شامی حکومت کے فوجی دستوں اور فضائیہ نے مشرقی غوطہ پر مسلسل ایک ہفتہ بمباری کی ہے جس میں اب تک پانچ سو عام شہری مارے جا چکے ہیں۔برطانیہ میں قائم سیرین آبزرویٹری گروپ کا کہنا ہے کہ مشرقی غوطہ میں مرنے والوں میں 121 بچے شامل ہیں۔ روسی افواج کی مدد سے شامی حکومت کی فورسز نے اٹھارہ فروری کو بمباری شروع کی تھی۔سیرین آبزرویٹری گروپ نے کہا ہے کہ کم از کم 20 شہری ہلاک ہوئے ہیں جن میں سے 17 کا تعلق دوما کے علاقے سے ہے۔ جس کے بعد ایک ہفتے کے اندر مرنے والوں کی تعداد 500 تک پہنچ گئی ہے۔ایک ایسے علاقے پر بیرل بم اور شیلنگ کی جارہی ہے جس مں تین لاکھ ترانوے ہزار شہری پھنسے ہوئے ہیں۔بمباری کو روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے ایک اہلکار نے کہا ہے کہ صورتحال قابو سے باہر ہوتی جارہی ہے۔
گیس کی خریداری اسرائیل مصر معاہدہ
مصر کے حکمراں جنرل السیسی نے اسرائیل سے 15 ارب ڈالر کی گیس خریدنے کا معاہدہ کیا ہے۔ یہ گیس بحرِ روم میں لیویاتھن (Leviathan) اور ثمر کے میدانوں سے فراہم کی جائے گی۔ واضح رہے کہ عرب جغرافیہ دان بحر روم کے مشرقی ساحل کو مشرق یا Levantکہا کرتے تھے، یعنی موجودہ اردن، شام، لبنان اور اسرائیل کا مجموعی علاقہ۔لیویاتھن گیس فیلڈ دسمبر 2010ء میں امریکی کمپنیوں Noble Oilاور Dalekنے دریافت کی تھی اور یہاں موجود گیس کے ذخیرے کا تخمینہ 16000 ارب معکب فٹ ہے۔ گہرے پانیوں میں دریافت ہونے والے اس میدان سے پیداوارکا آغاز 2019ء کے آخر میں متوقع ہے۔ جب تک لیویاتھن سے پیداوار شروع نہیں ہوجاتی اسرائیل یومیہ 350 ارب مکعب فٹ گیس قریب ہی موجود ثمر گیس فیلڈ سے فراہم کرے گا۔ ثمر گیس فیلڈ میں گیس کا تخمینہ 71000 ارب مکعب فٹ ہے، اور 1100 ارب مکعب فٹ گیس یومیہ حاصل کی جارہی ہے جس میں سے 600 ارب مکعب فٹ گیس اردن خرید رہا ہے اور 400 ارب مکعب فٹ گیس اسرائیل خود استعمال کرتا ہے۔ اگر 1100 میں سے 1000 ارب مکعب فٹ گیس کی فروخت کا معاہدہ پہلے سے موجود ہے تو یہاں سے 350 ارب مکعب فٹ گیس مصر کو کیسے بیچی جائے گی؟ لیکن اسرائیلی ایسی کچی گولیاں نہیں کھیلے ہوئے۔ یہ معاہدہ 10 سال کا ہے، یعنی ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ۔ معاہدے کے تحت ہر سال کے آغاز پر سالانہ فروخت کی رقم یک مشت یعنی ایڈوانس ادا کی جائے گی اور معاہدے کے وقت ایک ارب ڈالر اس کے علاوہ ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ معاہدے پر دستخط کے ساتھ ہی مصر اسرائیل کو ڈھائی ارب ڈالر دے گا، جس کے بعد ہر سال کے آغاز پر ڈیڑھ ارب ڈالر ادا کیے جائیں گے۔گہرے پانیوں کی وجہ سے یہاں کنووں کی کھدائی کا خرچ بہت زیادہ ہے اور ہر کنویں پر 10 کروڑ ڈالر خرچ ہوتے ہیں، اور ایسا لگ رہا ہے کہ ایڈوانس رقم ترقیاتی کنووں کی کھدائی پر خرچ ہوگی۔
اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ 2015ء میں اطالوی کمپنی Eni نے بحرروم کے مصری حصے میں ظہر (Zohr)کے نام سے گیس کا ایک بہت بڑا میدان دریافت کیا تھا۔ یہاں گیس کے ذخیرے کا تخمینہ 30 ہزار ارب مکعب فٹ ہے، یعنی اسرائیل کے لیویاتھن اور ثمر کے مجموعی حجم سے بھی زیادہ۔ یہاں سے پیداوار کا آغاز گزشتہ برس کے آخر سے ہونا تھا، لیکن اس کے ترقیاتی منصوبے تاخیری حربوں کا شکار ہیں اور اب اپنے ذخیرے کو چھوڑ کرپیشگی ایک خطیر رقم اسرائیل کو دی جارہی ہے تاکہ وہ اپنی لیویاتھن فیلڈ کو تیزی سے ترقی دے سکے۔ اس معاہدے میں اسرائیل سے دوستی کے علاوہ کچھ ذاتی نوعیت کے معاملات بھی ہیں۔ اسرائیل سے گیس کی خریداری ایک نجی ادارہ Dolphinusگروپ کرے گا۔ اس کے مالکان ڈاکٹر اعلیٰ عرفیٰ، خالد ابوبکر اور محمد خلیفہ جنرل السیسی کے قریبی دوست ہیں بلکہ شنید ہے کہ جنرل صاحب بھی ڈالفی نس کے خوابیدہ (Sleeping)حصہ دار ہیں۔ قومے فروختند چہ ارزاں فروختند۔
سعودی عرب: چیف آف اسٹاف سمیت اعلیٰ فوجی کمانڈر برطرف
سعودی عرب نے رات گئے ایک شاہی حکم نامے کے ذریعے چیف آف اسٹاف سمیت چوٹی کے فوجی کمانڈروں کو برطرف کردیا ہے۔ سعودی شاہ سلمان نے بری اور فضائی افواج کے سربراہوں کو بھی تبدیل کردیا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ملک میں روبہ عمل ہونے والی حالیہ تبدیلیوں کے پیچھے دراصل ولی عہد محمد بن سلمان کا ہاتھ ہے۔ گزشتہ برس شہزادوں، وزرا اور ارب پتی تاجروں سمیت درجنوں سعودی شہریوں کو رٹز کارلٹن ہوٹل میں قید کردیا گیا تھا۔ اس کی وجہ شہزادہ محمد کی جانب سے بدعنوانی کے خلاف چلائی جانے والی مہم بتائی گئی تھی۔
چین کے انتخابات
چینی آئین کے تحت کوئی شخص زیادہ سے زیادہ دو مدت تک ملک کا صدر رہ سکتا ہے۔ یہی پابندی نائب صدر کے لیے بھی ہے۔ یہاں صدر کا انتخاب پانچ سال کے لیے ہوتا ہے۔ اس قاعدے کی رو سے موجودہ صدر زی جن پنگ کی کی دوسری مدتِ صدارت 2023 ءمیں ختم ہورہی ہے۔ تاہم آج چین کی واحد سیاسی جماعت کمیونسٹ پارٹی کے اجلاس میں ایک آئینی ترمیم پیش کی گئی ہے جس کے تحت صدر اور نائب صدر کے لیے دو مدت کی حد ختم کردی جائےگی، چین کے انتخابات میں بیلٹ پیپر پر صرف ایک ہی شخص کا نام ہوتا ہے، چنانچہ اس ترمیم کے بعد صدر زی جب تک چاہیں برسراقتدار رہ سکتے ہیں۔
“ذمہ دار سپر طاقت” کا بوجھ
