اس کرپشن کہانی کا تعلق ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان میں ہونے والی مالی بدعنوانیوں سے ہے جس کا بنیادی کام ادویہ کی قیمتوں کا تعین کرکے وفاقی وزارتِ قومی صحت سروسز سے منظوری حاصل کرنا ہے۔
ریگولیٹری اتھارٹی ملک میں ادویہ کی قیمتوں کو کنٹرول میں رکھ کر مریضوں کی جان و مال کو تحفظ فراہم کرنے کے عظیم انسانی فریضے سے وابستہ ہے، لیکن اپنی ذمے داریوں سے بھرپور رو گردانی کی مرتکب ہورہی ہے۔
دواؤں کے معیار کو جانچنے، قواعد و ضوابط کی تیاری اور ان پر عمل درآمد کرانے کی ذمے داری اسی اتھارٹی پر عائد ہوتی ہے، لیکن بدقسمتی سے ڈراپ میں بھی ہمارے دیگر سرکاری اداروں کی طرح کرپشن کا ناسور سرایت کرگیا ہے۔ اس محکمے میں کرپشن کا بازار وزارتِ قومی صحت کی ناک کے نیچے گرم ہے۔ کہا تو یہ جاتا ہے کہ کرپشن کے اس ہولناک کھیل میں وزارت کے کرتا دھرتا پوری طرح ملوث ہیں جس کا چھوٹا سا ناقابلِ تردید ثبوت اس کرپشن کہانی سے مل جائے گا۔
ادارے کو دستیاب دستاویز سے پتا چلتا ہے کہ کینسر کے مرض میں کیموتھراپی کے لیے استعمال ہونے والا ڈوکسی ٹیکسل انجکشن اور ٹیمو سائیڈ نامی کیپسول ہمارے پڑوسی ملک انڈیا میں چند سو روپے میں دستیاب ہے جسے انڈیا بالترتیب 7 ہزار اور 3 سے 5 ہزار میں برآمد کرتا ہے، لیکن ہماری وزارتِ قومی صحت اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان کی منظوری سے اپنے ہی ہم وطن پاکستانیوں کو ساڑھے 36ہزار اور 31 ہزار روپے میں فروخت کیے جارہے ہیں۔
قومی وزارت اور ڈراپ کے اعلیٰ عہدے داران دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ دواؤں کو 5 سے 10گنا قیمتوں پر حکومت کی باقاعدہ اجازت سے فروخت کرنا سانحہ نہیں تو کیا ہے؟ انکشاف کے عنوان سے اپنی ایکسکلوسیو اسٹوری میں ڈراپ میں ہونے والی ضمن میں وزارتِ صحت اور ڈراپ کی جانب سے ہمیں موصول ہونے والی وضاحت آئندہ شمارے میں شاملِ اشاعت کی جاسکتی ہے۔
آئیے دیکھیں اس ادارے میں اندرونِ خانہ کیا گل کھلائے جارہے ہیں۔کرپشن کو کہانی کے پیرائے میں پیش کیا ہے، پڑھیے اور ہمارے اپنے کینسر کے نادار مریضوں کے کرب کو محسوس کیجیے۔ اس ضمن میں وزارتِ صحت اور ڈراپ کی جانب سے ہمیں موصول ہونے والی وضاحت آئندہ شمارے میں شاملِ اشاعت کی جاسکتی ہے۔ آئیے دیکھیں اس ادارے میں اندرونِ خانہ کیا گل کھلائے جارہے ہیں۔
یہ لاشِ بے کفن اُس خستہ جان کینسر کے مریض کی ہے جسے مرض کے آخری اسٹیج پر کیمو تھراپی کے لیے ڈوکسی ٹیکسل نامی سات انجکشنوں کا کورس مکمل کرنا تھا۔ اس کے ایک انجکشن کی درآمدی لاگت 7 ہزار روپے تھی جس کی قیمتِ فروخت زیادہ سے زیادہ 10 ہزار روپے ہونی چاہیے تھی۔ اس طرح 70 ہزار روپے میں مریض کی کیموتھراپی کا کورس مکمل ہوجانا تھا۔ دوسری جانب ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے بدعنوان افسران اور اے جے ایم فارما لمیٹڈ کے بدنیت مالکان مالِ حرام کے دسترخوان پر ہم نوالہ و ہم پیالہ بیٹھے تھے۔ ڈرآپ، پرائسنگ کمیٹی کے ارکان کا اجلاس ہورہا تھا جس میں ارکان مالِ حرام میں سے اپنے لیے بڑا حصہ نکال کھانے کے لیے بے تاب تھے۔
