نظام تعلیم کے بنیادی نقائص

قوموں کی زندگی میں تعلیمی نظام کی اہمیت یہ ہے کہ جس قوم کا جیسا نظام تعلیم ہوتا ہے وہ قوم ویسی ہی بن جاتی ہے۔ امام غزالیؒ نے جب اپنے دور کی سب سے بڑی جامعہ کے سربراہ کا منصب سنبھالا تو انہوں نے کہا کہ مدرسے کے طالب علموں کی اہلیت و صلاحیت کا معیار ان کی تعلیمی کارکردگی نہیں بلکہ نوافل میں ان کا اشغال ہوگا۔ اس طرح غزالیؒ نے تعلق باللہ کو تعلیمی نظام کا مرکزی حوالہ بنادیا۔ یہ فیصلہ کرتے ہوئے غزالیؒ کے ذہن میں یہ بات ہوگی کہ نماز افضل العبادات ہے اور نوافل نماز میں تعلق باللہ کو مضبوط اور مستحکم کرنے والی سب سے اہم چیز ہیں۔
یورپی طاقتوں نے مسلم دنیا پر غلبہ پاتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ مسلمانوں کے تعلیمی نظام کو بدل ڈالا۔ اس کی ایک صورت یہ نکالی گئی کہ مسلمانوں میں دین اور دنیا کی تفریق کا تصور پیدا ہوجائے۔ چنانچہ نوآبادیاتی دور کے آغاز کے ساتھ ہی مسلمانوں کی دینی اور دنیاوی تعلیم میں کوئی ربط باقی نہ رہا۔ مسلمانوں کی مذہبی تعلیم کچھ اور ہوگئی اور دنیاوی تعلیم کچھ اور۔ دینی تعلیم میں دنیا کا کوئی دخل نہ رہا، اور دنیاوی تعلیم سے دین کا تعلق ٹوٹ کر رہ گیا۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ دو متوازی نظام ہائے تعلیم پیدا ہوگئے بلکہ ان نظام ہائے تعلیم نے معاشرے میں دو ایسے طبقات پیدا کردیئے جن کا تصورِ کائنات، تصورِ انسان، تصورِ دنیا اور تصورِ اقدار ایک دوسرے سے مختلف بلکہ بعض صورتوں میں باہم متصادم تھے۔ اس صورت حال کی ہولناکی کا اندازہ اس بات گیا۔ اور دنیا دین کے لیے ہے اور اسے دین سے بے نیاز کردیا گیا۔ اس صورت حال کا نتیجہ یہ ہے کہ تعلیمی بندوبست کی دونوں صورتوں میں مسلمانوں کا تعلق باللہ بری طرح متاثر اور مجروح ہوکر رہ گیا۔سے کیا جاسکتا ہے کہ اسلام دنیا کے لیے ہے اوروہ دنیا کو بدلنے کے لیے آیا ہے، لیکن اسے دنیا سے لاتعلق کردیا پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں ایک کام یہ ہوا کہ جنرل ضیاء الحق نے اسلامیات کو جدید تعلیمی نظام میں ایک مضمون کے طور پر شامل کردیا۔ اگرچہ یہ ایک معمولی قدم تھا لیکن اسلام کو جدید تعلیمی نظام سے اس حد تک دور رکھا گیا تھا کہ جنرل ضیاء الحق کا یہ چھوٹا سا فیصلہ بھی لوگوں کو تعلیمی نظام کی “Islamization” نظر آیا اور ایسا لگا کہ اس ایک فیصلے سے پاکستان کا تعلیمی نظام الف سے یے تک ’’اسلامی‘‘ ہوگیا ہے۔ لیکن جیسا کہ بعد کے حالات نے ثابت کیا، جنرل ضیاء الحق کے اس اقدام نے معاشرے میں اس جھوٹی خوداطمینانی کو جنم دیا کہ ہمارا نصاب اسلامی ہوگیا ہے اور اس کے ذریعے ایسی نسل پیدا ہوگی جس کا قلب و ذہن اسلامی ہوگا۔ لیکن یہ ایک خام خیالی تھی۔ بلاشبہ ماضی کے مقابلے میں یہ ایک پیش رفت تھی، لیکن اسلامیات کا مضمون نصاب کا محض ایک حصہ تھا اور اس سے ہماری نئی نسلیں یہ نتیجہ اخذ کرنے میں حق بجانب تھیں کہ ہماری دنیا میں مذہب کا حصہ اتنا ہی ہے جتنا کہ ہمارے نصاب میں اسلامیات کے مضمون کا حصہ ہے۔ اس صورت حال کا ایک اور مفہوم یہ تھا کہ ہماری دنیا سیکولر اور لبرل مضامین ہی کی دنیا ہے، البتہ اس میں اسلام کے لیے بھی پانچ سات فی صد جگہ ہے۔ مطلب یہ کہ ہماری دنیا میں سیکولر اور لبرل فکر غالب اور اسلامی فکر مغلوب ہے۔ سیکولر اور لبرل فکر حاکم اور اسلامی فکر محکوم ہے۔ سیکولر اور لبرل فکر رہنما ہے اور اسلامی فکر اس کی مقلد ہے۔
