اردو میں شامل ہونے والے کچھ الفاظ متروک تو نہیں ہوئے البتہ ان کا استعمال کم کم نظر آتا ہے۔ ایسے الفاظ نثر میں تو نہیں لیکن شاعری میں ضرور جگہ پالیتے ہیں۔ مثلاً ایک لفظ ہے ’بَکَس‘ ایک صاحب اسے بکس (Box) بمعنیٰ صندوقچہ پڑھ رہے تھے۔ بَکَس سے بَکسَا ہے یعنی مرجھا جانا۔ ایک خوبصورت شعر ہے ؎
نہ آئے تم گئیں کلیاں بَکس بھی
ہوائیں لے اڑیں پھولوں کا رس بھی
اب یہ لفظ شاعری میں زندہ ہے، نثر میں نظر نہیں آتا۔ لغت کے مطابق بَکسا ہندی کا لفظ ہے اور مطلب ہے: مژمردہ ہونا، مرجھانا، خشک ہونا۔ میر حسن نے یوں استعمال کیا ہے ؎
کلیجہ پکڑ میں تو بس رہ گئی
کلی کی طرح سے بکس رہ گئی
ایسا ہی ایک لفظ ہے ’جَس‘ (ج پر زبر)۔ مطلب اس کا ہے: وصف، ذاتی جوہر، اثر، تاثیر۔ جیسے ’’حکیم صاحب کے ہاتھ میں جَس نہیں‘‘۔ برکت کے معنوں میں مثلاً ’’یہ وہ زمانہ ہے کہ کسی شے میں جَس نہیں‘‘۔ یہ لفظ بھی ایک شعر میں استعمال ہوا ہے، اور شاعر کوئی پرانے دور کا نہیں بلکہ بیسویں صدی کے اواخر کا ہے۔ یہ مرزا عزیز جاوید کا ہے جو 23 فروری 1984ء کو ممبئی میں انتقال کرگئے۔ انہوں نے ’جَس‘ استعمال کیا ہے ؎
تیرے ہاتھ میں کب تھا جَس
باتیں مت کر چپ رہ بس
ان کا تذکرہ اردو قبیلہ ممبئی کے ندیم صدیقی نے اپنی کتاب ’’پرسہ‘‘ میں کیا ہے، جس کا دوسرا ایڈیشن بزم تخلیقِ ادب پاکستان (کراچی) نے شائع کیا ہے۔ پروفیسر غازی علم الدین نے اس کا پُرمغز دیباچہ تحریر کیا ہے۔
مرزا عزیز سے متعلق مضمون ہی میں میر تقی میرؔ کا ایک شعر دیا گیا ہے ؎
اے آہوانِ شوق نہ اینڈو حرم کے بیچ
کھائو کسو کا تیر، کسو کا شکار ہو
اب یہ میر صاحب کا اینڈناکم ہی استعمال میں آتا ہے۔ شاعری میں تو وہ ہی استعمال کرگئے، البتہ یہ لفظ نثر میں ضرور مل جاتا ہے۔ داغؔ نے بھی استعمال کیا ہے ؎
حشر میں اینڈتے ہوئے یارب
کس کے تقصیر وار پھرتے ہیں
نثر میں عموماً یہ پڑھنے میں آتا ہے کہ ’’دیواروں تک دھوپ گئی، صاحبزادے اب تک پڑے اینڈ رہے ہیں‘‘۔ اینڈنا بھی ہندی کا لفظ ہے، مطلب ہے: اکڑنا، غرور کرنا، لیٹے لیٹے انگڑائیاں لینا، سستی کرنا۔
قلق کا شعر ہے ؎
پیارا پیارا وہ بے خبر سونا
اور وہ اینڈ اینڈ کر سونا
اینڈی بینڈی چال بھی ہوتی ہے۔
بَکَس، جَس، اینڈنا جیسے الفاظ کا احیا کرنے میں کچھ حرج نہیں، آخر یہ اردوکے الفاظ ہیں جس میں غیرضروری طور پر انگریزی کے الفاظ کی بھرمار ہے، مگر اردو میں شامل ہوجانے والے کئی الفاظ کو متروک کیا جارہا ہے۔
یونہی ایک خیال آیا ہے کہ پنجابی کا لفظ ’’چس‘‘ کہیں جَس سے تو نہیں بنا۔ پنجابی کی ایک مثل ہے ’’رُل گئے آں پر چَس بڑا آیا‘‘۔ یعنی خوار تو ہوئے لیکن مزا آگیا۔ اردو میں ’’چسکا‘‘ تو عام استعمال ہوتا ہے۔ یہ بھی چَس کا اسم کیفیت ہوسکتا ہے۔ میر تقی میرؔ کا مصرع ہے:
چسکا تھا مے کشی کا لڑکپن سے میرؔ کو
چسکا بھی ہندی سے اردو میں آیا ہے، مطلب سب کو معلوم ہے: چٹورپن، مزہ، چاٹ کے علاوہ عادت، دھت لت وغیرہ۔ تو کیا ’چَس‘ اسی چسکا سے تو نہیں۔ ایک لفظ چَسک بھی ہے۔ میٹھا میٹھا درد۔ داغؔ کا شعر ہے ؎
خارِ غم کی کھٹک نہیں جاتی
دردِ دل کی چَسک نہیں جاتی
