ابلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام!۔
اقبال نے خود تصریح فرمائی ہے کہ یہ شعر شیش محل بھوپال میں لکھے گئے۔ اس نظم میں ابلیس کے سیاسی فرزندوں سے بظاہر اہلِ یورپ مراد ہیں جو مختلف حیلوں بہانوں سے ہندوستان اور اسلامی ملکوں میں فتنوں کی آگ بھڑکا رہے تھے۔
لا کر برہمنوں کو سیاست کے پیچ میں
زناریوں کو دیر کہن سے نکال دو!
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روحِ محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو!
فکرِ عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو!
افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج
ملاّ کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو
اہلِ حرم سے ان کی روایات چھین لو
آہو کو مرغزارِ ختن سے نکال دو
اقبال کے نفس سے ہے لالے کی آگ تیز
ایسے غزل سرا کو چمن سے نکال دو!
مرغزار: چراگاہ، سبزہ زار۔ ختن: وسط ایشیا کا ایک علاقہ جہاں کے مشک والے ہرن مشہور ہیں۔
1۔ برہمنوں کو سیاست کے پیچ میں الجھا کر ان سے یہ کام لیا جا سکتا ہے کہ تمام ہندو اپنے پرانے دھرم سے الگ ہوجائیں۔
2۔ مسلمان اگرچہ دنیوی مال و اسباب سے بے بہرہ ہے، فاقے کاٹ رہا ہے اور موت سے نہیں ڈرتا۔ مذہب کا بدستور پابند ہے۔ اسے مذہب سے بیگانہ بنانے کی صورت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عشق اس کے دل سے نکال دو، جسے وہ اپنے جسم کے لیے روح کے برابر سمجھ رہا ہے۔
3۔ عربوں کو یورپی خیالات سکھائے جا سکتے ہیں۔ ان کی زبانوں پر وہی باتیں جاری ہونی چاہئیں جو یورپ والے کہتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ حجاز اور یمن میں اسلام کی روح باقی نہ رہے گی۔
4۔ افغانوں میں دینی غیرت بڑے زوروں پرہے۔ اس غیرت کو ختم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ملاّئوں کو افغانستان کے پہاڑوں اور وادیوں سے باہر نکال دو۔ نہ ملاّ رہیں گے، نہ افغانوں کو مذہبی تعلیم دیں گے، نہ ان میں غیرت موجود رہے گی۔
5۔ کعبے والوں سے ان کی خاص روایات چھین لو۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ مذہبی روح سے اسی طرح خالی ہوجائیں گے جس طرح ہرنوں کے نکل جانے سے ختن کے سبزہ زار خالی کیے جا سکتے ہیں۔
6۔ اقبال شعروں کے ذریعے سے جو تلقین کررہا ہے، اس سے مسلمانوں کے دل میں اسلام کی آگ بھڑک رہی ہے۔ ایسے گانے والے کو باغ سے نکال دینا چاہیے۔