دانتوں کے امراض میں اضافہ
آغا خان یونیورسٹی شعبہ دندان سازی کے سربراہ ڈاکٹر فرحان رضا خان نے کہا ہے کہ بچوں میں غیر متوازن غذا سے دانتوں کے امراض بڑھتے ہیں۔
ڈاکٹر فرحان رضا خان نے گزشتہ دنوں ڈاکٹر پنجوانی سینٹر برائے مالیکیولر میڈیسن اور ڈرگ ریسرچ(پی سی ایم ڈی)، بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی علوم (آئی سی سی بی ایس)، جامعہ کراچی کے سیمینار روم میں 41 ویں عوامی آگاہی پروگرام کے تحت ’’عام امراضِ دانت اور ان سے بچاؤ‘‘ کے موضوع پر خطاب کے دوران کہا کہ پاکستان میں دانتوں کے امراض عام ہیں، پاکستانی بچے غیر متوازن غذا کے استعمال سے زیادہ تر دانتوں کے امراض میں مبتلا ہورہے ہیں، بنیادی صحت کے اصول اپناکر دانتوں کی خرابی یا کیڑا لگنے سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے، جب کہ شہریوں کو دانتوں کی حفاظتی تدابیر کے حوالے سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر فرحان رضا خان نے کہا کہ پاکستان کے شہری علاقوں میں اچھے دندان ساز موجود ہیں لیکن دیہی علاقوں میں صورت حال تکلیف دہ ہے۔ کچھ اہم امراض میں دانتوں کی عدم موجودگی، مسوڑوں سے خون آنا، عقل داڑھ کا مشکل سے نکلنا، سوجن، دانتوں میں سوراخ کا ہونا شامل ہیں۔ انھوں نے کہا کہ روٹ کنال ٹریٹمنٹ کی کامیابی کے95 فیصد امکانات ہوتے ہیں، جبکہ ناکامی کی صورت میں اس عمل کو دوبارہ کرانے کی صورت میں بھی50 سے 66 فیصد کامیابی کے امکانات ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر فرحان خان نے کہا کہ دانتوں کے امراض کے پھیلاؤ میں کولا مشروبات اور کاربوہائیڈریٹس والی غذا کے استعمال کا زیادہ دخل ہے۔ دانتوں کو کسی بھی فلورائیڈ ملے ٹوتھ پیسٹ سے دو سے تین منٹ برش کرنے سے ان کی حفاظت ممکن ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس مرض کا شکار بچے، معاشی بدحالی کا شکار طبقہ اور غیر تعلیم یافتہ افراد ہیں۔
اسپین ۔ پاکستان تجارت میں اضافہ
اسپین اور پاکستان کی درآمدات اور برآمدات کی شرح میں خاصا بڑھاوا ہوا ہے جو خوش آئند ہے۔ جولائی تا نومبر2017ء دونوں ممالک کے درمیان تجارت کی شرح 485 ملین ڈالر، جبکہ 2016ء کے پورے سال میں یہ شرح 379 ملین ڈالر تھی، تجارت کی یہ شرح پانچ ماہ میں 106ملین ڈالر اور 28 فیصد اضافے کے ساتھ سامنے آئی ہے۔ جنوری تا نومبر 2017ء تجارت 965 ملین ڈالر تھی جبکہ یہی تجارت دسمبر میں 1050ملین ڈالر تک چلی جائے گی، اور یہ تاریخ میں پہلی بار ہونے جارہا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت ایک بلین ڈالر سے زیادہ ہوجائے گی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ساری دنیا کے ساتھ ہونے والی پاکستانی تجارت کا یہ 20واں حصہ ہے جسے صرف اسپین نے حاصل کیا ہے۔ پاکستان سے اسپین کے لیے سویٹرز، ٹیکسٹائل، گاپرمنٹس، جینز، ہوم ٹیکسٹائل، فٹ ویئر، فارما سوٹیکل، اسٹیپل فائبرزاور اسپورٹس کا سامان بھیجا جاتا ہے، جبکہ اسپین سے پاکستان کے لیے مشینری، بوائلرز، مکینکل، کنسٹرکشن مشینری، سرامکس، دفاعی آلات کے ساتھ ساتھ اورگینک کیمیکل، ادویات اور جانوروں کی نگہداشت کی اشیاء بھیجی جاتی ہیں۔ اسپین کی بہت سی کمپنیوں نے پاکستان میں جاکر سرمایہ کاری کرنا شروع کردی ہے۔ سب سے بڑی ہسپانوی کمپنی ’’اِندرا‘‘ جو انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سول ایوی ایشن کے ساتھ ریڈار سسٹم پر کام کررہی ہے اُس نے پاکستان ایئرفورس کے ساتھ تھنڈر جے ایف 17کے پائلٹس کی ٹریننگ کا معاہدہ بھی کیا ہے۔ ہسپانوی کمپنی ’’گیمسا‘‘ نے ونڈ انرجی پر سرمایہ کاری کی ہے۔ اسی طرح دوسری ہسپانوی بڑی کمپنیوں میں کارتے فیل، اینڈی ٹیکس، ’’زارا‘‘ مینگو نے اپنی دوسری پروڈکٹس کو پاکستان میں بیچنا شروع کردیا ہے، یقینا ہسپانوی کمپنیوں کی پاکستان میں سرمایہ کاری پاکستان کے مستقبل کو تابناک بنانے کا سبب بنے گی۔ اسپین سے پاکستان کے لیے ماہانہ 40 سے 60 بزنس ویزے ایشو کیے جاتے ہیں جس کی بدولت ہسپانوی بزنس مین پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے میں آسانی محسوس کررہے ہیں۔
(شفقت علی رضا۔ جنگ21فروری2018ء)
افغان صوبہ فاریاب پر طالبان کا قبضہ
افغان صوبہ فاریاب کے بڑے حصے پر ایک عرصے سے طالبان قابض ہیں۔ ترکمانستان سے متصل اس صوبے میں ازبکوں کی اکثریت ہے۔ فاریاب کے مشرق میں تیل و گیس سے مالامال جوزجان عبدالرشید دوستم کا مضبوط گڑھ ہے، مغرب میں بادغیس، جبکہ جنوب میں غور صوبے پر بھی طالبان کی گرفت خاصی مضبوط ہے۔ فاریاب کے جنوبی اضلاع پشتون کوٹ، قیصر، بلچراغ اور کوہستان میں طالبان کی انتظامیہ کام کررہی ہے ۔ افغان سیکورٹی حکام کے مطابق پشتون کوٹ طالبان کا فوجی اڈہ ہے جہاں سے وہ شمال مشرق میں صوبائی دارالحکومت میمنہ کو نشانہ بنارہے تھے۔ گزشتہ چند دنوں سے پشتون کوٹ پر شدید بمباری کی جارہی ہے جس کے لیے بمبار طیاروں کے ساتھ گن شپ ہیلی کاپٹر بھی استعمال ہورہے ہیں۔ ٹارگٹ کلنگ کے لیے ڈرون کی پروازیں بھی جاری ہیں۔ پشتون کوٹ فارسی بانوں کا علاقہ ہے اور یہاں آباد پشتونوں کا تناسب 5 فیصد سے بھی کم ہے۔ نیٹو اور افغان جرنیلوں کا خیال تھا کہ بمباری سے طالبان کی ’کمر‘ توڑی جاچکی ہے، چنانچہ اب ان کے مکمل خاتمے کے لیے برّی فوج بھیجنے کی ضرورت ہے، لیکن فوجی دستے بھیجنے سے پہلے انتہائی تربیت یافتہ چھاپہ مار یا کمانڈو دستہ پشتون کوٹ میں اتارا جائے۔اس حکمت عملی کے تحت دو دن پہلے میمنہ سے 40 تربیت یافتہ کمانڈو دو فوجی ہیلی کاپٹروں میں پشتون کوٹ کے شمال مشرق میں بلچراغ ضلع کے قریب اتارے گئے۔ لیکن طالبان کو شاید پہلے ہی معلوم ہوگیا، اورجیسے ہی ہیلی کاپٹر کمانڈوز کو اتارکر واپس ہوئے، طالبان نے ان کا گھیرائو کرلیا اور اب یہ پورے کا پورا دستہ طالبان کے نرغے میں ہے اور محاصرہ بھی ایسا سخت کہ چھاپہ ماروں کو پینے کا پانی بھی میسر نہیں۔ حسبِ معمول کابل انتظامیہ معاملے کی نزاکت کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور وزارتِ دفاع کے ترجمان دولت وزیری کا اصرار ہے کہ ’طالبان راہِ فرار اختیار کررہے ہیں‘۔ لیکن چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے فاریاب کی صورت حال پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وفاق سے مزید کمک بھیجنے کا مطالبہ کیا ہے۔
(بشکریہ مسعود ابدالی)
میونخ سیکورٹی کانفرنس
