قومی ترجیحات سے بے نیاز، ہمارا نظام تعلیم

ڈاکٹر معین الدین عقیل

ہماری ساری خرابیوں کا ایک بڑا سبب سارے ملک میں ایک نصاب تعلیم کا نہ ہونا
اور دوسرا بڑا سبب قومی زبان کا ذریعۂ تعلیم نہ بننا ہے

اس وقت ایک ایسا موضوع زیرنظر ہے جو ہمارے نظام ِ تعلیم میں قومی ترجیحات اور قومی تقاضوں کے تعین سے متعلق ہے۔ یہ موضوع یا عنوان اس لیے قابل ِ غور ہے کہ اس نے دردمندی کے ایک احساس کے تحت جنم لیا ہے اور اس اعتبار سے بھی اہم ہے کہ کسی طرح وہ خطوط متعین ہوسکیں کہ جن کو پیش نظر رکھ کر ہم اپنے معاشرے اور ملک و قوم کے لیے بامقصد اور نتیجہ خیز تعلیم اور مطالعات کو فروغ دے سکیں اور ملک و قوم ان سے مستفید ہوکر ایک باوقار اور پرامن و خوش حال زندگی گزار سکے۔

اس سے قبل کہ میں اپنی معروضات پیش کروں اس حقیقت کی جانب قارئین کی توجہ مبذول کرانا مناسب سمجھ رہا ہوں جو خود ان سے بھی مخفی نہیں اور ہمیں تسلیم کرلینا چاہیے کہ ہم بحیثیت ایک نوآزاد قوم، ضروری وسائل اورمخلص و باصلاحیت قیادت کی عدم موجودگی میں بھی، ایک جانب اپنے ہی وسائل سے، اور بیرونی رکاٹوں کے باوجود، ایٹمی قوت بھی بنے اور اپنے ہی وسائل سے علمی سطح پر ایسے ایسے عظیم الشان کارنامے بھی انجام دیے کہ عالمی سطح پر بعض شعبوں میں ہماری قوم کے اکابر کاایک نام بھی رہاہے۔ سائنس دانوں، انجینیروں اور ڈاکٹروں میں بھی ایسے لوگ پیدا کیے، جنھوں نے یہاں اپنے ملک میں بھی اور بیرون ملک آباد ہوکر وہاں بھی، اپنا اور اپنے ملک کا نام روشن کیا۔

معاشرتی علوم اور تعلیم و تحقیق میں بھی ایسے اکابر پیدا کیے _ خصوصا ً تاریخ نویسی میں، جنھوں نے اپنی علمی کاوشوں سے عالمی سطح پر بھی وہ داد و تحسین وصول کی کہ ان کی خدمات کی ستائش بھی ہوتی ہے اور بلکہ تاریخ نویسی میں تو ہمارے بعض مصنفین کی تصانیف سے استفادہ کیے بغیر عالمی سطح پر متعلقہ موضوعات میںکوئی تحقیقی مطالعہ مکمل اور معیاری نہیں ہوسکتا۔لیکن دوسری جانب افسوس کہ ان گزشتہ تین چار دہائیوں سے اب ہر طرف زوال ہی زوال کا منظر ہے۔اس کا سلسلہ 1972ء میں تعلیم کے قومی ملکیت میں لیے جانے کے نتیجے میں شروع ہوا،جس کے بعد تمام ہی سرکاری تعلیمی اداروں میں،اور خاص طور پر جامعات میں،حالات انتہائی زوال آمادہ رہے ہیں۔

چوں کہ اعلیٰ تعلیم کے اداروں اور جامعات سے وابستگی کا میراراست تجربہ و مشاہدہ ہے اورجونصف صدی پر مشتمل ہے، اس لیے یہاں میری معروضات اعلیٰ تعلیم اور اعلیٰ تعلیمی اداروں ہی سے متعلق رہیں گی۔