کمیٹی میں شامل نسبتاً ایک نئے افسر نے اجلاس کے ارکان کو بریف کیا کہ کیمو تھراپی کے ڈوکسی ٹیکسل نامی 120 ایم جی پاور کے ایک انجکشن کی درآمدی لاگت سات ہزار روپے ہے جو درآمدی کمپنی اے جے ایم فارما کی انوائس سے بھی ثابت ہے، یہ انجکشن 3 لاکھ کی تعداد میں انڈین سپلا فارما لمیٹڈ سے درآمد کرکے اتھارٹی سے رجسٹر کرائے گئے ہیں، کینسر کی کیمو تھراپی کے کام آنے والے اس اہم ترین انجکشن کی زیادہ سے زیادہ قیمت 10 ہزار روپے ہونی چاہیے ورنہ کینسر کے بہت سے نادار مریض بے بسی کی موت مارے جائیں گے۔
ایک اور رکن کمیٹی جو بہت سینئر افسر یعنی پرانے کھلاڑی تھے، اپنے جونیئر افسر پر برس پڑے، ان کا کہنا تھا کہ جس بات کا پتا نہ ہو جونیئر کو اس پر بھاشن نہیں دینا چاہیے۔ اس سینئر ترین رکن کمیٹی نے تجویز کے نام پر حکم سنایا کہ مارکیٹ کی مانگ دیکھتے ہوئے ہر میڈیسن کی قیمتِ فروخت درآمدی لاگت سے 5 تا 10 گنا زیادہ مقرر کی جانی چاہیے تبھی تمام اسٹیک ہولڈرز کے ہاتھ کچھ آئے گا، جس پر جونیئر افسر کے سوا کمیٹی کے تمام ارکان نے سینئر رکن کی “معاملہ فہمی” پر کھل کر داد دی۔ بالآخر چائے کی چسکیوں میں سات ہزار کے ڈوکسی ٹیکسل انجکشن کی قیمتِ فروخت ساڑھے 36 ہزار روپے مقرر کردی گئی۔ اس مریض کُشں اقدام کی فی الفور منظوری بھی دے دی گئی۔ اب مریض کو کورس مکمل کرنے کے لیے 70 ہزار کی نہیں بلکہ پورے 2 لاکھ 55 ہزار 5 سو روپے کی ضرورت تھی، لیکن اُس کے پاس تو پہلے ہی زہر کھانے کو بھی پھوٹی کوڑی نہ بچی تھی کہ زہر کھا کر زندگی کے عذاب سے جان چھڑا لیتا۔
اربوں روپے کے اس میگا اسکینڈل پر پڑا پردہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے27 اکتوبر 2010ء کو جاری کردہ ہولناک آرڈر سے چاک ہوا تھا۔ مریضوں سے جینے کا بچا کھچا حق چھیننے کا یہ سرکاری فرمان دو سال کے لیے جاری کیا گیا تھا، لیکن آٹھ سال سے یہ انجکشن 36 ہزار 5 سو روپے کی قیمت پر ہی فروخت کیا جارہا ہے جس سے نہ جانے کتنے ہی شکستہ حال کینسر ک مریض تاحال لقمہ اجل بن چکے ہیں، جن کا خونِ ناحق ان تمام اداروں کے سر جائے گا جو انسانی جان بچانے کے ذمے دار ہونے کے باوجود ذاتی مفاد کے لیے موت کے سوداگر بنے ہوئے ہیں۔
قانونِ قدرت کے مطابق کسی نہ کسی کو تو اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانی تھی، یہاں ڈرآپ ہی کے ایک نیک نام وفاقی ڈرگ انسپکٹر ڈپٹی ڈرگز کنٹرولر پی ایچ ڈی ڈاکٹر عبید علی نے اپنے ادارے میں ہونے والی مریض کُش کرپشن کے خلاف پاکستان کے ایک ذمے دار شہری کے ناتے آواز بلند کرتے ہوئے پرائسنگ کمیٹی کے دواؤں کی قیمتوں میں دس دس گنا ناجائز اضافے کے اقدامات کے خلاف آواز اٹھائی، جس پر ڈاکٹر صاحب کو چند روز میں فارغ کیے جانے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔
ڈرگ انسپکٹر ڈاکٹر عبید تین سال سے وزارتِ قومی صحت کے کرپٹ اعلیٰ افسران کے نشانے پر ہیں۔ آج کی اس کرپشن کہانی میں ہم نے ڈاکڑ عبید کے دستخط سے جاری ایک خط کا حوالہ دیا ہے جس میں اے جے مرزا فارما کمپنی کے سی ای او سے وضاحت طلب کی گئی ہے (جس کا عکس شائع کیا جارہا ہے) کہ ان کی کمپنی نے پہلے 2010ء میں انڈین فارما کمپنی سپلا لمیٹڈ سے سات ہزار روپے فی انجکشن کے حساب سے ڈوکسی ٹیکسل انجکشن درآمد کیا تھا جس کی ڈرآپ سے قیمتِ فروخت دو سال کے لیے ساڑھے 36 ہزار روپے منظور کرائی گئی تھی، اس کو آج تک جوں کا توں برقرار رکھا گیا، بلکہ 2012ء میں کمپنی مالکان نے یہ انجکش صرف 15سو روپے میں بھی سپلا لمیٹڈ (انڈیا) ہی سے امپورٹ کیے تھے۔ لیکن اس کی قیمت میں کوئی کمی نہیں کرائی گئی۔ یہ انجکشن آج بھی 36 ہزار 5 سو روپے کا ہی فروخت کیا جارہا ہے۔ ایے جے ایم فارما پرائیویٹ لمیٹڈ کی کینسر کے مارے مجبور مریضوں کی رگِ جاں سے جان نکالنے کا سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوتا۔
فرائیڈے اسپیشل کو حاصل ایک اور دستاویز کے مطابق اسی وفاقی ڈرگ انسپکٹر ڈاکٹر عبید علی نے ہی 13 نومبر 2017 ء کو بھی فارما کمپنی میسرز اے جے ایم فارما پرائیویٹ کے سی او ای کو خط لکھا تھا کہ آپ نے کینسر کے علاج میں استعمال ہونے والے ٹیمو سائڈ نامی 5 کیپسول کے پیک کی قیمتِ فروخت ڈراپ سے31 ہزار روپے منظور کرائی ہے، کمپنی نے ڈوکسی ٹیکسل انجکشن کے ساتھ ہی انڈین فارما کمپنی سپلا لمیٹڈ سے ساڑھے 12لاکھ کیپسول درآمد کیے تھے۔ 5 کیپسول کے پیک کی درامدی لاگت1 ہزار روپے تک تھی لیکن آپ کی کمپنی نے ایک پیک کی قیمت 31 ہزار روپے مقرر کرائی، یہ کس طرح ممکن ہوا؟ خط میں ڈرگ انسپکٹر ڈاکٹر عبید علی نے متنبہ کیا تھا کہ سات روز میں جاری کردہ نوٹس کا اطمینان بخش جواب موصول نہ ہونے کی صورت میں اے جے مرزا فارما لمیٹڈ کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ لیکن ذرائع کے مطابق اے جے ایم فارما نے اس اظہارِ وجوہ نوٹس کا تاحال جواب دیا ہے، نہ فارما کمپنی کے خلاف ڈراپ کے اعلیٰ حکام نے تا حال کوئی کارروئی کی ہے۔
قارئین کرام ہم نے یہاں ڈرگز ریگولیٹری اتھارٹی میں ہونے والی جس کرپشن کو طشت ازبام کیا اس کے ثبوت میں وزارتِ صحت کا جاری کردہ دواؤں کی رجسٹریشن کے حوالے سے ایک خط شائع کیا جارہا ہے جس میں ایک ڈوکسی ٹیکسل انجکشن کی قیمت36 ہزار 500 روپے اور ٹیمو سائیڈ نامی 5 کیپسول کے ایک پیک کی قیمت 31 ہزار روپے مقرر کی گئی تھی۔ ڈرگز انسپکٹر ڈاکٹر عبید علی کے دو خطوط کا عکس شائع کیا جارہا ہےجن میں انجکشن کی درآمدی لاگت 7 ہزار اور کیپسول کی لاگت 3 سے 5 ہزار روپے ظاہر ہے۔