تہذیب و ثقافت کی حدود اور اسلام

تہذیب اور ثقافت، ان اصطلاحات کی تعریفات اورکردار واضح نہیں ہیں۔ یہ آپس میں خاصی الجھی ہوئی ہیں۔ اس الجھن نے تہذیبوں اور ثقافتوں کو یکساں ضرر پہنچایا ہے۔ ان کی تعریفات میں ایک ہی بات عموماً دہرا دی گئی ہے کہ انسانی بودوباش اور رسم ورواج کا نظام چھوٹے دائرے میں ثقافت کہلاتا ہے اور بڑے دائرے میں تہذیب بن جاتا ہے۔ بے شمار انسان صدیوں ان دائروں میں بھٹکے۔ قوم پرستی اور نسل پرستی کی خونیں آبیاری ہوئی۔ ثقافت اور تہذیب کے ادغام نے مسلمانوں کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔

ثقافت اور تہذیب کی چند رائج تعریفات، تہذیب کی درست تفہیم کے لیے چند مستند اور قابل قدر حوالے، ’کلچر‘ اصطلاح کا ماخذ، اور ثقافت وتہذیب کی نوعیت کا جائزہ درپیش حالات کا فہم آسان کرسکتا ہے۔ یہ تہذیب فہمی تاریخ کا شعور مستحکم کرسکتی ہے۔ تاریخ کا یہ شعور مستقبل کی معقول پیش بینی کرسکتا ہے۔ یہ پیش بینی عالمگیر انسانی تہذیب کا تعارف ممکن بناسکتی ہے۔

تاریخی اصول پرمرتب اردو لغت کہتی ہے کہ ’ثقافت‘ کسی قوم یا گروہِ انسانی کی تہذیب کے اعلیٰ مظاہر ہیں جو اس کے مذہب، نظام اخلاق، علم و ادب اور فنون میں نظر آتے ہیں۔ آزاد دائرۃ المعارف میں عربی علماء کے حوالے سے ثقافت اکتسابی یا ارادی یا شعوری طرزعمل کا نام ہے جس میں وہ تمام عادات، افعال، خیالات اور رسوم اور اقدار شامل ہیں جن کو ہم ایک منظم معاشرے یا خاندان کے رکن کی حیثیت سے عزیز رکھتے ہیں، یا ان پر عمل کرتے ہیں۔ کیمبرج بین الاقوامی انگریزی کی ڈکشنری کہتی ہے ’کلچر‘ کسی قوم، ملّت، یا گروہ کے کسی خاص دور میں بود و باش کا طریقہ، عمومی عادات، رسوم، روایات اورعقائد ہیں۔ فنون کے دائرے میں ’کلچر‘ موسیقی، ہنر، اور ادبی علوم کہلاتا ہے۔

تاریخی اصول پر مرتب اردو لغت کہتی ہے کہ ’تہذیب‘ طرزِ معاشرت، رہن سہن کے انداز، اور تمدن کوکہتے ہیں۔ مریم ویبسٹر ڈکشنری کے مطابق Civilization اعلیٰ ثقافت اور فنی ترقی ہے۔ اینکارٹا آن لائن انسائیکلوپیڈیا کہتی ہے Civilization تاریخی اور ثقافتی یگانگت سے تشکیل پانے والی ترقی یافتہ حالت کہلاتی ہے۔

مذکورہ تمام تعریفات ہم معنیٰ اور مدغم نظرآتی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ان اصطلاحوں کو ایک دوسرے کا متبادل سمجھنا اور بیان کرنا ہے۔ جبکہ یہ ادغام بڑے فساد اور گمراہی کا سبب بنتا رہا ہے۔

