کلام اقبال میں مطالعہ نباتات

’’آر۔ایم افضل رضوی جو ہیں تو لاہوری، مگر اب کینگروز کے دیس آسٹریلیا میں مقیم ہیں۔ وہیں سے وہ بلبلِ خوش نوا کی طرح کلام اقبال کے ایک منفرد گوشے نباتاتِ اقبالؔ کے لیے ترنم ریز ہیں۔ ان کی نوا سنجی ’’دربرگِ لالہ و گل‘‘ ہمارے کانوں میں رس گھولتی ہے، جو علامہ اقبال کے کلام میں مطالعہ نباتات پر ایک اہم منفرد کتاب ہے۔ افضل رضوی نے کلام اقبال میں جگہ پانے والے مختلف الانواع پھولوں، پھلوں، جڑی بوٹیوں، اشجار اور اجناس کا احاطہ کیا ہے۔ ان میں خاص طور پر ارغوان، انگور، افیون، انار، انجیر، ببول، باغ، لالہ، گل، بید، برگ، بوستان، چمن، چنار، دانہ، گندم، گھاس، گلِ رعنا کو خوبصورت تراکیب، استعاروں اور اندازِ بیان کی ندرت اور شاعرانہ مہارت سے استعمال کرکے ہمارے ادب کو دلآویز اسالیب سے مالا مال کیا ہے۔ ان کی انوکھی طرزِ ادا سے شعر کو نہ صرف چار چاند لگ جاتے ہیں بلکہ وہ دل میں اتر جاتا ہے اور نظرافروزی کا باعث ہوتا ہے۔ وہ قارئین کو جتاتے ہیں کہ ؎
محروم نہیں فطرت کے سرود ازلی سے
بینائے کواکب ہو کہ دانائے نباتات
تقدیر کے پابند نباتات و جمادات
مومن فقط احکام الٰہی کا ہے پابند
برادرِ محترم محمود عزیز مزید رقم طراز ہیں: ’’علامہ نے لالہ کو اسلام اور مسلمان کی علامت قرار دے کر مسلمانوں کے ہاتھوں ہسپانیہ کی فتح کو نظم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہسپانیہ کا لالہ عرب فاتحین کا ایک زمانے سے منتظر تھا کہ وہ اسے اپنے خون سے سینچ کر سرخ قبا میں ملبوس کریں۔ یعنی اس سے ہسپانیہ کی سرزمین پر کلمہ طیبہ کا نور بکھیردیں۔‘‘
محمد ممتاز راشدؔ، مدیراعلیٰ’’خیال و فن‘‘ دوحہ قطر’’افضل اور اقبالیات‘‘ کے عنوان سے تحریر کرتے ہیں:’’اردو میں شخصیات کے حوالے سے جتنی کتب شائع ہوئی ہیں، ان میں حکیم الامت اور شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ کی ہستی وہ منفرد ہستی ہے، جن کے فن و شخصیت پر سب سے زیادہ کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ اب ان کے ایک پرستار افضل رضوی نے نباتاتِ اقبالؔ کو موضوع بنایا ہے اور اس تفصیل کے ساتھ اس موضوع پر لکھا ہے کہ موضوع کو اجاگر کرکے رکھ دیا ہے۔ انہوں نے اس موضوع سے متعلق بیسیوں گہر پارے پیش کردیے ہیں۔ ان میں ساٹھ سے زیادہ پرندوں اور چرندوں کا اجمالی ذکر ہے، جبکہ ایک سو سے زائد اشجار و اخضار اور فواکہات کو الگ الگ پیش کیا ہے اور ان سے متعلق پس منظر کو اجاگر کیا ہے۔ گویا نباتات کی ایک کہکشاں ہے جو انہوں نے قارئینِ اقبالؒ کے لیے فضائے اوراق میں بہت مہارت اور عمدگی کے ساتھ بکھیر دی ہے۔‘‘
بقائی میڈیکل یونیورسٹی کراچی کے ڈائریکٹر تعلقاتِ عامہ و مطبوعات سید محمد ناصر علی نے خوب کہا ہے: ’’علامہ اقبالؒ کے کلام کے ہر پہلو پر تحقیقی مقالے لکھے جارہے ہیں۔ یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہے گا، لیکن کلامِ اقبالؒ میں معروف موضوعات سے ہٹ کر آر۔ایم افضل رضوی نے ایک منفرد اور اچھوتا سائنسی موضوع تلاش کیا ہے۔ یہ کام سائنس کا ایک طالب علم و محقق اور عاشقِ کلام اور پرستارِ اقبالؒ ہی کرسکتا ہے‘‘۔بقول پروفیسر ڈاکٹر جمیل احمد ’’اس لحاظ سے یہ یقینا حیرت انگیز تحریر ہے۔ یہ تحریر بیک وقت عام قاری، شاعر و ادیب، طالب علم اور نباتاتی علوم کے ماہر سائنسدان کے لیے یکساں کشش رکھتی ہے۔ ہر پڑھنے والا اس میں اپنی پسند کا رنگ ڈھونڈسکتا ہے۔‘‘
افضل رضوی کی علامہ اقبال سے روحانی وابستگی زمانہ طالب علمی سے ہے جب وہ نویں جماعت کے طالب علم تھے اور مینارِ پاکستان پر دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنے جاتے تو واپسی پر علامہ کے مزار پر شکوہ، جوابِ شکوہ پڑھتے۔ بہ قلم خود لکھتے ہیں:’’آج جس مقام پر کھڑا ہوں اسے مالک و خالقِ کائنات اور اُس کے حبیبِ لبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی خاص عنایت سمجھتا ہوں، او ردینِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم کو سمجھنے میں جتنی رہنمائی مجھے حکیم الامت کے کلام سے ملی، اتنی شاہد کہیں اور سے میسر نہ آئی۔