ہم کہیں نہ کہیں لیکن ہمارے دل میں کہیں یہ چور موجود ہے کہ قرآن تو قیامت تک کے لیے ہے لیکن سیرت ِطیبہؐ شاید چودہ سو سال پہلے کے لیے تھی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا قول ہے اور سیرت ِطیبہؐ اس سے پیدا ہونے والا کامل ترین عمل۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ہمارے دل میں بیٹھے ہوئے چور کا مفہوم یہ ہے کہ اسلام اصول کی حیثیت سے تو دائمی ہے لیکن معاذ اللہ اس پر شاید اب اُس طرح عمل نہیں ہوسکتا جس طرح چودہ سو سال پہلے ہوسکتا تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہماری جدید تعلیم کیا مذہبی تعلیم تک میں قرآن مجید کی تعلیم کا تو اہتمام ہے مگر سیرت ِطیبہؐ کی تعلیم کا کوئی خاص بندوبست نہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہماری مذہبی تعلیم تجرید یا Abstraction میں کام کررہی ہے۔ غورکیا جائے تو سیرت ِطیبہؐ ایک سطح پر قرآن کے معلوم کو ’’محسوس‘‘ بناتی ہے اور دوسری سطح پر قرآن کے معلوم کو ’’محبوب‘‘ بناتی ہے۔ اور قرآن کے اصولوں کو محسوس اور محبوب بنائے بغیر ہم خدا، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ سے اپنے تعلق کے تقاضے پورے نہیں کرسکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام اگر عمل پیدا نہ کرسکے تو اس سے ہمارا تعلق ناقص ہیٖ۔ ہمارے عمل میں اگر احساس نہ ہو تو اس میں گہرائی نہیں ہوسکتی، اور اگر ہمارے عمل میں محبت نہ ہو تو اس میں جلال و جمال پیدا نہیں ہوسکتے، اور یہ تمام چیزیں صرف سیرت ِطیبہؐ سے فراہم ہوسکتی ہیں۔ مگر ہمارے جدید تعلیمی اداروں میں کیا مدارس میں بھی سیرت ِطیبہؐ پر اصرار نہیں ہے۔
صحابہ کرامؓ، صوفیہ اور علما کی سیرتوں کی تعلیم کو بھی ہمارے نصاب کا حصہ ہونا چاہیے۔ صحابہ کرامؓ کی سیرتیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا نتیجہ اور اس کا عکس ہیں، اور ان کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ سراجِ منیر کی روشنی ستاروں کی روشنی میں ڈھل کر کیسی لگتی ہے۔ اکابر صوفیہ اور اکابر علما کی سیرتوں کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ سیرت ِطیبہؐ کا فیضان صرف صحابہ کرامؓ تک محدود نہیں، بلکہ جس طرح قرآن مجید ہر زمانے کے لیے ہے اسی طرح سیرت ِطیبہؐ بھی ہر دور کے لیے ہے۔ اقبال نے اس اصول کو اپنی شاعری میں مختلف انداز سے بیان کیا ہے، مثلاً انہوں نے ایک جگہ کہا ہے ؎
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
ایک اور جگہ انہوں نے کہا ہے ؎
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