جرمنی کے شہر میونخ میں جاری سیکورٹی کانفرنس اختتام پذیر ہوگئی جس میں دنیا بھرکے پانچ سو سے زائد سیاستدانوں اور تجزیہ کاروں نے شرکت کی۔ پاکستان کی نمائندگی آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ نے کی۔ MSC ایک غیر سرکاری غیر منافع بخش ادارہ ہے جس کا مقصد بات چیت کے ذریعے تنازعات کا حل تلا ش کرنا ہے، لیکن یہ ادارہ عملاً بحث و مباحثہ اور دھمکی کا پلیٹ فارم بن چکا ہے۔ اس بار اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور ایرانی وزیرخارجہ جاوید ظریف کے درمیان نوک جھونک سے لوگ خوب مستفید ہوئے۔ پہلے اسرائیلی وزیراعظم آئے جنھوں نے بہت فخر سے ایرانی ڈرون کا ایک ٹکڑا فضا میں لہراتے ہوئے پکارا ’’ظریف صاحب اس ٹکڑے کو پہچانتے ہیں ناں!!‘‘ اسرائیلیوں نے گزشتہ ہفتے ایرانی ڈرون کو مبینہ طور پر اُس وقت مار گرایا تھا جب یہ شام اور اسرائیل کی سرحد پر پرواز کررہا تھا۔ اسرائیلی وزیراعظم نے جناب ظریف کو مخاطب کرکے بہت فخر سے کہا ’’یہ آپ کی ٹیکنالوجی ہے جسے ہم نے خاک چٹادی‘‘۔ 15 منٹ کی تقریر میں اسرائیلی وزیراعظم ایران پر برستے رہے۔ اس کے بعد جب جاوید ظریف اسٹیج پر آئے تو انھوں نے اسرائیلی وزیراعظم کو ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ نیتن یاہو کے ہاتھ میں ڈرون کے ٹکڑے پر طنز کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’’اسرائیلی کارٹون سرکس متاثر کن تھا‘‘۔ پھر اسرائیلی ایف 16 کی تباہی کا ذکر کرتے ہوئے جسے شامی میزائل نے اسی دن گرایا تھا جب ایرانی ڈرون تباہ ہوا تھا، انھوں نے کہا ’’آپ کی ٹیکنالوجی تو ریزہ ریزہ ہوکر آپ ہی کے قدموں میں بکھر گئی تھی، اور میرے پاس دنیا کو دکھانے کے لیے ملبے کی ایک مشت خاک بھی نہیں‘‘ جس پر ہال قہقہوں سے گونج اٹھا۔ اسرائیلی وزیراعظم کی دھمکیوں کا ذکر کرتے ہوئے جاوید ظریف نے بہت نرمی سے کہا کہ مجھے اسرائیلی وزیراعظم سے ہمدردی ہے، بیچارے کی ناقابلِ تسخیر ٹیکنالوجی (ایف 16) بچوں کا کاغذی جہاز ثابت ہوئی۔ سامعین میں سب سے جان دار قہقہہ امریکہ کے سابق وزیرخارجہ جان کیری کا تھا جو ایران جوہری معاہدے کے مصنفین میں شمار ہوتے ہیں۔ نیتن یاہو اور ان کے دوست صدر ٹرمپ اس معاہدے کو منسوخ کرنا چاہتے ہیں۔
کتاب کی اہمیت
گلوبلائزیشن تحریک کی اہمیت اور حقیقت اپنی جگہ مسلّم ہے، لیکن کتاب آج بھی آمادۂ ارتقا ہے۔ کتاب کی اہمیت کل بھی تھی آج بھی ہے اور کل بھی رہے گی۔ الیکٹرانک میڈیا تو آج کی پیداوار ہے لیکن عقل کی مدد سے انسان نے اُس دور میں بھی بہت سی معلومات حاصل کرلی تھیں جب وہ پتھر کے زمانے میں رہا کرتا تھا، اُس وقت اس کے پاس ایساکوئی ذریعہ نہ تھا کہ وہ اپنی معلومات، فکر اور جیسا بھی تھا علوم و فنون کو محفوظ رکھ سکے، اور دوسرے تک منتقل کرسکے جس کا وہ بے حد خواہش مند تھا، کہ انسان اپنی خوشیوں اور غموں میں دوسرے انسانوں کو شریک کرکے طمانیت محسوس کرتا ہے۔ چنانچہ انسان نے لکھنے کی ابتدا کی، اس سے قبل تک ابلاغ کا عمل زبانی، آوازوں اور اشاروں کی مدد سے ہوتا تھا۔ تحریر کی ایجاد سے پہلے انسان کو ہر بات یاد رکھنی پڑتی تھی۔ علم سینہ بہ سینہ اگلی نسلوں کو پہنچتا تھا، اور بہت سا حصہ ضائع ہوجاتا تھا۔ تحریرسے لفظ اور علم کی عمر میں اضافہ ہوا۔
(اسد مفتی۔ جنگ،21فروری2018ء)
امریکی وار آن ٹیرر۔ عملی مقاصد کچھ اور
