محمد عظیم صدیقی
وہ مضمون جو بچوں کی پوشیدہ تخلیقی صلاحیتوں کو جگاتا، سائنسی اور منطقی اندازِ فکر پیدا کرتا، اور پھر ان صلاحیتوں اور اندازِ فکر کی نشوونما بھی کرتا ہے، ریاضی ہے، جسے سائنسی علوم کی ملکہ کہا جاتا ہے۔ اس مضمون کی خوبی یہ ہے کہ اگر اس کو گہرائی میں اچھی طرح سے سیکھا جائے تو دلائل کے ذریعے کسی بھی مسئلے کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔
ریاضی انسانی زندگی کے ہر پہلو پر نہ صرف عیاں ہے، بلکہ اس میں معاشرے کے مسائل کا حل معلوم کرنے کی بھی صلاحیت ہے، اسی لیے کہتے ہیں کہ ریاضی تخلیقی میدان کی حیثیت رکھتا ہے۔
ریاضی کی اہمیت و افادیت پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے، لیکن سرِدست مضمون کا مقصد ریاضی کی اہمیت و افادیت بتانا نہیں، بلکہ ریاضی کی ابتدائی جماعتوں میں تدریس ہے۔ بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ریاضی جیسے اہم مضمون کی بنیادیں اساتذہ رٹّے پر قائم کرتے ہیں۔ کے جی ون، کے جی ٹو اور پہلی جماعتوں کا جائزہ لیں تو بچے گنتی اور پہاڑے رٹتے ہوئے نظر آئیں گے۔ بچے پر ابھی جمع تفریق کا تصور تو بہت بعد کی بات ہے اعداد کا تصور بھی اچھی طرح سے واضح نہیں ہوتا، مگر پہاڑے ضرور یاد کرائے جاتے ہیں۔
بڑی جماعتوں کا جائزہ لیں، مثلاً دسویں جماعت، تو وہاں پر بھی رٹا سسٹم رائج ہے۔ اساتذہ اہم مسئلوں (Theorems) کی نشاندہی کرتے نظر آتے ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ نصیحت بھی کہ ’’بیٹا امتحان میں صرف بیس پچیس دن باقی ہیں، آپ صرف یہ 8 مسئلے یاد کرلیں تو آپ لوگوںکا مسئلہ حل ہوجائے گا، اور اگر وقت ملے تو باقی کو بھی دیکھ لینا، ہاں البتہ فلاں فلاں مسئلوں کو ہرگز ہرگز یاد نہ کرنا کیونکہ یہ پچھلے سال آچکے ہیں‘‘۔
یہ وہ سنگین مذاق ہے جو ہمارے اسکولوں کے کمرہ ہائے جماعتوں میں طلبہ کے ساتھ کیا جارہا ہے، جن کے لیے ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ ملک کے معمار ہیں، کل ملک کے مستقبل کی باگ ڈور ان کے ہاتھوں میں ہوگی۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ کچھ اساتذہ ایسے بھی ہیں جو تدریسی طریقہ کار کا واقعی صحیح حق ادا کرتے ہیں، لیکن اپنے ذاتی مشاہدے کی روشنی میں کہتا ہوں کہ ایسے اساتذہ کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
اب ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں کہ ننھے منے بچوں میں ریاضی کی بنیادیں کس طرح مستحکم ہوتی ہیں، یا ہوسکتی ہیں۔
سب سے پہلے مرحلے میں اس بات کا یقین کرلیں کہ بچوں میں ریاضی سیکھنے کی قدرتی صلاحیت موجود ہوتی ہے، لیکن رٹا سسٹم اُن کی اصل صلاحیتوں کو کچل دیتا ہے، جس کا اثر نہ صرف ریاضی بلکہ دیگر مضامین پر بھی پڑتا ہے۔