لیکن یہ باتیں فی زمانہ اکابر صوفیہ اور علما کی سیرتوں اور ان کے عمل اور کرامتوں کی تعلیم کے بغیر نئی نسلوں کو نہیں سمجھائی جاسکتیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے علما اور صوفیہ نے سیرت ِطیبہؐ سے تقویٰ اور علم کی وہ میراث پائی ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ بعض صوفیہ کے بارے میں آیا ہے کہ انہوں نے ساری زندگی خربوزہ نہیں کھایا، کیونکہ وہ یہ نہیں جان سکے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خربوزہ کس طرح کھایا تھا۔ امام بخاریؒ کا یہ واقعہ مشہورِ زمانہ ہے کہ انہیں معلوم ہوا کہ فلاں علاقے میں ایک شخص کے پاس ایک حدیث ہے۔ امام صاحب اسے تلاش کرتے ہوئے ایک جنگل میں جانکلے۔ انہوں نے دیکھا کہ وہ شخص اپنے گھوڑے کو اپنے پاس بلانے کے لیے یہ تاثر دے رہا ہے کہ اس کے دامن میں گھاس ہے حالانکہ اس کے دامن میں گھاس نہیں تھی۔ امام صاحب نے کہا کہ جو شخص گھوڑے سے جھوٹ بول سکتا ہے وہ اس لائق نہیں کہ اس سے حدیث لی جائے۔ چنانچہ وہ اس شخص سے ملے بغیر واپس آگئے۔ امام ابوحنیفہؓ کو اللہ تعالیٰ نے ایسی نظر بخشی تھی کہ جس پر حیران ہوئے بغیر نہیں رہا جاسکتا۔ امام صاحب ایک دن درس دے رہے تھے کہ گلی میں کھیلتے ہوئے بچوں کی گیند مدرسے میں آکر گری۔ بچے سہم گئے اور کسی میں گیند لانے کی جرأت نہ ہوئی، مگر ایک لڑکا آگے بڑھا اور بے باکی کے ساتھ مدرسے میں داخل ہوگیا اور امام صاحب کے سامنے سے گیند اٹھا لایا۔ امام صاحب نے لڑکے کی بے باکی کو دیکھا اور فرمایا کہ اس کے نسب میں کھوٹ ہے۔ تحقیق کی گئی تو امام صاحب کی بات سچ نکلی۔ تاتاری فوجیں وسطی ایشیا کے ایک شہر کو فتح کرنے پہنچیں تو فرید الدین عطار شہر میں موجود تھے۔ انہوں نے اپنی خانقاہ میں رکھے ہوئے پیالے کو الٹا رکھ دیا، اچانک پورا شہر تاتاری لشکر کی آنکھوں سے اوجھل ہوگیا۔ تاتاری لشکر کا سپہ سالار اس صورت حال سے گھبرا گیا اور واپس لوٹ گیا۔ لیکن وہ اگلے روز پھر آیا، اس روز بھی وہی ہوا۔ سپہ سالار پھر لوٹ گیا، لیکن تیسرے دن وہ پھر آیا۔ اس دن عطار کو حکم ہوچکا تھا کہ پیالے کو الٹا نہیں کرنا۔ چنانچہ تاتاری لشکر نے شہر کو فتح کرلیا۔ مجدد الف ثانیؒ کو جہانگیر نے گرفتار کرکے قید میں ڈال دیا۔ مجدد الف ثانیؒ سے ایک سپاہی نے کہا: آپ اتنے بڑے آدمی ہیں اور معمولی آدمی کی طرح جیل میں بند ہیں۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ نے کہاکہ تم کیا سمجھتے ہو ہم تمہارے بادشاہ کے حکم سے یہاں قید ہیں؟ ایسا نہیں ہے۔ انہوں نے اتنا ہی کہا تھا کہ جیل کا تالا ٹوٹ گیا۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ قید سے نکلے اور اچھل کر کئی گز اونچی دیوار پر جابیٹھے۔ کہنے لگے: ہم یہاں اللہ کے حکم سے قید ہیں۔ سپاہیوں نے یہ سارا واقعہ جہانگیر کو سنایا۔ جہانگیر ڈر گیا اور اس نے حضرت مجدد الف ثانیؒ کو رہا کردیا۔ ہمارے صوفیہ اور علما سے ایسے لاکھوں واقعات منسوب ہیں، اور ان سے ثابت ہوتا ہے کہ جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے کیسے کیسے کمالات سے نوازتا ہے۔ یہاں کہنے کی بات یہ ہے کہ اگر ہم اپنے صوفیہ اور علما کی سیرتوں کو اپنے نصاب کا حصہ بنائیں تو وہ ہمارے نوجوانوں کی شخصیت اور کردار کی تکمیل میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے اکابر صوفیہ اور علما کی سیرتوں میں بھی ہمارے دین کا مفہوم ’’محسوس‘‘ بن جاتا ہے۔