میرا مشاہدہ و تجربہ ہے کہ خصوصا سندھ کے اعلٰی تعلیمی اداروں میں، نااہلی اور فرض ناشناسی عام ہے۔ اس کا ایک بڑا سبب سیاسی مداخلت ہے جس کے نتیجے میں جامعات میںاقربا پروری، سفارشوں اور سیاسی دھڑے بندیوں نے سارے نظام ہی کو تل پٹ کردیا اورانتظامیہ اوراساتذہ کی ایک بڑی تعداد کو نااہل اور فرض ناشناس بنادیا اور ان میں ایسے بدکردار اور بدعنوان افراد کو بھی شامل کرنا شروع کیا جویونیورسٹیوں میں قدم رکھنے کے لائق بھی نہ تھے۔ ایسے اساتذہ کی جائے پناہ، بالخصوص سندھ میں، سیاست اور سیاسی جماعتیںاور اساتذہ انجمنیں ہیں، جن سے منسلک رہ کر وہ نہ صرف مراعات حاصل کرتے اور ترقی پاتے ہیں بل کہ انتظامی عہدوں پر بھی فائز ہوتے اور اپنے ہی جیسے نالائق افراد کے لیے جگہ بناتے رہتے ہیں۔ اگرچہ یہ صورت ِ حال بالعموم سارے ملک کی جامعات میں عام ہوچکی ہے لیکن سندھ ان میں سب سے آگے ہے۔

ایسا کیوں نہ ہو کہ جواساتذہ خود پاکستان ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی)کے مقررہ معیار کے مطابق دیانت داری سے اسسٹنٹ پروفیسر سے زیادہ کے اہل نہ ہوں مگریہاں کی یونیورسٹیوں میں پروفیسر ہی نہیں وائس چانسلر بھی بن جائیں! افسوس تو یہ ہے کہ نااہل اساتذہ اپنے تقرر اور ترقیوں کے لیے خوشامدوں اور سفارشوں کے ذریعے سارے فائدے حاصل کرلیتے ہیں اوریونیورسٹیوں ہی کو نہیں یونیورسٹیوں کے نگران ادارے ایچ ای سی تک کو دھوکا دے دیتے ہیں۔ان کی یونیورسٹی کی بدعنوان انتظامیہ اور ان کی انجمن اساتذہ اس ضمن میں ان کی پوری پوری مدد کرتے ہیں۔ ان کے علمی و تدریسی کوائف کوایچ ای سی اکثر خود اپنی ہی وضع کردہ شرائط کے مطابق جانچنے کا کوئی اہتمام نہیں کرتی اور لاتعلق رہتی ہے کہ اب وہاں بھی آوے کا آوا بگڑاہوا ہے کہ تحقیق کے فروغ اور معیار کی بہتری کی ذمے دار اس کی مجلس یا مجلسوں میں ایسے افراد بھی منسلک ہیں جن کاتحقیق اورتحقیق کے معیار سے دور کا خود واسطہ اور تجربہ نہیں ہوتا۔یہ صورت حال اس نگراں و سرپرست ادارے کی جیسی تیسی توجہ کے باوجود ہے جسے ایچ ای سی کی صورت میں ہم وفاقی سطح پر دیکھتے اور کف ِ افسوس ملتے ہیں لیکن اگر یہی ایچ ای سی اٹھارویں ترمیم کے تحت وفاقی سے نکل کر صوبائی اختیارات کے تحت آجائے تو پھر صورت حال مزید کیاہوگی اور ہم تعلیم کے معاملے میں مزید کتنا نیچے گریں گے اور مزید تباہی ہمارا کس حد تک مقدر بنے گی؟ یہ گمان یا نہیں، ایسا ہوچکا ہے۔

اعلیٰ تعلیم کے نظام میں ایسے زوال کا رونا، جو بڑی حد تک مذکورہ نوعیت کے اساتذہ اور ان کے سرپرستوں کی وجہ سے ہے، یہ ہر سمت میں عام ہے،جس کا علاج بظاہر کوئی کرتانظر بھی نہیں آرہا۔حالاں کہ ہر صوبہ اپنے دائرۂ اختیار میں بظاہر اور صریحا ً دروغ گوئی کے ساتھ تعلیم کی بہتری اور ترقی کا دعوے دار ہے لیکن حقیقت اس کے قطعی برعکس اور ہر طرف بے حسی اورلاتعلقی عام ہے۔زوال کی ایسی صورت میں جس میں آئے دن اضافہ ہی ہورہاہے، اگر یہ سوال پیش ِ نظر ہو کہ اس میں بہتری کیوں کر لائی جائے اور مطالعات اورتحقیق کے معیار کوکس طرح بلند ترکیا جائے؟ تو میرا جواب یہ ہوگا کہ دریں حالات یہ ممکن نہیں تا آں کہ ایچ ای سی اور خود یونیورسٹیوں میں کوئی بہت اہل، با شعور اور مصلحتوں سے بے نیاز و بے لوث سربراہ نہ آجائے، جو علمی و تعلیمی ذوق و شوق سے پوری طرح بہرہ مند بھی ہو، اُس وقت تک سرکاری جامعات کی مجموعی تعلیمی حالت اور ان کا معیار بلند نہیں ہوسکتااور اُس وقت تک ملک و معاشرے کو لائق و باصلاحیت افراد بھی مناسب تعداد میں نہ مل سکیں گے۔

