تعمیر ِ اخلاق کیوں اور کیسے؟

رشد و ہدایت
رشد و ہدایت

اخلاق حقیقت میں انسانیت کا اصل جوہر اور انسان و حیوان کے درمیان وجۂ امتیاز ہے۔ دنیا اور آخرت میں انسان کی کامیابی کا دارومدار اخلاق ہی پر ہے۔ کوئی انسان اپنی انفرادی حیثیت میں اور کوئی انسانی گروہ اپنی اجتماعی حیثیت میں اخلاق کے بغیر کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتا۔ انسانی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس کو اپنے استحکام کے لیے کچھ بنیادی اخلاقیات کی ضرورت نہ ہو۔ کیا آپ کو امن میسر آسکتا ہے اگر آپ کے شہروں اور بستیوں میں انسانی زندگی کا احترام اور دوسروں کے حقوق کا پاس و لحاظ موجود نہ ہو؟کیا آپ کا معاشرہ تباہی سے بچ سکتا ہے اگر اس میں ہر شخص قدرت پاکر اپنی حدود سے تجاوز کرنے اور دوسروں کی جان و مال اور آبرو پر دست درازی کر گزرنے کا خوگر ہو؟ کیا آپ کسی تہذیب کا تصورکرسکتے ہیں اگر افراد اور گروہوں کے برتائو کو ضابطے میں رکھنے کے لیے کوئی معقول قانون موجود نہ ہو، یا موجود تو ہو مگر اس کی پابندی نہ کی جاتی ہو؟ کیا آپ کوئی مضبوط تمدنی نظام چلاسکتے ہیں اگر آپ کی معاشرت اور سیاست اور معیشت میں دیانت و امانت، عدل و انصاف، فرض شناسی اور راست بازی موجود نہ ہو؟ بلکہ میں پوچھتا ہوں، کیا آپ آزاد قوم کی حیثیت سے اپنے وجود کو بھی بچا سکتے ہیں اگر آپ کے افراد میں وہ خودغرضی پرورش پارہی ہو جو اُن کے دلوں میں اپنی ذات اور ذاتی مفاد سے بالاتر کسی چیز کی وفاداری کے لیے کوئی گنجائش باقی نہ چھوڑے؟
ایک مسلمان کی حیثیت سے آپ دیکھیں تو اخلاق کی پستی کے ساتھ ہم سرے سے کسی اسلامی زندگی کا تصور ہی نہیں کرسکتے۔ مسلمان تو مسلمان بنایا ہی اس لے گیا ہے کہ اس کی ذات سے دنیا میں بھلائی قائم ہو اور برائی مٹے۔ بھلائی کو مٹانا اور برائی پھیلانا، اور پھر اس کے ساتھ مسلمان بھی ہونا، یہ درحقیقت ایک کھلا ہوا تناقض ہے۔ ایک شخص مسلمان ہو اور پھر بھی اس کے شر سے دوسرے بندگانِ خدا محفوط نہ ہوں، ایک شخص مسلمان ہو اور پھر بھی اس پر کسی معاملے میں اعتماد نہ کیا جاسکے، ایک شخص مسلمان ہو اور پھر بھی وہ نیکی سے بھاگے اور بدی کی طرف لپکے، حرام کھائے اور حرام طریقوں سے اپنی خواہشات پوری کرے تو آخر اس کے مسلمان ہونے کا فائدہ کیا ہے؟ کسی مسلم معاشرے کی اس سے بڑھ کر کوئی ذلت نہیں ہوسکتی کہ وہ انصاف سے خالی اور ظلم سے لبریز ہوتا چلا جائے، اس میں روزبروز بھلائیاں دبتی اور برائیاں فروغ پاتی چلی جائیں اور اس کے اندر دیانت و امانت اور شرافت کے لیے پھلنے پھولنے کے مواقع کم سے کم تر ہوتے چلے جائیں۔
یہ خدا کے غضب کو دعوت دینے والی حالت ہے۔ اگر کسی مسلم معاشرے کی یہ حالت ہوجائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اسلام کی روح سے خالی ہوچکا ہے، صرف اسلام کا نام ہی اس میں باقی رہ گیا ہے، اور یہ نام بھی اب صرف اس لیے رہ گیا ہے کہ دنیا کو اس دینِ حق سے دور بھگاتا رہے۔
مسلمان اخلاقی زوال کی طرف جاتا ہی اُس وقت ہے جب اسے خدا کی رضا اور آخرت کی فلاح مطلوب نہیں رہتی اور صرف دنیا اس کی مطلوب بن کر رہ جاتی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اخلاق کی پستی کے ساتھ کوئی قوم دنیا کی کامیابی بھی حاصل نہیں کرسکتی۔ اس پستی کے ساتھ تو آخرت بھی ہاتھ سے جاتی ہے اور دنیا بھی ہاتھ نہیں آتی۔ سب سے بڑھ کر دولت کی پیاس ہم کو دنیا طلبی کی طرف لے جارہی ہے۔ مگر اس کے لیے ہم نے افراد اور طبقوں کی خودغرضی اور بددیانتی کو وسیلہ بنایا ہے، حالانکہ اس سے بڑھ کر کوئی چیز ہماری معاشی ترقی کی راہ میں حائل نہیں ہے۔ مجھے شرقِ اوسط کے متعدد ملکوں میں جانے کا اتفاق ہوا ہے۔ وہاں میں نے جب تاجروں سے کہا کہ آپ جو مال باہر کے بعض غیر مسلم ممالک سے منگاتے ہیں وہ آپ کے ایک بھائی مسلمان ملک پاکستان سے بھی مل سکتا ہے، اسے چھوڑ کر آپ دوسروں سے کیوں خریدتے ہیں؟ تو اُن کا یہ جواب سن کر میں شرم سے پانی پانی ہوگیا کہ ہم نے مجبوراً پاکستان سے مال منگانا بند کیا ہے۔ وہاں سے نمونہ اچھا دکھا کر فرمائش حاصل کی جاتی ہے اور پھر اس کی تعمیل میں ردی مال بھیج دیا جاتا ہے۔ فرمایئے کیا اس بددیانتی کے ساتھ ہم تجارت میں کوئی ترقی کرسکتے ہیں؟ ہمارے کارخانہ دار اور بڑے تاجر جس خودغرضی کے ساتھ بے تحاشا منافع خوری کررہے ہیں اس سے ایک محدود طبقہ تو بلاشبہ فربہ ہوتا جارہا ہے مگر قوم بحیثیتِ مجموعی لاغر ہوتی جارہی ہے۔ یہ چیز آخر کب تک ہمیں اس طبقاتی کشمکش کی آگ میں جھلسنے سے بچا سکے گی جس میں اسی طرح کی حماقتیں کرنے والے بہت سے دوسرے ملک جھلس چکے ہیں۔ پھر اسی خودغرضی کی بدولت ہمارے کارکن طبقوں میں کام چوری اور اپنے فرض سے غفلت، اور صرف اپنے حقوق کے لیے لڑنے کی جو بیماری پھیل رہی ہے، کیا واقعی یہ وہی راستہ ہے جس سے ہم معاشی ترقی کی طرف پیش قدمی کرسکیں گے؟
ہم ایک مدت سے مادی ترقی کے لیے تعلیم تعلیم کا شور مچارہے ہیں مگر ہماری تمام کوششیں صرف کتاب خواں بنانے میں صرف ہوتی رہی ہیں۔ انسان بنانے اور مسلمان بنانے کی ہم نے کوئی فکر نہیں کی ہے۔ بلکہ اس کے برعکس ہماری تعلیم گاہیں دھڑادھڑ ایسے افراد تیار کرکے نکال رہی ہیں جو انسانی اخلاق سے بھی عاری ہیں اور اسلامی اخلاق سے بھی۔ ہمارے نصابِ تعلیم اور طرزِ تعلیم اور تعلیمی ماحول میں سرے سے اس فکر کا کوئی نشان نہیں ملتا کہ ہمیں اپنے افراد میں کوئی قومی سیرت بھی پیدا کرنی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ حکومت سمیت ہمارے تمام شعبہ ہائے حیات کو جو کارکن مل رہے ہیں اُن کے اندر کوئی قابلِ اعتماد کیرکٹر نہیں پایا جاتا قلیل مستثنیات کو چھوڑ کر، جو روز بروز قلیل سے قلیل تر ہوتے جارہے ہیں۔ ہمارے ہر شعبۂ زندگی کو ادنیٰ مراتت سے لے کر بلند ترین مناصب تک وہ لوگ چلارہے ہیں جن کے اندر دیانت، امانت اور فرض شناسی کا فقدان ہے۔ جنہیں ذرا سا لالچ یا تھوڑا سا خوف بھی راستے سے بآسانی ہٹاسکتا ہے، جو اپنے معمولی سے فائدے کے لیے دوسروں کو، حتیٰ کہ اپنی قوم اور اپنے ملک تک کو بڑے سے بڑا نقصان پہنچادینے میں تامل نہیں کرتے۔ جن کی نگاہ میں ضمیر و ایمان کی کوئی قیمت نہیں۔ جنہیں اپنی ذاتی اغراض کے لیے کسی اصول اور ضابطے کو توڑ دینے میں کوئی باک نہیں۔ روحانی ترقی کا سوال تو بہت اونچا ہے، کیا یہ تعلیم کسی مادی ترقی میں بھی ہمارے لیے واقعی مددگار ہوسکتی ہے؟ جس کیرکٹر میں امانتوں کا بوجھ سہارنے اور خوف و طمع کے مقابلے میں ٹھیر جانے کی طاقت نہ ہو وہ حیاتِ دنیا کے کسی میدان میں بھی آخر ہمیں کتنی دور لے جاسکتا ہے!
ہماری اصل طاقت وہ مادی ذرائع نہیں ہیں جو خالق نے ہمیں عطا کیے ہیں، بلکہ وہ انسان ہیں جنہیں ان ذرائع سے کام لینا ہے۔ یہ انسان اگر بگڑ جائیں تو مادی ذرائع ہمارے کس کام آسکتے ہیں!

علم

٭…رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مومن علم کی باتیں سننے سے سیر نہیں ہوتا، یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہوجاتا ہے۔‘‘
(ترمذی۔ عن ابی سعید خدریؓ)
٭… رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس سے علم کی کوئی بات پوچھی گئی اور اس نے اُسے چھپایا (جانتے ہوئے نہ بتایا) تو قیامت کے دن اس کو آگ کی لگام پہنائی جائے گی۔‘‘
(ترمذی، ابودائود۔ عن ابی ہریرہؓ)
٭… رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جس نے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی والا علم اس لیے حاصل کیا کہ اس کے ذریعے دنیاوی فائدہ حاصل کرے، تو وہ قیامت کے دن جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا۔‘‘
(ابودائود، ابن ماجہ۔ عن ابی ہریرہؓ)