کامیابی

واصف علی واصف
کامیابی کی تعریف کرنا مشکل ہے۔ آج کل کامیابی ایک مقابلہ ہے۔ اپنے ماحول میں اپنے سماجی معیار کے مطابق سبقت لے جانے کو کامیابی کہتے ہیں۔ کامیاب انسان اسے کہتے ہیں، جو اپنے گردوپیش کے انسانوں میں نمایاں ہو، ممتاز ہو۔ سبقت لے جانے والا معزز کہلاتا ہے۔ کامیابی کا مدعا سبقت لے جانا ہے۔ شہرت حاصل کرنا ہے۔
اگر سماج کا اپنا کوئی اخلاقی معیار نہ ہو، تو کامیابی ایک خطرہ ہے۔ جھوٹوں میں شہرت حاصل کرنا بدنام ہونے کے مترادف ہے۔ اگر ماحول گندہ ہو تو کامیابی کی تمنا انسان کے لیے ایک خطرہ ہے۔
کامیابی کا سفر خودغرضی کا سفر ہے۔ یہ خطرے کا سفر ہے۔ خودغرضی نہ ہو تو انسان کیسے کامیاب ہو! دولت جمع کرنے والے کیسے کامیاب ہوسکتے ہیں اگر وہ بے حس نہ ہوں۔ دولت تقسیم کرنے والا کبھی دولت جمع نہیں کرتا۔ کامیاب مہمان کامیاب میزبان نہیں بن سکتا۔ محبت کامیاب ہو تو شادی کامیاب نہیں ہوتی۔ بینک کا کام کرنے والا ٹورسٹ نہیں بن سکتا۔ کامیاب انجینئر،کامیاب ڈاکٹر اور کامیاب وکیل کی زندگیوں میں بڑا فرق ہے۔ ہر کامیاب آدمی دوسرے کو ناکام سمجھتا ہے اور یہی ناکامی کی دلیل ہے۔
دنیا میں موجود آدھا علم صرف نصیحت کا علم ہے۔ یعنی دوسروں کو ناکامی سے بچانے کا علم۔ اور علم دینے والا علم کے حوالے سے ہی اپنے آپ کو کامیاب سمجھتا ہے۔ اُس کی بات سننے والے اُسے دیکھتے ہیں اور اس پر اتنا ہی تبصرہ کرتے ہیں کہ بیچارے علم والے لوگ ہیں۔ ان کا سرمایہ الفاظ و معانی کا سرمایہ ہے اوربس۔
کامیاب انسانوں نے ہی دنیا میں جھگڑا فساد قائم کررکھا ہے۔ ایک انسان کامیاب کہانی نویس یا کامیاب داستان گو یا افسانہ نگار ہو تو اپنے آپ کو ہر شعبہ حیات میں کامیاب سمجھتا ہے۔ وہ فرض کرلیتا ہے کہ اب وہ ڈرامہ، تنقید، معاشیات، سیاسیات، شاعری، الٰہیات غرضیکہ متفرقات پر قلم اٹھانے کا حق رکھتا ہے۔ وہ جلسوں کی صدارتیں کرتا ہے۔ جلوسوں کی قیادت کرتا ہے۔ حکومتوں کے حق میں یا اُن کے خلاف قراردادیں پاس کرتا ہے۔ حالانکہ اس کی کامیابی صرف کہانی یا افسانہ کی کامیابی ہے۔
کم و بیش ہر کامیاب انسان اس خوشی میں مبتلا ہوکر اپنی کامیابی کو ہی اپنے لیے وبالِ جان بنالیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امیر آدمی ادیب بننے کا شوق رکھتا ہے اور بنتا ہے۔ ادیب کو سیاستدان کہلانے کا حق چاہیے، کیونکہ وہ شعر کہتا ہے۔ سیاستدان حکومتوں سے ناراض ہی رہتے ہیں، جیسے یہ ان کے محبوب ہوں اور حکومتیں اللہ کا نام لے کر اپنا کام جاری رکھتی ہیں۔ سب کامیاب ہیں اور سب ناکام۔
جب ہم اپنے لیے ایک اندازِ فکر کا انتخاب کرتے ہیں تو ہمیں دوسرے انداز ہائے فکر پر اتھارٹی بننے سے گریز کرنا چاہیے۔ ایک کامیاب گلوکار کے لیے ضروری تو نہیں کہ وہ اپنے انداز سے ملک کا نام روشن کرے اور اپنے انداز سے مذہب پر بحث کرے، اور یہ انداز صرف انداز ہی ہو۔
چونکہ ہماری زندگی شعبوں، پیشوں، دائروں اور زاویوں میں تقسیم ہوچکی ہے، اس لیے کامیابی کا مفہوم اس دور میں اپنے پیشے اور اپنے شعبے میں کامیابی ہے، اور یہ کامیابی اپنے دائرے سے باہر نکل آئے تو ناکامی کے سوا کیا ہوسکتی ہے۔
ہماری ملکی سیاست میں اب ہر شعبہ حیات سے قیادت ابھر کر باہر آرہی ہے۔ اللہ رحم فرمائے۔ ہمارا ملک قیادت کے بحران میں بھی کثیر القیادت رہے گا۔ قیادتوں کی کثرت قیادت کی عدم موجودگی کی دلیل ہے۔
(دل دریا سمندر/ واصف علی واصف، صفحہ 92)