اساتذہ اور والدین بچوں کے لیے خوبصورت اور دلکش کتابوں کا انتخاب کرتے ہیں جو یقینا اچھی بات ہے، لیکن کسی بھی نصابی کتب میں فقط دو ہی چیزیں ہوتی ہیں
1) تصاویر(Picture)
2) علامت(Symbol)
علامت سے مراد صرف 1,2,3…… یا +، -، ÷ ,اور x ہی نہیں ہے، بلکہ الفاظ بھی علامت میں ہی شمار کیے جا تے ہیں، مثلاً 2، دو، یا Two یہ تینوں دراصل علامت ہی ہیں۔ اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو اس بات کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ ’’زبان کی مدد سے کہے جانے والے الفاظ کی تحریری شکل دراصل علامات ہی ہوتی ہیں‘‘، بعض علامات کچھ ایسی اشیاء سے وابستہ ہوتی ہیں کہ جن کو ہم دیکھ سکتے ہیں، چھو سکتے ہیں، مثلاً جب ہم لفظ ’آم‘ کہتے یا پڑھتے ہیں، تو ہمارے ذہن میں اس مخصوص پھل کی شکل آجاتی ہے جسے ہم آم کہتے ہیں، یعنی لفظ ’آم‘ دراصل ایک مخصوص پھل کی اردو زبان میں تحریری علامت ہے۔ جب کہ دیگر زبانوں میں اس پھل کی تحریری علامت کچھ اور ہوگی مثلاً انگریزی میں Mango۔
بعض علامتوں کا اپنا مخصوص تصور ہوتا ہے، جن کو سن کر یا پڑھ کر ہم صرف سمجھ سکتے ہیں۔ دیگر مادّی اشیاء کی طرح ان کو دیکھ یا چھو نہیں سکتے، مثلاً گنتیاں، ریاضی کی مخصوص علامتیں جیسے,- + , < , > , x ,÷, وغیرہ۔
کمرۂ جماعت میں استاد زبان(Language) کا استعمال کرتے ہوئے تصاویر یا علامات کی مدد سے تدریسی سرگرمیاں سرانجام دیتا ہے۔ زبان، تصاویر اور علامات… ان سب کا شمار مجرد(Abstract) یعنی ذہنی، خیالی یا قیاسی چیزوں میں ہوتا ہے اور ننھے منے بچوں کا مقابلہ بھی ریاضی میں ابتدائی جماعتوں سے لے کر بڑی جماعتوں تک مجرد تصورات سے ہی ہوتا ہے، جیسے گنتیاں، جمع، تفریق، ضرب، تقسیم وغیرہ۔
بحیثیت استاد ہمیں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ ابتدائی جماعتوں میں مجرد تصورات صرف کتاب اور چاک بورڈ کی مدد سے نہیں سکھائے جا سکتے، ہاں البتہ رٹوائے ضرور جاسکتے ہیں۔
مشاہدے سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ مجرد تصورات بچے بہت آسانی سے سمجھ اور سیکھ جاتے ہیں، حالانکہ استاد نے کتاب اور چاک بورڈ کے سوا کوئی اور امدادی اشیاء استعمال نہیں کی ہوتیں، مگر پھر بھی بچے بہت آسانی سے سمجھ لیتے ہیں، مثلاً اندر اور باہر، ہلکا اور بھاری، زیادہ اور کم ، یا گنتیوں وغیرہ کا تصور۔
آئیے ہم یہ جاننے کی کوشش کریں کہ ایسا کیسے ہوجاتا ہے؟ جیسا کہ یہ بات پہلے ہی بیان کی جاچکی ہے کہ بچوں میں ریاضی سیکھنے کی قدرتی صلاحیت ہوتی ہے اور بچوں کا مشاہدہ اور تجربہ اس سلسلے میں بچوں کی بھرپور مدد کرتا ہے، ہر بچہ اپنے اردگرد بہت سی اشیاء کا مشاہدہ کرتا ہے، ان اشیاء کا نام سنتا ہے، کام اور استعمال سے بتدریج واقفیت حاصل کرلیتا ہے، مثلاً دو سے ڈھائی سال کے بچے بآسانی پانی، کرسی، پلیٹ، چمچ، گیند، بلا، گاڑی، سائیکل، ٹافی، آئس کریم، سیڑھی اور بے شمار دیگر گھریلو اشیاء کے علاوہ پھلوں اور سبزیوں کے نہ صرف نام بلکہ ان کی شناخت بھی کرسکتے ہیں، مثلاً ایک بچے کو پلیٹ میں سیب، کیلا، آم اور انگور دیں اور پوچھیں کہ آم کہاں ہیں؟ وہ بآسانی اور بھرپور جوش و خروش سے بولے گا کہ ’’یہ را‘‘۔ بچے کی اس کامیابی کی وجہ اُس کی مشاہداتی قوت اور تجربہ ہے، کیونکہ یہ بچہ صبح سے رات تک اپنے اردگرد موجود چیزوں کے نام کسی نہ کسی موقع پر سنتا ضرور ہے، اور آپ کا بچہ آپ کے لفظوں کا تعلق اس چیز سے جوڑ لیتا ہے، اور اس وجہ سے جب آپ کہتے ہیں کہ ’’آم کہاں ہے؟‘‘ تو وہ فوراً بتا دیتا ہے، کیونکہ وہ لفظ آم اور اس سے وابستہ پھل کے درمیان کا تعلق قائم کرچکا ہوتا ہے۔
اسی طرح سے آپ کا بچہ جس کی عمر ابھی بمشکل دو سال ہے، وہ اندر اور باہر، اوپر اور نیچے وغیرہ جیسے مشکل مجرد تصورات کے ساتھ بھی تعلق جوڑ چکا ہوتا ہے۔ بظاہر یہ سب کچھ مشکل نظر آتا ہے لیکن ایک بچے کے لیے ان تصورات کو اپنے طور پر سمجھ لینا بہت آسان ہوجاتا ہے جب یہ ساری باتیں اُس کی عملی زندگی میں شامل ہوجاتی ہیں، مثلاً دو سال کا بچہ انڈا کھاتے ہوئے اکثر یہ جملہ سنتا ہے کہ’’اگر انڈا منہ سے باہر نکالا تو ماروں گی‘‘۔ ’’جلدی جلدی اندر کرو۔ جلدی جلدی کھائو‘‘۔
ایک باورچی خانے کا منظر اپنی آنکھوں کے سامنے لائیں، جہاں تین چار چھوٹے بڑے بچے جمع ہیں اور ہمارا دو یا ڈھائی سالہ ننھا منا طالب علم بھی موجود ہے، اچانک بچوں کی امی جان کو غصہ آتاہے اور وہ شور مچاتی ہیں’’سب باہر نکلو، خبردار اب کوئی اندر آیا‘‘ اور سارے بچے شور مچاتے، ہنستے ہنساتے باہر بھاگتے ہیں۔ آپ اگر غور کریں تو اس چھوٹے سے واقعے کے نتیجے میں ہمارا ننھا منا طالب علم ’’اندر اورباہر‘‘ کے تصور کو سیکھ لیتا ہے۔ دیگر بے شمار تجربات بھی بچوں کی زندگی میں آتے ہیں جن کا بچہ مشاہدہ کرتا ہے، اور بے شمار چیزیں سیکھ لیتا ہے، جن کا ہم اندازہ نہیں کرپاتے۔
اس ساری گفتگو کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے کہ اگر استاد نے کسی تصور کی تدریس کے لیے صرف چاک، بورڈ، اور کتاب کا استعمال کیا ہے اور بچہ بآسانی کتاب میں درج مشقی سرگرمیوں کو حل کررہا ہے، مثلاً وہ کتاب میں بنی تصویر کو دیکھ کر اس بات کی صحیح صحیح نشاندہی کررہا ہے کہ پرندہ پنجرے کے اندر ہے یا باہر، تو بچے کے کامیاب جائزے کے بعد ہمیں اس خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ کامیاب تدریس کے لیے صرف چاک، بورڈ اور کتاب ہی کافی ہے، بلکہ ہمیں اس حقیقت کا احساس ہونا چاہیے کہ اس کامیابی کا سب سے اہم کردار بچے کا وہ تجربہ(Experience) ہے جو اس نے اسکول میں داخلے سے پہلے ہی اپنے ماحول سے حاصل کرلیا تھا، اور اپنے اسی تجربے کی ہی بنیاد پر وہ تصاویر کی شناخت اور ان کو سمجھنے کے قابل ہوا ہے۔