30 مئی کو اس حکومت کی آئینی مدت ختم ہوجائے گی۔ اس کے بعد نئے انتخابات ہونا ہیں۔ ’’مودی کا یار‘‘ کی تہمت کے ساتھ نئے انتخابات لڑنا کافی مشکل ہوجائے گا۔ترجیح لہٰذا اس حکومت کی صرف یہ ہوگی کہ نیویں نیویں رہ کر ڈنگ ٹپایا جائے۔ جون میں جو نگراں حکومت ہوگی وہ جانے اور FATF۔یہ نگراں حکومت اگر ٹیکنوکریٹ ہوئی اور انتخابات وطن کو سنوارنے کی خاطر لمبے عرصے کو ٹالنے پر تیار تو ہم نہ صرف Grey بلکہ FATF کی Black لسٹ پر چلے جائیں گے۔ ایران اور شمالی کوریا اس لسٹ پر پہلے سے موجود ہیں۔ ان کی قربت میں بیٹھے شاید ہم اپنی قومی حمیت کے حوالے سے زیادہ فخر مند محسوس کریں۔یہ فخر مندی بہت خوشگوار ہوگی اگر چین ہمارے ساتھ کھڑا ہوجائے۔ چین کی مگر اپنی بھی کچھ ترجیحات ہیں۔ وہ خود کو عالمی طورپر ایک ’’ذمہ دار سپرطاقت‘‘ ثابت کرنے کو بے چین ہے
نصرت جاوید ،نوائے واقت،26فروری،2018ء
عالمی جوہری توانائی کمیشن کے ضوابط اور پاکستان
پاکستان نے 21 فروری 2018ءکو عالمی جوہری توانائی کمیشن (IAEC) کے نئے رہنما اصولوں کو قبول کیا اور ان پر عمل درآمد کرنے کی یقین دہانی کرا دی۔ واضح رہے کہ عالمی جوہری توانائی کمیشن دْنیا بھر میں جوہری سرگرمیوں پر نظر رکھنے والا ادارہ ہے، وہ دْنیا کے ایٹمی ممالک سے رابطے میں رہتا ہے اور کہیں کوئی خطرہ یا کسی قسم کاخدشہ محسوس کرتا ہے تو اس کے لئے وہ رہنما اصول پیش کرتا ہے، پاکستان نے اْس کے بنائے ہوئے سارے رہنما اصولوں کو صدقِ دل سے قبول کیا ہوا ہے، اس نے حرارتی شعاعوں کی حفاظت اور تحفظ کے لئے جو اصول بنائے اْس کو جب پاکستان نے قبول کیا تو اس نے باقاعدہ ایک اعلامیے کے ذریعے دنیا بھر کی ایٹمی طاقتوں کو اطلاع دی کہ پاکستان اْس کے نئے وضع کردہ قواعد و ضوابط کو قبول کرنے پر رضامند ہوگیا ہے کہ وہ ایٹمی مواد یا حرارتی شعاعی مواد کے معاملے میں اْن تحفظات کو ملحوظِ خاطر رکھے گا جو عالمی جوہری توانائی کمیشن نے حال ہی میں وضع کیے ہیں۔
نصرت مرزا،جنگ،26فروری2018ء
احد چیمہ اور پنجاب کی بیوروکریسی
مینگل صاحب پاکستان کے دو لخت ہونے کے بعد صرف نو ماہ تک بلوچستان کے وزیر اعلیٰ رہے۔ نو ماہ کے بعد ان کی حکومت برطرف کردی گئی، سپریم کورٹ کے ذریعہ ان کی جماعت نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی بھی لگادی گئی اور کچھ عرصہ کے بعد کراچی میں ان کے بیٹے اسد اللہ مینگل کو گرفتار کرلیا گیا۔