علم اور دین

اس نظم میں یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ حقیقی علم دین سے الگ نہیں بلکہ اس کا لازمی جزو ہے۔
وہ علم اپنے بتوں کا ہے آپ ابراہیم
کیا ہے جس کو خدا نے دل و نظر کا ندیم
زمانہ ایک، حیات ایک، کائنات بھی ایک
دلیلِ کم نظری قصہ جدید و قدیم
چمن میں تربیتِ غنچہ ہو نہیں سکتی
نہیں ہے قطرۂ شبنم اگر شریکِ نسیم
وہ علم، کم بصری جس میں ہمکنار نہیں
تجلیاتِ کلیم و مشاہداتِ حکیم!
ندیم: رفیق، ساتھی۔ کم بصری: کم نظری۔
-1 جس علم کو خدا نے دل اور نظر کا رفیق بنادیا، وہ اپنے تراشے ہوئے بتوں کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح توڑ پھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ یعنی جو علم خدا کی طرف سے دیا جاتا ہے، مثلاً آسمانی کتابیں، اس کی وجہ سے انسان کے عقائد و اعمال میں کوئی خلل نہیں آتا، بلکہ وہ گمراہ کرنے والی تمام چیزوں کو ختم کردیتا ہے۔
-2 زمانہ ایک ہے۔ زندگی بھی ایک ہے اور کائنات بھی ایک ہے۔ پھر اس میں نئے اور پرانے کی تقسیم کا کیا مطلب؟ یہ تو کم نگاہی کی دلیل ہے۔
مطلب یہ ہے کہ جب زندگی اور اس کے زمانی و مکانی ماحول کی یکسانی میں کوئی شبہ نہیں تو پھر نئے اور پرانے زمانے کی تقسیم کا کیا مطلب ہے؟
-3 اگر شبنم کا قطرہ صبح کی ہوا کا ساتھ نہ دے تو باغ میں کلی کیونکر پرورش پاسکتی ہے؟
مراد یہ ہے کہ کلی کو شگفتہ کرنے کے لیے محض صبح کی ہوا کافی نہیں بلکہ شبنم کا گرنابھی ضروری ہے۔ شبنم کلی میں ملائمت اور شادابی پیدا کرتی ہے۔ نسیم کے جھونکے اسے شگفتہ کردیتے ہیں۔ جس طرح ان دونوں کی مدد سے کلی شگفتہ ہوتی ہے، اسی طرح علم کی مدد سے دین کو تقویت پہنچتی ہے۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ علم ایسا ہو جسے ہم دل اور نظر کا رفیق قرار دے سکیں۔ جس علم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تجلیات اور حکیم کے عقلی مشاہدات ایک دوسرے سے بغل گیر نہ ہوں، وہ علم ہی نہیں بلکہ جہالت ہے، گویا جو علم نظر کی درستی اور دل کی پاکیزگی کے لیے ہو، وہ عین دین ہے، اسے کم نظری کے داغ دھبوں سے بالکل پاک سمجھنا چاہیے۔