خدا کی ہستی پر دلیل

اکبر الٰہ آبادی
الٰہ آباد میں ایک ایٹ ہوم میں خان بہادر سید اکبر حسین اکبرؔ بھی شریک ہوئے۔ وہاں طرح طرح کے انگریزی لباس پہنے ہوئے ہندوستانی جمع تھے۔ ایک کالے صاحب بھی تھے۔ ان کو انگریزی لباس جچتا نہ تھا۔ ان پر اکبر الٰہ آبادی پھبتی کستے ہیں
ہر چند کہ کوٹ بھی ہے پتلون بھی ہے
بنگلہ بھی ہے پاٹ بھی صابون بھی ہے
لیکن میں پوچھتا ہوں تجھ سے ہندی!
یورپ کا تری رگوں میں کچھ خون بھی ہے

1237ء میں شیراز میں پیدا ہوئے۔ طوسی کے شاگرد تھے۔ منطق، فلسفہ، طب، اخلاق و سیاست پر پندرہ کتب لکھیں۔ 1310ء میں انتقال ہوا۔
٭ ہم غرور کے جام سے مست ہیں اور اس کا نام ہم نے ہوشیاری رکھ لیا ہے۔
٭ رفتگانِ طریقت کو دیکھ کہ آدھے جَو سے بھی قبائے اطلس و دیبا کو نہیں خریدتے، ان کو اس سے ہزار بے زاری ہے۔
٭ توکل کے آستانہ پر تو پہنچا جاسکتا ہے لیکن آخرت کی سروری (سرداری) کے آسمان پر عروج کرنا بڑا مشکل کام ہے۔
٭ کچھ نہ کچھ عیب سب میں ہوتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ عقل مند اپنے عیب خود محسوس کرلیتا ہے، دنیا نہیں محسوس کرتی ہے۔ بے وقوف اپنے عیب خود نہیں محسوس کرتا، دنیا محسوس کرتی ہے۔
٭ جو مہربانی کرنے والے کو کمینہ سمجھتا ہے اس سے زیادہ کمینہ کوئی دوسرا نہیں۔
٭ زمانہ کتابوں سے بہتر معلم ہے۔
٭ جو بات کسی کو کچھ دینے میں ہے کسی سے کچھ لینے میں نہیں۔
٭ خدا کی نافرمانی کا نتیجہ انجامِ کار بہت خوفناک ہے۔
خدا کی ہستی پر دلیل
کسی زندیق نے جعفر محمد صادق رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ ’’دنیا کے بنانے والے کی ہستی پر کون سی دلیل ہے؟‘‘
جعفر نے پوچھا ’’کبھی کشتی پر بیٹھنے کا اتفاق ہوا ہے؟‘‘
زندیق بولا ’’ہاں‘‘۔
جعفر نے سوال کیا ’’دریائی طوفان سے پالا پڑا ہے؟‘‘
زندیق نے جواب دیا ’’ہاں، ایک مرتبہ میں کشتی پر سوار تھا کہ طوفان آیا اور اس زور سے آیاکہ کشتی پارہ پارہ ہوگئی اور میں ایک تختے پر بیٹھا رہ گیا، لیکن تھوڑی ہی دیر بعد طوفان کا ایک جھونکا ایسا آیاکہ میں تختے سے جدا ہوگیا اور غوطے کھاتا ہوا ساحل پر جا پڑا۔‘‘
جعفر نے کہا ’’جس وقت تُو کشتی میں بیٹھا تھا، اُس وقت تجھے کشتی پر اعتماد تھا۔ پھر جس وقت کشتی ٹوٹ گئی اور تُو ایک تختے پر بیٹھا رہ گیا اُس وقت تجھے تختے پر اعتماد تھا۔ اب یہ بتا کہ جب تختہ بھی تجھ سے چھوٹ گیا تب تجھے کس پر اعتماد تھا؟‘‘
زندیق خاموش رہا۔ جعفر نے کہا ’’اُس وقت تیرا سہارا صرف خدا کی ذات تھی اور تجھے اسی کے فضل و رحمت پر اعتماد تھا۔‘‘
یہ سن کر وہ زندیق مسلمان ہوگیا۔
(بحوالہ:جوامع الحکایات و لوامع الروایات، جلد اول۔ مترجمہ: اختر شیرانی۔ انجمن ترقی اردو ہند، دہلی 1943ء، پہلا ایڈیشن)