تعلیمی اداروں کے معیار میں بہتری کا ایک اظہار تحقیقی منصوبوں اورمطالعاتی سرگرمیوں سے ہوتاہے۔ اس مد میں ایسی سرگرمیوں اور منصوبوں کی بابت یہ دیکھنے کا ہمارے ہاں کوئی ایسا نظام موجود یا قابل عمل نہیں کہ جوتعلیمی نصابات کو جانچ سکے کہ اس وقت جو نصابات مروج ہیں وہ فرسودہ اورازکار رفتہ اور گھسے پٹے ہیں یاقوم اور ملک و معاشرے کے لیے مفیدہیں؟اور ان میں ملک و قوم کو درپیش تاریخی، تہذیبی اور معاشرتی تقاضوں کا لحاظ رکھا گیاہے یا نہیں؟

اس ضمن میں مختصراً میرا معروضہ یہ ہے کہ چوں کہ ابتدائی سطح پر ہمارا نظام تعلیم اورسرکاری تعلیمی اداروں کا نظم و ضبط اورتعلیمی معیاربری طرح زوال پذیر ہے اور ان کانصاب فرسودہ اور قومی و عصری تقاضوں سے قطعی ہم آہنگ نہیں، اس لیے اِس نظام کے تحت پروان چڑھنے والے طلبہ میں شاذ ہی کچھ فیصد ہوتے ہیں جوعملی زندگی میں آکر اعلیٰ سطحی معیاری مطالعات و تحقیق کے تقاضے پورے کرسکتے ہیں۔پھر اندریں حالات اس زوال پذیر نظام میںجو اساتذہ ان طلبہ کے مطالعات اور تحقیقات میں ان کی نگرانی اور ان کی سرپرستی و رہنمائی کرتے ہیں ان میں بھی شاذ ہی ایسے اساتذہ ہوتے ہیں جوخود معیار ی تحقیق و مطالعات کی عمدہ مثالیں پیش کرتے رہے ہیں؟جب کہ ایسے نگران اور سرپرست اساتذہ کے معیارات و درجات کو متعین کرنے یا جانچنے کا ہمارے ملک کی جامعات اور اداروں میں کوئی دیانتدارانہ اور غیرجانبدارانہ نظام بھی موجود نہیں۔

ایک ایچ ای سی ہے لیکن اب وہ خود ایک دیانتدارانہ معیار کے تحت جانچنے کی اہل نظر نہیں آتی، جو اپنے ہی بنائے اور نافذ کردہ معیارات پر عمل پیرا نہیں اور اسے اب کوئی پروا نہیں کہ اس کے وضع کردہ اور نافذ کردہ اصولوں پر دیانتدارانہ عمل ہوتابھی ہے یا نہیں! جامعات خود اپنا بھی جانچنے پرکھنے کا کوئی نظام وضع کرسکتی ہیں لیکن آج بالعموم اساتذہ اپنی جامعہ اور اس کے نافذ کردہ نظام کے تابع نہیں رہتے اور سیاست اور اساتذہ انجمنیںان کی پشت پناہی میں فعال رہتیں اور ان کو تحفظ فراہم کرتی رہتی ہیں اس لیے بدعنوانیاں دور نہیں ہوتیں۔ پھر مزید ستم یہ ہوا ہے کہ ایچ ای سی یا اعلیٰ تعلیمی اداروں کے نگراں ادارے کو اب صوبائی حیثیت دے دی گئی ہے جس سے زوال کی رفتار کم ہونے کے بجائے مزید بڑھے گی۔