اب غور طلب بات یہ ہے کہ کیا بچہ اسکول میں داخل ہوتے وقت اپنے نصاب میں درج ہر تصور کا تجربہ رکھتا ہے؟ یقینا اس کا جواب دینا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ وہ کسی حد تک تجربہ رکھتا ہوگا، اور ہوسکتا ہے کہ کسی حد تک نہ رکھتا ہو۔ لیکن صورت کوئی بھی ہو، ہمیں ریاضی کی تدریس میں تجربے کو سب سے زیادہ اہمیت دینا ہوگی، یعنی بچے کو ریاضی کے تصورات سکھانے کے لیے زیادہ سے زیادہ عملی مشاہدے کے مواقع فراہم کرنے ہوں گے، اور تدریس کے دوران اشیاء کا مؤثر استعمال انتہائی ضروری ہے۔ اس کے بعد بچہ اس قابل ہوسکے گا کہ وہ کتاب میں موجود تصاویر اور لفظوں کے درمیان تعلق کو جوڑ سکے۔ مثلاً 1 سے 5 تک سکھائی جانے والی گنتی ہے اور 4,3,2,1 اور 5 کی علامتوں کی پہچان کروانی ہے تو درج ذیل درجہ بندی کی مدد سے بچہ نہ صرف بہترین انداز میں سیکھے گا بلکہ ریاضی میں اس کی دلچسپی بھی برقرار رہے گی جو اس کی مزید ذہنی صلاحیت کے فروغ میں مدد دے گی۔ درجہ بندی کچھ یوںہے:
1: تجربہ۔2 : زبان۔3 : تصویر۔ 4 : علامت
مثال: آپ بچوں کو کوئی بھی ایک چیز دیں اور اس کی تعداد بھی بتائیں اور بچے سے سوال و جواب بھی کریں۔ مثلاً آپ علی کو ایک پینسل دیتے ہوئے کہتے ہیں ’’علی یہ ایک پینسل پکڑیں، کتنی پینسل ہے؟ ایک پینسل۔ ایک پینسل۔ علی بتائیں، یہ کتنی پینسل ہے؟ ایک پینسل۔‘‘
اب اسد کو بھی ایک پینسل دیں اور علی سے پوچھیں ’’اسد کے پاس کتنی پینسل ہے؟‘‘ صحیح جواب فوراً آنے کے وسیع امکانات ہیں۔ سوال جواب کا عمل یکساں طور پر دونوں بچوں سے (یا موجود تمام بچوں سے)کیا جائے۔ اب پینسل کے بجائے کوئی دوسری چیز لیں لیکن تعداد ایک ہی ہو، پھر کوئی تیسری، چوتھی اور پانچویں چیز وغیرہ، مثلاً ربڑ، اسکیل، گیند۔ اس طرح کی مشق بچے کے ذہن میں قدرتی طور پر یہ تصور پیدا کرے گی کہ کوئی بھی چیز، ایک ہوسکتی ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ آپ کے بچے میں اس صلاحیت کی بنیاد قائم ہونا شروع ہوجائے گی کہ وہ چیزوں کو دیکھ کر اُن کی تعداد کا صحیح تصور قائم کرے۔
چیزوں کی تعداد بڑھاکر 2 کردیں، لیکن طریقہ کار وہی رہے، باری باری مختلف اشیاء2 کی تعداد میں بچوں کو دیں اور بچوں سے سوال و جواب کے ذریعے ان کی تعداد دریافت کریں یعنی 2 ربڑ، 2 پینسل، 2 سیب، 2 گیندیں، وغیرہ۔ جب بچے تعداد صحیح بتانے کے قابل ہوجائیں تو یہی عمل فلش کارڈ کے ذریعے دہرائیں، یعنی جب بچہ کسی چیز کی تعداد ایک بتائے تو اس کے سامنے 1 کا فلش کارڈ لے کر آئیں۔ اچھی طرح سے مشق کرلینے کے بعد تعداد بتدریج بڑھاتے جائیں، لیکن جلد بازی کا مظاہرہ نہیں ہونا چاہیے، بلکہ بچے کو پورا مشاہدہ کرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ اردگرد موجود چیزیں بھی بچوں سے گنوائی جائیں۔ مثلاً دروازے کتنے ہیں، کھڑکیاں کتنی ہیں، آنکھیں کتنی ہیں، ایک بچے کی کُل کتنی آنکھیں ہیں، ایک بچے کے کتنے کان ہیں، پنکھے کے پر کتنے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