عالمی طاقتوں کے مفادات کے تقاضوں نے خطے میں ایک نئی دوڑ کو جنم دے رکھا ہے کہ (1) افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد 8,500 سے بڑھ کر اب 14,000 ہوچکی ہے اور ابھی مزید 1000مسلح امریکی فوجی بھیجے جائیں گے۔ 15000 جدید ترین ہتھیاروں سے مسلح امریکی فوجی عملی اعتبار سے ایک بڑی مؤثر فوجی طاقت کے حامل ہیں۔ بقول صدرٹرمپ یہ امریکی فوجی اب نئے جنگی رولز کے تحت افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہ بھی ایک عملی تلخ حقیقت ہے اور عالمی سیاست کے دہرے معیار کا کمال ہے کہ جس طرح ماضی میں افغانستان میں ایک لاکھ سے زائد مسلح امریکی فوج کی موجودگی اور ایک ارب ڈالر ماہانہ اخراجات اور افغان حکومت و فوج کے مکمل تعاون کے باوجود امریکہ افغانستان میں دہشت گردی کا خاتمہ نہ کرسکا اور اب پاکستان کو مورد الزام ٹھیرا کر اس کو مطالبات اور دھمکیوں سے نوازا جارہا ہے، اسی طرح آئندہ بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اخلاقی مؤقف کو بیان کرتے ہوئے عملاً خطے میں چین اور روس جیسے عالمی حریفوں اور امریکیوں کی کشمکش کا اکھاڑہ جمانے کا عمل شروع ہے۔ اصولی مؤقف دہشت گردی کے خلاف جنگ، لیکن عملاً مقاصد کچھ اور ہیں۔
(عظیم اے میاں۔جنگ،21فروری2018ء)
خلافتِ عثمانیہ…ایک سو سالہ معاہدہ 1923ء
یورپ اور تمام غیر مسلم قوتوں نے خلافتِ عثمانیہ کے آخری سلطان خلیفہ سلطان محمد وحید الدین کو شکستِ فاش دے کر قید کرلیا اور بالجبر اس سے 1923ء میں ایک سو سالہ معاہدہ کیا جس کے تحت سلطان کو تمام سلطنت میں پھیلی املاک سے بے دخل کرکے قبضہ کرلیا اور ترکی کا اقتدار چھین لیا۔ انہوں نے سلطان کی جگہ ایک سوشل نظریات کے حامل شخص کمال اتاترک کو ترکی کا حکمران بنادیا، جس نے تمام ترکی میں اسلامی اقدار اور مذہبی رسوم و رواج اور اعمال پر پابندی لگا دی، عورتوں کو بے حجاب کردیا۔ آج اس معاہدے کی خبر مسلم عوام کو تو کیا مسلم حکمرانوں تک کو شاید ہی ہو۔ کلیسا اس لیے بے چین اور متفکر ہے کہ اس کے ہاتھ سے مسلم امت کا اہم مرکز اور قوت نکلنے جا رہی ہے۔ طیب اردوان کو خلافتِ عثمانیہ کا جدید نمائندہ سمجھا جارہا ہے، اس لیے ان کی جان کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔
آج جبکہ اس معاہدے کی تکمیل میں صرف پانچ سال باقی رہ گئے ہیں، یعنی 2023ء میں اس سو سالہ معاہدے کی مدت پوری ہورہی ہے۔ کلیسا نے اس معاہدے کی وجہ سے نہ صرف ترکی کا اقتدار چھینا اور سلطنتِ عثمانیہ کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا بلکہ وہ تمام ریاستیں جو عثمانی اقتدار کے زیر سایہ تھیں انہیں اپنے قبضے میں لے کر بتدریج مجبوراً آزاد کیا جو تقریباً 23 ریاستیں تھیں۔ برطانیہ جو کلیسا کا سب سے اہم اور بڑا مرکز ہے، عثمانی سلطنت کا انتظام اس کے قبضے میں تھا۔ اس نے بڑے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہی مسلم علاقے فلسطین کو دولخت کرکے اسرائیل کے ناسور کو جنم دیا، اور اب تقریباً پچاس برسوں سے مسلمانوں کا شیرازہ بکھیرنے میں اپنی تمام توانائیاں صرف کررہا ہے۔ اسی لیے تمام غیر مسلم قوتوں کی کوشش ہے کہ کسی بھی طرح مسلمانوں کو متحد نہ ہونے دیا جائے۔ وہ اپنی ناپاک سازشوں کے ذریعے مسلم ممالک میں دہشت گردی کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔
(مشتاق احمد قریشی، جنگ، 20 فروری،2018ء)