ثقافت اور تہذیب کے مخمصے کی ایک مثال سینئر سیاستدان اور قانون دان بیرسٹر اعتزاز احسن کی کتاب Indus Saga ہے۔ یہ مثال اور اس میں پائے جانے والے سوالوں کی الجھن دیگرمقامی اور عالمی مثالوں میں بھی ملتی ہے۔ اعتزاز احسن انڈس ساگا کے پیش لفظ میں اپنا مدعا چند سوالات کی صورت میں پیش کرتے ہیں: ’’ایک پاکستانی ہونے کا کیا مفہوم ہے؟… کیا یہ پاکستانی عرب ہے یا فارسی؟ یا وسطی ایشیائی؟ اور وہ اگر ان میں سے کچھ نہیں، تو پھرکیا وہ Indus Personکی علیحدہ شناخت کا حامل نہیں؟ کیا سندھی قوم کی کوئی اپنی تاریخ اور اپنی جغرافیائی پہچان نہیں ہے؟ کیا پاکستان محض بھارت کا ٹوٹا ہوا بازو ہے، یا یہ ’انڈس ریجن‘ ہے؟ کیا اس کی اپنی کوئی علاقائی شناخت اور تاریخ ہے؟ خطہ سندھ کے لوگ کس طرح عربوں، فارسیوں، وسطی ایشیائی اور ہندوستانیوں سے مختلف ہیں؟‘‘ اعتزاز احسن یہاں واضح طور پر اسلامی تہذیب اور سندھی ثقافت میں الجھے نظرآتے ہیں۔

یہ خود ناشناسی، یہ تہذیب نا شناسی مسلمان دانشوروں میں وبا کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔ وجہ ظاہر ہے، اسلامی تہذیب کی نوعیت اور اہمیت سے ناواقفیت اور ثقافت کی حدود اورکردار سے لاعلم ہونا ہے۔

کلچر اور سولائزیشن کی تعریفات میں حدود، دائروں، اور کردارکا تعین مغرب کے لیے بھی مسئلہ رہا ہے۔ آنجہانی ہارورڈ پروفیسر سیموئیل ہن ٹنگٹن کی شہرہ آفاق تصنیف Clash of Civilizations وضاحت سے معاملے پر روشنی ڈالتی ہے۔ صفحہ نمبر 42 پر پروفیسر ہن ٹنگٹن تاریخ سے ثابت کرتے ہیں کہ تہذیبوں کی تشکیل میں مذہب کا کردار کلیدی ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ خون، زبان، مذہب، طرزِ زندگی یونانیوں میں مشترک تھے۔ یہ سب انہیں فارسیوں اور غیر یونانیوں سے ممتازکرتے تھے۔ یونانی تہذیب کے عناصر میں مذہب سب سے اہم تھا۔ بڑے پیمانے پر سمجھا جائے تو یہی واضح ہوتا ہے کہ تاریخ کی عظیم تہذیبیں عظیم مذاہب نے تخلیق کیں۔ وہ لوگ جن کی زبان اور نسل مشترک ہو وہ مذہب کے اختلاف پر ایک دوسرے کا کشت و خون کرسکتے ہیں۔ مختلف تہذیبوں میں مختلف ثقافتوں کے لوگ پائے جاتے ہیں۔

یہ بالکل صاف ہے کہ تہذیب اور نسل کا آپس میں کوئی ناگزیر رشتہ نہیں۔ ایک نسل کے لوگ مختلف تہذیبوں میں تقسیم ہوسکتے ہیں۔ خاص طور پر عظیم مذاہب عیسائیت اور اسلام نے تقریباً ہر نسل و رنگ کی معاشرہ سازی کی ہے۔ انسانی گروہوں کے مابین سب سے زیادہ اہمیت عقائد، اقدار، مذہبی اداروں، اور معاشرتی ڈھانچوں کی رہی ہے، نہ کہ زمینی و جغرافیائی حالت اور جلد کی رنگت کی۔ ہن ٹنگٹن نے اس دلیل کے لیے ٹوائن بی، میتھیوز میلکو، اور دیگر معتبر ناموں کا حوالہ دیا ہے۔ انہوں نے میلکو کا یہ جاندار جملہ نقل کیا ہے کہ ’’تہذیب انسانوں کی جامع اجتماعیت کا نام ہے‘‘۔ ہن ٹنگٹن لکھتے ہیں کہ کئی ثقافتیں ایک بڑی ثقافت میں ضم ہوسکتی ہیں، اور یہ ساری ثقافتیں کسی تہذیب کے اندر سما سکتی ہیں۔ مگر کوئی ثقافت کسی تہذیب کی واحد ترجمان یا نمائندہ نہیں بن سکتی۔