جب بچے تعداد صحیح صحیح بتانے لگیں تو پھر باقاعدہ کتاب کا استعمال کرایا جائے اور اس میں بنی تصاویر کی تعداد معلوم کرائیں۔ ماشاء اللہ بچے فر فر گن کر بتائیں گے اور تعلیمی عمل میں جوش و خروش سے حصہ بھی لیں گے۔ اور بچوں کا یہ جوش و خروش ریاضی کے دو اہم مقاصد کے حصول کا سبب بنے گا۔ یعنی بچہ گنتی تو سیکھ ہی رہا ہے، ساتھ ساتھ اُس میں غور و فکر کرنے، تجزیہ کرنے اور استدلال کی صلاحیت کی مستحکم بنیادیں بھی استوار ہوں گی جو کہ تدریسِ ریاضی کے عمومی مقاصد ہیں۔
درج بالا مثال سے یقینا یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتاہے کہ:
1) بچوں کو مختلف چیزیں دینا/دکھلانا پہلا درجہ(تجربہ) ہے۔ (Experience)
2)بچوں کو چیزوں کے نام کے ساتھ تعداد بتانا (زبان) دوسرا درجہ ہے۔ (Language)
3)بچوں کو کتاب میں بنی تصاویر سے روشناس کرانا (تصاویر) تیسرا درجہ ہے۔(Picture)
4)کتاب میں تحریر کردہ علامت کی پہچان کرانا (علامت) چوتھا درجہ ہے۔(Symbol)
اب اگر ہم صرف نصابی کتب کا ہی استعمال کررہے ہیں تو اس کا مطلب ہوا کہ ہم زبان کا استعمال (درجہ نمبر2)کرتے ہوئے تصاویر (درجہ نمبر3) اور علامات (درجہ نمبر4)کی مدد سے تدریس کررہے ہیں، اور سب سے اہم کام یعنی اشیاء کا استعمال کرتے ہوئے بچے کو عملی تجربات (درجہ نمبر 1) سے گزارنے کا کام نظرانداز ہورہا ہے، جس کے نتیجے میں بچے کا نہ صرف سیکھنے کا عمل متاثر ہوتا ہے اور اس کی بنیادیں کمزور ہوجاتی ہیں بلکہ آگے چل کر مضمون سے نفرت اور خوف بھی پیدا ہوتا ہے۔
حالانکہ کئی کتابوں میں اساتذہ کے لیے باقاعدہ ہدایات لکھی ہوتی ہیں کہ فلاں تصور کی تدریس کے لیے فلاں فلاں امدادی اشیاء کو استعمال ضرور کریں، لیکن مشاہدہ بتاتا ہے کہ اکثر اساتذہ ان اوراق کو پڑھنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کرتے جو کہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ عمل ہے۔ ہمیں یہ بات اچھی طرح سے یاد رکھنی چاہیے کہ دورانِ تدریس معمولی کوتاہی بچوں کی فطری صلاحیتوں کو تباہ کرسکتی ہے جو یقینا نہ صرف اس بچے پر بلکہ پورے معاشرے پر ایک ظلم ہے۔ لہٰذا اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ تدریسی عمل صحیح اصولوں کے مطابق ہو، جو بچوں کی فطری صلاحیتوں کی نہ صرف نگہداشت کرے بلکہ ان کو پروان بھی چڑھائے۔
(نوٹ:1) اگرچہ مضمون تدریسِ ریاضی کے تناظر میں تحریر کیا گیا ہے، لیکن بیان کردہ چاروں درجہ بندیاں تمام ہی مضامین کے لیے مؤثر ہیں۔
2)اس مضمون میں بتائی گئی چاروں درجہ بندیوں کوPamela Liebeck نے اپنی کتابHow Children learn Mathematics میں بیان کیا ہے جنہیں راقم الحروف نے اپنے تجربات کی روشنی میں تحریر کیا ہے۔