے کی کوششیں ناکام ہوگئی ہیں۔ لیکن صرف دو دن بعد اسی اجلاس میں پاکستان کو ’’گرے لسٹ‘‘ میں شامل ہونے سے بچنے کے لیے صرف تین ماہ کی مہلت دے دی گئی۔ اس مقررہ مدت میں اسلام آباد کی حکومت نے تادیبی اقدامات نہیں کیے تو اس کے لیے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ اس سلسلے میں خاص بات یہ ہے کہ فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس میں دوسری بار یہ مسئلہ اٹھایا گیا اور ووٹنگ کے وقت پاکستان کو ترکی کے سوا کسی ملک کی حمایت نہیں ملی۔ پیرس میں ہونے والے اس اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کے لیے حکومت نے وزیراعظم کے خصوصی مشیر برائے خزانہ مفتاح اسماعیل کو بھیجا تھا جو اس بات کی علامت ہے کہ پاکستان کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے ہماری قیادت نے کسی سطح پر بھی کوئی تیاری نہیں کی تھی۔
اس اجلاس کے فوری بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خصوصی معاون لیزا کرٹس پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت سے مذاکرات کے لیے اسلام آباد پہنچ گئیں۔ لیزا کرٹس امریکی صدر کی ڈپٹی اسسٹنٹ اور امریکی نیشنل سیکورٹی کونسل میں جنوبی اور وسط ایشیا کے امورکی سینئر ڈائریکٹر ہیں۔ لیزا کرٹس کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ انہوں نے صدر ٹرمپ کی ٹیم میں شامل ہونے سے پہلے پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کے ساتھ مشترکہ مقالہ تحریر کیا تھا جس میں پاکستان کو قابو میں کرنے کے لیے نئی حکمت عملی اور اقدامات تجویز کیے تھے۔ امریکی صدر کی معاونِ خصوصی کی پاکستان آمد فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس میں پاکستان کو مالیاتی نگرانی کی فہرست میں کامیابی سے شامل کرا دینے کے بعد خصوصی اہمیت رکھتی ہے۔ امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں تنائو مسلسل بڑھ رہا ہے۔ تعلقات میں تنائو کی نئی لہر کا آغاز سالِ نو کے آغاز پر امریکی صدر کی ٹوئٹ سے ہوا تھا جس میں انہوں نے پاکستان کو غیرسفارتی زبان اختیار کرتے ہوئے ’’دھوکے باز‘‘ بھی قرار دیا تھا، یعنی انسدادِ دہشت گردی کی امریکی جنگ میں شراکت دار بن کر اور اربوں ڈالر وصول کرنے کے باوجود دھوکہ دیا۔ اسی سلسلے میں امریکی صدر افغانستان کے حوالے سے نئی پالیسی کا اعلان بھی کرچکے ہیں، جس کے بعد بھی پاکستان پر امریکی دبائو بڑھتا جارہا ہے۔ اسی حوالے سے پیرس میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس کے فوری بعد لیزا کرٹس پاکستان کے دورے پر آئی ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت سے خاص طور پر جس مسئلے پر بات کی ہے وہ حقانی نیٹ ورک کی جانب سے افغانستان میں کارروائیاں ہیں۔ امریکی حکومت تسلسل سے پاکستان پر یہ الزام لگا رہی ہے کہ حقانی نیٹ ورک سمیت کئی دہشت گرد تنظیمیں پاکستان سے کام کررہی ہیں۔ ایک وقت وہ بھی تھا کہ امریکی حکومت کے ذمے داروں کی جانب سے پاکستان پر یہ بھی الزام عائد کیا گیا تھا کہ افواجِ پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی دہشت گرد تنظیموں کی سرپرستی کرتی ہے۔ ایک طرف پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کی امریکی جنگ میں کلیدی اتحادی ہے، دوسری طرف پاکستان اور اس کی حکومت کو مسلسل امریکہ کی جانب سے دہشت گرد تنظیموں کا پشت پناہ اور مالیاتی معاونت کرنے والا قرار دیا جاتا رہا ہے۔ اس حوالے سے پیرس میں ہونے والے اجلاس میں حکومتِ پاکستان کو تین ماہ کی مہلت کے غیر معمولی مضمرات ہیں۔ وزارتِ خارجہ اور خزانہ کی جانب سے اس اجلاس کے بارے میں شائع ہونے والی خبروں کی زیادہ تفصیل بیان کرنے سے گریز کیا گیا ہے، لیکن حقائق یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان کے سر پر ایک تلوار لٹکادی گئی ہے۔ پاکستان کی سیاسی قیادت کی اہلیت کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اجلاس کے وقت وزیر خارجہ خواجہ آصف روس کے دارالحکومت ماسکو میںتھے۔ مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل بھی اجلاس میں کوئی پیش بینی نہیں کرسکے۔ دفتر خارجہ نے خاموشی کے بعد بالآخر اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ جون میں پاکستان کا نام ’’گرے لسٹ‘‘ میں شامل کردیا جائے گا اور اس سلسلے میں تمام معاملات وزارتِ خزانہ انجام دے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ’’انسداد دہشت گردی کی جنگ‘‘ کے نام پر پاکستان کی مالیاتی خودمختاری مزید سلب کرنے کے اقدامات کیے جائیں گے۔ اس تناظر میں پاکستان میں سیاسی انتشار کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ پاکستان کے سیاسی امور میں ایک زمانے میں کھل کر امریکہ نے مداخلت کی جس کا ایک ثبوت این آر او کا معاہدہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسی قیادت سامنے نہ آسکے جو پاکستان کے خلاف امریکی احکامات کی مزاحمت کرسکے۔ ہمارے سابق اور موجودہ حکمرانوں کی تاریخ یہ ہے کہ وہ پاکستان کی سلامتی کے تحفظ کی جنگ میں ناکام ہیں۔