ایک نکتہ بیان میں جس کے صدیوں کا سفر ہے
اقبال ؒ نے وہ راز اک مصرعے میں سکھایا ہے مجھے‘‘
چانسلر بقائی میڈیکل یونیورسٹی پروفیسر فرید الدین بقائی کہتے ہیں: ’’ہم سب علامہ اقبال کو شاعر ہی نہیں بلکہ بہت بلند پایہ شاعر تصور کرتے ہیں، مگر افضل رضوی نے جس طرح نباتات جیسے سائنسی موضوع کے حوالے سے اقبال کو تلاش کیا ہے، اس پر غالب کا یہ مصرع صادق آتا ہے ؎
آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں‘‘
بڑے سائز پر 450 صفحات پر مشتمل اس منفرد موضوعاتی کتاب کی تقریبِ اجراء کے ایم سی اسپورٹس کمپلیکس کے خوبصورت ہال میں محبانِ بھوپال فورم، بقائی میڈیکل یونیورسٹی کے زیراہتمام یونیورسٹی آف کراچی گریجویٹس فورم کینیڈا کراچی چیپٹر کے تعاون سے ہوئی۔ برادرم محترم اویس ادیب انصاری اور محترمہ شگفتہ فرحت نے اس کا اہتمام کیا۔ تقریب کی صدارت جسٹس (ر) حاذق الخیری نے فرمائی۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’دربرگِ لالہ و گل‘‘ ایک بیش بہا تحقیقی کتاب ہے جو ہمیں ایک نئی سمت میں دعوتِ فکر دیتی ہے۔ کتاب پر ہمارے فاضل اساتذہ اور مقررین جو اظہارِ خیال کرچکے ہیں اس سے علامہ کی اعلیٰ فکر کا ایک نیا گوشہ سامنے آیا ہے۔ علامہ اقبال کا تمام کلام ہی توجہ اور غور و فکر چاہتا ہے اور افضل رضوی صاحب نے آسٹریلیا میں رہ کر جو وقیع کام کیا ہے وہ ان کا لاثانی کارنامہ ہے۔ کتاب ہمارے سامنے اقبال کی فکرِ رسا اور منازلِ فکر و فن طے کرتی چلی جاتی ہے۔ میرے عزیز دوست پروفیسر فرید الدین بقائی مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے اس کتاب کو نہایت خوبصورت انداز میں شائع کرکے اقبال اور اردو کا نام بلند کیا ہے۔‘‘
پروفیسر یونس حسنی نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا: ’’دربرگِ لالہ و گل‘‘ کو افضل رضوی صاحب نے تحقیق کے تقاضوں اور تنقیدی شعور کے ساتھ خوبصورتی سے انجام دیا ہے۔ یہ سائنس کے آدمی ہیں، نباتات اور ان کے خواص سے واقف ہیں، اسی واقفیت نے کلامِ اقبال میں نباتات کی معنویت تلاش کرنے میں ان کی مدد کی‘‘۔ پروفیسر معین الدین عقیل نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’’کتاب کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ افضل رضوی نے کلام اقبال کے ایک ایک لفظ کا مطالعہ کیا ہے۔ یہ پیشہ ورانہ طور پر سائنس کے شعبے اور درس و تدریس سے وابستہ ہیں، لیکن علم و ادب سے بھی بہت قریب ہیں۔ اقبال کی فکر کو سائنسی طور پر انہوں نے نہایت دلچسپی سے سمجھا اور اسے منفرد انداز میں پیش کیا۔‘‘ رضوان صدیقی صاحب نے بھی اپنے مخصوص انداز میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے تفصیلی جائزہ پیش کیا۔ ہمارے دوست ڈاکٹر شاہد ضمیر نے بھی اپنا مضمون پیش کیا۔ ڈاکٹر جمیل احمد نے بتایا کہ افضل رضوی صاحب کی آئندہ کتاب کی طباعت بھی ہمارے لیے باعثِ اعزاز ہوگی۔
مہمانِ خصوصی معروف بزرگ شاعر انجینئر ڈاکٹر اکرام الحق شوقؔ نے بھی خطاب کیا۔ تقریب کے شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے محترمہ شگفتہ فرحت نے کہا کہ ہمارا فورم علم و ادب اور کتب اور صاحبانِ کتب کی عزت افزائی کرتا رہا ہے اور آئندہ بھی ایسی باوقار تقاریب کا انعقاد کرتا رہے گا۔ کراچی یونیورسٹی گریجویٹس فورم کینیڈا کراچی چیپٹر کی ڈائریکٹر سلمیٰ خانم نے مستقبل میں بھی ایسی تقاریب میں تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ تقریب کی خوبصورت نظامت پروفیسر انیس زیدی نے، جبکہ اختتامی حصے کی نظامت اویس ادیب انصاری نے کی، جنہوں نے فرداً فرداً تمام احباب کا شکریہ ادا کیا، راقم کے لیے بھی چند توصیفی جملے آپ کی محبت کا مظہر ہیں۔ تقریب میں اشتیاق طالب، اقبال احمد خان، جلیس سلاسل، عثمان دموہی، محمود عزیز، رونق حیات، دُہین عالم، فرحت محسن، پروفیسر شاہین حبیب صدیقی، شاہانہ جاوید، وقار زیدی، شائستہ فرحت، وقار شیرانی، عارف انصاری، فرحت اللہ قریشی بھی شریک ہوئے۔
علم کے حیرت کدے میں ہے کہاں اس کی نمود
گل کی پتی میں نظر آتا ہے رازِ ہست و بود