یہ سب زوال کی صورتیں ہیں کہ جس میں تعلیمی اداروں میں نظم و نسق کی عدم موجودگی، انتظامیہ کی نااہلی اور بدعنوانی اور پھر ملک و قوم کے لیے بے سود اور بے نتیجہ نصابات ِ تعلیم نمایاں ہیں، اس پرایک مزید ستم اساتذہ کی ایک نااہل اور بددیانت اکثریت ہے، جو سفارشوں اور سیاسی سرپرستی کے طفیل اعلیٰ مناصب تک پہنچ کر اپنے ہی جیسے افراد کو اپنے زیر انتظام اداروں میں یکجا کرکے تعلیمی و انتظامی ماحول کومزید تباہی و بربادی سے ہمکنار کررہی ہے۔ یہ آج کے سرکاری اداروں کے عام مناظر ہیں، تو اس نظام میں ہماری کونسی اور کیسی نسلیں تیار ہورہی ہیں اور تیارہوں گی؟

یہ وہ نسلیں ہیں جوعلمی ذوق و شوق سے بے بہرہ، گونگی اور بہری بھی ہیں،اور جن کی اکثریت کسی ایک زبان پر بھی قادر نہیں۔ نہ یہ انگریزی پر عبور حاصل کرسکیں نہ یہ اپنی قومی زبان میںکامل ادائیگی کے قابل ہیں۔ کیوں کہ یہ اس نظام تعلیم کی پروردہ ہیں جو1972ء میں تعلیم کے قومیائے جانے کے بعد اچھے سرکاری اسکولوں کی کمی کے سبب گلی کوچوں اور گھروں میں قائم ہونے والے نام نہاد انگریزی میڈیم اسکولوں کی پیداوار ہیں اور ان کے طفیل یہ نظام شدید ترین احساس کمتری کے شکار اردو میڈیم اور انگریزی میڈیم جیسے دو طبقات کو پیدا کررہا ہے، ایک وہ جوقطعی غیر ضروری طور پر انگریزی میں گفتگو کرناشروع کرتا ہے لیکن جلد ہکلانے لگتا اور اردو کا سہارا لینے لگتا ہے۔ اور دوسرا وہ جو اردو پر بھی عبور نہیں رکھتا اور یکسر سطحی اور کمزور انگریزی الفاظ کا سہارا لے کر اپنی کمزوریوں کو چھپانے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔ان میں سے ایک طبقہ خود کو اعلیٰ و ارفع نسل باور کرانے کی ناکام کوشش کرتا ہے اورسیاسی سرپرستی یا کوٹا سسٹم سے ناجائز فیض پاکر سول مناصب حاصل کرکے دوسرے مقابل طبقے کو حقیر اور کم تر گردانتا اور اس کے ساتھ ویسا ہی رویہ اختیار کرتا ہے۔

ان دوطبقات کا پیدا کرنا آج کے ہمارے نظام تعلیم کا سب سے بڑا ظلم ہے،جو انگریزی ذریعہ تعلیم اور اردو ذریعہ تعلیم کی صورت میں ہمارے سامنے ہے اور جو حاکم اور محکوم کی حیثیت میں زندگی بھرنام نہاد احساس برتری لیکن شدیدترین احساس کمتری کا شکار رہتے ہیں۔
میں سمجھتاہوں کہ یہ ہمارے تعلیمی نظام ہی کی خرابی رہی ہے کہ ہمارے ملک و معاشرے یا قوم کو دو وجوہات نے شدید طور پر منفی صورت میں متاثر کیاہے کہ نہ ہم ایک قوم بن سکے نہ اپنے اپنے جائز مقام و منصب یا حیثیت و مرتبے کو حاصل کرسکے۔یعنی ایک وجہ قطعی غیر ضروری طور پرابتدائی سطح پر تعلیمی زبان کے طور پر انگریزی زبان کا نفاذ اور اس پر اصرارہے۔اس کا سب سے بڑا نقصان قوم کو یہ پہنچا کہ آج ہماری نسلوں کی ایک بڑی تعداد کسی ایک زبان پر بھی قادر نہیں اور ہم ان ستر سالوں میں اپنی تعلیم یافتہ آبادی میں ایک فیصد بھی تعداد ایسی پیدا نہ کرسکے جو عالمی معیار کے مطابق تخلیق و تحقیق میں اپنا کردار ادا کرسکتی۔