اردو زبان میں تہذیب کا مفہوم، اور اسلامی تہذیب کا تعارف نابغۂ روزگار ہستی سید ابوالاعلیٰ مودودی نے عمدہ دلائل کے ساتھ پیش کیا۔ علامہ محمد اقبال، اکبر الٰہ آبادی، حسن عسکری، سلیم احمد، اور دیگر تہذیب شناس دانشوروں اور شاعروں نے اسلام اور مغرب کی تہذیبی کشمکش پر شعورکا بہترین مواد فراہم کیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مسلمانوں میں سے اسلامی تہذیب کا شعور کبھی نہیں مٹ سکا۔ غزہ یا برما میں مظالم پر دنیا بھر میں مسلمان سڑکوں پر آجاتے ہیں۔ یہ تہذیبی شعور اور یگانگت کسی بھی دوسرے انسانی گروہ میں موجود نہیں۔

مولانا مودودیؒ ’’اسلامی تہذیب اور اس کے اصول ومبادی‘‘ کے مقدمے میں لکھتے ہیں: ’’اس سوال کا تصفیہ ہونا ضروری ہے کہ تہذیب کس شے کو کہتے ہیں؟ لوگ سمجھتے ہیں کہ کسی قوم کی تہذیب نام ہے اُس کے علوم وآداب، فنونِ لطیفہ، صنائع بدائع، اطوار معاشرت، اندازِ تمدن اور طرزِ سیاست کا۔ مگر حقیقت میں یہ نفسِ تہذیب نہیں ہیں، تہذیب کے نتائج ومظاہر ہیں۔ تہذیب کی اصل نہیں ہیں، شجرِ تہذیب کے برگ وبار ہیں۔ کسی تہذیب کی قدر و قیمت ان ظاہری صورتوں اور نمائشی ملبوسات کی بنیاد پر متعین نہیں کی جاسکتی۔ ان سب کو چھوڑ کر ہمیں اس کی روح تک پہنچنا چاہیے اور اس کے اساسی اصول کا تجسس کرنا چاہیے۔ اس نقطہ نظر سے سب سے پہلی چیز جس کا کسی تہذیب میں کھوج لگانا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ دنیوی زندگی کے متعلق اس کا تصور کیا ہے؟ وہ اس دنیا میں انسان کی کیا حیثیت قرار دیتی ہے؟ اس کی نگاہ میں دنیا کیا ہے؟ انسان کا اس دنیا سے تعلق کیا ہے؟ اور انسان اس دنیا کو برتے توکیا سمجھ کر برتے؟ یہ تصورِ حیات کا سوال ایسا اہم سوال ہے کہ انسانی زندگی کے تمام اعمال پر اس کا نہایت گہرا اثر ہوتا ہے، اور اس تصور کے بدل جانے سے تہذیب کی نوعیت بنیادی طورپر بدل جاتی ہے۔‘‘

مذکورہ اقتباسات سے دو باتیں بالکل واضح ہوئیں۔ ایک یہ کہ تہذیب فی نفسہٖ انسانی اجتماعیت کی روح ہے۔ تہذیب انسانی اجتماعیت کا وہ فکری اور تخلیقی نظام ہے، جس کا معلم و منتظم مذہب ہے۔ تہذیب رنگ، نسل، زبان، زمین، ملک، قوم، ریاست، قبیلہ، فنونِ لطیفہ، رسم و رواج، اور ہر ظاہری ومادی قدر پر مقدم ہے۔ یہ تہذیب کی روح ہے، جو ظاہری و مادی حالتوں کے لیے راہ متعین کرتی ہے۔ روح تہذیب واحد ہے، اس کے کئی مادی مظاہر ہوسکتے ہیں۔ تہذیب ثقافتوں کوضم کرتی ہے، انہیں وحدانیت و یگانگت فراہم کرتی ہے، اور مرکز عطا کرتی ہے۔