ہمارے نظام تعلیم کا ایک بہت بڑا نقص اس کا زبان کی گہرائی اور گیرائی سے عاری ہونا ہے۔ ہماری تہذیب میں زبان کے دو سرچشمے ہیں۔ ایک مذہب، دوسرا ادب بالخصوص شاعری۔ ادب سے زبان کو گہرائی فراہم ہوتی ہے، اور ادب بالخصوص شاعری سے زبان کو وسعت اور تنوع میسر آتا ہے۔ یہ کوئی اتفاقی امر نہیں ہے کہ امت ِمسلمہ نے فارسی اور اردو میں شاعری کی بہت بڑی روایت پیدا کی ہے۔ دراصل ہماری تہذیب میں ادب کا کام یہ ہے کہ وہ مذہب کے معلوم کو محسوس، مذہب کے مجرد کو ٹھوس، اور مذہب کے سادہ کو حسین و جمیل بنائے۔ اس طرح ادب بالخصوص شاعری مذہب کو انسان کے خون اور گوشت پوست کا حصہ بنا دیتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ کام زبان کے ذریعے انجام پاتا ہے۔ چنانچہ کسی معاشرے میں زبان کی کمزوری دراصل مذہبی اور ادبی شعور کی کمزوری بن جاتی ہے، اور جس انسان کا مذہبی اور ادبی شعور جتنا کم ہوتا ہے اس کا مرتبۂ انسانیت بھی اسی قدر کم ہوجاتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرامؓ یا اکابر صوفیہ اور علما کی سیرتیں مطالعے میں ہوں تو ادبی شعور کی اہمیت کم ہوتی ہے، لیکن اگر معاشرہ سیرت کے سرمائے سے کٹا ہوا ہو تو ادبی شعور زندگی کے ہم معنی ہوجاتا ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام کا المیہ یہ ہے کہ وہ سیرت کے سرمائے سے بھی کٹا ہوا ہے اور ادبی شعور سے بھی عاری ہے، چنانچہ ہماری نئی نسلوں کی زبان و بیان، تفہیم اور تخلیق کی سطح پست سے پست ہوتی جارہی ہے۔ اور اس کی ایک وجہ زبان کے سانچے کی کمزوری ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ زبان کے آنے کا کیا معیار ہے؟ فی زمانہ جو شخص دستخط کرسکتا ہے اسے ’’خواندہ‘‘ کہا جاتا ہے، اور جو شخص اخبار پڑھ سکتا ہے اسے ’’علامہ‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن زبان کا حقیقی معیار یہ ہے کہ طالب علم اپنی بڑی شاعری کا متن پڑھ سکے اور اسے کسی نہ کسی حد تک سمجھ بھی سکے۔ لیکن ہمارے یہاں جو کچھ ہورہا ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ ہمارے ایم اے کی سطح کے جن طالب علموں کی مادری زبان اردو ہے وہ میر، غالب اور اقبال کو سمجھنا تو دور کی بات، ان کا متن بھی ٹھیک طرح نہیں پڑھ سکتے۔ جن طلبہ کی مادری زبان سندھی ہے ان کے لیے شاہ لطیف کی زبان اجنبی ہے۔ جن طلبہ کی مادری زبان پنجابی ہے ان سے بلھے شاہ اور وارث شاہ کا Text نہیں پڑھا جاتا۔ ہماری تہذیب میں شاعری کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ ہمارے یہاں علم، ذہانت، تفہیم اور بیان کی بلند ترین سطح یا تو مذہب میں ملتی ہے یا پھر شاعری میں۔ چنانچہ شاعری سے دور ہونے کا مطلب اپنی تہذیب میں علم، ذہانت، تفہیم اور بیان کی بلند ترین سطح سے محروم ہونا ہے۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ زبان کا تعلق صرف شعر و ادب سے ہے۔ فنون کے دیگر شعبوں بالخصوص علوم یعنی Sciences سے اسے کچھ لینا دینا نہیں۔ لیکن یہ ایک غلط خیال ہے۔ زبان ہندسوں اور ریاضیاتی مساواتوں یا Mathematical formulas تک سے متعلق ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تمام چیزیں تصور یا Concept سے متعلق ہیں، اور تصور زبان کے بغیر وجود میں نہیں آتا۔ چنانچہ ہمیں مذہب اور شاعری ہی میں نہیں نفسیات، عمرانیات، طبیعات اور ریاضی میں بھی بلند ترین سطحوں کو چھونا ہے تو اپنے تعلیمی نظام کو زبان کی بنیاد پر استوار کرنا ہوگا۔