کئی سال تک ان کا بیٹا لاپتہ رہا ہے اور آخر کار ذوالفقار علی بھٹو کی جیل میں لکھی گئی کتاب’’افواہ ا ور حقیقت‘‘ کے ذریعہ پتہ چلا کہ سردار عطاءاللہ مینگل کے بیٹے کو قتل کرکے لاش کسی نامعلوم مقام پر دفنا دی گئی تھی۔ بھٹو وزیر اعظم تھے، انہوں نے ا?رمی چیف جنرل ٹکا خان سے کہا کہ کم از کم ایک باپ کو اس کے بیٹے کی لاش تو دے دو۔ جنرل ٹکا خان نے جواب میں کہا کہ یہ سب جنرل ضیاءالحق کا کیا دھرا ہے کیونکہ وہ فوج کے نئے سربراہ نامزد ہوچکے تھے۔ سردار عطاء اللہ مینگل نے آج تک کسی پاکستانی عدالت سے انصاف نہیں مانگا۔ میں ان کی عیادت کے بعد واپس آرہا تھا تو خبر ملی کہ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے ایک رائٹ ہینڈ مین اور ایل ڈی اے کے سابق سربراہ احد چیمہ کی گرفتاری پر پنجاب کی بیوروکریسی نے قلم چھوڑ ہڑتال کرنے کی کوشش کی لیکن یہ کوشش ناکام ہوگئی۔ میں سوچنے لگا کہ اگر ایسی کوشش بلوچستان، سندھ یا خیبر پختونخوا کے بیوروکریٹ کرتے تو پنجاب کی بیوروکریسی کا کیا ردعمل ہوتا ۔
حامد میر،26فروری2018ء
قبرستان کی قلت اور شہری منصوبہ بندی
ہمارے بڑے شہروں سے لے کر دیہات تک قبرستانوں کے حالات ناگفتہ بہ ہیں ، کراچی جیسے دو کروڑ آبادی کے شہر میں ضرورت کے مطابق قبرستان نہیں ہیں اور سارے پرانے قبرستان پْر ہیں ، کئی قبرستانوں کی زمین پر تجاوزات ہیں ،قبریں کسی منظّم ترتیب کے مطابق نہیں ہیں اور نہ ہی کوئی ایسا نقشہ دستیاب ہوتا ہے کہ کوئی شخص اپنے کسی عزیز کی قبر پر فاتحہ پڑھنے جائے تو اس کو قبر آسانی سے مل جائے۔ جن قبور پر ان کے عزیز وقتاً فوقتاً نہیں آتے ،گورکن اْن میتوں کے اعضاء کو کسی گڑھے میں دفن کر کے اس کی جگہ دوسری میت کو دفن کردیتے ہیں۔ قبرستانوں میں صفائی اور روشنی کا بھی مناسب انتظام نہیں ہوتا، نہ ہی حشرات الارض اور دوسرے جانوروں سے قبروں کے بچائو کا کوئی انتظام ہے،مناسب جگہ پر قبر کے حصول کے لیے بھاری رقم یا رسوخ چاہیے۔بلدیاتی اداروں کو چاہیے کہ قبرستانوں کی تیاری ،صفائی اورحفاظت ونگہداشت کے لیے قائم ادارے کو بااختیار اور فعال بنائیںاوراس میں کرپشن کا خاتمہ کریں۔قبرستانوں کے لیے باقاعدہ قانون سازی کی ضرورت ہے تاکہ کسی بھی نئی ہاوسنگ سوسائٹی کو قبرستان کے لیے جگہ مختص کیے بغیراجازت نہ مل سکے،کیا قبرستانوں کے بارے میں بھی چیف جسٹس آف پاکستان از خود نوٹس لیں گے تو کوئی صورت پیدا ہوگی۔ حکومت کو چاہیے کہ مغربی ممالک کی طرح جدید انداز کے قبرستان بنائیں،قبرستان میں باقاعدہ دفتر ہواور نقشہ آویزاں ہو ، قبروں کے درمیان راستے اور قبروں کے نمبرلکھے ہوںتاکہ لوگ آسانی سے اپنے عزیز کی قبر تک پہنچ سکیں۔کراچی میں سینکڑوں ایکڑ پر مشتمل ایک بڑے اور منظّم قبرستان کی ضرورت ہے ، دیگر بڑے شہروں کا حال بھی یقینا اس سے مختلف نہیں ہوگا ۔
مفتی منیب الرحمن،دنیا،26فروری