یہاں یہ بتانا برمحل ہوگا کہ ثقافت یا کلچرکا ماخذ لاطینی لفظ Cultura ہے۔ اس کا مطلب growing, cultivation (کاشت، نشوونما) ہے۔ یہ ’زمین کی آبیاری‘ سے متعلق ہے۔ یعنی کسی مخصوص جغرافیہ یا زمین سے وابستہ انسانی بودوباش ہے۔ اس میں زمینی صورت حال سے جُڑی ظاہری ومادی حالت نمایاں ہے، جو فکری و روحانی طور پر کسی بھی تہذیب سے منسلک ہوسکتی ہے۔
اس کی سادہ سی مثال سندھ ہی سے لیتے ہیں۔ ایک ہندو اور ایک مسلمان بہ یک وقت سندھ کی ثقافت سے وابستہ ہوسکتے ہیں، جبکہ دونوں عظیم ہندو اور اسلامی تہذیب کے نمائندے ہیں۔ تاہم تہذیبی تعلیمات کی بنیاد پر دونوں کے ثقافتی مظاہر میں فرق فطری ہے۔ یقینا دونوں کے ثقافتی پہلوؤں پر تہذیبوں کی چھاپ دیکھی جاسکتی ہے۔ اس کے باوجود یہ دونوں سندھی ثقافت سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ سندھی زبان بولتے ہیں۔ اجرک اور سندھی ٹوپی پہنتے ہیں۔ سندھی پکوان کھاتے ہیں۔ علاقائی رسم ورواج اور فنون میں قدرے مشترک ہیں۔ کئی ثقافتی مماثلتیں ان میں پائی جاتی ہیں۔

اب تہذیب کے مظاہر پر آجائیے۔ ویٹی کن سٹی کے عظیم اجتماع میں یورپی ثقافتیں ایک عیسائی تہذیب تلے عقائدی یگانگت کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ بالکل اسی طرح حج کے موقع پر دنیا بھر کی ثقافتیں اسلامی تہذیب کا رنگ اختیار کرلیتی ہیں۔ ہر رنگ و نسل کا انسان سفید احرام میں پناہ لیتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اس ساری بحث کا یہاں مقصد کیا ہے؟ ثقافت اور تہذیب کا فرق اور امتیاز کیوں ضروری ہے؟ انسانی اجتماعیت کی روح اور جسمانی و مادی مظاہر کی وضاحت اہم کیوں ہے؟ اور سب سے بڑھ کر اسلامی تہذیب کے لیے ان سوالوں کی کیا اہمیت ہے؟
اس بحث کا مقصد اس بات پر زور دینا ہے کہ تہذیب اور ثقافت کی حدود اورکردار کا تعین ہونا چاہیے۔ اسلامی تہذیب کو ثقافتوں میں ٹکڑے ٹکڑے کیا جارہا ہے۔ تہذیب کی اہمیت اور کردار رنگ، نسل، زبان، اور علاقائی تعصب کی گمراہیوں میں دھندلا چکا ہے۔ یہ سمجھنا ازحد ضروری ہے کہ بطور عربی، فارسی، کرد، مصری، سندھی، بلوچی، یا بنگالی ہماری کوئی تہذیب، کوئی تاریخ نہیں ہے۔ صرف اسلامی تہذیب ہی واحد عالمی شناخت ہے جو تاریخ سازی میں پیش رفت کرسکتی ہے۔ یہی ماضی سے ثابت ہے، یہی مستقبل کی ضمانت ہے۔

مغرب سے تصادم میں اسلامی تہذیب کا اجتماعی شعور لازم ہے۔ اس کے بغیر تہذیبی کشمکش کی زمینی حقیقت نہیں سمجھی جاسکتی۔
یہ سب نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ سب انسانوں کے لیے لازم ہے۔ کیونکہ اسلامی تہذیب ہی انسانی تہذیب کی روح ہے۔ یہ واحد سعید روح ہے، جو عالم کے تمام مظاہر کو پناہ دے سکتی ہے، راہِ راست پر لاسکتی ہے۔