تعلیمی نظام کی اس خرابی کے سبب دوسرا سب سے بڑا نقصان ہمیں قومی سطح پر یہ پہنچا کہ ہم اپنے طلبہ کو وہ معیاری نصاب نہ پڑھا سکے جو ہمیں ایک متحد اور روشن خیال قوم بناسکتا۔ایک زمانہ تھا کہ ہمارے ملک میں ایسے دردمنددانشور موجود تھے جواپنے حددرجہ خلوص اور اپنی لیاقت و فضیلت کے تحت ذریعہ تعلیم میں اردو کے استعمال اور نصابِ تعلیم کے طور پر ساری قوم کے لیے ایک نصاب کو ضروری قرار دیتے رہے اور اس بارے میں جوجو تعلیمی کمیشن کبھی تشکیل پائے اور انھوں نے جو سفارشات پیش کیں ان میں بالعموم اردو کو ہر سطح پر ذریعہ تعلیم بنانے اور ملک بھر کے لیے ایک نصاب رائج کرنے پر زور دیاتھا، لیکن افسوس کہ1972ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے تعلیم کو بھی قومی ملکیت میں لے کر، دیگر تمام صنعتی و زرعی شعبوں کی طرح، تعلیم اور تعلیمی اداروں کو بھی تباہی اور بربادی کے اُس کنارے پرپہنچادیاجہاں سے واپسی اب مشکل ہی نظر آتی ہے۔

میری ساری معروضات کا لبِ لباب یہ ہے کہ ہمارا نظام تعلیم، ہر سطح پر، بالخصوص سرکاری سطح پراور علی الخصوص سندھ میں، تباہی اور بربادی کے دہانے پر پہنچاہوا ہے،اور ارباب اختیار میںکہیں کسی مقام پر اس کی بہتری اور ترقی کے لیے مخلصانہ اور مؤثر انداز سے کوئی کچھ سوچتااور کرتانظر نہیں آرہا۔ہر طرف اپنی ذمے داریوں کی ادائیگی سے بے نیازی اور لاتعلقی نمایاں ہے۔

ان ستر سالوں میں تین نسلیں گزرگئیں لیکن وہ حصول علم کے اپنے بنیادی حقوق اور قومی و ملی تقاضوں کے مطابق تعلیم و تربیت حاصل کرنے سے محروم ہی رہیں۔اگر ہم اس المیے سے بچنا چاہیں تو ہمیں فوری طور پر دوکام کرنے چاہئیں۔ ایک تو سارے ملک میں ابتدائی جماعتوںکا ایک نصاب ِ تعلیم رائج ہواور دوسرے، ذریعۂ تعلیم کے طور پرہر سطح پر اردو کو نافذ کیاجائے اور یہ زندہ مثال سامنے رکھی جائے کہ ساری ترقی یافتہ قوموں نے صرف اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرکے ہی ترقی کی ہے۔

گویاجب تک تعلیم کو صوبائی نظام کے بجائے وفاقی نظام کے تحت نہیں لایا جاتااور سارے ملک میں یکساں نصاب ِ تعلیم رائج نہیں کیا جاتا اور بطور ذریعۂ تعلیم اردو کو نافذ نہیں کیاجاتا، اس وقت تک ہماری نسلیں ایک قومی سوچ اور روشن خیالی سے بہرہ مند نہ ہوسکیں گی اوراپنی زبان کے توسط سے معیاری تخلیق و تحقیق کا فریضہ انجام نہ دے سکیں گی اورہم یوں پستی ہی میں رہیں گے۔ایسی بھیانک صورت ِ حال میں اب ہماری قوم کے تمام دردمند اور مخلص و باشعور افراداور سیاسی و قومی جماعتوں اور اداروںکو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہم چاہے کتنے ہی دھرنے دیتے رہیں، ریلیاں نکالتے اور جلسے جلوس کا اہتمام کرتے رہیں،جب تک ہمارے ملک کے تعلیمی نظام میں بہتری نہیں لائی جاتی،سارے ملک کا ایک نظام اور ایک نصاب ِ تعلیم نہیں ہوتا اور تعلیم سے کوٹا سسٹم ختم نہیں کیا جاتا، ہمارے ملک میں قومی، سیاسی اور معاشی و انتظامی حالات بہتر نہیں ہوسکتے۔

یقیناً یہ سب شعبے سیاسی نظام کے تابع رہتے ہیں لیکن جب تک تعلیم اور تعلیمی نظام میں بہتری نہیں آئے گی اور جب تک ہمارے عوامی نمائندے تعلیم یافتہ بلکہ ایم اے نہ ہوں گے، ہماری قومی و اجتماعی زندگی میں بہتری نہ آئے گی اور ملک کانظام ِ عدل بھی سنور نہ سکے گا۔