ذہین افراد کی دو کمزوریاں
حافظ محمد موسیٰ بھٹو
ذہین اور باصلاحیت افراد کی دو کمزوریاں ایسی ہیں، جو انہیں معاشرے کے لیے مفید و کارآمد بنانے کی راہ میں سخت رکاوٹ ہیں۔ ایک اعتراض کی نفسیات، دوسری ضد کی بیماری۔ ان دونوں کمزوریوں کا آخری نتیجہ حق بات قبول کرنے سے اعراض، خود اعتمادی کا بحران اور احساسِ کمتری یا احساسِ برتری کا شکار ہوجانے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔
یہ دونوں بیماریاں اوّل تو نفس کی پیداوار ہیں، لیکن جدیدیت کی فکری لہروں نے جدید علمی طبقات کی ان بیماریوں میں اضافہ کیا ہے، جس کی وجہ سے دوستوں، عزیزوں اور دفتری و کاروباری و جماعتی ساتھیوں کے درمیان افتراق و انتشار کی حالت پیدا ہوگئی ہے، اور باصلاحیت جدید طبقوں سے وابستہ شخصیتوں میں تیزی سے ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہے۔
(مضمون: مادیت کی دلدل اور بچائو کی تدابیر۔ ماہنامہ بیداری، فروری 2018ء

ایک کام
مولانا رومیؒ کی خدمت میں ایک شخص نے عرض کیا کہ میں یہاں ایک چیز بھول گیا ہوں۔ مولانا رومیؒ نے فرمایا: دنیا میں صرف ایک چیز ایسی ہے جسے فراموش نہیں کرنا چاہیے، اگر تم دنیا کے تمام کاموں کو فراموش کردو اور اس ایک کام کو نہ بھولو تو کوئی مضائقہ نہیں، لیکن اگر تم تمام کام فراموش نہ کرو اور انہیں یاد کرکے انجام دو اور اس ایک کام کو بھول جائو تو سب کچھ بے کار ہے، تم نے کچھ نہ کیا۔ مثال کے طور پر بادشاہ نے ایک معین کام کے لیے تمہیں گائوں بھیجا۔ تم نے وہاں سیکڑوں کام کیے اور وہی کام انجام نہ دیا جس کے لیے تمہیں بھیجا گیا تھا تو تم نے کچھ نہ کیا۔ چنانچہ انسان کو خدا تعالیٰ نے اِس دنیا میں ایک کام کے لیے بھیجا ہے اور وہی اس زندگی کا مقصد ہے۔ جب انسان نے وہی انجام نہ دیا تو فی الحقیقت اس نے کچھ بھی نہ کیا۔
[رومی کا پیام عشق۔ پروفیسر لطیف اللہ]
لذت کا معیار
خوش خوراکی اور خوش لباسی اگرچہ ممنوع نہیں ہے لیکن اصحاب ِ علم کے علمی انہماک کے منافی ضرور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں اصل اہمیت درس و تدریس، تبلیغ و دعوت، مطالعۂ کتب، تصنیف و تالیف اور اسی قسم کی دوسری علمی مصروفیات کی ہوتی ہے۔ اس میں ان کو جو لذت ملتی ہے، وہ اُس سے کہیں زیادہ ہوتی ہے جو بعض لوگوں کو اچھا لباس پہن کر اور اچھا کھانا کھا کر یا اور دنیوی تکلفات سے آراستہ ہوکر ملتی ہے۔
[ریاض الصالحین]