منگل کے ایک اخبار میں ایک جملہ ہے ’’حساب بے باک کردیا‘‘۔ ممکن ہے کوئی حساب بے باک بھی ہوتا ہو، یا جس سے حساب لیا جارہا ہے وہ بے باک ہو۔ لیکن یہ لفظ ’بے باق‘ ہے یعنی کُل ادا کردینا، کچھ باقی نہ رہنا۔ باقی عربی کا لفظ ہے یعنی جو بچ رہے، عربی میں اسے ’بقی‘ بھی کہتے ہیں۔ باقی اللہ کا نام بھی ہے جیسے ’’اللہ باقی من کل فانی‘‘۔ اور باک کا مطلب ہے: ہراس، خوف، اندیشہ، ڈر۔ چنانچہ بے باک کا مطلب ہوا: جسے کوئی خوف و اندیشہ نہ ہو۔ علامہ اقبال نے جوابِ شکوہ میں ’’نالۂ بے باک‘‘ کی ترکیب استعمال کی ہے۔ لیکن حساب بے باک نہیں ہوتا،
تاہم ’تریاق‘ کو تریاک بھی کہا جاتا ہے اور علامہ نے بھی تریاق کے معنوں میں تریاک لکھا ہے۔ تریاک فارسی ہے اور اس کا معرب تریاق ہے۔ اردو میں عموماً تریاق ہی کہا جاتا ہے۔
مولانا حسرت موہانی نے اپنی معرکہ آرا کتاب ’نِکات سخن‘ میں ان الفاظ کے لیے ایک باب باندھا ہے جو متروک ہوچکے ہیں یا کردینے چاہییں۔ ان کا ذکر پھر کبھی۔
جُولاں اور جولاں کے حوالے سے محترم شفق ہاشمی نے گرامی نامہ بھیجا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:۔
’فرائیڈے اسپیشل کے تازہ شمارے میں آپ کا کالم نظر نواز ہوا۔ سب سے پہلے تو آپ کی فاضلانہ رائے سے اختلاف کرتے ہوئے میں عرض کروں گا کہ یہ حقیر پرتقصیر زبان و بیان کا طالب علم ضرور ہے، کوئی ’’بڑی علمی شخصیت‘‘ نہیں۔ جَولان اور جَولاں گاہ کے حوالے سے میں خود کچھ نہیں کہوں گا، آپ کے قارئین کے استفادے کے لیے براہِ راست فرہنگِ بزرگ فارسی۔انجلیزی (The Larger Persian- English Dictionary)، مطبوعہ تہران کا حوالہ دے رہا ہوں۔ اس کے صفحہ278 پر جَولان کا مطلب لکھا ہے running across, rambling – جَولاں گاہ کا ترجمہ اس ڈکشنری کی رُو سے race course ہے۔ جُولان، جیم کے پیش کے ساتھ بمعنی بیڑی، زبانِ فارسی میں کوئی لفظ پایا ہی نہیں جاتا، جب کہ اردو میں بھی اس کا قطعاً کوئی وجود نہیں۔ اسی ڈکشنری کے English version میںto in chain putکا فارسی مترادف ’دربند نہادن‘ درج ہے۔ حیرت انگیز طور پر فارسی میں جُولاہ موجود ہے جسے ہم اور آپ اردو میں جولاہا کہتے ہیں۔ رشید حسن خان مرحوم اردو تحقیق و تدوین کی بہت بڑی شخصیت تھے۔ انہوں نے فیض کے مصرعے کے حوالے سے کیا لکھا ہے یہ ان شاء اللہ روزِ محشر ان سے پتا کرلیں گے۔ خود فیض نے ’’پا بہ جَولاں‘‘، جیم پر زبر کے ساتھ استعمال کیا ہے، جب کہ قید و بند کے لیے ’’پابند سلاسل‘ مستند ہے۔
کبر و نخوت کے عارضے سے بچنے کے لیے اہلِ قرطاس و قلم کو ربِّ کائنات کا یہ ارشاد ہمیشہ سامنے رکھنا چاہیے:۔
وفوق کل ذی علمٍ علیم (ہر صاحبِ علم سے اوپر کوئی زیادہ علم والا بھی ہے)۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ اپنی دنیائے علم و فن میں ہم کسی کی مداخلت گوارا نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ اہلِ جسارت اب تک استحصال اور استیصال کے شکنجے سے نہیں نکل سکے ہیں۔ کل ہی کے شمارے میں استحصال (Exploitation) کی جگہ حسبِ معمول استیصال (To uproot)کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ بیچارہ شفق ہاشمی کہاں تک ان فاضلانہ کج ادائیوں کی بیخ کنی کرتا رہے گا۔
والسلام
شفق ہاشمی‘‘
ہم تو شروع ہی سے یہ تسلیم کرتے آرہے ہیں کہ ’’ہر صاحبِ علم سے اوپر کوئی زیادہ علم والا بھی ہے، جب کہ ہم اپنے آپ کو صاحبِ علم گردانتے ہی نہیں۔ جولاں اور جُولاں کی بحث یہیں ختم کرتے ہیں۔